اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہي انداز ہے

آج دنيا بھر ميں اگر ديکھا جاۓ تو ايک بار پھر اسلامي ممالک کي نوجوان نسل ميں اسلام سے گہري وابستگي پيدا ہوتي نظر آ رہي ہے – ايک بار پھر سے اسلام کے عروج کي باتيں منظر عام پر آ رہي ہيں – ايسا لگ رہا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کي سربلندي کے ليۓ سوچنا شروع کر ديا ہے – پوري دنيا ميں اسلامي بيداري کو ديکھ کر اسلام دشمن عناصر خصوصا يہود و ہنود نے يہ فيصلہ کيا ہے کہ مسلمان قوم کي قوت و طاقت کا اصل سر چشمہ اس کے نوجوان کا جذبہ ايمان اور پختہ ديني افکار ، شفاف کردار ا

آج دنيا بھر ميں اگر ديکھا جاۓ تو ايک بار پھر اسلامي ممالک کي نوجوان نسل ميں اسلام سے گہري وابستگي پيدا ہوتي نظر آ رہي ہے – ايک بار پھر سے اسلام کے عروج کي باتيں منظر عام پر آ رہي ہيں –  ايسا لگ رہا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کي سربلندي کے ليۓ سوچنا شروع کر ديا ہے – پوري دنيا ميں اسلامي بيداري کو ديکھ کر اسلام دشمن عناصر خصوصا  يہود و ہنود نے يہ فيصلہ کيا ہے کہ مسلمان قوم کي قوت و طاقت کا اصل سر چشمہ اس کے نوجوان کا جذبہ ايمان اور پختہ ديني افکار ، شفاف کردار اور باشرف اخلاق ہے اور يہي چيزيں اسلام دشمن عناصر کے ليے خطرے کا باعث ہيں- لہٰذا انہوں نے عالمي سطح پر اپني سازشوں کو منظم انداز ميں مزيد تيز کر ديا ہے تاکہ مسلمان قوم کي نوجوان نسل کو فحاشي ، عرياني ، موسيقي ، کھيل کود ، اور سير و تفريح ميں مگن رکھيں تاکہ يہ اپني عظمت ، قوت اور قائدانہ صلاحيتوں سے نا آشنا رہيں اور ان کي تہذيب و ثقافت کي غلامي کو ہي اپني عظمت سمجھيں تاکہ وہ (يہود و ہنود) اپنا وجود اس دنيا ميں باقي رکھ سکيں –

عزيز دوستو! ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہميں اپنے افکار کو اسلامي عقائد اپنے رويے اور سلوک کو اسلامي اخلاق اور اپنے روزمرہ کے امور کو اسلامي شريعت کے عظيم اور الٰہي سانچے ميں ڈھال کر اپني انفرادي اور اجتماعي زندگي گزارني پڑے گي- تاکہ ہم دنيا اور آخرت ميں مادي اور روحاني دونوں اعتبار سے کامياب و کامران اور سعادت مند زندگي گزار سکيں- البتہ علم و حکمت کي اصلي وارث مسلمان قوم ہي ہے لہٰذا علم و حکمت جہاں سے بھي ملے حاصل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے – جس طرح حکيم الامت علامہ اقبال نے اعليٰ تعليم تو مغرب ميں ہي حاصل کي ليکن وہ ان کي تہذيب کے غلام نہيں بنے بلکہ اس کھوکھلي تہذيب پر زبردست تنقيد کي – علامہ اقبال  کو يہ حسرت رہي کہ علم و حکمت ميں مسلمان قوم نے مغرب کو اپنے علمي خزانے تو پيش کيے ليکن خود اس عظيم خزانے سے استفادہ نہيں کيا ۔

 

 

مگر وہ علم کے موتي کتابيں اپنے آباءکي

جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارہ

 

پس تمام مسلمان جوانوں کا يہ فرض ہے کہ وہ دو چيزوں کا بھر پور خيال رکھيں –

1- ہر مقام پر اسلامي تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ايک باکردار اور با شعور مسلمان بنيں-

2- زندگي کے جس ميدان ميں کام کرنا چاہتے ہيں اس ميں سب سے آگے نکليں- کيونکہ قيادت کے سب سے زيادہ حقدار مسلمان ہي ہيں-

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہي انداز ہے

مشرق و مغرب ميں تيرے دور کا آغاز ہے

تبصرے
Loading...