اهميت نهج البلاغه

بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ رب العالمين والصلا والسلام علي سيد الانبيائ والمرسلين و علي آلہ الطاھرين المعصومين
بغداد کے ايک شريف اور نجيب سادات کے گھرانے ميں
۳۵۹ھ کو ايک بچے نے آنکھ کھولي آنے والے کا نام سيد محمد رضي رکھا گيااور جب يہ بچہ کچھ سيکھنے کي عمر کو پہنچا تو اُس وقت کے فخرِ تشيع علّامہ شيخ مفيد عليہِ الرحمه نے خواب ديکھا کہ جناب فاطمہ زھرا اپنے دونوں بيٹوں امام حسن و حسين عليہما السلام کے ہمراہ مسجد ميں تشريف لائيں اور فرمايا: اے شيخ، ميرے اِن بچوں کو علمِ دين پڑھائيں
جناب شيخ مفيد اِس خواب کي تعبير کے بارے سوچ رہے تھے صبح ہوئي تو فاطمہ بنتِ حسين کنيزوں کے جھرمٹ ميں اپنے دو بچوں سيد مرتضي و سيدرضي کے ساتھ مسجد ميں تشريف لائيں شيخ مفيد کو اِس سيدزادي نے وہي خواب والے جملے کہے اور يوں شيخ مفيد کو اپنے خواب کي مجسم تعبير سامنے نظر آئي۔ شيخ کي آنکھوں ميں آنسو بھر آئے اور اپنا خواب اُس سيد زادي کو بھي سُنا ديا
.
شيخ مفيد عليہ الرحمہ کے يہ دونوں شاگرد علمي مراحل طے کرتے رہے سيد رضي نے جواني کي عمر ميں ہی عزت و وقار کي بلنديوں کو پا ليا اور اسي جواني ميں حقائق التاويل ، تلخيص البيان عن مجاز القرآن ، مجازات الآ ثار النبويہ اور خصائص الآئمہ جيسي کتب تصنيف فرمائيں جنہيں بہت شہرت حاصل ہوئي
.
سيد رضي عليہ الرحمہ خود تحرير فرماتے ہيں کہ ميں نے اوائل عمرانہ جواني کے ايام ميں آئمہ عليہم السلام کے حالات و فضائل ميں ايک کتاب کي تا ليف شروع کي تھي جو آئمہ عليہم السلام کے نفيس واقعات اور ان کے کلام کے جواہر ريزوں پر مشتمل تھي اس کتاب کا وہ حصہ جو اميرالمومنين علي عليہِ السلام کے فضائِلوں سے متعلق تھا وہ مکمل ہوا ليکن حالات نے بقيہ کتاب مکمل نہ ہونے دي جناب امير المومنين کے حالات کي آخري فصل ميں امام سے منقول پند ونصائح ، حکم و امثلہ اور اخلاقيات کے مختصر جملے درج تھےجب احباب و برادرانِ ديني نے ان کلمات کو ديکھا انہوں نے ان پر تعجب و حيرت کا اظہار کيا اور مجھ سے خواہش کي کہ ميں ايک ايسي کتاب ترتيب دوں ، جو امير المومنين عليہِ السلام کے خطبات و خطوط اور نصائح وغيرہ پر مشتمل ہوںچنانچہ ميں نے اس فرمائش کو قبول کيا اور خطبات و خطوط اور مختصر فرامين کو جمع کيا اور اِس کتاب کا نام نہج البلاغہ دیا.
جناب امير المومنين عليہِ السلام کے کلمات کو امام کي زندگي ميں آپ کے صحابہ جمع کرتے رہے اور لوگوں کو سناتے رہے امام زين العابدين علیہ السلام کے بيٹے جناب زيد شہيدحضرتِ امير عليہ السلام کے خطبات کو اکثر دہراتے رہے 90 ھ ميں وفات پانے والے زيد بن وھب نے امام کے خطبات کو جمع کيا شاہ عبد العظيم حسني جن کا تہران ميں مزار ہے اور امام علي نقي عليہ السلام کے اصحاب ميں سے تھے انہوں نے جناب امير المومنين علیہ السلام کے خطبات کو ايک کتاب ميں جمع کيا.
فرامِينِ امام
علیہ السلام، سيد رضي سے صديوں پہلے جمع ہوتے رہے اور کتابوں کي زينت بنتے رہےمگر نہ معلوم وہ کونسي قبوليت کي گھڑي تھي اور سيد رضي کے خلوص کا کونسا مرتبہ تھا کہ سيد رضي کي ترتيب دي ہوئي کتاب نہج البلاغہ کو وہ شہرت ملي جو کسي اور مجموعہ کو نہ مل سکي اس کتاب کي شہرت کا اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک اس کي مکمل يا بعض حصوں کي تين سو سے زيادہ شرحيں لکھي جا چکي ہيں.
جامع نہج البلاغہ اس دنيا ميں فقط سينتاليس سال رہے اور 406 ھ کو اس جہان فاني سے کوچ کر گئے مگر نہج البلاغہ جو جنابِ امير المومنين عليہ السلام کي پہچان کا ايک ذريعہ بن گيا وہ ياد ميں چھوڑ گئے جس کي وجہ سے ان کا نام ہميشہ زندہ ہے
.
آپ کے بڑے بھائي سيد مرتضي علم الہدي نے آپ کے مرثيہ ميں کہا تھا
تمہاري چھوٹي عمر مگر پاک و پاکيزہ عمر کي خوبيوں کا کيا کہنا
نہج البلاغہ ميں کيا کيا درج ہے اور اس ميں کون کون سے موضوعات بيان ہوئے ہيں اسے صاحبانِ ايمان مطالعہ کر کے جان سکتے ہيں ہمارے ليئے اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے کيونکہ سيد رضي کے بقول يہ کلمات علمِ الہي کا عکس و شعاع اور کلامِ نبوي کي خوشبو کے حامل ہيںان کلمات کے کہنے والے نے زہد و تقوي اور جرآت وشجاعت جيسي متضاد صفات کو سميٹ ليا اور بکھرے ہوئے کمالات کو پيوند لگا کر جوڑ ديا۔
ايک عرب شاعر جناب صفي الدين حلي نے جناب امير المومنين عليہ السلام کے بارے ميں کيا خوب لکھا کہ
 آپ کي صفات ميں متضاد جمع ہيں آپ کي مثال لانا مشکل ہے؟
آپ زاہد بھي ہيں اور حاکم بھي،حليم بھي ہيں اور شجاع بھي آپ دلير و بہادر بھي ہيں اور عابد و زاہد بھي،آپ فقير بھي ہيں اور سخي بھي۔
آپ ميں ايسي خصلتيں جمع ہيں جو ہر گز کسي بشر ميں اکٹھي نہيں ہوسکتيں اور نہ ان جيسي فضيلتوں کو بندوں ميں تلاش کيا جا سکتا ہے۔
آپ خلق ومروت ميں ايسے نرم ہيں کہ نسيمِ صبح بھي شرما جائے اور شدت و قوت ميں ايسے ہيں کہ پتھر بھي پگھل جائے؟
آپ کي صفاتِ حميدہ اس سے بلند ہيں کہ اشعار ميں ان کا احاطہ کيا جاسکے يا انہيں کوئي نقاد شمار کر سکے‘‘
نہج البلاغہ کے کلمات اس شخصيت کے رُخِ انور کي جھلک ہے لہذا يہ تمام موضوعات اس کتاب ميں چھلکتے ہوئے نظر آتے ہيں اس کتاب سے عالم و متعلم اپني ضرورتيں پوري کرتا ہے اور صاحبِ بلاغت و تارکِ دنيا بھي اپنے مقاصد حاصل کرتا ہےنہج البلاغہ علم کے بہت سے بند دروازے کھولتا ہے اور راہِ حق کي تلاش کرنے والوں کو منزل کے قريب کرتا ہےيہ کيوں نہ ہو اس ليئے کہ يہ اس کا کلام ہے جو فرماتے ہيں
“ہم اہل بيت سلطنتِ کلام و سخن کے امير و حاکم ہيں”(خطبہ
۲۳۰)
کبھي فرماتے ہيں” ہم ہي سے ہدايت کي طلب کي جا سکتي ہے اور ہم سے ہي گمراہي کي تاريکيوں کو دور کرنے کي خواہش کي جا سکتي ہے“(خطبہ
۱۴۲)
ان کلمات کا متکلم فرماتا ہے”آلِ َ محمد علم کي زندگي اور جہالت کي موت کا سبب ہيں“(خطبہ
۲۳۶)
پھر فرماتے ہيں”ميں ہي وہ حق پرست ہوں جس کي پيروي کي جانا چاہيئے“(خطبہ
۱۲۰)
ان کلمات سے ہم نے کيا سيکھا ہے اور کيا سيکھنا چاہيئے امام خود فرماتے ہيں
 
ہر ماموم کا ايک امام ہوتا ہے جس کي وہ پيروي کرتا ہے اور جس کے علم کے نور سے روشني حاصل کرتا ہے ديکھو تمہارے امام کي حالت“(خط
۴۵)                                        کيا ہم امام کي پيروي کرتے ہيں؟                                                                      

ہمارے امام تو وہ ہيں جو فرماتے ہيں
جو چاہو مجھ سے پوچھ لو اس سے پہلے کہ مجھے نہ پاؤ“(خطبہ
۹۱)
کيا ہم امام کے علمي سرمائے سے کچھ لے رہے ہيں اور امام سے کچھ پوچھ رہے ہيں؟
امام تو توحيد کے اس بلند مقام کو بيان فرماتے ہيں جسے عام آدمي سوچ بھي نہيں سکتا فرمايا”کيا ميں اس اللہ کي عبادت کرتا ہوں جسے ميں نے ديکھا نہيں“(خطبہ
۱۷۷)
کيا ہم توحيد کي ان باريک ابحاث کو اپنے امام سے سيکھتے ہيں يا امام کے مخالفوں سے؟
 
امام فرماتے ہيں’’بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہيں اور اللہ کو بندوں سے پہچنوانے والے ہيں‘‘(خطبہ
۱۵۰)
کيا ہم بھي اللہ کو ان اماموں کے ذريعہ سے پہچانتے ہيں يا غيروں سے؟
رسالت پر ايمان کي بات آتي ہے تو امام فرماتے ہيں”ميں نے کبھي ايک لحظہ کے لئے بھي اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابي نہيں کي“(خطبہ
۱۹۵)
امام فرماتے ہيں ’’يہ دنيا دھوکے باز،نقصان رساں اور بھاگ جانے والي ہے‘‘(کلماتِ قصار
۴۱۵) 
کيا ہم امام کے کلمات کو بھلا کر اس دھوکہ باز دنيا کے پيچھے تو نہيں بھاگ رہے؟              

آئيے نہج البلاغہ کو پڑھيں                                                                          

 جورج جرداق عيسائي لکھتا ہے ميں نے نہج البلاغہ کو دو سو با ر پڑھا
ابن حديد اہل سنت کا عالم کہتا ہے ميں نے ايک خطبہ
۲۱۸ کو ايک ہزار بار پڑھا
کيا ہم اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہيں کہ ہم نے اسے کتني بار پڑھا؟
آئيے نہج البلاغہ کے ذريعے اپنے امام کي صداوں کو غور سے سنيں،امام مدد کے ليئے پکار رہے ہيں جلدي سے لبيک کہيں،امام اتباع کا حکم دے رہے ہيں ہم اتباع ميں تيزي سے قدم بڑھائيںان فرامين کو سمجھيں،اپني زندگيوں ميں اپنائيں اور پھر زمانے بھر کو اپنے امام علي عليہ السلام کا غلام بن کردکھائيں؟

تبصرے
Loading...