آپنی آرائش دین كی نظر میں

آج كل بھت كم ایسے لوگ ملیں گے جو گھر سے نكلتے وقت ایك نظر آئینہ پر نہ كرتے ھوں لباس كا مرتب ھونا ظاہری وضع و قطع كا عام مجمع میں حاضر ھونے وقت ٹھیك ٹھاك كرنا ایك عادی كام اور ھمہ گیر عمل بن گیا ھے اور اس مسئلہ میں بچے بوڑھے ۔مرد عورت، مالدار اور تہی دست كے درمیان كوئی فرق نھیں پایا جاتا سب كے سب دوسروں كے دیدار و ملاقات كے وقت اپنی آرائش كا خیال ركھتے ھیں۔ اور یہ طے ھے كہ یہ عادت بڑی اچھی اور پسندیدہ ھے اور ھمارے معصوم پیشواؤں نے بھی اس كی بڑی تاكید كی ھے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاھے:
(ان الله یحب الجمال والتجمیل ویكره البؤس والتباؤس)1: “اللہ تعالیٰ زبیائی اور آراستہ كرنے كو پسند كرتا ھے اور پژمردگی اور اپنے آپ كو غبار آلود اور پژمردہ دكھلانے كو ناپسند كرتا ھے”۔
اسی طرح جناب رسول خدا(ص) فرماتے ھیں:
(ان الله تعالیٰ یحب من عبده اذا خرج الی اخوانه ان یتهیأ لهم ویتجمّل) 2
“اللہ تعالیٰ كو یہ پسند ھے كہ جب اس كا بندہ اپنے دینی بھائءیوں كے پاس جائے تو خود كو آمادہ كرے اور اپنی آرائش كرے”۔
شاید كچھ لوگوں كا یہ گمان ھے كہ جب اجنبی لوگوں كے سامنے جائیں تو اپنے آپ كو آراستہ كریں اپنے دوستوں اور آشنا لوگوں كے دیدار كے وقت اپنا پن اور دوستانہ ھی خود كی آراستگی سے بے نیاز كر دیتا ھے اور اس وقت اپنی آرائش ضروری نھیں ھے؟ جب كہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
(لیتزین احدكم لاخیه المسلم اذا اتاہ كما یتزین للغریب الذی یحب ان یراه فی احسن الهیة) 3 “جس طرح تم پسند كرتے ھو كہ اجنبی لوگ تمھیں بہترین شكل وصورت میں دكھیں اور ان كے لئے اپنے آپ كو آراستہ كرتے ھو اسی طرح جب تم اپنے مسلمان بھائی كے پاس جاؤ تو خود كو آراستہ كر كے جاؤ”۔
اس مسئلہ پر دقیق نظر اور غور وفكر كرنے كے لئے ہم چند امور كا تذكرہ كررھے ھیں جو براہ راست انسان كی ظاہری 4 آرائش میں دخیل ھیں۔

1۔ عمومی پاكیزگی پاكیزگی،

انسان كی ذاتی اور سماجی سلامتی میں بے حد موثر ھونے كے ساتھ ساتھ دیكھنے والوں كی دلچسپی اور دل خوشی كا باعث ھے كلام معصومین(ع) میں ایمان كا جزو شمار ھونے والے امور و صفات كی تعداد زیادہ نھیں ھے؛
(النظافة من الایمان) 5 “پاكیزگی وصفائی ایمان كا جزو ھے”۔
دوسری جگہ امام علی رضا(ع) فرماتے ھیں:
(من اخلاق الانبیاء التنظیف) 6 “پاكیزہ و صاف رہنا، انبیاء كے اخلاق میں شامل ھے”۔
ایك حدیث نبوی میں ایك گندے شخص كے بارے میں اس طرح آیا ھے:
(ان الله تعالیٰ یبغض الوسخ والشعث) 7 “اللہ تعالیٰ گندے اور گرد و غبار آلود شخص سے نفرت كرتا ھے”۔
بعض روایات میں خاص مقامات پر صاف و پاكیزہ رہنے كی طرف اشارہ كیا گیا ھے حضرت امام جعفر صادق(ع) اپنی حدیث كے ایك حصہ میں فرماتے ھیں:
(فان الله ۔ عز وجل ۔ اذا انعم علی عبده نعمة احب ان یری علیه اثرھا، قیل :وكیف ذالك؟ قال: ینظف ثوبه، ویطیب ریحه ویجصص داره، ویكنس افنیته، حتی ان السراج قبل مغیب الشمس ینفی الفقر ویزید فی الرزق) 8 “جب خدا وند متعال كسی كو نعمت دے تو وہ پسند كرتا ھے كہ اس نعمت كا اثر اس كے اندر ملاحظہ كرے۔ پوچھا گیا وہ كس طرح؟ فرمایا: اپنا لباس صاف ركھے،خوشبواستعمال كرے، اپنے گھر كو پلاسٹر كرے اپنے گھر كے آگن اور دالان میں جھاڑو لگائے یہاں تك كہ سورج غروب ھونےسے پہلے چراغ جلانے سے فقر و فاقہ دور ھوتا ھے اور رزق و روزی میں اضافہ ھوجاتا ھے”۔

2۔ سر كے بال كا خیال ركھنا

سر كے بال، انسان كی ظاھری شكل كو بہتر بنانے والے اصلی عناصر میں شمار ھوتے ھیں انسان كی خوبصورتی سر كے بال كے ساتھ جلوہ نماءی كرتی ھے كہ یہ تقارن وھمراہ یعنی خوبصورت چہرے كے ساتھ سر كے بال عورتوں كے یہاں زیادہ نمایاں ھوتا ھے اگر ایك ایسے انسان كو مدنظر ركھیں كہ جس كے تمام اعضاء، بدن یعنی، آنكھ ابرو، لب، ناك وغیرہ بڑے مناسب اور خوبصورت ھوں لیكن اس كے سر پر بال نہ ھو تو آپ كو اندازہ ھوگا كہ نہ صرف یہ كہ اس كی خوبصورتی رونق نھیں ركھتی بلكہ ھو سكتا ھے وہ آدمی برا بھی لگے۔
اسی سلسلہ میں جناب رسول خدا(ص) سے نقل شدہ حدیث بھی ھے جو خوبصورتی میں سر كے بال كی اہمیت و كردار كی طرف اشارہ كرتی ھے۔ (ورد فی الحدیث ان رسول الله(ص): نهی المرأۃ التی وصلت الیٰ حد البلوغ ان تتشبه بالرجال فی قص شعرها من الخلف اومن الوسط اومن الامام) 9 “روایت میں وارد ھوا ھے كہ جناب رسول خدا(ص) نے حد بلوغ كو پہنچ جانے والی عورت (لڑكی) كو مردوں سے شباھت پیدا كرنے سے منع فرمایا ھے یعنی وہ اپنےسر كے بال كو آگے پیچھے یا وسط سے نہ تراشے”۔
حضرت امام جعفر صادق (ع)نے بھی فرمایا ھے:
(شعر الحسن من كسوۃ الله؛ فاكرموه) 10 “خوبصورت بال اللہ كی عطاكردہ چادر ھے اس كا احترام كرو”۔
بالوں كی حفاظت كے سلسلہ میں بھی روایات موجود ھیں منجملہ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا ھے:
(من اتخذ شعرا، فلیحسن ولا یته اولیجزه) 11 “جو بال بڑا ركھتا ھے اسے چاھئے كہ یا تو اس كی اچھی طرح حفاظت كرے یا پھر اسے چھوٹا كر دے” ۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
(استاصل شعرك یقل دونه و دوابه ووسخه وتغلظ رقبتك ویجلو بصرك) 12 “اپنے سر كے بال چھوٹے كرو كیونكہ بالوں كو چھوٹا ركھنے سے گندگی اور جویں كم ھو جاتی ھیں اور گردن قوی (موٹی) اور آنكھ كی روشنی بڑھ جاتی ھے۔
بالوں میں كنگھی كرنے كے بارے میں اور اس پر مترتب ھونے والے فوائد كے سلسلہ میں بھی معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات موجود ھیں حضرت امام جعفر صادق(ع) كلمۃ[زینت] كی آیت شریفہ: (خذوا زینتكم عند كل مسجد) “ہر مسجد میں اپنی زینت اپنے ھمراہ لے جاؤ” كی تفسیر میں فرماتے ھیں:
([الزینة]المشط؛ فان المشط یجلب الرزق ویحسن الشعر وینجز الحاجة ویقطع البلغم) 13 “آیت میں زینت سے مراد كنگھی ھے اس لئے كہ كنگھی روزی لاتی ھے بالوں كو خوبصورت بناتی ھے۔ حاجتوں كو برلاتی ھے اور بلغم كو ختم كردیتی ھے۔”
بالوں میں تیل ركھنے كے سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادق(ع)فرماتے ھیں:
(اذا اخذت الدهن علی راحتك فقل: اللهم انی اسألك الزین والزینة) 14 “سر پرتیل ركھنے كے لئے جب اپنی ہتھیلی پر تیل لو تو كھو: پروردگارا! میں تجھ سے خوبصورتی اور زینت كا خواہاں ھوں”۔

3۔ چہرے كے بال كا خیال ركھنا

لڑكوں كے چہرے پر چودہ ۔ پندرہ سال كی عمر میں بالوں كا اگنا ان كی مرادانگی كی علامت ھے اور مرتب ومنظم ڈارھی ركھنا مردوں كے وقار اور ان كی خوبصورتی كا جلوہ شمار كیا جا سكتا ھے۔
تاریخ كے مختلف ادوار میں مجسمے، نقوش اور تصاویر اس بات كی نشادھی كرتے ھیں كہ چہرے پر بال (ڈاڑھی) اس كی حفاظت گذشتہ زمانوں میں مردوں كے لئے زینت اور وقار مانا جاتا تھا۔
دین اسلام میں ڈاڑھی ركھنے اور اس میں كنگھی كرنے كی بڑی سفارش ھوئی ھے جناب رسول خدا(ص) كے بارے میں ملتا ھے كہ:
(وكان یسرح تحت لحیته اربعین مرة ومن فوقها سبع مرات ویقول: انه یزید فی الذهن ویقطع البلغم) 15
“جناب رسول خدا(ص) اپنی ڈاڑھی كے نچلے حصہ كو چالیس مرتبہ اور اوپری حصہ كو سات مرتبہ كنگھی كیا كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ: یہ كام ذہن كو زیادہ اور بلغم كو ختم كر دیتا ھے”۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق(ع) فرمایا ھے:
(مشط الراس یذهب بالوباء ومشط اللحیة یشد الاضراس)16 “سر میں كنگھی كرنے سے وبا دور ھوتی ھے اور ڈاڑھی میں كنگھی كرنے سے دانت محكم ھوتے ھیں”۔
مونچھوں كے بارے میں پیغمبرخدا(ص) نے فرمایا ھے:
(ان من السنة ان تاخذ من الشارب حتی یبلغ الاطار) 17 “مونچھوں كو ھونٹوں كی كناری تك تراشے رہنا سنت ھے “۔
آپ ھی سے مروی ایك اور روایت میں آیا ھے۔
(لا یطولن احدكم شاربه؛ فان الشیطان یتخذہ محبا یستتربه) 18 “تم میں سے كوئی بھی اپنی مونچھ بڑی نہ ركھے ورنہ شیطان اپنے پوشیدہ ھونے كی پناہ گاہ بنا لیتا ھے۔

4۔ بدن كی كھال كا خیال ركھنا

انسانوں بالخصوص خواتین كی شكل ظاھری كے اھم عناصر میں سے ایك بدن كی كھال كا سالم، شفاف اور لطیف ونرم ركھنا ھے پرانے زمانے سے پوست كی سلامتی اور اس كی خوبصورتی برقرار ركھنے كے لئے طرح طرح كی گھاسوں اور مفید تیلوں سے استفادہ رائج رہا ھے اور ائمہ معصومین علیہم السلام كی تعلیمات بھی اس بات كی نشان دہی كرتی ھیں كہ سماج كے تمام افراد (مرد ھوں یاعورت) كے لئے یہ كام بڑی اہمیت ركھتا ھے ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ھے:
(الدهن یلین البشرۃ ویزید فی الدماغ ویذھب القشف ویسفر اللون) 19 “تیل (كی مالش) كھال كو نرم دماغ كو زیادہ، كھال كی گندگی كو بر طرف اور رنگ و روپ میں نكھار پیدا كرتا ھے”۔
اسی طرح حضرت امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
(دهن اللیل یجری فی العروق ویروی البشرۃ ویبیض الوجه) 20 “رات میں تیل كی مالش رگوں میں جاری ھوتی ھے كھال كو سیراب اور چہرے كو حسین (سفید) كرتی ھے”۔

5۔ ناخن چھوٹا كرنا

ایك اور خداداد نعمت اور خوبصورتی كا جلوہ جو پہلی نظر میں ھو سكتا ھے نظر نہ آئے ہاتھ اور پیر میں ناخن كا ھونا ھے۔ اور اس نعمت كااس وقت اندازہ ھوتا ھے كہ خدانخواستہ جب كسی بیماری یا حادثہ میں كوئی ایك ناخن ختم ھوجاتا ھے اور ہاتھ اور پیر كی ظاہری خوبصورتی پر بھی اس كااثر پڑتا ھے۔
بدن كے اس جزو كے بارے میں نیز اس كی صفائی محفوظ ركھنے كے سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
(انما قصت الاظفار؛ لانھا مقیل الشیطان، ومنه یكون النسیان) 21 “ناخنوں كو اس لئے چھوٹا كیا جاتا ھے چونكہ شیطان كی قیامگاہ ھے اور اس سے نسیان پیدا ھوتا ھے”۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین علی(ع) فرماتے ھیں كہ:
(تقلیم الاظفار، یمنع الداء الاعظم، ویَدُرُّ، الرزق) 22 “ناخنوں كو كاٹنے سے بڑی بڑی بیماریاں نا پید ھوجاتی ھیں اوررزق و روزی میں اضافہ ھوجاتا ھے”۔
بعض روایتوں میں عورتوں كے لئے خاص طور سے ناخن كے ظاہری پہلو اور ان كی خوبصورتی كو مد نظر ركھا گیا ھے حضرت امام جعفر صادق(ع) سے نقل ھوا ھے كہ آپ نے مردوں سےفرمایا: (قال للرجل: قصوااظافیركم، اپنے ناخنوں كوچھوٹاكرو، (وللنساء:) اورعورتوں سے فرمایا كہ: اتركن فانه ازین لكن) 23 اپنے ناخنوں كو چھوڑ (تھوڑاسا بڑے رھیں) اس لئے كہ ناخن تم عورتوں كے لئے مززید زینت كا باعث ھے۔

6۔ عطر لگانا

ھو سكتا ھے ظاہری خوبصورتی كا تعلق قابل دید اور جن چیزوں كو آنكھیں دیكھ سكتی ھیں محدود ھو اور لغوی اعتبار سے بھی ھو سكتا ھے یہ معنی اخذ كرنا درست ھو، عرف عام میں دنیا كے تمام لوگوں كی عادت ھے كہ پسینہ كی ناپسندیدہ بو كو ختم كرنے كے لئے یا صرف اپنے یا دوسروں كو اچھا لگنے كے لئے خوشبو كا استعمال كرتے رھے ھیں اور مسلمانوں كی زبان پر ایك جملہ بڑا رائج اور مشھور ھے كہ جناب رسول خدا(ص) اپنے اموال كا زیادہ تر حصہ خوشبو پر صرف كرتے تھے بھت احتمال ھے كہ یہ شہرت جناب امام جعفر صادق(ع) سے اس ارشاد گرامی سے حاصل ھوئی ھو۔
(كان رسول الله(ص) ینفق علی الطیب، اكثر مما ینفق علی الطعام) 24 “پیغمبر خدا(ص) كھانے سے زیادہ خوشبو پر مال صرف كیا كرتے تھے”۔ ایك دوسری حدیث بھی رسول خدا(ص) سے نقل ھوئی ھے جو بڑی معروف ھے:
(حبب الی من الدنیا ثلاث: النساء والطیب وقرۃ عینی فی الصلاۃ) 25 “میں دنیا كی چیزوں میں دلچسپی ركھتا ھوں، عورتیں، خوشبو اور نماز جو كہ میری آنكھوں كی ٹھنڈك ھیں ۔
امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام بھی فرماتے ھیں:
(لا ینبغی للرجل ان یدع الطیب فی كل یوم؛ فان لم یقدر علیه فیوم ویوم، فان لم یقدر، ففی كل جمعة؛ ولا یدع ذالك) 26 “مرد كے لئے مناسب نھیں ھے كہ ھر زور خوشبو لگانے سے باز رھے اگر اس پر قدرت نہ ركھتا ھو تو ایك روز چھوڑ كر ایسا كرے اور اگر اس كی بھی قدرت نہ ھوتو ہر جمعہ كو خوشبو استعمال كرے اور اس كو نہ چھوڑے،
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
(ركعتان یصلیها المتعطر افضل من سبعین ركعة یصلیها غیر متعطر) 27 “خوشبو لگانے والے كی دو ركعت نماز بغیر خوشبو لگانے والے كی ستر ركعت نماز سے افضل ھے۔

7۔ مسواك كرنا

بلا شك وشبہ صاف وشفاف اور چمكدار دانتوں كا ركھنا ہر آراستہ و صاف رہنے والے انسان كی خواہش وتمنا ھے كیونكہ دانتوں كی صفائی نہ صرف یہ كہ جسمانی سلامتی میں بڑی موثر ھے ظاہری خوبصورتی میں بھی كافی موثر ھے ۔ علاوہ بر این دوسروں سے محو گفتگو ھوتے وقت لازم ھے كہ دانت صاف ھوں۔ دانتوں كی صحت وسلامتی كا ڈائركٹ تعلق اس كا خیال ركھنے سے ھے جس كا نتیجہ اس كی سلامتی ھے اس سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ھے:
(لكل شیء؛ طهور وطهور الفم السواك) 28 “ہر شیء كے لئے ایك پاك كرنے والی چیز ھوتی ھے اور منھ كی صفائی دانتوں میں مسواك كرنا ھے”۔
زیادہ احتمال یہ ھے كہ انسان نے اپنی خوبصورتی اور حسن كو باقی ركھنے یا خوبصورتی حاصل كرنے كے لئے دانتوں میں مسواك كرنے كا آغاز كیا ھے اس لئے كہ اس سلسلہ میں ایك صاحب نظر كا قول ھے كہ: انسانوں كے اندر خوبصورتی كی طرف كشش اور كھنچاؤ سلامتی و تندرستی كی سمت كھنچاؤ سے زیادہ قوی ھے۔ بہر حال دانتوں كی صفائی كا خیال ركھنا بھی خوبصورتی كی طرف رجحان پیغمبروں كی آمد اور ان كی تاكید سے سنت كی شكل اختیار كر گیا ھے اور بھت سی روایات ہمارے مدعی كی تائید كرتی ھیں حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ھے:
(السواك من سنن المرسلین) 29 مسواك كرنا انبیاء و مرسلین(ع) كی سنت ھے ۔ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے مسواك كرنے كی سفارش كرتے ھوئے فرمایا ھے:
(مازال جبرئیل یوصینی بالسواك حتی ظننت انه سیجعله فریضة) 30 ” جبرئیل امین نے مسواك كرنے كی مسلسل تاكید كی تو مجھے خیال پیدا ھوا كہ عنقریب مسواك كو فریضہ قرار دے دیں گے” ۔ آپ سے منقول ایك دوسری حدیث میں آیا ھے:
(لولا ان اشق علی امتی لا مرتهم بالسواك مع كل صلاۃ) 31 “اگر میری امت پر دشوار نہ ھوتا تو میں حكم دے دیتا كہ ہر نماز كے ساتھ مسواك كریں”۔
مسواك كرنے كے جسمانی فوائد اور بھت سی عبادتوں میں اس كے سبب ثواب اور اس كی زیادتی كے سلسلہ میں بھت سی احادیث وارد ھوئی ھیں جن میں سے صرف ایك نمونہ پر اكتفاء كرتے ھیں ۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
(فی السواك اثنتا عشرة خصلة:ھو من السنة، ومطهرة للفم ومجلاة للبصر، ویرضی الرحمن، ویبیض الاسنان ویذهب بالحفر، ویشد اللثة ویشهقی الطعام، ویذهب بالبلغم، ویزید فی الحفظ ویضاعف به الحسنات وتفرح به الملائكة) 32 مسواك میں بارہ خصوصیت ھے۔ پیغمبروں كی سنت ھے، ذھن كی صفائی كا باعث ھے آنكھوں كی روشنی میں اضافہ ھوتا ھے، خدا كی خوشنودی حاصل ھوتی ھے، دانتوں كو سفید كردیتی ھے، دانتوں كے پیلے پن اور خرابی كو زائل كرتی ھے جبڑے كو محكم كرتی ھے بھوك بڑھاتی ھے، بلغم كو ختم كرتی ھے، حافظہ قوی كرتی ھے ثواب كئی گنا بڑھا دیتی ھے ملائكہ كو خوش كر دیتی ھے۔

8۔ صاف ستھرا

اور خوبصورت لباس پہننا انسان كے اوپر خدا كے لطف وكرم میں سے ایك لطف یہ ھے كہ اسے سارے جانوروں سے جدا كر دیا ھے انسان كی فطرت میں حیاء وحجاب ودیعت كیا ھے اور فطری رجحان كے ظھور كی سب سے بڑی علامت بدن كو دوسروں كے گناھوں سے پوشیدہ ركھنا ھے اور كتنا اچھا ھے كہ یہ چھپانا، خوبصورت صاف وشفاف اور انسان كی سماجی شان ومنزلت كے لائق ھوتا ھو تاكہ انسان دوسروں كی نظر میں بھی بھلا معلوم ھو، لباس كی خوبصورتی كے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق(ع) اس طرح فرماتے ھیں:
(البس وتجمل؛ فان الله جمیل، یحب الجمال؛ ولیكن من حلال) 33 خوبصورت اور اچھا لباس پہنو كیونكہ خدا خوبصورت ھے اور خوبصورتی كو دوست ركھتا ھے لیكن حلال سے ھونا چاھئے ۔ لباس كی صفائی و نظافت كے حوالے سے حضرت رسول خدا(ص) كا ارشاد ھے:
(من اتخذ ثوبا، فلینظفه) 34 جو شخص كسی لباس كو پہنے تو اسے پاك وپاكیزہ بھی ركھے۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین(ع) فرماتے ھیں:
(غسل الثیاب یذهب الهم والحزن وهو طهور للصلاۃ) 35 لباس دھلنے سے ھم وغم دور ھوتا ھے اور نماز كے لئے پاكیزگی شمار ھوتا ھے ۔
———-
1. امالی الطوسی، ج۱، ص۲۷۵۔
2. مكارم الاخلاق، ج۱، ص۲۱۸۔
3. الخصال، ص۶۱۲۔
4. اس منابع كاموضوع، آرائش ظاہری اور خوبصورتی ظاہری ھے نہ خوبصورتی باطنی انسان كی پوشیدہ خوبصورتی۔امام حسن عسكری (ع) فرماتے ھیں:
حسن الصورۃ جمال ظاہر وحسن العقل جمال باطن؛
الكافی، ج۶، ص۴۳۸۔امیر المومنین (ع) فرماتے ھیں:
زینۃ البواطن اجمل من رینۃ الطواہر(غررالحكم، ج۳، ص۵۵۰۳۔
5. بحار الانوار، ج۵۹، ص۲۹۱۔
6. ھمان، ج۶، ص۳۳۵۔
7. كنز العمال، ج۱۷، ص۱۸۱۔
8. امالی الطوسی، ج۱، ص۲۷۵۔
9. تذكرۃ الفقہاء، ج۱، ص۳۹۰۔
10. كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۲۹۔
11. الكافی، ج۶، ص۵۲۰۔
12. ھمان،ج۶، ص۴۸۴۔
13. الخصال، ص۲۶۸۔
14. الكافی، ج۶، ص۵۲۰۔
15. مكارم الاخلاق، ج۱، ص۸۲۔
16. كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۲۸۔
17. الكافی، ج۶، ص۴۸۷۔
18. اسی جگہ ۔
19. وھی،ج، ۶، ص۵۱۹۔
20. اسی جگہ ۔
21. مكارم الاخلاق، ج۱، ص۱۵۴۔
22. الكافی، ج۶، ص۴۹۰۔
23. بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۲۳۔
24. مكارم الاخلاق، ج۱، ص۱۰۴۔
25. الخصال، ص۱۶۵۔
26. بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۴۰۔
27. ثواب الاعمال، ص۳۶۲۔
28. كتاب من لایحضرہ القفیہ، ج۱، ص۵۳۔
29. الكافی، ج۶، ص۲۵۷۔
30. امالی الصدوق، ص۲۵۷۔
31. الكافی، ج۳، ص۲۲۔
32. الخصال، ص۴۸۱۔
33. وسائل الشیعہ، ج۳، س۳۴۰۔
34. الكافی، ج۶، ص۲۴۴۔
35. الخصال، ص۶۱۲۔

تبصرے
Loading...