او لواالعزم انبياء (ع)

 

انبیاء (ع) سے متعلق ایک بحث یہ ھے کہ کیا تمام انبیا ء (ع)کی رسالت ساری دنیا کے لئے عمومی رسالت تھی یا ھر نبی ایک خاص گروہ کے لئے بھیجا گیا ھے ۔ اس مسئلہ کے جواب میں  مفسر ین میں اختلاف پا یا جاتا ھے پھر بھی مندرجہ ذیل دو با توں پر سب کا اتفاق ھے :

۱۔ تقر یباً تمام مفسر ین کا اس بات پر اتفاق ھے کہ تمام انبیاء (ع)کی رسالت عا لمی رسالت نھیں تھی ۔ دوسرے لفظو ں میں کم از کم بعض انبیا ء (ع) کی رسالت ایک مخصوص قوم تک محدود تھی ۔

۲۔بعض سمجھ افراد نے جس شبھہ کا اظھار کیا ھے اس سے صرف نظر کرتے ھوئے سب کا اس بات پر اتفاق ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تمام دنیا والوں کیلئے رسول بنا کر بھیجے گئے ھیں اور آپ کی رسالت کسی خاص قوم سے مخصوص نھیں ھے ۔

علاّمہ طباطبائی (رح)نے قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کرتے ھوئے کھا ھے کہ انبیاء علیھم السلام کے در میان سے پا نچ پیغمبر صا حبِ شریعت اور آسمانی کتاب یا صحیفے اور اجتما عی احکام لیکر آئے ھیں ۔ وہ پا نچ انبیاء (ع)حضرتِ نو ح  (ع)، حضرتِ ابرا ھیم (ع) ، حضر ت مو سیٰ (ع) ، حضرت عیسیٰ (ع) ، اور حضر ت محمد مصطفیٰ (ص)ھیں ۔ ان ھی پا نچوں حضرات کو قر آن کریم نے او لو االعزم پیغمبر (ص)کے   نا م سے یا د کیا ھے۔

قرآن کریم میں ارشاد ھو تا ھے :

[1]

” پس ( اے رسول ) جس طرح اولواالعزم( عالی ھمت ) انبیاء صبر کر تے رھے تم بھی صبر کرو “

علامہ طبا طبائی کی نظر میں یہ پانچ او لو االعزم پیغمبر وہ ھیں جن میں ھر ایک مند رجہ بالا خصو صیات کے علاوہ اپنے زمانہ میں پوری دنیا کے لئے رسول رھا ھے اور ان کی دعوت کسی خاص گروہ سے مخصو ص نھیں رھی ھے اس کے بر خلاف بقیہ تمام انبیا ء علیھم السلام میں جو ایک مخصو ص گرو ہ کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ھیں ۔ علامہ طبا طبا ئی رحمةالله علیہ نے مند ر جہ بالا دعوے کو ثابت کر نے کے لئے قرآنِ کریم کی آیات شا ھد میں پیش کی ھیں ۔ [2] یھا ں یہ با ت بھی قا بلِ ذکر ھے کہ ان پانچ افراد کو بعض روا یتو ں میں بھی او لو االعزم انبیاء (ع) کے نا م سے یا د کیا گیا ھے ۔ اور ان کی خصو صیات بیان کی گئی ھیں[3]

کیا اولو ا العزم انبیا ء (ع)ھی صا حبا نِ کتاب و شریعت ھیں ؟

جیسا کہ بیان کیا گیا اس میں کو ئی شک نھیں کہ انبیاء (ع)کے ایک گرو ہ کو قر آن کریم نے اولو ا العزم انبیاء (ع)کے نا م سے یا د کیا ھے ۔ اور سوره احقا ف میںاس مسئلے پر واضح طور سے دلا لت کر تی ھے ۔ لیکن کسی بھی قطعی دلیل کے ذریعہ پتہ نھیں چلتا کہ یہ او لوا العزم انبیاء علیھم السلام کو ن سے انبیاء(ع)ھیں ؟ آیا یہ او لو ا العزم ا  نبیا ء وھی ا  نبیا (ع)ھیں کہ جن پر آسمانی کتا بیں نا زل ھو ئی ھیں ؟ یا او لو االعزم ا  نبیاء (ع)سے مراد رسو لو ں کا وہ گروہ ھے جو صا حبِ شریعت ھے ؟ یہ وہ سوا لات ھیں جن کے جوا بات کے لئے ھما رے پاس کو ئی قطعی دلیل نھیں ھے ۔ دو سرے الفاظ میں قر آن کریم کی کوئی آیت یا توا تر کے ساتھ منقو ل کو ئی بھی روایت ایسی نقل نھیں ھو ئی ھے جس سے یہ معلوم ھو تا ھو کہ صرف پانچ انبیاء (ع) ( یعنی حضرت نوح(ع)، حضرت ابرا ھیم  (ع) ، حضرت مو سیٰ  (ع) ، حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)) ھی صا حبا ن کتاب و شریعت ھو ئے ھیں ۔البتہ جیسا کہ ھم پھلے اشا رہ کر چکے ھیں بعض روایات سے یہ پتہ چلتا ھے کہ او لو االعز م انبیاء علیھم السلام صرف یھی پانچ ا  نبیاء (ع)ھیں ۔ لیکن یہ  روا یات حدّ توا تر تک نھیں پھو نچتیں اس بنا پر ان کو دلیل ظنی شما ر کیا جاتا ھے دلیل قطعی نھیں ھے ۔ ان مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا تا ھے کہ اگر ھم کو کو ئی ایسی آیت یا روایت ملے جو اس چیز پر دلالت کر ے کہ او لو االعزم ا نبیاء (ع)صا حبا نِ کتاب و شریعت ان پانچ انبیا ء (ع) سے زیا دہ ھیں تو وہ دلیل کسی معا رض کے بغیر قا بل قبول ھو گی اور اس کے مطالب کی تصدیق کی جا سکتی ھے ۔ بھر حال اس وقت یھی کھا جا سکتا ھے کہ صا حبا نِ کتاب و شریعت ا نبیاء(ع) کوان پا نچ انبیا ء(ع)میں منحصر کر نادلیلِ ظنی کے تحت ھے اور اس کا اظھا ر صرف بعض روایات سے ھو تا ھے ۔ 

صا حبانِ کتا ب او لو االعزم ا نبیاء (ع) کی رسالت کا دا ئرہ

اب سوا ل یہ ھے کہ آیا او لو ا العزم انبیاء (ع) کی رسالت (چا ھے وہ پا نچ افراد ھو ں یازیا دہ ) ساری دنیا کے لئے تھی یا ان میں سے ھر ایک نبی کسی خا ص قو م کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا؟ جیسا کہ ھم پھلے بھی اشا رہ کر چکے ھیں اس میں کوئی شک نھیں کہ پیغمبر اسلام (ص)کی رسالت پوری دنیا کیلئے تھی ۔لیکن دوسرے اولوا العزم پیغمبروں کے بارے میںکیا کھا جائے ؟ اس سوال کے جواب میں اسلامی دانشمندوں نے دو بنیادی نظر یے پیش کئے ھیں :

الف:اولوا العزم انبیاء(ع) کی رسالت علمی رسالت نھیں تھی یعنی پور ی دنیا کے لئے وہ رسول    بنا کر نھیں بھیجے گئے تھے ۔مثال کے طور پر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیھما السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور ان کی دعوت اسی قوم سے مخصوص تھی ۔بعض آیات سے بھی ان کے اس دعوے کی تاٴئید ھوتی ھے :

قر آن میں ارشاد ھو تا ھے :

[4]

”اور (عیسیٰ کو )اسے بنی اسرا ئیل کا رسو ل بنا ئے گا “

اور دوسرے مقا م پر ارشاد ھو تا ھے :

[5]

”اور جب عیسیٰ بن مر یم نے کھا اے بنی اسرا ئیل میں تمھا ری طرف الله کا رسول ھو ں “(۳)

مندجہ بالا آیات سے ظاھر ھوتا ھے کہ ان انبیاء (ع)کی رسالت پوری دنیا کےلئے نھیں تھی ۔اس بناء پر ایک پیغمبر کے آسمانی کتاب کے عالمی ھونے کے مابین کوئی لزوم نھیں پایا جاتا ۔    

ب۔دوسرے نظریہ کی بنیاد پر اولوا العزم انبیاء(ع) اور صاحبان کتاب دو طرح کے تبلیغی فرائض    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میںبھی بہت سی آیات ھیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ھیں کہ وہ خاص بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے مثال کے طور پر سوره اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد خداوندی ھے  :

”اور ھم نے موسیٰ کو کتاب(توریت)عطا کی اور اسکو بنی اسرائیل کا رھنما قرار دیا ۔۔۔“ اسی طرح ملاحظہ فرمائیں سوره اسراء (آیت/۱۰۱)سوره طہ آیت/۴۷،سورهشعراء آیت/ ۱۷۔اور سوره غا فر آیت/۵۳۔

انجام دیتے تھے ۔   

۱۔خدا کی عبادت ،توحید اور شرک نہ کرنے کی دعوت ۔  

۲۔ایک خاص شریعت اور احکام کی دعوت ۔پھلی دعوت پوری دنیا کیلئے تھی اس کے بر خلاف دوسری دعوت ایک خا ص قوم سے مخصوص تھی ۔مثال کے طور پر آیات قرآنی سے پتہ چلتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو پیغام تو حید کے ساتھ شرک نہ کرنے کی دعوت دی تھی اور اس سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اپنے اعتقادی پھلو سے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بھی شامل تھی حالانکہ ان کا بنی اسرائیل میں شمار نھیں ھوتا ۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے مصر سے خارج ھونے اور ان کے اس سرزمین میں پھونچنے کے بعد کہ جس کا خدا نے حکم دیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کچھ تختیاں نازل ھوئیں ان الواح پر وہ احکام درج تھے جو قوم بنی اسرائیل سے مخصوص تھے اس میں قبیلوں کو اور دوسری تمام قوموں کو خطاب نھیں کیا گیا تھا ۔

اس خیال کی بنیاد پر حامل کتاب انبیاء (ع) ایک طرف تو دعوت عام کے تحت پوری دنیا کو توحید یعنی خدائے لاشریک کی عبادت کی دعوت دیا کرتے تھے۔اور دوسری طرف اپنی قوم والوں کو مخصوص احکام و شرائع کی دعوت دیا کرتے تھے اور قوم پر ان احکام کی اطاعت واجب تھی ۔

یہ دونوں نظریے اس باب میں بیان کئے گئے تمام نظریوں میں سب سے اھم نظرےے ھیں ۔ان نظریوں کے تنقید ی جائزے اور اپنی رائے کے اظھار سے پھلے تمھید کے طور پر چندمقدموں کا بیان کردینا ضروری ھے ۔

ادیان الٰھی ایک ھیں یا کئی

پھلا مقدمہ دینوں اور شریعتوں کے اختلافات کے بارے میں ھے ۔گذشتہ بحثوں میں یہ بیان کیا جا چکا ھے کہ اصولی طور پر تمام ادیان اور آسمانی شریعتیں اس طرح ایک ھی دین میں پروئے ھوئے ھیں کہ ان کو متعدد ادیان شمار نھیں کیا جاسکتا ۔اب ممکن ھے کوئی کھے بھر حال آسمانی ادیان میں کچھ جزئی اختلافات دیکھنے میںآتے ھیں جن کا کسی صورت میں انکار نھیں کیا جاسکتا اور ان اختلافات کو دیکھتے ھوئے آسمانی ادیان کے ایک ھونے کا دعویٰ کس طرح کیا جاسکتا ھے؟ اس کے جواب میں پھلے ادیان کے مابین ایک دوسرے سے اختلاف کی کیفیت کا جا ئزہ لیں اور اسکے بعد یہ دیکھیں کہ کیا یہ اختلافات خدا کے ادیان کی اصلی روح میں بھی اختلاف کا باعث ھیں یا نھیں ادیان حق کے مابین جو اختلافات قابل تصوّر ھیں وہ تین حصّوں میں تقسیم کئے جاسکتے ھیں ۔

الف :پھلے حصے میں وہ فرق آتے ھیں جو دو ادیان کے احکام کے دائرے میں اختلاف کا نتیجہ ھیں :

ممکن ھے ایک دین آسمانی کتاب کے احکام قوانین کا دائرہ دوسرے دین کے احکام اور آسمانی کتاب کے دائرے سے زیادہ وسیع ھو۔اس صورت میں ھم کو کچھ ایسے احکام نظر آئیںگے جو ایک دین میں تو بیان کئے گئے ھیں لیکن دوسرے دین میں ان کا کوئی نا م و نشان بھی نھیں ھے ۔یہ اختلاف شاید دو امتوں کے درمیان ان کے پیچیدہ قسم کے معاشرتی روابط میں موجود اختلافات کا نتیجہ ھو ۔بعض معاشرے سماجی طور پر سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے ۔اور ان کے افراد کے درمیان معاشرتی روابط میں کسی قسم کی پیچیدگی نھیں تھی ۔ظاھر ھے اس طرح کے معاشرہ میں مخصوص معاشرتی قوانین بنانے کی بھی کوئی ضرورت نھیں تھی ۔اور پیغمبر کے ذریعے اس طرح کے احکام کا بھیجا جانا بھی بیکار تھا۔ اسکے  مقابل کچھ معاشرے بہت ھی پیچیدہ قسم کے معاشرتی امور میں الجھے ھوئے تھے اور یہ حقیقت اس بات کی متقاضی تھی کہ ان کیلئے مخصوص احکام و قوانین بنائے جائیں ۔اس بناء پر یہ کھا جاسکتا ھے کہ غالباً اس قسم کے اختلاف کی ایک دلیل مختلف امتوں اور معاشروں کا اپنی ساخت کے اعتبار سے مختلف ھونا رھا ھو جو اپنی جگہ خود شریعت اور معاشرتی احکام کے دائرہ میں شریعتوں کے اختلاف کا سبب ھوئے ھوں البتّہ جیسا کہ ھم نے اپنی تحریر میں زور دیا ھے یہ بات صرف احتمال کے طور پر پیش کی گئی ھے جو پھلی قسم کے اختلاف کی دلیل کے عنوان سے ذھن میں آئی ھے۔

ب:اختلاف کی دوسری قسم ان امور سے تعلق رکھتی ھے جھاں شرعی حکم کے طورپر ایک دین میں بیان کیا ھوا قانون حکم دوسرے دین میں نسخ کردیا گیا ھے۔ھم جانتے ھیں کہ بہت سے امور جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی موسوی شریعت کے زمانہ میں بنی اسرائیل پر حرام تھے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں حلال ھوگئے ۔دوسرے لفظوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بعض احکام حرمت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آئین و شریعت میں منسوخ کردیئے گئے ۔قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی جب آپ بنی اسرائیل کے درمیان مبعوث کئے گئے ،فرماتاھے             

[6]

”۔۔۔اورمیں بعض ان چیزوں کو حلال قرار دوگاں جو تم پر حرام تھیں ۔۔۔“

اس طرح گذشتہ شریعت کے بعض احکام کا نئی شریعت میں نسخ کردیا جانابھی دو شریعتوں میں ایک قسم کے اختلاف کا باعث بنا ھے ۔

ج:اختلاف کی تیسری قسم ایسے مقامات سے تعلق رکھتی ھے جھاں کسی دین میں ایک حکم بنیادی طور پر جس وقت بیا ن کیا گیاھے اسی وقت سے اس کو ایک خاص گروہ یا خاص قوم سے اس طرح مخصوص کردیا گیا ھوکہ حتّیٰ اس حکم میں خود اس قوم کے معاصر دوسرے گروھوں یا قوموں کو شامل نہ کیا گیا ھو۔چنانچہ بنی اسرائیل پر حرام کی جانے والی بعض چیزیں اسی قسم کی تھیں :

قر آن کریم میں ارشا د ھو تا ھے :

[7]

”پس ان یھو دیو ں کے ظلم کی بنا ء پر ھم نے جن پا کیزہ چیزو ں کو حلال کر رکھا تھا ان پر حر ا م   کر دیا اور ان کے بہت سے لو گو ں کو را ہِ خدا سے رو کنے کی بنا پر ۔اور سود لینے کی بناء پر جس سے انھیں روکا گیا تھا اور ناجائز طریقہ سے لوگوںکا مال کھانے کی بناء پر ۔اور ھم نے کافروں کے لئے بڑا دردناک عذاب مھیا کیا ھے “

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ان آیات میں بظاھر (من الذین ھادوا )سے یہ پتہ چلتاھے کہ بعض حلال امور کا حرام کھا جانامخصوص طور پر بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ھے اور ان کے درمیان عام طور پر رائج بعض گناہ(جیسے ظلم و ستم کرنا اور سود لینا)اس کا سبب بنے تھے ۔اس بناء پراگر اسی زمانہ یا اس کے بعد والے زمانوں میں کوئی پیغمبر کسی دوسری قوم میں مبعوث کیا جائے گا تو اسکی شریعت میں یہ چیز حرام نھیں ھوگی ۔

یھاں یہ بات بیان کردینا ضروری ھے کہ اختلاف کی آخری دو قسموں کے درمیان بہت باریک فرق ھے۔دوسری قسم کے اختلافا ت ھمیشہ دو مختلف زمانوں کے لحاظ سے رو نما ھوئے ھیں کیونکہ اس کے ذیل بھی وہ مقامات آتے ھیں کہ جھاں ایک حکم کسی مخصوص شریعت میں ایک خاص زمانہ کیلئے بنایا جاتاھے اور کچھ مدت گذر جانے کے بعد وہ حکم دوسری شریعت میں منسوخ ھوجاتاھے۔لیکن تیسری قسم کا اختلاف ایک زمانہ میں بھی اس طرح واقع ھوسکتا ھے کہ فرض کیجئے دو شریعتیں ایک دوسرے کی معاصرھیں اور ان میں سے ایک شریعت میں ایسا حکم موجود ھے جو کسی ایک قوم سے مخصوص ھے لیکن دوسری شریعت میں (جو دوسری قوم کیلئے نازل ھوئی ھے )وہ حکم نھیں پایا جاتا

بھر حال یہ جو کچھ میں نے عرض کیا وہ مختلف طریقوں سے ادیان الٰھی کے درمیان ممکنہ یاواقعی اختلاف کی قسمیں ھیں اور اس مقام پر دو نکتوں کی طرف توجہ لازم ھے :

ایک :جیسا کہ غور و فکر سے یہ بات آشکار ھوجاتی ھے کہ مختلف شریعتوں میں بیان شدہ تمام اختلافات مشیّت الٰھی کے تابع ھیں اور ان میں حقیقی مصلحتیں پائی جاتی ھیں جو مختلف قوموں کے درمیان موجود مخصوص حالات جو شرطیں اور خصوصیّات کے تحت ھیں۔دوسرے لفظونمیں یہ اختلافات امتوں پرزبر دستی نھیں لادے گئے تھے اور نہ ھی شارع مقدّس کے دائرہ ارادہ سے خارج تھے ۔

دو :ادیان الٰھی کے پیروں کے درمیان کچھ اختلافات ان تحریفات کی وجہ سے وجود میں آئے ھیںجو خود آسمانی شریعتوں کے طرفداروں نے تاریخ کے طویل دور میں انجام دئے ھیں ۔چنانچہ ھم نے اس سے قبل جو تقسیم بندی کی تھی اس میں اس طرح کے اختلافات کو مد نظر نھیں رکھا گیا ھے ۔

دین کے اندر اختلافات :

اب یہ دیکھنا چاھےے کہ مندرجہ بالا اختلاف کی تینوں قسمیں کیا ایک ھی دین میں راہ بنا سکتی ھیں الٰھی ادیان میں اختلاف کی پھلی قسم دینی احکام قوانین کے دائرے میں اختلاف سے تعلق رکھتی ھے اور بظاھر اس طرح کے اختلاف ایک ھی دین میں پایا جاناممکن ھے۔اس میں کوئی شک نھیں کہ پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بعثت کی ابتداء میں تمام احکام ایک ساتھ نازل ھوئے ھیں بلکہ اسلامی احکام بعثت کے بعد کئی سال کے دور ان کے بعد دیگر پھونچائے گئے ھیں ۔پیغمبر اکرم ابتداء میں محدود دائرے میں کچھ احکام لیکر آئے تھے اور پھر ان احکام میں آھستہ آھستہ قدم بہ قدم وسعت عطا کی ھے ۔اس تاریخی حقیقت کے پیش نظر ممکن ھے کہ ایک دین کے احکام کا دائرہ اس دین کے حامل کی زندگی کے دوران دو مختلف مرحلوں سے گذرے :ایک مرحلہ میں دائرہ احکام محدود ھوا اور دوسرے مرحلہ میں دائرہ احکام وسیع اور پھیلاھوا ھو ۔

یھاں پہ یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اس طرح کا اختلاف ایک دین کو کئی ادیان قرار دینے کا باعث نھیں ھوتا اور اسی وجہ سے الٰھی ادیان میں اس قسم کے اختلاف کو خدا کے دین میں بنیادی دوئی اور کثرت کی دلیل اور علامت نھیں سمجھناچاہئے ۔دوسرے لفظوں میں جس طرح یہ اختلاف اندرونی طورپر (اسلام جیسے)ایک دین میں ممکن ھے اس طرح کے اختلاف اگر دودین کے اندر ھوں تو اس کو ان کے درمیان اور بنیادی اختلاف کی دلیل نھیں بنا یا جاسکتا ۔

دوسری قسم کے اختلاف میں بھی یھی بات صادق آتی ھے ۔اس میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے کہ اسلام کے آغاز میںبعض احکام (جیسے قبلہ کا مسئلہ )ایک عنوان سے بیان کیاگیا اور اسکے بعد وہ حکم منسوخ کرکے دوسرا حکم دیدیا گیا اسی طرح سوره نور میں اکثر مفسرّین قرآن کے خیال کے مطابق ایک ایسا حکم بیان ھوا ھے جو بعد میں منسوخ کردیا گیا :

[8]

”زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عو رت ھی سے نکا ح کر ے گا اور زانیہ عو رت زانی مرد یا مشرک مرد ھی سے نکا ح کرے گی کہ یہ صا حبانِ ایمان پر حرام ھیں “

اکثر مفسروں کے عقیدے کے مطابق مندرجہ بالا آیت سے ایک مسلمان زانی یا زانیہ کا کسی مشرک کے ساتھ شادی کرنا جائز ھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ھوگیا۔اور موجودہ حکم شرعی کے تحت اس طرح کی شادی صحیح نھیں ھے ۔یھاں یہ بات بھی بیان کردینا ضروری ھے کہ عصر حاضر کے بعض بزرگوں نے اس آیت کی ایک دوسرے طریقہ سے تفسیر کرتے ھوئے کھا ھے کہ اس آیت میں حکم شرعی بیان نھیں ھوا ھے ۔لیکن حق یھی ھے کہ یہ آیت حکم شرعی کے بیان میں ظھور رکھتی ھے یعنی بظاھر اس میں شرعی حکم بیان ھوا ھے ۔

بھر حال اس میں کوئی شک نھیں کہ اسلام کے بعض ابتدائی احکام منسوخ بھی ھوئے ھیں ۔اس بناء پر خود ایک شریعت کے اندر نسخ واقع ھونا ایک ممکن امر ھے اور اس شریعت کی وحدت کو کوئی ضرر نھیں پھنچتا ۔اگر کسی شریعت میں کوئی حکم خدا ایک مدت تک ثابت رھے اور اسکے بعد منسوخ ھوجائے تو اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ وہ شریعت ھی بدل گئی ھے ۔اس بناء پر جس طرح ایک دین کے اندر کسی حکم منسوخ ھونا کسی شریعت یا دین ھونے کا باعث نھیں ھوتا اسی طرح کسی پیغمبر کے ذریعہ ایک الٰھی دین کے گذشتہ احکام کا منسوخ کیا جانا ان دونوں شریعتوں میں کسی بنیادی اختلاف کی دلیل نھیں کھاجائے گا۔مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بعض احکام منسوخ ھوگئے بالکل اسی طرح ھے کہ جیسے مذکورہ احکام خود حضرت موسیٰ (ع)کے دور حیات میں منسوخ ھوگئے ھوں ۔اور ان دونوں مفروضوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق نھیں ھے مختصر یہ کہ دو شریعتوں میںاختلاف کی یہ دوسری قسم بھی (پھلی قسم کی طرح )بنیادی طورپر کئی ادیان ھونے کا باعث نھیں ھے ۔اب اختلاف کی تیسری قسم کے بارے میں کیا کھا جائے گا؟کیا اختلاف کی یہ قسم بھی کسی دین کے اندر واقع ھوئی ھے ؟اسکے جواب میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ بہ ظاھر اس طرح کا اختلاف ایک دین کے اندر ممکن ھے ۔اور اس میں کوئی عقلی قباحت نھیں ھے ۔یعنی ممکن ھے ایک شریعت کے بعض احکام کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ھوں اور بقیہ تمام احکام عام ھوں۔

بیان شدہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ مختلف ادیان الٰھی کے درمیان موجود اختلافات کو ایک ھی دین میں اسکے مشابہ اختلافات کے وقوع یا امکان وقوع کی بنیاد پر ان کی ذات میں جدائی کا باعث نھیں قرار دیا جاسکتا ۔اس اساس و بنیاد پر کھا جاسکتا ھے کہ حقیقی دین ایک ھی ھے اوروہ اسلام کے علاوہ کچھ نھیں ھے ۔لیکن زمانے کے تقاضوں کے اعتبار سے ان کے احکام کے دائرے اور ان پر عمل کرنے والوں کے لحاظ سے تبدیلی ھوئی ھے ۔اس بناء پر تمام ادیان الٰھی کی اساس و بنیاد ایک ھے اگر چہ زیر بحث اختلافات کی موجود گی کے تحت ایک طرح سے ادیان الٰھی کا کئی یاالگ الگ دین ھونا نظر میں رکھا جاسکتا ھے ۔اس سے زیادہ واضح الفاظ میں یوں کھا جاسکتا ھے کہ حقیقت دین ایک ھی ھے اور یہ حقیقت واحدہ وھی اسلام (اپنے معنائے عام میں )ھے:لیکن تاریخ کے طویل دور میں زمانہ کے تقاضوں کے لحاظ سے مختلف شریعتیں انسانوں کے درمیان نازل ھوئی ھیں۔اس بناء پر دین الٰھی کا ایک ھونا شریعتوں کے کئی ھونے کے ساتھ بالکل سازگار ھے ۔

عا لمی رسالت کا مفھو م

اولو االعزم پیغمبروں کی رسالت کے عالمی ھو نے کے مسئلہ کا جوا ب عرض کر نے سے پھلے  ایک اور با ت مقدمہ کے طور پر  بیا ن کر دینا ضرو ری سمجھتا ھو ں  وہ یہ کہ رسالت کے جھا نی ھو نے سے مراد کیا ھے ؟اگر کسی بھی صو رت سے تما م قو مو ں سے رابطہ اور ملتو ں سے رابطہ بر قرار کر کے ان تک خدا کا پیغام پھو نچانا ایک رسو ل کے فر ائض میں شا مل ھو تو اس کو عالمی رسالت کا حا مل رسو ل کھا جاتا ھے ۔ اس کے با لمقابل ایک پیغمبر کی رسا لت اس وقت تک عالمی نھیں ھو گی کہ جب تک پوری دنیا تک اپنی دعوت پھو نچانا ا س کے فر ائض میں شا مل نہ ھو بلکہ وہ ایک خا ص قوم کے لئے مبعوث کیا گیا ھو ، یقینا ایک پیغمبر کے تمام لو گو ں کے لئے مبعوث نہ کئے جا نے کی مختلف وجھیں ھو سکتی ھیں :

ایک دفعہ ممکن ھے تمام قو مو ں سے رابطہ بر قرار کر نے کے مروجہ وسا ئل اس کے پا س نہ ھو ں ،یا پیغمبر کے اختیار میں اصو لی طور پر اس طرح کا فریضہ انجام دینے کے لئے مو قع نہ ھو ۔ سب جا نتے ھیں کہ گز شتہ زما نوں میں دور دراز علا قو ں سے رابطہ بر قرار کر نا آسان کام نھیں تھا اور بعض دور دراز  ملکو ں کا سفر کر نا عام طور پر ایک غیر ممکن امر شمار کیا جا تا تھا ۔ظا ھر ھے ایسے حا لات میں جبکہ سفر کے وسائل بالکل ابتدا ئی تھے اور ایک شخص کے لئے پو ری دنیا سے رابطہ بر قرار کر نے کا امکان نھیں تھا ۔

ممکن ھے کو ئی کھے اگر چہ گز شتہ زما نوں اور دور دراز علا قو ں سے عام طور پر رائج طریقو ں سے رابطہ بر قرار کر نا ممکن نہ رھا ھو ۔ لیکن الٰھی انبیاء علیھم السلام کے لئے کسی غیر معمو لی طریقے ، مثلاً معجزہ وغیرہ سے کام لیکر اس کام کا انجام دینا مسلم طور پر ممکن تھا ۔ ا س کے جوا ب میں اس بات پر توجہ دینی   چا ہئے کہ تا ریخی شو ا ھد کی روشنی میں انبیاء(ع) کی روش یہ رھی ھے کہ اس طرح کے مو قعو ں پر وہ غیر معمولی طریقے یعنی معجزے وغیرہ سے کام نھیں لیتے تھے۔ خدا کے پیغمبر مخصوص مقا مات پر ھی معزہ دکھا نے کا اقدام کیا کر تے تھے اور یہ مقا مات بھی صرف ان کی رسالت اور دعوتِ تبلیغ میں آسانی کے لئے  وہ اعجاز کا سھا را نھیںلیتے تھے ۔

بھر حال یہ بات مسلّم ھے کہ تمام قو موں اور ملّتوں کے ساتھ رائج طریقہ سے رابطہ بر قرار کر نا تمام پیغمبروں کے لئے ممکن نھیں تھا ۔ اور بظا ھر دنیوی وسائل سے ما فوق غیر معمو لی طریقوں سے استفا دہ کر نے پر وہ ما مور بھی نھیں تھے ۔ مذ کو رہ مفھو م کی بنیاد پر یہ ادّعا کیا جا سکتا ھے کہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت پو ری دنیا کے لئے عا لمی رسالت تھی اور آپ(ع) اپنی دعوتِ تبلیغ میں غیر عرب اقوام تک الٰھی پیغام پھو نچا نے کے لئے ما مور کئے گئے تھے ۔ لیکن بقیہ تمام انبیاء(ع) کی رسالت بظاھرعا لمی رسالت نھیں تھی ۔

یھا ں ، چند با توں پر تو جہ دینا ضر وری ھے :

پھلی بات یہ کہ جن قو مو ں میں تبلیغ کے لئے پیغمبر بھیجے گئے تھے  ان سے مراد قو مو ں کی ایک ایک فرد نھیں بلکہ جو کچھ ان سے توقع تھی نیز جو چیز پیغمبر کے فرا ئض میں شا مل تھی اپنا پیغام قو مو ں کے سردار تک پھو نچا دینا رھا ھے ۔

دوم یہ کہ تبلیغ رسالت کی ذمہ داری  چا ھے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کے دور حیات میں پو ری ھو یا اُن کی وفا ت کے بعد آپ (ع)  کی وفا ت کے بعد آپ(ع) کے او صیاء یعنی ائمہ معصوم کے ذریعہ  پو ری ھو دو نوں کو شا مل ھے ۔

سوم یہ کہ پیغمبر اکرم (ص)کا اپنی عمو می اور عالمی  رسالت پر فا ئز ھو نا اس معنی میں نھیں ھے کہ اب اس کا م کی راہ میں حا ئل سے تمام عملی رکا وٹیں بر طرف ھو گئی ھیں بلکہ بہت سے مقا مات پر آپ کوگویا اس نے تمام  انبیاء (ع)کی رسالت کا انکار کردیا ھے ۔یہ حکم اسی طرح ان افراد کے لئے بھی ھے جو کسی نبی کی قوم میں شمار نھیں ھوتے یعنی جس قوم کے درمیان پیغمبر مبعوث کیاگیا ھے ۔ان میں نھیں  تبلیغ میں رکا وٹوں کا سامنا کر نا پڑتا تھا اور ایسی صورت میں مسلمہ طور پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کا ندھوں سے اس کی ذمہ دا ری اٹھا لی گئی ھے ۔

تمام الٰھی انبیاء(ع) پر ایمان لا نا ضروری ھے :

ھم عرض کر چکے ھیں کہ تا ریخی شوا ھد کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے پھلے کے انبیاء علیھم السلام کی رسا لت عا لمی نھیں تھی ۔لیکن اس بات کا ھر گز مطلب یہ نھیں ھے کہ اگر ان انبیاء (ع)کی قو مو ں کے علا وہ کو ئی شخص ان کی دعوت سے آگا ہ ھو جا ئے تو اس کے لئے اس دعوت سے انکا ر جا ئز ھو ۔ جیسا کہ ھم نے اپنی کتاب ”راہ کی معر فت “میں بحث کے آخری حصے میں عرض کیا تھا کہ نبو ت ایک الٰھی سلسلہ ھے اور ھر مو من کے لئے تمام پیغمبرو ں پر ایمان لا نا ضروری ھے اس با رے میں قر آ ن کریم میں ارشاد ھو تا ھے :

[9]

” رسول ان تمام با توں پر ایمان رکھتا ھے جو اس(خدا ) کی طرف نا زل کی گئی ھیں او رمو منین بھی سب الله اور ملا ئکہ اور مر سلین پر ایمان رکھتے ھیں ان کا کھنا ھے کہ ھم رسو لوں کے درمیان تفر یق نھیں کر تے ۔۔۔“

اس بناء پر اگر کوئی کسی کو کسی پیغمبر کی رسالت کا علم اوروہ اس پیغمبر کی رسالت پر ایمان نہ لائے تو گویا اس نے تمام  انبیاء (ع)کی رسالتکا انکار کردیا ھے ۔یہ حکم اسی طرح ان افراد کے لئے بھی ھے    جو کسی نبی کی قوم میں شمار نھیں ھوتے یعنی جس قوم کے درمیان پیغمبر مبعوث کیاگیا ھے ۔ان میں نھیں ھیں مثال کے طور پر چین میں زندگی بسر کرنے والا اگر اس بات سے باخبر ھوکہ مشرقی وسطیٰ میں اس علاقے کی قوموں کیلئے ایک پیغمبر مبعوث ھواھے تو اس پر اس پیغمبر اکرم کی دعوت کا قبول کرنا لازم ھے۔

اب ممکن ھے یہ سوال پیدا ھوکہ مذکورہ اصول کے تحت ایک شخص جو دو پیغمبروں کے دور حیات میں زندگی بسر کررھا ھو اگر دونوں پیغمبروں کی رسالت سے آگاہ ھوجائے اور ان دونوں پیغمبروں کی شریعت کے بعض احکام میں اختلاف بھی پایا جاتاھے تو اس میںاس شخص کا کیا فریضہ ھے ؟اس سوال کے جواب میں کھناچاہئےے کہ:اگر بالفرض دو ھم عصر انبیاء کے درمیان اختلاف ھو تو یہ اختلاف صرف اسی صورت میں قابل تصور ھے کہ ان دونوں میں سے ایک پیغمبر کسی خاص گروہ کیلئے خاص احکام لیکر مبعوث ھواھو اس صورت میں اگر منظور نظر شخص مذکورہ گروہ سے الگ ھو(جیسا کہ کچھ خاص احکام حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت میں صرف قوم یھود سے مخصوص تھے)تو اس پر ان مخصوص احکام کا بجالانا لازم نہ ھوگا مثال کے طور پر حضرت موسیٰ (ع) کے زمانہ میں کوئی غیر یھودی شخص اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت سے با خبر ھوجائے او راس پر حضرت موسیٰ  (ع) کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ھے لیکن اس شخص پر یھودی قوم سے مخصوص احکام پر عمل کرنا لازم نھیں ھے جبکہ اس پر بقیہ تمام احکام وقوانین کی اطاعت لازم ھے ۔

قرآن کریم کی آیات کے مطابق اس کی ایک مثال یہ ھے کہ جنوںکا ایک گروہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آیا۔اور اسکے بعد حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت کا علم ھوجانے کے بعد انھوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا ۔حالانکہ ھمارے پاس کوئی دلیل ایسی نھیں ھے جو اس چیز پر دلالت کرتی ھوکہ حضرت موسیٰ (ع) جنوں کے لئے مبعوث نھیں کئے گئے تھے کچھ ایک گروہ توریت کے نازل ھونے کی خبر ملنے کے بعد حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا قر آن کریم میں ارشاد ھو تا ھے :

[10]

”اور جب ھم نے جنات سے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا کہ قرآن سنیں تو جب وہ حاضر ھوئے تو آپس میں کھنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ھوگئی تو فوراً پلٹ کر اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر آگئے کھنے لگے کہ اے قوم والوھم نے ایک کتاب کو سنا ھے جو موسیٰ کے بعد نازل ھوئی ھے یہ اپنے پھلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ھے اور حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ھدایت کرنے والی ھے “

جنوں نے یہ جو کھا ھے کہ:”مِنْ بَعْدِ مُوسَیٰ“”موسیٰ کے بعد“اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درمیان میں کوئی ذکر نہ کرنا بتاتا ھے کہ ابھی تک وہ (جن)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کررھے تھے اور قرآن سے آشنا ھوجانے کے بعد انھوں نے اپنی قوم کے پاس جاکران کو اسلام کی دعوت دی۔سوره مبارکہ جن میں بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا گیا ھے ارشاد ھوتا ھے:

[11]

”پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ھے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا توکھنے لگے کہ ھم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ھے۔جو نیکی کی ھدایت کرتا ھے تو ھم اس پر ایمان لے آئے ھیں۔۔۔“

بھر حال یہ آیتیں اس بات کی شاھد ھیں کہ اگر کوئی مکلّف کسی پیغمبر کی رسالت سے باخبر ھوجائے تو اسکو اس پیغمبر (ص)کی رسالت قبول کرنا چاہئےے چاھے وہ پیغمبر اس قوم کی طرف مبعوث نہ کیاگیا ھو۔اور رسالت قبول نہ کرنے کے بعد اس پیغمبر کی تعلیمات کو بھی صحیح سمجھے اور اس کے عام احکام کی (جو کسی قوم یا گروہ سے مخصوص نہ ھوں )اطاعت و پیروی کرلے ۔

البتّہ الٰھی انبیاء کی رسالت کے پیغامات پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ھوجاتی ھے کہ کسی قوم یا گروہ کیلئے مخصوص احکام انگلیوں پر گنے چنے ھی ملیں گے۔مجموعی طور پر انبیاء (ع) کی تعلیمات کی روح سبھی کے لئے مشترک احکام اور اصول پر استوار ھوتی تھی ۔

مثال کے طور پر نماز اور زکوٰة کی مانند عبارتیں تمام ادیان میں تھیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ اختلاف ان اعمال کی شکل و صورت میں رھاھے اسی طرح دوسرے احکام جیسے ظلم اور زیادی کرنے کے تولنے،غیبت کرنے ،شراب پینے ،زنا کرنے وغیرہ کی ممانعت اور معاشرتی اور خاندانی  تعلقات سے متعلق قوانین تمام دینوں میں بیان کئے گئے ھیں ۔

بھر حال مندرجہ بالامطالب سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ایک پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت کے عالمی ھونے کا مسئلہ اور یہ کہ علم کی صورت میں ایک پیغمبر (ص)کی رسالت پر پوری دنیا کا ایمان لانا ضروری ھوتاھے یہ دو الگ الگ مسئلے ھیں اور ایک دوسرے سے جداھیں اس بناء پر بہت سے انبیاء(ع)کی رسالت کے عالمی رسالت نہ ھونے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ عوام الناس ان کی تاٴئید یا تکذیب کے سلسلے میں آزاد و خود مختار ھوں۔بلکہ اگر کسی پیغمبر (ص)کی رسالت پر ایمان لاناھر مکلّف کا فریضہ ھے اور نبی کی تکذیب کی صورت میں اسکا عذر ھرگز قابل قبول نھیں ھے ۔

ھم پھلے یہ بات عرض کرچکے ھیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض انبیاء (ع)کے فرائض دو قسم کے تھے:

پھلافریضہ: تو حید کی دعوت دیناتھا ۔

دوسرا فریضہ :ان تمام اصول اور احکام کی دعوت دینا تھا جو کسی خاص قوم سے مخصوص ھوتے تھے ۔

مذکورہ گز ارشات کے پیش نظر یہ کھا جاسکتا ھے کہ یہ خیال درست نھیں ھے ۔اسلئے کہ انبیاء کے تمام احکام و قوانین ان تمام افراد کے لئے لازم العمل ھیں جو ان کی رسالت سے آگاہ ھوجائیں قرآن کریم کے مطابق خدا کے پیغمبر جس طرح لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی دعوت دیا کرتے تھے ان کو مطلق طور پر اپنی اطاعت اور پیروی کی دعوت بھی دیتے تھے قرآن کریم فرماتاھے :

[12]

”اور ھم نے کسی رسول کو بھی نھیں بھیجا ھے مگر صرف اس لئے کہ حکم خداسے اس کی اطاعت کی جائے ۔۔۔“

قرآن کریم نے بہت سے انبیائے الٰھی کی زبانی اعلان کیا ھے ارشاد ھو تا ھے :

[13]

”لہٰذا اس سے ڈرواور میری اطاعت کرو “    

اور ایک آیت میں ار شاد ھو تا ھے :

[14]

”بابرکت ھے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ھے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰھی سے ڈرانے والابن جائے “

اس بناء پر ایسا نھیں ھے کہ مثلاً مصر کے قبیلوں سے متعلق حضرت موسیٰ  (ع) کی رسالت (چونکہ بنی اسرائیل کے ھم قوم نھیں تھے )اس بات میں محدودھوکہ وہ ان کو بھی بت پرستی چھوڑنے اور خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش کرنے کی دعوت دیں لیکن ان کی اعتقادی یا عملی رخ سے اس منزل کی طرف رھنمائی سے پرھیز کریں ۔ ایسا نھیں ھے بلکہ (جیساکہ ھم پھلے بیان کرچکے ھیں )اگر یہ تسلیم کرلیں کہ حضرت موسیٰ (ع) شروع میں صرف بنی اسرائیل کیلئے مبعوث کئے گئے تھے تو بھی آپ کی دعوت کے دائرے میں قبطیوں کے آجانے کے بعد موسیٰ (ع) پر لازم ھوگیا تھاکہ ان کو بھی اپنی تعلیمات سے(تمام تفصیلات کے ساتھ)آگاہ کردیں اور خود ان (قبیلوں)کا بھی فریضہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت کو قبول کریں اور اسکے تمام احکام پر (سوائے ان قوانین کے جو یھودی قوم سے مخصوص تھے ) عمل کریں ۔

انبیاء (ع)کی رسالت کا عالمی ھونا

گفتگو کے اس حصہ میں بیان کئے گئے مطالب سے صاف صاف یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ھے کہ ایک معنی کے لحاظ سے اگر رسالت کے عالمی ھونے کا جائزہ لیں تو بہت سے انبیاء کو پوری دنیا کیلئے نھیں بھیجا گیاتھا لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے تمام انبیاء کی رسالت پوری دینا کیلئے تھی یعنی اگر رسالت کے عالمی ھونے کامطلب یہ ھو کہ پیغمبر کا فریضہ وہ اپنی تعلیمات صرف اپنی قوم تک محدود نہ رکھے بلکہ دنیا کی تمام یا کم از کم اھم قوموں تک ضرور پھونچائے تو اس معنی میں بہت سے پیغمبر یھاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (ع) کی رسالت بھی عالمی رسالت نھیں تھی لیکن اگر عالمی رسالت کا مطلب یہ ھو کہ متعلقہ تمام ”قوموں تک سابقے کی صورت میں اپنی رسالت کا پیغام پھونچانا نبی پر لازم ھے اور کسی نبی کی نبوت سے آگاہ ھونے کے بعد تمام مکلفین پر اسکی اطاعت و پیروی لازم ھے “تو اس معنی میں تمام انبیاء کی رسالت عام اور عالمی رسالت تھی ۔

پیغمبر اسلام کی رسالت کا عالمی ھونا:

اگر چہ پیغمبر اسلام (ص)کی عالمی رسالت پر گفتگو ۔ نبوت خا صہ کی بحث میں(پیغمبر اسلام (ص)سے متعلق بحث کے تحت ) کی جا تی تو زیادہ منا سب ھو تا مگر یھا ں مجمو عی طور پراس مسئلہ کا بیان کر دینا بھی شا ید بے جا نہ ھو گا ۔ بنیا دی سوال یہ ھے کہ ” کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)عالمی رسالت کے حا مل تھے ؟“

ایسا محسو س ھو تا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت کا عا لمی ھو نا اسلام کے ضر وریات دین میں سے ھے ۔ پھر بھی منا سب معلوم ھو تا ھے (خا ص طور سے مخا لفین نے جو شبھات ایجا د کئے ھیں ) ان سے بر طرف کر نے کے لئے فر یقین کی دلیلو ں کا جا ئزہ لیں اور اپنا مد عا علمی دلا ئل سے ثا بت کر یں ۔ اس بحث میں اُن آیات کا جو اسلام کی عالمی رسالت کو ثابت کر تی ھیں اور ان آیات کا جن سے مخا لفین نے استفا دہ کیا ھے تحقیقی جا ئزہ لینا ضر و ری ھے ۔

قرآن کریم کی کچھ آیات با لکل واضح طور پر دعو ت اسلام کے عا لمی ھو نے پر دلالت کر تی ھیں  ایک آیت میں ارشاد ھو تا ھے :

[15]

”وہ ذات (خدا )بہت با بر کت ھے جس نے اپنے بندے پر فر قان (یعنی حق کو با طل سے جدا کر نے والی کتاب )نا زل کی تا کہ تما م دنیا وٴ ں کے لئے ڈ را نے والا ھو “یہ آیت صاف طور پر دلالت کر تی ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تمام عالمین کے لئے ”نذ یر “ بنا کر  مبعو ث کئے گئے ھیںاور انذار یعنی خبر دار کر نے کا فریضہ (جو آپ کی رسالت اور پیغمبری کا حصہ ھے ) کسی خاص قوم یا گروہ سے مخصوص نھیں ھے ۔ ایک اور مقام پر قرآن نبی اکرم (ص)کی زبا نی کہتا ھے :

[16] 

”۔۔۔اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے وحی کیاگیاھے کہ میںتمھیںاورجس شخص تک اس کاپیغام پھنچے اس کے ذریعہ اسے ڈراوٴں۔۔۔“

جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا کہ اس آیت میں ” مَنْ بَلَغَ “ایک عمو می تعبیر ھے ”کہ جس تک بھی یہ پیغام پھو نچے“یعنی اسلا می دعو ت کے تحت آنے وا لے تمام افراد چا ھے (وہ کسی بھی قوم و گروہ اور وہ کسی بھی جگہ اور زمانہ سے کیو ں نہ تعلق رکھتے ھو ں )سب شا مل ھیں ۔ قرآن میں ار شاد ھوتا ھے :

[17]

”اور  (اے  رسول )ھم نے آپ کو  دنیا وٴں کے لو گو ں کےلئے سر ا پا رحمت بنا کر بھیجا ھے “

البتہ آخر ی آیت دلا لت کے لحا ظ سے پھلی دو آیتو ں کے ما نند نھیں ھے اس لئے کہ ”پیغمبر کا تمام دنیا وٴں کے لئے رحمت ھو نا “صاف طو ر پر تمام دنیا وٴ ں کے لئے مبعوث ھو نے پر بھی دلالت نھیں کرتا لیکن اس کے با وجود آ خری آیت سے بہ ظا ھر یہ مطلب بھی نکلتا ھے کیو نکہ پیغمبر اکرم (ص)کے رحمت ھو نے میں یقینی طور پر وہ رحمت شا مل ھے جو را ہِ حق کی ھدا یت اور امت کی رھنما ئی کے ذریعہ ان کو نصیب ھو تی ھے ۔

قر آ ن کریم کی بعض آیتیں اس چیز کو بیان کر تی ھیں کہ دینِ اسلام تمام ادیان پر غالب آ جا ئے گا ۔یہ اور اس طرح کی آیا ت بھی اپنی جگہ پیغمبر اکرم (ص)کی رسالت کے عا لمی ھو نے پر دلالت کر تی ھیں ۔ قر آن کریم میں ایک مقام پر ارشا د ھو تا ھے :      

[18]

” وہ وھی توھے جس نے اپنے رسو ل کو ھدایت کے(قصد) سے سچادین دے کر بھیجا تا کہ اس کو تمام ادیا نِ عا لم پر غالب بنا ئے اور گو اھی کے لئے توبس خدا ھی کا فی ھے “

اسی مطلب کو قر آ ن حکیم میں خدا فر ما تا ھے :

[19]

”وہ خدا وہ ھے جس نے اپنے رسو ل کو ھدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے چا ھے مشر کین کو کتنا ھی نا گوا ر کیو ں نہ ھو “

یہ آیتیں صاف صاف اس چیز پر دلالت کر تی ھیں کہ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب و کا مران ھو گا اور ان کو صفحہٴ ھستی سے مٹا دے گا یا کم سے کم دو سرے ادیان پر دین اسلام چھا جا  ئے گا ۔ اور یہ حقیقت دین اسلام کے عا لمی ھو نے کے علاوہ اور کچھ بیا ن نھیں کر تی ۔

یھا ں یہ بات بھی لا ئق ذکر ھے کہ ”غلبہ “کے مفھو م میں دو احتمال پا ئے جا تے ھیں :

۱۔غلبہٴ تشر یعی ۔ 

۲۔غلبہٴ تکو ینی ۔

پھلے مفھوم سے جو بات لا زم آتی ھے وہ ھما رے مد عا سے بہت قر یب ھے اس لئے کہ اس کا  کو ئی مطلب ھی نھیں ھو گا کہ دین اسلام تو عا لمی نہ ھو لیکن اس کے اصو ل و قو انین دو سرے تمام ادیان کے اصو ل و قو انین پر حا کم ھو جا ئیں ۔ اور اگر دوسرے معنی بھی مرا د لئے جا ئیں تو آیت کا سیاق اس چیز کو بیان کر رھا ھے کہ یہ غلبہ وہ استحقاق ھے جو دین اسلام کی ذاتی صلا حیتو ں کا نتیجہ ھے اور تمام ادیان پر غلبہ کی صلا حیت صرف اسلام کی عا لمی دعو ت کے ساتھ ھی معقول ھو سکتی ھے ۔ بنا بر این اگر اسلام کے تمام ادیان پر غالب آجا نے سے مراد حتی اس کا تکو ینی غلبہ ھو تو یہ غلبہ بھی اسلامی احکام و شریعت کے دو سرے تمام احکام و قو انین پر غالب آجا نے کو فرض کئے بغیر قا بلِ تصو ر نھیں ھے ۔

قر آ ن کی آیات کا دو سرا مجمو عہ وہ ھے جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ” ناس “یعنی (انسانو ں) کے درمیان مبعوث ھو نا اور قرآن کا  ” ناس “کے لئے نا زل ھو نا ذکر ھو ا ھے ۔ مثال کے طور پرقر آن حکیم میں ارشا د ھو تا ھے :

[20]

”  (اے رسول یہ قر آن وہ) کتا ب ھے جو ھم نے آپ کی طرف اس لئے نا زل کی ھے تا کہ آپ لو گو ں کو حکمِ خدا سے تا ریکیو ں سے نکا ل کر روشنی میںلا ؤ اس کی سیدھی راہ پر لا ؤ جو سب پر غالب اور سزا وا ر حمد ھے“

اسی طرح دوسری آیت میں ارشا د ھو تا ھے :

[21]

”یہ قرآن لو گو ں کے لئے ایک پیغام ھے (تاکہ اسی کے ذریعہ ھدایت یا فتہ ھو جا ئیں )  اور اس کے ذریعہ (عذا ب خدا سے )ڈرتے رھیں “

کچھ دوسری آیتوں میں قر آن کریم کا ایک ایسی کتاب کے عنوان سے ذکر ھے جو سا ری دنیا کے لئے بھیجی گئی ھے !

قر آ ن حکیم میں ارشاد ھو تا ھے:

[22]

” اوریہ( قر آن) تو عا لمین کے لئے سوا ئے نصیحت کے (کچھ نھیں )ھے “

اور ایک دوسری آیت میں ارشاد ھو تا ھے :

[23]

”اور حا لانکہ یہ( قرآن )تو سا رے جھان کے وا سطے سوا ئے نصیحت کے اور کچھ نھیں ھے “

چو نکہ ” ناس“ یعنی ”لوگ “ اور عا لمین ”یعنی تمام دنیا ئیں “جیسے الفاظ صاف طور پر قر آ ن کریم اور پیغمبر (ص)کی رسالت کے مخا طبین کی عمو میت پر دلا لت کر تے ھیں کھا جا سکتا ھے کہ یہ آیات بھی رسالت اسلام کے مکمل طور پر عا لمی ھو نے کی دلیل ھیں۔

مخا لفین کی دلیلو ں پر ایک نظر :

مذکو رہ آ یتو ں کے پھلو بہ پھلو دو سری آیات بھی ھیں جو ممکن ھے پھلی نظر میں دین اسلام کے  عا لمی نہ ھو نے پر دلا لت کر تی محسو س ھو ں چنا نچہ ان آ یات کو بعض نے پیغمبر اکرم (ص)کی دعو ت اسلام کے مخصوص ھو نے کے اپنے دعو ے کو ثا بت کر نے کے ثبو ت کے طور پر پیش بھی کیا ھے یہ شبہ اس لئے پیدا ھوا ھے کہ آ یات میں عرب قوم یا ان کے کسی مخصوص گرو ہ کو ”انذار کر نے یعنی ڈرا نے کی بات کی گئی ھے جیسا کہ سوره شوریٰ میں ارشاد ھو تا ھے :

[24]

”اور ھم نے اسی طرح آپ پر عربی قر آن کی وحی بھیجی تا کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والو ں کو ڈرائیں “

اوردوسرے سورہ میں ارشاد ھو تا ھے :

[25]

”اور یہ (قرآن) وہ کتا ب ھے جس کو ھم نے برکت  کے ساتھ نا زل کیا ھے اور (یہ کتاب ) ان کتا بو ں کی تصدیق کر تی ھے جو اس کے پھلے آ چکی ھیں اور اس لئے  نا زل کیاھے کہ آپ مکہ اور

اس کے اطراف میں رھنے وا لو ں کو ڈرائیں “

ان آیات میں پیغمبر کے ذریعہ انذار یا ڈرا ئے جا نے کے مخا طب مکہ اور ا س کے اطراف کے لوگ بیان کئے گئے ھیں ۔

ایک اور آیت میں آیا ھے :

[26]

”تا کہ آپ ان لو گو ں کو کہ جن کے باپ دادا ڈرائے نھیںگئے اور غفلت میں پڑے رہ گئے ڈراوٴ “

اورمقا م پر ارشاد ھو تا ھے :

[27]

”آپ ان لو گوں کوجن کے پاس آپ سے پھلے کو ئی ڈرا نے والا نھیں آیاڈراوٴ “

یہ آیتیں بھی اس چیز کو بیان کر تی ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس قوم کے انذار کے لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ جس کے درمیان آ پ سے پھلے خدا وند عالم کی جا نب سے کو ئی انذار کر نے والا نھیں آیا تھا ۔ اور بہ ظاھر اس قوم سے مراد بھی اھل عرب ھیں ۔

سوره شعراء میں بھی آیا ھے کہ پیغمبر (ص)اپنے اقرباء کو انذار کر نے کے لئے ھی مبعوث کئے گئے تھے ارشاد ھو تا ھے:

[28]

”پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ دا روں کو ڈرا ئیے“

جیسا کہ ھم اشارہ کر چکے ھیں پھلی نظر میں ان آیات سے یھی گمان پیدا ھو تا ھے کہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعو ت رسالت ایک خا ص جما عت سے مخصوص تھی  ۔ لیکن ان آیات کے اسلوب و روش پر غور کر نے سے یہ بات وا ضح ھو جا تی ھے کہ ان میں سے کو ئی بھی آیت پیغمبر اکرم (ص)کی دعوت کو کسی جما عت میں منحصر و مخصوص ھو نے پر دلالت نھیں کر تی ۔ ان میں کچھ آیتیں اس بات کو بیان کر تی ھیں کہ پیغمبر (ص)عر بوں کے درمیان کیوں مبعوث ھو ئے ؟اور بیان کر تی ھیں کہ اس کی ایک وجہ عر بو ں کا ایک عرصہ سے انبیا ئے الٰھی سے محر وم ھو نا تھا اور یہ مسئلہ خود اپنی جگہ اس بات کا سبب بنا کہ وہ عام طور پر جھا لت و بے خبری کی زندگی بسر کر رھے تھے ۔ ظا ھر ھے کہ پیغمبر اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا عر بوں کے در میان مبعوث ھو نا کسی بھی طرح آپ ٌ کی رسا لت کا ان (عر بوں )سے مخصوص ھو نا نھیں کھا جا سکتا ۔ یہ آیات بھی کچھ دو سری آیات سے ملتی جلتی ھیں جو بیان کر تی ھیں کہ عر بوں کے درمیان کیو ں خو د ان ھی کی قو م سے پیغمبر مبعوث ھو ئے سوره شعراء میں ارشاد ھو تا ھے :

[29]

”اور اگر ھم اس قر آ ن کو کسی غیر عرب زبان قوم میں نا زل کر تے اور (پیغمبر ) ا ن کے سا منے پڑھتا تو وہ اس پر ایمان نہ لا تے“

ھما ری بحث سے مر بوط بعض دو سری آ یتیں پیغمبر اکرم (ص)کی دعوت کے مختلف مر حلوں کو بیان کر تی ھیں ۔ ھم جا نتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعوت اگر چہ سبھی کے لئے تھی پھر بھی تبلیغ کی راہ   ھموا ر کر نے اور عملی رکا وٹو ں کو بر طرف کر نے کی غرض سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعوت کا آغا ز ایک خاص دا ئرہ میں ھوا اور پھر بعد کے مر حلوں میں دا ئرہ وسیع ھو تا چلا گیا یھا ں تک کہ اپنے دور کی سب سے بڑی تہذیب و تمدن کو اس نے اپنا مخا طب قرار دیا ۔ یھی وجہ ھے بعثت کے آغاز میں ”اپنے قر یبی خا ندان وا لوں کو ڈرا یٴے“والی آیتیں صرف پیغمبر اکرم (ص)کی تبلیغ کے ابتدا ئی مرا حل کے دا ئرے کو بیان کر تی ھیں [30]بھر حال اگر چہ پھلی نظر میں ممکن ھے کہ ان آیات سے رسا لت اسلام کے محدود ھو نے کا گمان ھو ۔لیکن ان آیات انذار پر غور و فکر  کر نے سے (خاص طو ر سے ان آیات پر تو جہ کے بعد کہ جن میں رسالت کے عام ھو نے کا ذکر ھے ) یہ گمان بھی ختم ھو جا تا ھے کسی غرض یا تعصب سے عا ری وہ شخص جو عمو میت پر دلا لت کر نے وا لی آیات کو ان آیا ت کے پھلو میں قرار دے کر دیکھتا ھے تصدیق کر تا ھے کہ پیغمبر اکر م (ص)کی دعوت اسلام  عر بوں سے مخصوص نھیں تھی ۔ اس کے علا وہ تا ریخ کے مسلم الثبوت شوا ھد بھی (مثلا پیغمبر اکر م (ص)کی    جا نب سے تمام مما لک کے سر برا ھو ں کے پاس دعوت اسلام کے لئے اپنے سفیر و ں کا بھیجا جا نا اس بات کی گو ھی دیتے ھیں۔   

تبلیغ اسلام کے تئیں جِنو ں کا کر دار :

یھا ں تک یہ بات روشن ھو جا تی ھے کہ تمام لوگ (ناس) پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تبلیغ کے مخا طب تھے اب سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ کیا یہ دعوت اسلام جنا ت کے بھی شامل حال ھے ؟

بہ ظا ھر قر آ ن کر یم میں یہ بات صاف طور پر بیان نھیں ھو ئی ھے۔ ھم کہہ سکتے ھیں کہ لفظ ”ناس “  (یعنی لوگ )(جو بعض آیات میں آیا ھے جیسے ”ھدیً لِلنّاسِ “،”کَا فَّةً للنَّا سِ“اور ”بَلَا غٌ للنَّا سِ“بہ ظا ھر انسانو ں کے گروہ سے تعلق رکھتا ھے اور جنو ں کو شا مل نھیں ھے ۔ البتہ سو رئہ ”نا س “ کی آ خری آ یتوں میں یہ احتمال پا یا جا تا ھے کہ ممکن ھے ”ناس “میں جنو ں کو بھی شا مل رکھا گیا ھو۔ قر آن میں ارشاد ھو تا ھے :

[31]

”اند ر سے وسوسہ کر نے وا لے کے شر سے پنا ہ ما نگتا ھو ں جو لو گو ں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تا ھے ۔وہ  (وسو سہ پیدا کر نے والا )جنات میں سے ھو یا انسا نو ں میں سے “

عبا رت ”مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّا سِ “میں حرف ”مِنْ “ منِ بیانیہ ھے ۔ اس عبارت میںدو    احتمال پا ئے جا تے ھیں : ایک تو یہ کہ اس میں ”خنّا س “کی وضا حت کی گئی ھے ۔ دو سرے یہ کہ اس ”ناس “ کے ذریعہ ”فی صدور النّا س “ کی وضا حت کی گئی ھو ۔ چنا نچہ دوسری صورت میں آیات کے معنی یہ ھو ں گے ”لو گو ں کے دلو ں میں“ یعنی ”جنا ت اور انسانو ں کے دلوں میں “۔ البتہ حق یہ ھے کہ دو سرا احتمال بہت ضغیف ھے اور لفظ ”ناس “کا ظا ھری طو ر پر انسان سے مخصوص ھو نا نظر انداز نھیں کیا جا سکتا لیکن دو سرے احتمال کو صرف احتمال کی حد تک رد نھیں کیا جا سکتا ۔

بھر حال جن آیات میں لفظ ” ناس “استعمال ھو ا ھے وہ صاف طور پر دلالت کر تی ھیں کہ    جنا ت اسلام کی دعو ت میں شا مل نھیں تھے ۔لیکن جن آیات میں لفظ ”عا لمین “استعمال ھو ا ھے ان سے یہ مطلب نکا لا جا سکتا ھے ۔اس لئے کہ ”عا لمین “ھو ش و خرد رکھنے وا لے تما م عا قلو ں کو شا مل ھے اور اس اعتبار سے اس میں جنا ت کی جما عت بھی شا مل ھے ۔

ان آیات کے علا وہ بعض روا یات میں بھی آیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) ”ثقلین “ کی جا نب مبعوث کئے گئے ھیں [32]سوره احقاف کی آیت بھی اسی مفھو م کی تا ئید کرتی ھیں ارشاد ھو تا ھے :

[33]

”اور جب (قوم ) جن سے کچھ افراد آپ کے پاس بھیجے کہ قر آن کو سنیں ۔۔۔“

اس آیت کو اپنا مد عا ثابت کر نے اور اس پر دلیل لا نے کے لئے میں نے اس لئے نھیں پیش کیا کہ معلوم ھے آیت میں اس بات کی کو ئی تصر یح نھیں کی گئی ھے کہ پیغمبر اکر م (ص)نے جنو ں کو اپنا پیغام سنا نے کے لئے دعو ت دی ھو بلکہ ممکن ھے خدا وند عالم نے خود کو ئی سبیل نکا لی ھو کہ جنو ں کا ایک دوسری بات یہ کہ حتی اگر ھم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جن پیغمبر اسلام (ص)کی دعو ت کے مخا طب نھیں تھے اور آپ کی تبلیغ انسا نو ں سے مخصو ص تھی تو گز شتہ مطالب کی بنیاد پر جنو ں کا فر یضہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص)کی آ گا ھی کے بعد اس کو قبو ل کر ے اور اس پر ایمان لا ئے ۔

ظھو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ھو نا

قر آن کر یم کی بعض آیات سے گما ن ھو تا ھے کہ ان آیات کے مطابق پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مبعوث ھو نے کے بعدبھی دو سرے ادیا ن کی قا نونی حیثیت باقی ھے ۔

گذ شتہ بحثو ں سے یہ وا ضح ھے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نھیں ھے اور ظھو ر اسلام کے بعد اسلام سے با خبر ھو نے وا لے ھر با لغ و عا قل پر اسلام قبو ل کر نا اور مسلما نوں کی صف میں شا مل ھو نا   وا جب ھے ۔

اسی طرح قر آن میں ایسی آیات مو جو د ھیں جن میں اھل کتا ب کے بعض گرو ہ کی تعر یف کی گئی ھے ۔

نمو نہ کے طور پر ھم سوره آل ِعمران میں پڑھتے ھیں :

[34]

”یہ لوگ بھی سب ایک جیسے نھیں ھیں ۔(بلکہ) اھلِ کتاب میں کچھ لوگ درست کر دا ر بھی ھیں جو راتو ں کو  اُ ٹھکر خدا کی آیتیں پڑ ھا کر تے اور سجدے کیا کر تے ھیں “

اس آیت میں بعض اھل کتاب کی تعر یف سے ممکن ھے یہ گمان پیدا ھو کہ دین اسلام کے ساتھ ھی قر آن نے ان کی بھی تا ئید کی ھے اور ان کے دین کی قا نو نی حیثیت کو قبول کیا ھے ۔ لیکن یہ خیال غلط ھے اس لئے کہ اس آیت کا مطلب دو حال سے خا رج نھیں ھے :

پھلا احتمال یہ ھے کہ اس آیت میں ان اھل کتاب کو مد نظر نھیں رکھا گیا ھے کہ جنھو ں نے رسول اسلام (ص)کے دور حیات میں دین اسلام قبو ل کر نے سے انکار کیا تھا ۔ بلکہ اس کلیہ کو بیان کیا ھے کہ اھل کتاب کے در میان بھی (چا ھے ما ضی کی بات ھو یا حا ل کی )اچھے اور برے دو نوں طرح کے افراد رھے ھیں ۔ اور ایسا نھیں ھے کہ تمام یھو دی یا عیسا ئی خدا نا شناس انسان رھے ھو ں ۔ اسی بنا پر کھا جا تا ھے کہ تمام اھل کتاب کی تمام زما نوں میں ایک ھی طرح سے مذ مت نھیں کر نا چا ہئے بلکہ ان میں ایک گروہ خدا کی عبا دت اور آیا ت الٰھی کی تلا وت کر نے والا بھی رھا ھے ۔

دوسرا احتمال یہ ھے کہ مند ر جہ بالا آیت ان لو گو ں کے با رے میں ھو کہ جن تک اس وقت    دعو ت اسلام نہ پھو نچی ھو یا جن پر الله کی حجت تمام نہ ھو ئی ھو ۔ لہٰذا جب بھی حجت تمام ھو جا ئے تو اھل کتاب کے اچھے افراد بغیر کسی شک و شبہہ کے اسلام قبول کر لیں گے ۔سوره مبا رکہٴ ما ئدہ میں نصٰا ریٰ کے ایک گروہ کی اس طرح صفت بیا ن کی گئی ھے :

[35]

  ”اور جب  یہ لوگ اس (قرآن)کو سنتے ھیں جو ھما رے رسول پر نا زل کیا گیا ھے تو دیکھو کس طرح حقیقت سے آشنا ھو جا نے کے سبب انکی آنکھو ں سے بیسا ختہ آنسو جا ری ھو جا تے ھیں “

یہ گرو ہ ان ھی لو گو ں کا ھے جو حجت تمام ھو نے سے پھلے اھل عبا دت و دعا تھے :

”جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ھیں “اور جب وہ قر آن سے آشنا ھو جا تے ھیں تو

 ” ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ھو جا تے ھیں “

اس بنا پر اھل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ھو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رھے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نھیں کھا جا ئے گا ۔

[1] سو رئہ احقاف (آیت/ ۳۵)

[2] ر۔ک۔ بہ : سید محمد حسین طبا طبائی، المیزا ن فی تفسیر القر آن  انتشا را ت اعلمی جلد ۲ صفحہ ۱۴۱ و ۱۴۲ ۔)

[3] نمونہ کے طور پر ملا حظہ کیجئے ، کلینی الا صو ل من الکا فی ، کتاب الحجة باب طبقات الا نبیاء والرّسل والا ئمہ حدیث ۳ ۔ علام ہ طبا طبائی رحمة الله علیہ کے بقول کہ او لو ا العزم پیغمبر پا نچ افراد ھیں اس مطلب پر روایت حد مستفیض پر دلا لت کر تی ھیں ۔ ر۔ک۔ ب۔ المیزان جلد ۲ صفحہ ۱۴۵ ، ۱۴۶ اور جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۰ ۔)

[4] سوره آلِ عمران آیت/ ۴۹۔

[5] سوره صف آیت/۶۔

[6] سوره آلِ عمران آیت/ ۵۰۔

[7] سوره نساء آیت/ ۱۶۰و۱۶۱۔

[8] سوره نور آیت/۳۔

[9] سوره بقرہ آیت /۲۸۵۔

[10] سوره احقاف آیت/۲۹و۳۰۔

[11] سوره جن آیت/۱و۲۔

[12] سوره نساء آیت/۶۴۔

[13] سوره آل عمران آیت/۵۰۔

[14] سوره فرقان آیت/۱۔

[15] سوره فر قان آیت/۱۔  

[16] سوره انعام آیت/۱۹۔

[17] سوره انبیاء آیت/۱۰۷۔

[18] سو رئہ فتح آیت/۲۸ ۔ 

[19] سوره صف (آیت /۹)اور سوره تو بہ (آیت /۳۳)

[20] سوره ابرا ھیم آیت/۱۔

[21] سوره ابرا ھیم آیت / ۵۲۔

[22] سوره یو سف آیت/ ۱۰۴ ،سوره ص آیت/۸۷اور سوره تکو یر آیت/ ۲۷۔

[23] سوره قلم آیت/۵۲۔

[24] سوره شوریٰ آیت/ ۷۔

[25] سوره انعام آیت / ۹۲ ۔

[26] سوره مبا رکہٴ یس آیت/ ۶ ۔

[27] سوره قصص آیت/ ۴۶ ۔

[28] سوره شعراء آیت / ۲۱۴۔

[29] سوره شوریٰ آیت / ۹۸او۱۹۹ )

[30] ظا ھری طور پر سوره شو ریٰ کی( آیت /۷)کو سو رئہ انعام کی (آیت /۹۲)پر حمل کر تے ھو ئے رسالت کے عالمی ھو نے کے دو سرے مرحلہ کو جا نا جا سکتا ھے ۔

[31] سوره ناس آیت/ ۴۔۶۔

[32] ملا حظہ فر ما ئیے: بحا ر الا نوار جلد ۶۳ صفحہ ۲۹۷ ،حد یث نمبر ۴ ۔ اور جلد  ۱۰۲ صفحہ ۱۰۵ حدیث ۱۳) گروہ آئے اور پیغمبر اکرم (ص)کی با تیں غور سے سنے ۔

[33] سوره احقاف آیت/ ۲۹۔

[34] سو رئہ  آل عمران آیت/ ۱۱۳۔

[35] سوره ما ئدہ آیت/ ۸۳)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...