ايك نيك عمل نے موسى (ع) پر بھلائيوں كے دروازے كھول ديئے

اس مقام پر ہم اس سرگزشت كے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ہيں اور وہ موقع يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام شہرمدين ميں پہنچ گئے ہيں _ 

يہ جوان پاكباز انسان كئي روز تك تنہا چلتا رہا يہ راستہ وہ تھا جو نہ كبھى اس نے ديكھا تھا نہ اسے طے كيا تھا بعض لوگوں كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام مجبور تھے كہ پابرہنہ راستہ طے كريں، بيان كيا گيا ہے كہ مسلسل آٹھ روز تك چلتے رہے يہاں تك كہ چلتے چلتے ان كے پائوں ميں چھالے پڑگئے _ 

جب بھوك لگتى تھى تو جنگل كى گھاس اور درختوں كے پتے كھاليتے تھے ان تمام مشكلات اور زحمات ميں صرف ايك خيال سے ان كے دل كوراحت رہتى تھى كہ انھيں افق ميں شہرمدين كا منظر نظر آنے لگا ان كے دل ميں آسود گى كى ايك لہر اٹھنے لگى وہ شہر كے قريب پہنچے انہوں نے لوگوں كا ايك انبوہ ديكھا وہ فورا سمجھ گئے كہ يہ لوگ چرواہے ہيں كہ جو كنويں كے پاس اپنى بھيڑوں كو پانى پلانے آئے ہيں _ 

”جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے تو انھوں نے وہاں بہت سے آميوں كو ديكھا جو كنويں سے پانى بھر كے اپنے چوپايوں كو پلارہے تھے،انھوں نے اس كنويں كے پاس دو عورتوں كو ديكھا كہ وہ اپنى بھيڑوں كو لئے كھڑى تھيں مگر كنويں كے قريب نہيں آتى تھيں”_ (1) 

ان باعفت لڑكيوں كى حالت قابل رحم تھى جو ايك گوشے ميں كھڑى تھيں اور كوئي آدمى بھى ان كے ساتھ انصاف نہيں كرتا تھا چرواہے صرف اپنى بھيڑوں كى فكر ميں تھے اور كسى اور كو موقع نہيں ديتے تھے حضرت موسى عليہ السلام نے ان لڑكيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان كے نزديك آئے اور پوچھا : 

” تم يہاں كيسے كھڑى ہو”(2 

تم آگے كيوں نہيں بڑھتيںاور اپنى بھيڑوں كو پانى كيوں نہيں پلاتيں ؟ 

حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ حق كشى ، ظلم وستم ، بے عدالتى اور مظلوموں كے حقوق كى عدم پاسدارى جو انھوں نے شہر مدين ميں ديكھي، قابل برداشت نہ تھى _ 

مظلوموں كو ظالم سے بچانا ان كى فطرت تھى اسى وجہ سے انھوں نے فرعون كے محل اور اس كى نعمتوں كو ٹھكراديا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنى اس روش حيات كو ترك نہيں كرسكتے تھے اور ظلم كو ديكھ كر خاموش نہيں رہ سكتے تھے _ 

لڑكيوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے جواب ميں كہا :” ہم اس وقت تك اپنى بھيڑوں كو پانى نہيں پلاسكتے، جب تك تمام چرواہے اپنے حيوانات كو پانى پلاكر نكل نہ جائيں ”_(3) 

ان لڑكيوںنے اس بات كى وضاحت كے لئے كہ ان باعفت لڑكيوں كے باپ نے انھيں تنہا اس كام كے لئے كيوں بھيج ديا ہے يہ بھى اضافہ كيا كہ ہمارا باپ نہايت ضعيف العمرہے _ 

نہ تو اس ميں اتنى طاقت ہے كہ بھيڑوں كو پانى پلاسكے اور نہ ہمارا كوئي بھائي ہے جو يہ كام كرلے اس خيال سے كہ كسى پر بارنہ ہوں ہم خود ہى يہ كام كرتے ہيں _ 

حضرت موسى عليہ السلام كو يہ باتيں سن كر بہت كوفت ہوئي اور دل ميں كہا كہ يہ كيسے بے انصاف لوگ ہيں كہ انھيں صرف اپنى فكر ہے اور كسى مظلوم كى ذرا بھى پرواہ نہيں كرتے _ 

وہ آگے آئے ،بھارى ڈول اٹھايا اور اسے كنوئيں ميں ڈالا، كہتے ہيں كہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا كہ چند آدمى مل كر اسے كھينچ سكتے تھے ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے قوى بازوئوں سے اسے اكيلے ہى كھينچ ليا اور ان دونوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا ”_(4) 

بيان كيا جاتاہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے اورلوگوں كو ايك طرف كيا تو ان سے كہا:” تم كيسے لوگ ہو كہ اپنے سوا كسى اور كى پرواہ ہى نہيں كرتے ”_ 

يہ سن كر لوگ ايك طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسى كے حوالے كركے بولے : ” ليجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانى كھينچ سكتے ہيں،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كو تنہاچھوڑ ديا،ليكن حضرت موسى عليہ السلام اس وقت اگرچہ تھكے ہوئے تھے،اور انھيں بھوك لگ رہى تھى مگر قوت ايمانى ان كى مدد گار ہوئي ، جس نے ان كى جسمانى قوت ميں اضافہ كرديا اور كنويں سے ايك ہى ڈول كھينچ كر ان دنوں عورتوں كى بھيڑوںكو پانى پلاديا _ 

اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سائے ميں آبيٹھے اور بارگاہ ايزدى ميں عرض كرنے لگے :” خداوند اتو مجھے جو بھى خيراور نيكى بخشے ، ميں اس كا محتاج ہوں ”_(5) 

حضرت موسى عليہ السلام ( اس وقت ) تھكے ہوئے اور بھوكے تھے اس شہر ميں اجنبى اور تنہاتھے اور ان كے ليے كو ئي سرچھپانے كى جگہ بھى نہ تھى مگر پھر بھى وہ بے قرار نہ تھے آپ كا نفس ايسا مطمئن تھا كہ دعا كے وقت بھى يہ نہيں كہا كہ” خدايا تو ميرے ليے ايسا ياويسا كر” بلكہ يہ كہا كہ : تو جو خير بھى مجھے بخشے ميں اس كا محتاج ہوں ” _ 

يعنى صرف اپنى احتياج اور نياز كو عرض كرتے ہيں اور باقى امور الطاف خداوندى پر چھوڑديتے ہيں _ 

ليكن ديكھو كہ كار خير كيا قدرت نمائي كرتا ہے اور اس ميں كتنى عجيب بركات ہيں صرف ”لوجہ اللہ” ايك قدم اٹھانے اور ايك نا آشنا مظلوم كى حمايت ميں كنويں سے پانى كے ايك ڈول كھيچنے سے حضرت موسى كي زندگى ميں ايك نياباب كھل گيا اور يہ عمل خيران كے ليے بركات مادى اور روحانى دنيا بطور تحفہ لايا اور وہ ناپيدا نعمت (جس كے حصول كےلئے انھيں برسوں كوشش كرنا پڑتى ) اللہ نے انھيں بخش دى حضرت موسى عليہ السلام كے لئے خوش نصيبى كا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے يہ ديكھا كہ ان دونوں بہنوں ميں سے ايك نہايت حياسے قدم اٹھاتى ہوئي آرہى ہے اس كى وضع سے ظاہر تھا كہ اسكوايك جوان سے باتيں كرتے ہوئے شرم آتى ہے وہ لڑكى حضرت موسى عليہ السلام كے قريب آئي اور صرف ايك جمكہ كہا : ميرے والد صاحب آپ كو بلاتے ہيں تاكہ آپ نے ہمارى بكريوں كے لئے كنويں سے جو پانى كھينچا تھا ، اس كا معاوضہ ديں ”_(6) 

يہ سن كر حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں اميد كى بجلى چمكى گوياانھيں يہ احساس ہوا كہ ان كے لئے ايك عظيم خوش نصيبى كے اسباب فراہم ہورہے ہيں وہ ايك بزرگ انسان سے مليں گے وہ ايك ايسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ہے جو يہ بات پسند نہيں كرتا كہ انسان كى كسى زحمت كا، يہاں تك كہ پانى كے ايك ڈول كھيچنے كا بھى معاوضہ نہ دے يہ ضرور كوئي ملكوتى اور الہى انسان ہوگا يا اللہ يہ كيسا عجيب اور نادر موقع ہے ؟ 

بيشك وہ پير مرد حضرت شعيب(ع) پيغمبر تھے انہوں نے برسوں تك اس شہر كے لوگوں كو” رجوع الى اللہ”كى دعوت دى تھى وہ حق پرستى اور حق شناسى كا نمونہ تھے _ 

جب انھيں كل واقعے كا علم ہوا تو انھوں نے تہيہ كرليا كہ اس اجنبى جوان كو اپنے دين كى تبليغ كريں گے _ 

حضرت موسى (ع) جناب شعيب(ع) كے گھر ميں

چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام اس جگہ سے حضرت شعيب كے مكان كى طرف روانہ ہوئے _ 

بعض روايات كے مطابق وہ لڑكى رہنمائي كے لئے ان كے آگے چل رہى تھى اور حضرت موسى عليہ السلام اس كے پيچھے چل رہے تھے اس وقت تيز ہوا سے اس لڑكى كا لباس اڑرہا تھا اور ممكن تھا كہ ہوا كى تيزي لباس كو اس كے جسم سے اٹھادے حضرت موسى (ع) كى پاكيزہ طبيعت اس منظر كو ديكھنے كى اجازت نہيں ديتى تھي،اس لڑكى سے كہا:ميں آگے آگے چلتا ہوں،تم راستہ بتاتے رہنا_ 

جب جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر پہنچ گئے ايسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس كے ہر گوشے سے روحانيت نماياں تھى انھوں نے ديكھا كہ ايك پير مرد، جس كے بال سفيد ہيں ايك گوشے ميں بيٹھا ہے اس نے حضرت موسى عليہ السلام كو خوش آمديد كہا اور پوچھا: 

” تم كون ہو ؟ كہاں سے آرہے ہو ؟ كيا مشغلہ ہے ؟ اس شہر ميں كيا كرتے ہو ؟ اور آنے كا مقصد كيا ہے ؟ تنہا كيوں ہو ؟ 

حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس پہنچے اور انھيں اپنى سرگزشت سنائي تو حضرت شعيب عليہ السلام نے كہا مت ڈرو، تمہيں ظالموں كے گروہ سے نجات مل گئي ہے _” (7) 

ہمارى سرزمين ان كى حدود سلطنت سے باہر ہے يہاں ان كا كوئي اختيار نہيں چلتا اپنے دل ميں ذرہ بھر پريشانى كو جگہ نہ دينا تم امن وامان سے پہنچ گئے ہو مسافرت اور تنہائي كا بھى غم نہ كرو يہ تمام مشكلات خدا كے كرم سے دور ہوجائيں گى _ حضرت مو سى عليہ السلام فورا ًسمجھ گئے كہ انھيں ايك عالى مرتبہ استاد مل گيا ہے، جس كے وجود سے روحانيت ، تقوى ، معرفت اور زلال عظيم كے چشمے پھوٹ رہے ہيں اور يہ استاد ان كى تشنگى تحصيل علم ومعرفت كو سيراب كرسكتا ہے _ 

حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى يہ سمجھ ليا كہ انھيں ايك لائق اور مستعد شاگرد مل گيا ہے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگى بھر كے تجربات سے فيض ياب كرسكتے ہيں _ 

يہ مسلم ہے كہ ايك شاگرد كو ايك بزرگ اور قابل استاد پاكر جتنى مسرت ہوتى ہے استاد كو بھى ايك لائق شاگرد پاكر اتنى ہى خوشى ہوتى ہے_ 

جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب (ع) كے داماد بن گئے

اب حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے چھٹے دور كا ذكر شروع ہوتا ہے حضرت موسى عليہ السلام جناب شعيب عليہ السلام كے گھر آگئے يہ ايك سادہ ساديہاتى مكان تھا، مكان صاف ستھرا تھا اور روحانيت سے معمور تھا جب حضرت موسى عليہ السلام نے جناب شعيب عليہ السلام كو اپنى سرگزشت سنائي تو ان كى ايك لڑكى نے ايك مختصر مگر پر معنى عبارت ميں اپنے والد كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ موسى عليہ السلام كو بھيڑوں كى حفاظت كے لئے ملازم ركھ ليں وہ الفاظ يہ تھے : 

اے بابا : آپ اس جوان كو ملازم ركھ ليں كيونكہ ايك بہترين آدمى جسے آپ ملازم ركھ سكتے ہيں وہ ايسا ہونا چاہئے جو قوى اور امين ہو اور اس نے اپنى طاقت اور نيك خصلت دونوں كا امتحان دے ديا ہے” _(8) 

جس لڑكى نے ايك پيغمبر كے زيرسايہ تربيت پائي ہوا سے ايسى ہى مو دبانہ اور سوچى سمجھى بات كہنى چاہئے نيز چاہئے كہ مختصر الفاظ اور تھوڑى سى عبارت ميں اپنا مطلب ادا كردے _ 

اس لڑكى كو كيسے معلوم تھا كہ يہ جوان طاقتور بھى ہے اور نيك خصلت بھى كيونكہ اس نے پہلى باركنويں پر ہى اسے ديكھا تھا اور اس كى گزشتہ زندگى كے حالات سے وہ بے خبر تھي؟ 

اس سوال كا جواب واضح ہے اس لڑكى نے اس جوان كى قوت كو تو اسى وقت سمجھ ليا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑكيوں كا حق دلانے كے لئے چرواہوں كو كنويں سے ايك طرف ہٹايا تھا اور اس بھارى ڈول كو اكيلے ہى كنويں سے كھينچ ليا تھا اور اس كى امانت اور نيك چلنى اس وقت معلوم ہوگئي تھى كہ حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر كى راہ ميں اس نے يہ گوارا نہ كيا كہ ايك جوان لڑكى اس كے آگے آگے چلے كيونكہ ممكن تھا كہ تيز ہوا سے اس كا لباس جسم سے ہٹ جائے _ 

علاوہ بريں اس نوجوان نے اپنى جو سرگزشت سنائي تھى اس كے ضمن ميں قبطيوں سے لڑائي كے ذكر ميں اس كى قوت كا حال معلوم ہوگيا تھا اور اس امانت وديانت كى يہ شہادت كافى تھى كہ اس نے ظالموں كى ہم نوائي نہ كى اور ان كى ستم رانى پر اظہار رضا مندى نہ كيا _ 

حضرت شعيب عليہ السلام نے اپنى بيٹى كى تجويز كو قبول كرليا انھوں نے موسى (ع) كى طرف رخ كركے يوں كہا :”ميرا ارادہ ہے كہ اپنى ان دولڑكيوں ميں سے ايك كا تيرے ساتھ نكاح كردوں، اس شرط كے ساتھ كہ تو آٹھ سال تك ميرى خدمت كرے ”_(9) 

اس كے بعد يہ اضافہ كيا:” اگر تو آٹھ سال كى بجائے يہ خدمت دس سال كردے تو يہ تيرا احسان ہوگا مگر تجھ پر واجب نہيں ہے :”(10) 

بہرحال ميں يہ نہيں چاہتا كہ تم سے كوئي مشكل كام لوں انشاء اللہ تم جلد ديكھو گے كہ ميں صالحين ميں سے ہوں ، اپنے عہدوپيمان ميں وفادار ہوں تيرے ساتھ ہرگز سخت گيرى نہ كروں گا اور تيرے ساتھ خيراور نيكى كا سلوك كروں گا _(11) 

حضرت موسى عليہ السلام نے اس تجويزاور شرط سے موافقت كرتے ہوئے اور عقد كو قبول كرتے ہوئے كہا : ” ميرے اور آپ كے درميان يہ عہد ہے ” _ البتہ” ان دومدتوں ميں سے (آٹھ سال يا دس سال ) جس مدت تك بھى خدمت كروں ، مجھ پر كوئي زيادتى نہ ہوگى اور ميںاس كے انتخاب ميں آزاد ہوں”_ (12) 

عہد كو پختہ اور خدا كے نام سے طلب مدد كے لئے يہ اضافہ كيا : ”جو كچھ ہم كہتے ہيں خدا اس پر شاہد ہے ”_(13) 

اوراس اسانى سے موسى عليہ السلام داماد شعيب(ع) بن گئے حضرت شعيب عليہ السلام كى لڑكيوں كا نام ” صفورہ ”( يا صفورا ) اور ” ليا ”بتايا جاتاہے حضرت موسى عليہ السلام كى شادى ” صفورہ ” سے ہوئي تھى _ 

——————————————————————————– 

(1) سورہ قصص آيت 27 

(2)سورہ قصص آيت 27 

(3)سورہ قصص آيت 27 

(4) سورہ قصص آيت 28 

(5)سورہ قصص آيت 28 

 

 

(6 سورہ قصص آيت 25 

(7) سورہ قصص آيت 25 

(8)سورہ قصص ايت 26 

 

 

(9)سورہ قصص آيت23 

(10) سورہ قصص آيت 23 

(11)سورہ قصص آيت 24 

(12) سورہ قصص آيت24 

(13) سورہ قصص آيت 24 

 

 

تبصرے
Loading...