انٹر نیٹ پر جھوٹے سورے

انٹر نیٹ کی ایجاد ایک ایسی مفید ایجاد ھے کہ جس نے اس دنیا کو ایک چھوٹے سے دیھات بلکہ در حقیقت ایک بڑے کمرے کی صورت میں تبدیل کر دیا ھے کہ جس کے ذریعہ تمام انسان ایک ھی وقت میں ایک دوسرے سے رابطہ برقرار کر سکتے ھیں اور ایک دوسرے کا چھرہ دیکہ سکتے ھیں اور باتیں بھی سن سکتے ھیں ، لیکن یہ ایجاد مفید ھونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ھو سکتی ھے ۔
اس قاعدے کو پیش نظر رکھتے ھوئے اسلام کے عظیم دانشمندوں کا فریضہ ھے کہ صدی کی اس ایجاد سے کہ جس نے عقلوں کو حیران کر دیا ھے ، فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کے ذریعہ اسلام اور شیعیت کے دشمنوں کی طرف سے لگائی جانے والی زھر آلود تھمتوں اور جھوٹے الزاموں کی طرف بھی متوجہ رھیں ۔
اگر چہ اس کی ایجاد کو ابھی مختصر عرصہ ھی گزرا ھے لیکن استعماری گروہ کہ جو زیادہ تر ھمارے جوانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے کی فکر میں رھتا ھے مختلف راھوں سے وارد عمل ھو چکا ھے اور ھر طرف سے ھماری تھذیب و ثقافت کو مورد ھجوم قرار دے چکا ھے یھاں تک کہ قرآن مجید کا جواب لانے کی فکر میں بھی پڑ گیا ھے اور اپنے زعم ناقص میں یہ سمجھ رھا ھے کہ وہ اس کا مثل لے آئے گا اور اس طرح سے وہ مسلمانوں کو شرمندہ کر سکے گا ۔
بعض بے بضاعت افراد نے بعض جملوں کو خود قرآن مجید کی آیتوں اور جملوں سے اقتباس کر کے جمع کیا اور یہ سوچا کہ اس طرح سے وہ قرآن مجید کے سوروں کے مانند چار سورے تیار کر کے پیش کریں اور یہ کھیں کہ ھم قرآن مجید کے سوروں کے مانند چار سورے لے آئے ھیں اور ھم نے قرآن مجید کے چیلنج کا جواب دے دیا ھے !
قرآن مجید ایک سورے میں منکروں سے یہ مطالبہ کر رھا ھے کہ وہ اس کا مثل لائیں۔
” فلیاٴتوا بحدیث مثله ان کانوا صادقین “( طور / ۳۴)
” یعنی قرآن کے مانند لاؤ اگر تم سچے ھو “ ۔
دوسرے مقام پر صرف دس سوروں کا جواب لانے کا مطالبہ کر رھا ھے اور یہ چیلنج کر رھا ھے کہ تم صرف دس سوروں کا جواب لے آؤ ۔ ” ام یقولون افتراه قل فاٴتو بعشر سور مثله مفتریات “ ) هود / ۱۳) ” کیا یہ لوگ کھتے ھیں کہ اس قرآن کی خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی گئی ھے؟ اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کھدیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑہ کر تم بھی لے آؤ “۔
تیسری آیت میں چیلنج کی مقدار میں اور کمی کر دی ھے اور صرف ایک سورے پر اکتفاء کی ھے ۔ ” و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاٴتوا بسورة من مثله “ ( بقره /۲۳) ” کھدیجئے کہ اگر تم اسکے متعلق کہ جو میں نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے شک میں مبتلا ھو تو تم اس کے ایک سورے کا مثل لے آؤ “ ۔
ان آیا ت کو دیکھتے ھوئے یہ سمجھنا ضروری ھے کہ قرآن مجید نے جو پورے قرآن یا دس سوروں یا ایک سورے کے مثل لانے کا چیلنج پیش کیا ھے اس سے کیا مراد ھے ؟
قرآن مجید کے مثل لانے کا مطلب یہ ھے کہ کوئی ایک شخص یا متعدد افراد نئی انشا پردازی اور تخلیق کے ساتھ بلند مقاصد اور مفاھیم کو جملوں اور کلمات میں اس طرح ڈھالیں کہ اس کی شیرینی اور جذابیت اس طرح سے آیات قرآنی کے مساوی ھو کہ اگر دونوں کو ساتھ میں رکہ کر دیکھا جائے تو یہ کھا جا سکے کہ یہ اس کا مثل لے آیا ھے ۔
مثلاً فرض کیا جائے کہ سورۂ کوثر قرآن مجید کا جزء نہ ھوتا اور کوئی شخص خود رسول )ص) کے دور میں یا اس کے بعداسے پیش کرتا تو اسے قرآن مجید سے مقابلہ کرنا کھا جائے گا ۔ لیکن خود قرآن مجید کے جملوں سے اقتباس کرنا اور قرآن مجید کے ظاھری روش کے مطابق بعض الفاظ اور بے معنی مفاھیم کو ترتیب دے کر پیش کرنا تو قرآن مجید کا جواب لانا نھیں کھا جا سکتا ۔
اگر اسی کو قرآن مجید کا جواب لانا کھا جاتا تو اس طرح کے جوابات تو صدیوںسے دئے جا رھے ھیں لیکن کسی نے بھی ان کو اھمیت نھیں دی ھے ۔
مسیلمہ کذاب پھلا وہ شخص ھے کہ جو قرآن مجید سے مقابلہ کرنے کی فکر میں پڑا ۔ وہ رسول اسلام (ص) پر ایمان لانے کے بعد آپ کے دین سے منحرف ھو گیا اور خود پیغمبری کا دعویٰ کر بیٹھا اور پیغمبر )ص) کو اس طرح سے ایک خط لکھا : ” من مسیلمة رسول الله الیٰ محمد رسول الله، سلام علیک : اما بعد فانی قد اشرکت فی الامر معک و ان لنا نصف الارض و لقریش نصف الارض و لکن قریشا قوم یعتدون “۔
آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا : ” بسم الله الرحمن الرحیم ، من محمد رسول الله الیٰ مسیلمة الکذاب ، السلام علی من اتبع الهدیٰ ، اما بعد ۔ ان الارض لله یورثها من یشاء من عباده و العاقبة للمتقین “ ( اعراف /۱۲۸)
آپ اس آیت کو کہ جو رسول اسلام (ص) نے اس کو لکھی اس جملے سے ملا کر دیکھیں کہ جو اس نے اپنے خط میں لکھا تھا، صرف مختصر سی ظاھری شباھت پائی جاتی ھے ورنہ معنی و مفاھیم اور فصاحت و بلاغت وغیرہ کے اعتبار سے اصلاً مقابلہ ھی نھیں کیا جا سکتا ھے ۔
مسیلمہ ایک بار پھر قرآن مجید کا جواب لانے کی فکر میں لگا اور اس نے سورۂ اعلیٰ کے مانند کچہ جملے جمع کرنا چاھے لیکن اس کے کلام اور سورۂ اعلیٰ میں اتنا فاصلہ پایا جاتا ھے کہ ھر گز وہ سورۂ اعلیٰ سے مشابہ معلوم نھیں ھوتے۔ قرآن مجید فرماتا ھے : ” سبح اسم ربک الاعلیٰ ، الذّی خلق فسویّٰ ، و الذّی قدّر فهدیٰ ، و الذّی اخرج المرعیٰ ، فجعله غثاءً احویٰ “(اعلیٰ /۱۔۵)
اس نے اس سورے کے جواب میں اس طرح کھا : ” لقد انعم الله علی الحبلیٰ ، اخرج منها نسمة تسعیٰ ، بین صفاق و خشا“ ۔
عیسائی مصنفین نے جس چیز کو اس سورہ کے جواب کے عنوان سے پیش کیا ھے وہ مسیلمہ کذاب اور اس کے ھمفکر افراد کے گڑھے ھوئے جملوں کے بھی مساوی نھیں ھے۔ وہ یہ تصور کرتے ھیں کہ قرآن مجید کا جواب لانے کے لئے صرف وزن و آھنگ اور دو جملوں کے درمیان فواصل کا وجود کافی ھے اور مثل لانے کے دوسرے شرائط مثلا ً معانی و مطالب کی بلندی ،جملوں کی لطافت اور کلام کی جذابیت سے غافل ھیں لھذا اس قسم کے مھمل جملوں کو قرآن مجید کا جواب تصور کرتے ھیں ۔
ھم یھاں موجود ہ دور میں قرآن مجید کے مقابلہ میں لائے گئے جواب کو ذکر کرتے ھیں تاکہ یہ واضح ھو جائے کہ صرف وزن اور فواصل کی رعایت کے ساتھ دئے جانے والے کوئی بھی جوابات حقیقی نھیں ھو سکتے ۔
قرآن مجید روز قیامت کے بیان میں اس طرح فرماتا ھے :” الحاقة ، ماالحاقة ، و ما ادراک ما الحاقة “ ( حاقہ / ۱۔۳)
دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ھے ” القارعة ماالقارعة ، و ما ادراک ما القارعة “( قارعة /۱۔۳)
پھر اس عظیم حادثہ کی توصیف اس طرح کرتا ھے : جس دن لوگ پروانوں کی طرح بکھری ھوئی حالت میں محشور ھو نگے اور پھاڑ دھنکی ھوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے ۔
اب آپ ان جملوں کو درج ذیل جملوں سے مقابلہ کر کے دیکھیں کہ جنھیں رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد بعض ناقص فکروں اور خام مغز افراد نے گڑہ کر پیش کیا تھا ۔
”الفیل ، و ما ادراک ما الفیل ، له ذنب وبیل ، و خرطوم طویل “۔
اس مختصر تمھید کو مد نظر رکھتے ھوئے ھم اس گڑھے ھوئے سورے کو نقل کرتے ھیں اور اچھی طرح سے یہ ثابت کریں گے کہ اس کا بیشتر حصہ خود قرآن مجید سے اقتباس ھے اور باقی حصہ بعض مھمل جملے ھیں کہ جنھیں ایک دوسرے سے مرتبط کر کے قرآن مجید کی نقل بنانے کی کوشش کی گئی ھے ۔
چند ماہ قبل ” امریکہ آن لائن “ نام سے ایک امریکی کمپنی نے قرآن مجید سے مقابلہ کرنے کی غرض سے اپنے شیطنت آمیز اقدام کے ذریعہ قرآن مجید کی نقل آیات میں تحریف اور باطل اور بیھودہ مطالب کا سھارا لیکر چار سوروں کو ” مسلمون ، تجسد ، وصایا ، اور ایمان “ کے نام سے انٹرنٹ پر پیش کیا جس کے خلاف ظاھراً اسلامی اداروں من جملہ الازھر اور بعض مسلمان عرب قلمکاروںنے شدید رد عمل کا مظاھرہ کیا اور آخر کار وہ سائٹ بند ھو گئی ۔
ادھر چند دنوں پھلے برطانیہ کی Suralikeit.ukنام کی ایک کمپنی سے متعلق ایک سائٹ نے دوبارہ ان چاروں صفحوں کو نشر کیا ، اور اپنے موذی بیان میں خود کو مظلوم ظاھر کرتے ھوئے اپنے اس اقدام کو قرآن مجید کے چیلنج کا جواب بتایا اور مسلمانوں کو معتدل ، اور شدت پسند دو گروہ میں تقسیم کرتے ھوئے یہ دعویٰ کیا کہ اعتدال پسند مسلمانوں نے ان صفحوں کا استقبال کیا ھے اور شدت پسند مسلمانوں نے اس کے خلاف سخت رویہ کا اظھار کیا ھے ۔
جیسا کہ پھلے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ اسلام کی پوری تاریخ میں بھت سے دعویٰ کرنے والے لیکن جاھل اور کم عقل افراد نے قرآن مجید سے مقابلہ کرنا چاھا ھے اور انھوں نے اپنی فکر کو عملی کرنے کے لئے خود قرآن مجید کی نقل کرتے ھوئے اس کے جملوں کو چوری کر کے اور اس کے الفاظ کو بدل کر بعض مھمل جملوں کو مرتب کیا ھے اور اسے قرآن مجید کے جواب کے عنوان سے پیش کیا ھے ، اور اس طرح سے اپنی کم علمی کو آشکار کیا ھے ،لیکن آخر میں انھوں نے خود اپنی شکست کا اعتراف کیا ھے اور خود کو ذلیل ورسوا کیا ھے ۔
یہ چار صفحے بھی انھیں کے مانند ھیں کہ ان صفحات کے لکھنے والے نے بھی قرآن کریم کی نقل اور اس کے جملوں کی چوری کی ھے کہ جو اتنی مضحکہ خیز ھے کہ اسے ایک عالمانہ اور علمی جواب کے بجائے مذاق یا مسخرہ پن کھنا زیادہ مناسب ھو گا کہ جس میں ان صفحات کے لکھنے والے نے آیات شریفہ اور اس کی ضمائر میں تبدیلی کر کے اور ان الفاظ و آیات کا سھارا لیکر کہ جو عام طور سے قرآن مجید میں ایک یا دو بار استعمال ھوئے ھیں کچہ باطل مطالب اور مھمل جملوں کو اپنے باطل گمان میں قرآن مجید سے مقابلہ کے عنوان سے مرتب کیا ھے اور انٹر نٹ پر پیش کیا ھے، لیکن جس شخص کو قرآن مجید سے تھوڑی سی بھی واقفیت ھو گی وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتا ھے کہ در حقیقت یہ تحریف قرآن ھے نہ کہ

اس کا جواب اور مقابلہ ۔

کیا ان صفحات کے لکھنے والے نے اتنی بھی تشخیص نھیں دی ھے کہ اگر کوئی شاعر یا مصنف کسی کلام کا جواب لانا چاھتا ھے تو اس کے لئے ضروری ھے کہ ایسا کلام پیش کرے کہ جو خود مستقل ھو اور اپنے مخصوص الفاظ و اسلوب اور ترکیب کا حامل ھو یا کم از کم اس کا پورا کلام ایک ھی جھت اور ھدف کو بیان کر رھا ھو ۔
مقابلہ کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان ایک فصیح کلام سے مقابلہ کرتے وقت فوراً اس کی روش اور ترکیب کی تقلید کر ے اور صرف اس کے بعض الفاظ اور کلمات کو تبدیل کر کے ایک نیا جملہ تیار کرے اور اپنے اس فعل کو مقابلے کا نام دے ۔ اگر مقابلہ کا مطلب یھی ھے تو اس طرح سے ھر کلام کا جواب لایا جا سکتا ھے اور رسول اللہ (ص) کے ھمعصر دشمنوں کے لئے یہ سب سے آسان طریقہ تھا لیکن چونکہ وہ جواب لانے کے اسلوب سے واقف تھے اور قرآن مجید کی بلاغت کے اسرار سے آشنا تھے اسی وجہ سے وہ قرآن مجید کا جواب لانے کی فکر میں نھیں پڑے اور انھوں نے اپنی ناتوانی اور عاجزی کا اقرار کر لیا ۔ بعض ایمان لے آئے اور بعض نے اسے سحرو جادو سے تعبیر کیا اور کھا”ان هذا الا سحر یوثر “( مدثر /۲۴) ان تمام باتوں سے قطع نظر وہ جملے کہ جن میں تصنع کے آثار نمایاں ھوں کیونکر قرآن مجید سے ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ھے کہ یہ کھا جا سکے کہ وہ قرآن مجید کا مثل یا اور دوسرے سوروں کا جواب لا سکتا ھے، چونکہ صرف مواد اور الفاظ پر قدرت رکھنے سے ھر گز یہ بات لازم نھیں آتی ھے کہ اس کو ترکیبات پر بھی قدرت حاصل ھو ۔
کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ھے کہ تمام افراد قادر ھیں کہ وہ شاندار محل تیار کر سکیں ، کیا صرف اس بناء پر کہ انمیں سے ھر ایک اینٹوں کو اٹھا کر رکہ سکتا ھے ؟!!
اسی طرح سے یہ کھنا کیونکر صحیح ھے کہ ھر عرب زبان فصیح و بلیغ قصیدے کھہ سکتا ھے اور خطبے پیش کر سکتا ھے ، کیا صرف اس بناء پر کہ تمام عرب لوگ ان قصیدوں اور خطبوں کے ایک ایک کلمہ اور مفردات کو تلفظ کر سکتے ھیں ؟!!
خلاصۂ کلام یہ ھے کہ اسلام کی پوری تاریخ میں دشمنان اسلام خاص کر عیسائیت اور عالمی استکبار نے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کو کم کرنے اور رسول اکرم (ص)اور قرآن مجید کے الٰھی مقام کو حقیر اور نیچا دکھلانے کی غرض سے خطیر اخراجات برداشت کئے ھیں اور بے حساب رقم خرچ کی ھے۔ اسلام کے خلاف یہ سر گرمیاں ابھی تک جاری ھیں بلکہ اب مزید شدت کے ساتھ ایک مرتب اور وسیع پروگرام کے تحت انجام پا رھی ھیں لیکن ان کی ان بے پناہ کوششوں کا نتیجہ خود ان کی رسوائی کے علاوہ اور کچہ نہ ھو گا ۔
اب ھم مختصر طور پر ان افراد کے مطالب کو جو قرآن مجید کا جواب لانے کے مدعی ھیں دو جھت ( ظاھری ترکیب اور معانی و مطالب )سے مورد تنقید قرار دیتے ھیں ۔
۱۔ ان کی طرف سے پیش کئے گئے چاروں صفحات میں خود قرآن مجید سے اقتباس اور اس کی آیا ت و الفاظ میں تبدیلی کر کے پیش کرنے کے نمونے موجود ھیں ۔
یہ بھی ذکر کر دینا ضروری ھے کہ ان چاروں گڑھے ھوئے صفحوں میں بعض مقامات پر قرآن مجید کی دو، تین ، چار اور پانچ آیتوں تک سے اقتباس لیا گیا ھے اور اس طرح جملے تیار کئے گئے ھیں ۔
اب ھم ان کی تحریف اور اقتباس لینے کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ھیں ۔

الف : صفحہ

مسلمون الصم (۱) قل یا ایها المسلمون انکم لفی ضلال بعید (۲) ان الذین کفروا با لله و مسیحه لهم فی الاخرة نار جهنم و عذاب شدید (۳) وجوہ یومئذ صاغرة مکفهرة تلتمس عفو الله و الله یفعل ما یرید (۴) یوم یقول الرحمن یا عبادی قد انعمت علی الذین من قبلکم بالهدی منزلا فی التوراة و الانجیل (۵) فما کان لکم ان تکفروا بما انزلت و تضلوا سواء السبیل (۶) قالوا ربنا ما ضللنا انفسنا بل اضلنا من ادعی انه من المرسلین (۷) و اذ قال الله یا محمد اغویت عبادی و جعلتهم من الکافرین (۸) قال ربی انما اغوانی الشیطان انه کان لبنی آدم اعظم المفسدین (۹) و یغفر الله للذین تابوا ممن اغواهم الانسان یبعث بالذی کان للشیطان نصیرا الی جهنم و بئس المصیر (۱۰) و ان قضی الله امرا فانه اعلم بماقضی و هو علی کل شئی قدیر (۱۱)

آیات قرآن کریم

۱۔” المص “ (اعراف /۱ (
۲۔ ” قل یا ایهاالناس ….“ (یونس/ ۱۰۴) ” انکم لفی قول مختلف “ (ذاریات ) ” … لفی ضلال بعید “ ( شوریٰ / ۱۸)
۳۔ ” ان الذین یکفرون بالله و رسله …..“( نساء / ۱۵۰)
۴۔ ”…..ان الذین کفروا بآیات الله لهم عذاب شدید ….“ ( آل عمران / ۴) ”….و لهم فی الآخرة ….“ ( بقرہ / ۱۱۴) ”…. نار جهنم ….“ ( فاطر / ۳۶)
۵۔ ” وجوه یومئذ خاشعة “ ( غاشیه / ۸)
۶۔ ”….. ولکن الله یفعل ما یرید “ ( بقرہ / ۲۵۳)
۷۔ ” قل یا عبادی الذین آمنوا ….“ ( زمر / ۱۰) ”…. اذکر نعمتی التی انعمت ….“ ( بقره / ۴۰) ”….علی الذین من قبلکم ….“ (بقره / ۱۸۴ ) ، ” انزل التوراة و الانجیل ، من قبل هدی للناس …..“ ( آل عمران / ۴ ۔ ۳ (
۸۔ ”…. و ما کان لهم …..“‘ ( هود / ۲۰) ، ”…. و ان تکفروا …..“ ( ابراهیم / ۸ ) ”…بما انزلت ….“ ( بقره / ۴۱)“…. وضلوا عن سواء السبیل “ ( مائده / ۷۷)
۹۔ ”… اذا قضیٰ الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم …..“ ( احزاب / ۳۶)
۱۰۔ ”….. الی اللہ مر جعکم و هو علی کل شی ء قدیر “ (هود / ۴ )
۱۱۔” و قالوا ربنا انااطعنا سادتنا و کبراء نا فاضلونا السبیلا “ ( احزاب / ۶۸)
۱۲۔ ” واذ قال الله یا عیسی ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی و امی الهین من دون الله قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق ….“‘ ( مائده / ۱۱۶)

گڑھے ھوئے جملے

الصم (۱)“ قل یا ایها المسلمون انکم لفی ضلال بعید “ (۲) ” ان الذین کفروا با لله و مسیحه “ (۳) ” ان الذین کفروا با للہ و مسیحه لهم فی الاخرة نار جهنم و عذاب شدید “(۳)”وجوه یومئذ صاغرة “ (۴) ” و الله یفعل ما یرید “(۴) ” یوم یقوم الرحمن یا عبادی قد انعمت علی الذین من قبلکم بالهدی منزلا فی التوراة و الانجیل “ (۴) ” فما کان لکم ان تکفروا بما انزلت و تضلوا سواء السبیل “ (۶) ” و ان قضی الله امرا فانه اعلم بما قضی“ (۱۱) ” و هو علی کل شی ء قدیر “ (۱۱) ” قالوا ربنا ما ضللنا انفسنا بل اضلنا من ادعی انه من المرسلین “ (۷) ” و اذ قال الله یا محمد اغویت عبادی و جعلتهم من الکافرین ، قال ربی انما اغوانی الشیطان “ (۸)
یہ یاد دھانی ضروری ھے کہ ”مسلمون“ ” نامی گڑھے ھوئے سورے کے جملوں کا ۹۰/ فی صد حصہ قرآن مجید سے لیا گیا ھے ۔

ب: صفحۂ تجسد

سبحان الذی خلق السموات فلم یجعل لها حدا (۱) و خلق الارض و کورها و جعلها ماء و جلدا (۲) قل للذین خدعوا بدعوة الشیطان عمیت بصائرکم فاتریتم علی اللہ کذبا و کنتم للشیطان سندا (۳) ان الشیطان کان للانسان عدوا الدا (۴) لو شاء ربکم لا تخذ من الحجارة اولادا له اذ هو الذی قال للکون کن فکان و سبحانه ان یستشیر فی امره احد ا(۵) سبحانہ رب العالمین ان یتخذ من خلائقه ولدا (۶) قل للذین یمترون فیما انزل من قبل لیس المسیح خلیقة الله اذ کان مع الله قبل البدء و هو معه ابدا (۷) فیه و منه کان مع روح قدسه الها سر مدیا واحدا احدا (۸) و اذ بعث به الاب للعالمین کما وعد (۹) حل فی بطن عذراء کلمة ، و خرج منه جسدا (۱۰) عاشر الانسان ، علم الانسان ، مات عن الانسان فدی و کالانسان رقد (۱۱) و الی ابیه السماوی بعد ثلاثة ایام صعد (۱۲) ان الذین کفروا با ٓیاته و قالوا قولا ادا (۱۳) لن یجعل الله لهم من امده بدا (۱۴) اما الذین آمنوا بالله و مسیحه فلهم مغفرة و جنات نعیم خالیدن فیها ابدا (۱۵)

آیات قرآن کریم

۱۔ ” ان الشیطان کان للانسان عدوا مبینا “ ( اسراء / ۵۳)
۲۔ ” و لو شاء ربک “( انعام /۱۱۲ ۔ یونس / ۱۰)
۳۔ لو اراد الله ان یتخذ و لدا لا صطفیٰ مما یخلق ما یشاء “ ( زمر / ۴)
۴۔” اذا قضی امر فانما یقول له کن فیکون “ ( آل عمران / ۴۷)
۵۔”ولا یشرک فی حکمه احدا “ ( کهف / ۲۶)
۶۔ ” ما کان لله ان یتخذ من ولد سبحانه …“ ( مریم / ۳۵)
۷۔ سبحان الله رب العالمین “ ( نمل /۸)
۸۔ ” خلق السموات و الارض بالحق یکور اللیل علی النهار و یکور النهار علی اللیل “ ( زمر / ۵)
۹۔ و السلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا ، ذلک عیسی ابن مریم قول الحق الذی فیه یمترون “( مریم / ۳۳۔ ۳۴) ” لقد کفر الذین قالوا ان الله ھو المسیح ابن مریم …..“ ( مائدہ / ۷۵)
۱۰۔ ” الها واحدا “ ( بقرہ /۱۳۳)
۱۱۔ ” اذ بعث فیهم رسولا “ ( آل عمران / ۱۶۴)
۱۲۔ لم یجعل الله له “ ( نور / ۴۰)
۱۳۔ ” ان الذین کفروا بآیات الله “ ( آل عمران / ۴ (
۱۴۔ ” و قولوا قولا سدیدا “ ( احزاب / ۳۲ (
۱۵۔ و الذین آمنوا و عملوا الصالحات سندخلهم جنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها ابدا “ ( نساء / ۱۲۲ (
۱۶۔ ” و الذین آمنوا بالله و رسله …“ ( نساء / ۱۵۲ )
۱۷۔ ” فتکون للشیطان ولیا “ ( مریم / ۴۵)

گڑھے گئے جملے

ان الشیطان کان للانسان عدوا الدا (۴) لوشاء ربکم (۵) لو شاء ربکم لا تخذ من الحجارة اولادا له (۵)هو الذی قال للکون کن فکان (۵) سبحانه ان یستشیر فی امره احدا “ (۵) سبحانہ رب العالمین ان یتخذ من خلائقه ولدا (۶) سبحانه رب العالمین (۶) خلق السموات فلم یجعل لها حدا (۱) خلق الارض و کورها و جعلها (۲) قل للذین یمترون فیما انزل من قبل لیس المسیح خلیقة الله اذ کان مع الله قبل البداء و هو معه ابدا (۷) الها سرمدیاواحدا (۸) و اذ بعث به الاب للعالمین (۹) لم یجعل لها (۱) ان الذین کفروا بآیاته (۱۳) و قالوا قولا ادا (۱۳) اما الذین آمنوا بالله و مسیحه فلهم مغفرة و جنات نعیم خالدین فیها ابدا (۱۵)الذین آمنوا بالله و مسیحه (۱۵) و کنتم للشیطان سندا (۳)
صفحۂ تجسد کا تقریباً ۷۵ / فی صد حصہ قرآن مجید سے لیا گیا ھے ۔

ج:صفحۂ وصایا

المذ (۱) انا ار سلناک للعالمین مبشرا و نذیرا (۲) تقضی بما یخطر بفکرک و تدبر الامور تدبیرا (۳)فمن عمل بما رایت فلنفسه و من لم یعمل فلسوف یلقی علی یدیک جزاء مریرا (۴) انا اعطینا موسیٰ من قبلک من الوصیات عشرةٰ و نعطیک عشرات اخری اذ قد ختمنا بک الانبیاء و جعلناک علیهم امیرا (۵) فانسخ مالک ان تنسخ مما امرنا هم به فقد سمعنالک ان تجری علی قرار اتنا تغییرا (۶) قل لعبادی الذین آمنوا ان تثاء بوا یستعیذوا بالرحمن ان لا یضحک منهم الشیطان و لیکبروا الله ان عطسوا تکبیرا (۷) و ان لا یقتنوا فی بیوتهم کلبا و لا یضعوا علی حیطانهم تصویرا (۸) و اذا ارادوا انتعالا فلیبداوا با لیمین قبل الشمال و ان لم یفعلوا فقد اقترفوا نهبا کبیرا (۹) و ان تبرزوا فلیمسحوا موخراتهم بحجار ثلاثة و ینتهوا عن الروث اذ قد جعلناہ للجن غذاء و علی المومنین امرا محظورا (۱۰) قل لبادی الذین آمنوا یغزوا من ارادوا و یقتلوا من اجل رزقهم و من لم یغز منهم او لم یحدث نفسه بغزو مات منافقا منکورا (۱۱) و للذین یخشون سحرا یاکلوا سبع عجوات ینجیهم الله من السحر و یبعد عنهم شرا مسطیرا (۱۲) قل لبادی ان ارادوا ان یحلفوا بالله و لا یخافوا تبذیرا (۱۳) و ان ینکحوا ما طاب لهم من النساء مثنی و ثلاث و رباع او ما ملکت ایمانهم ان جعلنا لهم الدین امرا یسیرا (۱۴) و اذا فرغت من بین یدیک الوصایا فاطلب الیک جبریل یاتیک ساعیا مامورا (۱۵) و ان شغل جبریل عنک فعلیک بورقة بن نوفل و استفذ منه قبل ان نتوفاه فیصبح الوحی علیک امرا عسیرا (۱۶)

آیات قرآن کریم

۱۔ ان ارسلناک شاهدا و مبشرا و نذیرا “(فتح /۸)
۔” و ما ارسلناک الا رحمة للعالمین “ ( انبیاء / ۱۰۷)
۲۔ ” من عمل صالحا فلنفسه …“( جاثیہ / ۱۵)
۳۔ قل لعبادی الذین آمنوا یقیموا الصلاة …“ ( ابراھیم / ۳۱)
۴۔ ”… و لتکبروا الله علی ما هداکم …“ ( بقرہ / ۱۸۵)
” و لم یکن له ولی من الذل و کبره تکبیرا “ ( اسراء / ۱۷)
۵۔”… فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث و رباع فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنی الا تعولوا “ ( نساء / ۳) ۔

گڑھے ھوئے جملے

ان ارسلناک للعالمین مبشرا و نذیرا (۱)
فمن عمل بما رایت فلنفسه (۲)
قل لعبادی الذین آمنوا ان تثاء بوا (۷)
و لیکبروا الله ان عطسوا تکبیرا (۷)
و ان ینکحوا ما طاب لهم من النساء مثنی و ثلاث و رباع او ما ملکت ایمانهم انا جعلنا لهم الدین امرا یسیرا (۱۴)

د:صفحہ ایمان

و اذکر فی الکتاب الحواریین اذ عصفت الریاح بهم لیلا و هم یبحرون (۱) اذ تراعی علی المیاه لهم طیف المسیح یمشی ، فقالوا اهو ربنا یهزا بنا ام قد مسنا ضرب من جنون (۲) فجاء هم صوت المعلم ان لا تخافوا انی ان هو افلا تبصرون (۳) فهتف هاتف منهم یقول ربی مرنی ان کنت حق هو ، آتی علی المیاہ الیک ، عسی ان یبدل الله شکی بیقین (۴) قال فاسع الی و لتکن للناس آیة لعلهم یتذکرون (۵) و اذ طفق الحواری یمشی رای شدة الریح فخاف و بدا یغرق فصاح بربه یستعین (۶) فمد بیمینه له فاخذه بها و قال یا قلیل الایمان هذا جزاء الممترین (۷) و اذ رکب السفینة معه سکنت الریاح لتوها فسبح الحواریون بحمده ، و هتفوا له قائلین (۸) انت هو ابن الله حقا ، بک نحن امنا ، و امامک نخر ساجدین (۹) قال طوبی للذین آمنوا و لم یلبسوا ایمانهم بشک فاولئک هم المفلحون (۱۰)

آیات قرآن کریم

۱۔” و اذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اهلها مکانا شرقیا “ ( مریم / ۱۶)
۲۔ ” و یبین آیاته للناس لعلهم یتذکرون “ ( بقره / ۲۲۱)
۳۔ اذا کنتم فی الفلک و جرین بهم بریح طیبة و فرحوا بها جائتها ریح عاصف و جاء الموج من کل مکان و ظنوا انهم احیط بهم دعو اللہ مخلصین له الدین لئن انجیتنا من هذه لنکونن من الشاکرین “ ( یونس / ۲۱)

گڑھے ھوئے جملے

و اذکر فی الکتاب الحواریین اذ عصفت الریاح بهم لیلا و هم یبحرون (۱)
و لتکن للناس آیة لعلهم یتذکرون (۵)
و اذ رکب السفنیة معه کسنت الریاح لتوها فسبح الحواریون بحمدہ و هتفوا له قائلین (۸) و اذ طفق الحواری یمشی رای شدة الریح فخاف و بدا یغرق فصاح بربه یستعین (۶)

ان چاروں صفحوں میں مھمل ،بے معنی اور بے مقصد جملے موجود ھیں ۔
ان صفحات میں جس جگہ پر بھی قرآن کریم سے کم مدد لی گئی ھے وھاں پر مھمل اوربے معنی جملے اس طرح اپنا کھوکھلا پن ظاھر کر رھے ھیں کہ خود ان صفحات کو دیکہ کر ان کے لکھنے والوں کے جھوٹے دعوں کا کھو کھلا ھونا واضح ھو جاتا ھے ،آپ چند نمونوں کو ملاحظہ فرمائیے اور پھرباریک بینی کے ساتھ فیصلہ کیجئے ۔
صفحۂ وصایا پر بترتیب ( ۷،۸، ۹، ۱۰، ۱۱ ، ۱۲ ۔اور ۱۶نمبر )
قل لعبادی الذین آمنوا ان تثاء بوا ، یستعیذوا بالرحمن ان لا یضحک منهم الشیطان و لیکبروا الله ان عطسوا تکبیرا (۷) و ان لا یقتنوا فی بیوتهم کلبا و لا یضعوا علی حیطانهم تصویرا (۸) و اذا ارادوا انتعالا فلیبداوا بالیمین قبل الشمال و ان لم یفعلوا فقد اقترفوا ذنبا کبیرا (۹) و ان تبرزوا ( ای تغوطوا) فلیمسحوا موفراتهم بحجار ثلاثة و ینتهوا عن الروث اذ قد جعلنا للجن غزاء و علی المومنین امرا محظورا (۱۰) قل لعبادی الذین آمنوا یغزوا من ارادوا و یقتلوا من اجل رزقهم و من لم یغزوا من ارادوا و یقتلوا من اجل رزقهم و من لم یغز منهم او لم یحدث نفسہ بغذو مات منافقا مذکورا (۱۱) و للذین یخشون سحرا یاکلوا سبع عجوات ینجیهم الله من السحر و یبعد عنهم شرا مستطیرا (۱۲) و ان شغل جبریل عنک فعلیک بورقة بن نوفل و استفد منه قبل ان نتوفاہ فیصبح الوحی علیک امرا عسیرا (۱۶)
ترجمہ :میرے موٴمن بندوں سے کھدو کہ اگر جمائی لیں تو خدا سے پناہ طلب کریں کہ شیطان ان پر نہ ھنسے اور اگر چھینکیں تو خدا کی تکبیر کھیں کہ جیسی تکبیر کا حق ھے اور یہ کہ اپنے گھروں میں کتوں کو نہ رکھیں اور دیواروں پر تصویر نہ چپکائیں اور اگر جوتے پھننا چاھیں تو دائیں پیر میں بائیں پیر سے پھلے پھنیں۔ اگر انھوں نے ایسا نھیں کیا تو وہ بھت عظیم گناہ کے مرتکب ھوئے ھیں (۹) اور اگر تخلی کریں تو اپنی شرمگاہ کو تین پتھروں سے پوچھیں اور اس گندگی سے دور ھو جائیں چونکہ ھم نے اس کو جنوں کے لئے غذا قرار دیا ھے اور مومنین کے لئے ایک ممنوع امر (۱۰) میرے مومن بندوں سے کھدو کہ جس سے چاھیں جنگ کریں اور اپنی روزی کے حصول کے لئے قتال کریں اور جو شخص ان سے جنگ نہ کرے اور جنگ کی بنا نہ رکھتا ھو وہ منافق اور بے نام و نشان مرتا ھے (۱۱) اور جو لوگ جادو سے ڈرتے ھیں وہ سات عدد کھجور کھائیں ( خرمائے عجوہ ) خدا ان کو جادو سے نجات دے گا اور ان سے پراکندہ شر کو دور کرے گا (۱۲) اور اگر جبریل تم سے روگردانی کرے تو تم ورقہ بن نوفل کی طرف رجوع کرو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ قبل اس کے کہ ھم اسے لوٹا لیں کہ ایسی صورت میں وحی تمھارے لئے ایک مشکل امر بن جائے گی۔ (۱۶)
صفحۂ تجسد کے آٹھویں نمبر میں ھے : فیہ و منہ کان مع روح قدسہ الھا سرمدیا واحدا احدا ۔ یعنی اس میں اور اس سے تھا، روح قدس کے ساتھ وہ دائم ایک اور اکیلا پروردگار ۔ اور ۱۳، ۱۴ نمبر میں ھے : ان الذین کفروا باٰیاته و قالوا قولا ادا (۱۳) لن یجعل الله لهم من امدّه بدا (۱۴) یعنی وہ افراد کہ جو اس کی آیات کے منکر ھوئے اور سخت باتیں کھیں (۱۳) خدا ان کے لئے اپنی قدرت سے کوئی چارہ ( علاج ) قرار نھیں دیتا ھے ۔
اسی طرح سے صفحۂ ایمان سے ۱۔ سے ۷ ۔ نمبر تک کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے ۔
و اذکر فی الکتاب الحواریین اذ عصفت الریاح بهم لیلا و هم یبحرون (۱) اذا تراء ی علی المیاة لهم طیف المسیح یمشی فقالوا هو ربنا بهذا بنا ام قد مسنا ضرب من جنون (۲) فجاء هم صوت المعلم ان لا تخافوا انی انا هوا افلا تبصرون (۳) و اذ طفق الحواری یمشی رای شدة الریح فخاف و بدا یفرق فصاح بربة یستعین (۶) فمد بیمینه له فاخذه بها و قال یا قلیل الایمان هذا جزاء الممترین (۷)
یعنی یاد کرو حواریین کی کتاب میں کہ جب رات میں ھوائیں چلیں اور وہ دریا میں تھے (۱) انھوں نے پانی کے اوپر یہ خیا ل کیا کہ مسیح راستہ چل رھے ھیں ، پس انھوں نے کھا کہ وہ ھمارا پروردگار ھے کہ ھمارا مذاق اڑا رھا ھے یا ھم پر دیوانگی طاری ھو گئی ھے (۲) پھر انھیں معلم کی آواز سنائی دی کہ مت ڈرو میں وہ ھوں کیا تم نھیں دیکھتے ھو ؟!! (۳) اور جیسے ھی حواری نے راستہ چلنا شروع کیا دیکھا کہ تیز ھوا چل رھی ھے اور ڈر گیا قریب تھا کہ وہ ڈوب جائے اس نے پروردگار سے فریاد کی اور اس سے مدد چاھی (۶) پس اس نے اپنے دائیں ھاتہ کو اس کی طرف بڑھایا اور اس سے کھا کہ اے کم ایمان ! یہ شک کرنے والوں کی سزا ھے ۔
یہ مبتذل اور کھوکھلے جملے کہ جو بے مقصد کلام اور خیالی داستانوں سے مشابہ ھیں اور ان کے کھنے والے نے قرآن مجید کے محکم اور متین جملوں کی تقلید کرنے کی کوشش کی ھے تاکہ اسے اس کے جواب میں پیش کرے اور اس سے مقابلہ کر سکے لیکن اس میں بلاغت ، طرز بیان اور معانی کی عظمت و بلندی کا وجود نھیں ھے یہ جملے نہ صرف یہ کہ قرآن مجید کی بلاغت کے ھزارویں حصہ تک بھی نھیں پھنچ سکتے بلکہ ایک ایسے معمولی کلام سے بھی پست تر ھیں کہ جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکے ۔
یہ جملے اس لائق نھیں ھیں کہ ان کے تمام جوانب کو مورد بحث قرار دیا جائے اور اس میں غور و فکر کی جائے چونکہ ان جملوں کا بے معنی اور سبک ھونا ذرا سی توجہ کے ذریعہ سبھی کے لئے روشن ھے ۔
جو لوگ بعض مھمل اور بے معنی الفاظ کو مرتب کر کے قرآن مجید سے مقابلہ کرنے کی فکر کرتے ھیں انھیں رسوائی کے سوا اور کچہ حاصل نھیں ھوتا ھے ۔ ایسے لوگ اس شعر کے بھترین مصداق ھیں :

ای مگس عرصہ سیمرغ نہ جولانگہ تو ست
عرض خود می بری و زحمت ما می داری

۳۔ چاروں صفحوں میں متناقض جملوں کا وجود

یہ بات مسلم اور قطعی ھے کہ قرآن مجید کی آیات ۲۳/ سال کے عرصہ میں پیغمبر اسلام (ص) پر تدریجی طور سے نازل ھوئیں اور اگر انھیں کل ملا کر دیکھا جائے تو ان میں معمولی سا بھی تضاد اور اختلاف نظر نھیں آئے گا اور یہ خودایک چیلنج اور قرآن مجید کے اعجاز کی ایک دلیل ھے کہ جو اصل بلاغت کے اثبات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت کرتی ھے کہ پوری تاریخ نزول میں قرآن مجید کی بلاغت ایک جیسی اور مساوی ھے لیکن ان چاروں صفحوں میں مختلف اور متناقض جملے موجود ھیں جب کہ ان کے الفاظ بھی محدود ھیں اور ان کے لکھے جانے کا زمانہ بھی مختصر ھے ۔ ذیل میں ھم چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
۱۔ صفحہ تجسد کے فقرہ نمبر ۶ میں ھے : سبحانہ رب العالمین ان یتخذ من خلائقہ ولدا ۔یعنی پروردگار عالم اس بات سے منزہ ھے کہ وہ مخلوقات میںسے کسی کو اپنا فرزند قرار دے ۔ اس عبارت سے یہ پتہ چلتا ھے کہ خدا کا کوئی فرزند نھیں ھے اور وہ کسی کا باپ بھی نھیں ھے لیکن اسی صفحہ میں فقرہ نمبر ۹ اور ۱۲ پر کھتا ھے۔ و اذ بعث به الاب للعالمین کما وعد و الی ابیه السماوی بعد ثلاثة ایام صعد ، یعنی جب اس کو عالمین کے باپ نے بھیجا جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ، اور اپنے آسمانی باپ کی طرف تین دن کے بعد اوپر چلا گیا ۔ صفحہ ایمان کے فقرہ ۹ / میں ھے : انت ھوابن اللہ حقا۔یعنی تم در حقیقت خدا کے بیٹے ھو ۔
۲۔ صفحۂ تجسد کے فقرہ نمبر ۷/ میں ھے ،لیس المسیح خلیقة الله اذ کان مع الله قبل البدء و هو معه ابدا ، یعنی مسیح خدا کی مخلوق نھیں ھے چونکہ وہ خلقت سے پھلے خدا کے ساتھ تھا اور ابد تک خدا کے ساتھ ھے ۔ یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ مسیح کی خلقت ابدی اور ازلی ھے اور اس کے نتیجہ میں یہ کھنا ھو گا کہ نعوذ باللہ دو خدا ھیں ایک خدا اور دوسرے مسیح ۔اور فقرہ نمبر ۸/ میں ھے ، فیہ و منہ کان مع روح قدسہ ، اس میں تھا اس سے تھا، روح قدس کے ساتھ اور آخر کار تثلیث کا قائل ھو جاتا ھے ۔
صفحۂ ایمان کے فقرہ نمبر ۲ اور ۳ میں مسیح کو رب کے عنوان سے توصیف کرتا ھے ، فقالوا اهو ربنا …..فجاء هم صوت المعلم ….. انی انا هو ، پس انھوں نے کھا کہ کیا وہ ھمارا پروردگار ھے ؟ پس ان میں معلم کی آواز سنائی دی ۔ میں وہ ھوں لیکن صفحۂ ایمان کی فقرہ نمبر ۹ میںیوں ھے ، انت هو ابن الله حقا ۔
صفحہ ٴ تجسد کے فقرہ نمبر ۹ /۱۰ / ۱۱/ اور ۱۲ میں کھتا ھے ، و اذ بعث به الاب للعالمین کما وعد ، حل فی بطن عذراء کلمة و خرج منه جسدا ، عاشرا الانسان علم الانسان ، مات عن الانسان ، فدی و کا لانسان رقد ۔ یعنی جب اس کو عالمین کے باپ نے بھیجا جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ۔ عذرا کے شکم میں ایک کلمہ نے حلول کیا اور جسم کے ساتھ اس سے خارج ھو گیا ، لوگوں کے ساتھ معاشرت کی، لوگوں کو تعلیم دی ، انسان کا خدا ھو گیا اور مر گیا اور انسان کی طرح سو گیا ( کہ جو موت کی طرف اشارہ ھے )۔
اسی طرح سے صفحۂ وصایا کافقرہ نمبر ۲/ اور ۵/ میں بلکہ اس صفحہ کا پورا مضمون اور مکمل عبارت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ مسیح خدا کے رسول ھیں جیسا کہ کھتا ھے ، انا ارسلناک للعالمین مبشراو نذیرا ۔۲۔ انا اعطینا موسیٰ من قبلک من الوصیات عشرة و نعطیک عشرات اخریٰ اذ قد ختمنا بک الانبیاء و جعلناک علیهم امیرا یعنی ھم نے تم کو عالمین کے لئے بشیر و نذیر کی حیثیت سے بھیجا ھم نے تم سے پھلے موسیٰ کو دس وصیتیں کیں اور ھم تم کو دس دوسری وصیتیں کرتے ھیں ، چونکہ تم پر سلسلہ پیغمبری کو ختم کر دیا اور ان پر تم کو امیر قرار دیا ۔
ان تمام عبارتوں سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ مسیح خدا کی مخلوق ھیں ۔
خلاصہ یہ کہ ان چاروں صفحوں سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام خدا بھی تھے، مخلوق بھی تھے اور رسول بھی تھے !!! یہ کیونکر ممکن ھے کہ ایک موجود خالق بھی ھو اور مخلوق بھی ھو، رسول بھی ھو اور مرسل بھی ؟!!!
فاعتبروا یا اولی الابصار ۔کون ھے کہ جو اس معمہ کو حل کرے ؟!!! کون عاقل شخص ھے کہ جو اس محال امر کو تسلیم کر سکتا ھے ؟ خداوند اھل کتاب کو مخاطب کر کے فرماتا ھے :
یا اهل الکتاب لاتغلوا فی دینکم و لا تقولوا علی الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول الله وکلمته القیها الی مریم و روح منه فآمنوا بالله و رسله و لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیرلکم انما الله الٰه واحد سبحانه ، ان یکون له ، ولد له ، ما فی السموات و ما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلا ، ( نساء / ۱۷۱)
یا اهل الکتاب لم تکفرون بآیات الله و انتم تشهدون ۔ یا اهل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق و انتم تعلمون ۔( آل عمران / ۷۰/۷۱)
تعجب کی بات یہ ھے کہ ان صفحوں کو لکھنے والا صفحہ تجسد کے ساتویں اور آٹھویں فقرہ میں تثلیث ( خدا ، مسیح ، روح القدس کی خدائی ) کا قائل ھوتا ھے پھر ان کی توصیف میں کھتا ھے ” الٰها سرمدیا واحدا احدا “ اس عبارت سے پتہ چلتا ھے کہ ان فقرات کو لکھنے والا کتنا بد ھواس اور غافل تھا کہ اس نے اعداد و شمار ریاضیات تک کو فراموش کر دیا اور ھذیان بکنے لگا ،ایک کو تین کھتا ھے اور تین کو ایک ،سفید کو سیاہ کھتا ھے اور سیاہ کو سفید ، عورت کو مرد سے اور مرد کو عورت سے تعبیر کرتا ھے !!!
کتنا بھترین جملہ خدا وند متعال نے فرمایا : لو کان من عند غیر الله لوجدوا فیه اختلافا کثیر “ ( نساء / ۸۲) ”قرآن اگر غیر خدا کی طرف سے ھوتا تو وہ اسمیں کثیراختلاف پاتے۔ “
کیوں انسان کے کلام میں اختلاف پیش آتا ھے ؟ اس اختلاف کی حکمت اور اس کا فلسفہ کیا ھے ؟ کیوں بشر کلام خدا کے مانند کلام نھیں لا سکتا ؟
اولاً۔ اس کا سبب یہ ھے کہ انسان تمام مادی موجودات کی طرح اس محدود عالم میں ھمیشہ تغیر و تحول کی حالت میں ھے اور ایک متغیر اور محدود موجود کے بس میں نھیں ھے کہ وہ غیر محدود اورلا متناھی موجود کا کردار ادا کر سکے ۔
ماحول سے متعلق اور خود انسان کے باطن میں ھونے والی تبدیلیاں انسان کے روحی حالات اور اس سے ظاھر ھونے والے آثار پر اثر انداز ھوتی ھیں، وہ ھمیشہ تکامل کی حالت میں ھوتا ھے ۔بعض چیزوں کے متعلق علم پیدا کرتا ھے کہ جن کو وہ پھلے نھیں جانتا تھا۔ یہ اس کا نیا علم اس کے نفس اور روح پر اثر انداز ھو سکتا ھے اور اس کے اندر نیا انقلاب پیدا کر سکتا ھے۔اسی طرح سے جب وہ نئے امور انجام دیتا ھے تو اس کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ھو جاتی ھے کہ بعد والے کاموں کو بھتر طریقہ سے انجام دے سکے ۔اسی طرح سے انسان کے حالات مثلاً خوشی، غم ، خوف ، امید وغیرہ کبھی کبھی خارجی اسباب کی وجہ سے اور کبھی اس کے باطنی اسباب کی وجہ سے بدلتے رھتے ھیں اور اس کے کلام پر اپنا اثر دکھاتے ھیں اس طرح سے کہ جب انسان خوش ھوتا ھے تو اس کے کلام کا انداز دوسرا ھوتا ھے اور اس کلام سے الگ ھوتا ھے کہ جو وہ حزن و اندوہ کی حالت میں کھتا ھے ۔ چونکہ وہ ایک مادی مخلوق ھے لھذا وہ مختلف اسباب و عوامل سے متاثر ھوتا رھتا ھے ۔
لھذا ایک فرد کے لئے یہ غیر ممکن ھے کہ اپنی پوری عمر میں ایسا کلام کرے کہ جو پورے کا پورا بلاغت کے لحاظ سے مساوی ھو ۔ مجبوراًاس کے کلام میں بھوک اور سیری ، خوشی اور غم ، سلامتی اور عدم سلامتی ، اضطراب اور اطمینان ، شکست اور کامیابی وغیرہ کے موقعوں پر واضح فرق نظر آئے گا ۔
قرآن مجید نے ان تمام حالات میں کلام کیا ھے ۔ اس وقت بھی کلام کیا ھے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شدید سختی میں گرفتار تھے اور اس وقت بھی کہ جب آپ کو کامیابی ملی۔ اسی طرح جب آپ کو مالی فقر کا سامنا تھا یا اس وقت کہ جب آپ کو انسانی طاقت میسر تھی اور صحت و سلامتی کی حالت میں تھے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن مجید نے ۲۳ / سال کی مدت میں بلاغت کے لحاظ سے ایک جیسا کلام کیا ھے اس طرح سے کہ اس کی ابتداء میں نازل ھونے والی آیات اتنی ھی محکم اور علمی حقائق اپنے دامن میں گھیرے ھوئے ھیں کہ جتنی محکم آخر میں نازل ھونے والی آیات ھیں ۔
ثانیا ً۔ یہ کہ خدا وند متعال اپنے مقصد اور ھدف کو دوسروں کے مقابلہ میں بھتر سمجھتا ھے اور اپنے بندوں کی حالت تمام جوانب سے سب سے زیادہ اچھی طرح سمجھتا ھے ، اور وہ سب سے زیادہ الفاظ کی ترکیب پر مسلط ھے لھذا فقط خدا ھے کہ جو اپنے مقصد کو مقتضائے حال کے مطابق سب سے بھتر طریقہ سے بیان کر سکتا ھے لیکن دوسرے افراد قدرت پر تسلط نھیں رکھتے اور انھیں یہ علم نھیں ھوتا کہ بطور دقیق کسی نکتہ کی رعایت کریں اور تمام مخاطبین کی حالت کو مد نظر رکھیںاور اس پیچیدہ فارمولے کے تحت کلام کریں ۔انسان قرآن مجید کے مثل نھیں لا سکتا، اس کا راز یھی ھے کہ انسان جتنی بھی کوشش کرے اور مختلف نکات کو مد نظر رکھے پھر بھی اس کا ذھن محدود ھے اور اس کی توجہ ایک یا چند مخاطب کی طرف معطوف ھو جاتی ھے اور تمام جوانب پر تسلط باقی نھیں رھتا ، لھذا قرآن کے مثل لانا کسی کے لئے ممکن نھیں ھوسکتا ۔
اس دنیا میں کہ جس میں تمام موجودات تغیر و تحول کی حالت میں ھیں کیا یہ ممکن ھے کہ ایک انسان کہ جو خود اس مادی دنیا کا جزء ھے اور خود اس میں تغیر و تحول پایا جاتا ھے وہ اس دنیائے انسانیت کے تمام حالات و جوانب میں دخالت کرے اور ایک ایسی کتاب دنیا کے سامنے پیش کرے جو علوم و معارف ، قوانین ، مواعظ ، امثال اور قصص پر مشتمل ھو کہ جس میں زندگی کے تمام جوانب اور گوشوں کے متعلق بحث کی گئی ھو اور علوم و معارف کے ھر شعبے میں اپنی رائے کا اظھار کیا گیا ھو ۔ ان تمام موارد میں کلام کا انداز مساوی اور اعلیٰ معیار پر ھو اور اس کے مطالب ۲۳ /سال کی طولانی مدت اور مختلف حالات میں لکھے گئے ھوں ، اور اس کے باوجود بھی اس کا ایک حرف بھی باطل نہ ھو ؟ جبکہ کوئی بھی شخص اس مدت میں ایک حالت پر باقی نھیں رھتا اور دانستہ یانا دانستہ طور پر اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ھوتی رھتی ھے۔
خلاصہ یہ ھے کہ ان صفحات میں دوسرے بھی اعتراضات اور متناقض باتیں موجود ھیں لیکن کلام کے طولانی ھو جانے کے پیش نظر ان سے صرف نظر کرتے ھیں ، چونکہ ان عبارتوں کا بطلان، کھوکھلا پن اور فاقد بلاغت ھونا اھل علم و انصاف کے لئے واضح و روشن ھے ۔

۱۔ سیرۂ ابن ھشام ۲/ ۶۰۰۔ تاریخ طبری ۲/ ۳۹۹ ۔ تاریخ طبری ۲ / ۳۹۴
۲۔ قرآن مجید کے اعجاز ، اور اس کے چیلنج کے متعلق مزید تفصیل کے لئے فارسی میں درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔ البیان ۔ آیة اللہ خوئی
شناخت اعجاز قرآن ۔ تفسیر المیزان ۔ رسالت جھان پیامبران ۔ آیة اللہ سبحانی
راہ و راھنما شناسی ۔ آیة اللہ مصباح یزدی ۔ اعجاز قرآن ۔ علامہ طباطبائی ۔ قرآن در اسلام ۔ ماھیت و منشاء دین ۔فضل اللہ کمپانی۔

تبصرے
Loading...