انصاراللہ یمن کون ہیں اوران کے کیا مقاصد ہیں؟

“انصاراللہ” یا “حوثیہ” تحریک کا آغاز تقریباً دو عشرے قبل یمن کے شمالی علاقوں سے ہوا جس کا مقصد ملک میں موجود سیاسی اور مالی کرپشن نیز سعودی عرب سم

“انصاراللہ” یا “حوثیہ” تحریک کا آغاز تقریباً دو عشرے قبل یمن کے شمالی علاقوں سے ہوا جس کا مقصد ملک میں موجود سیاسی اور مالی کرپشن نیز سعودی عرب سمیت دوسری بیرونی قوتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد یمن میں موجود القاعدہ اور دوسرے تکفیری دہشت گرد گروہوں نے حکومت، سعودی عرب اور مغربی طاقتوں کی حمایت سے اسے کچلنا چاہا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ملک بھر کے عوام میں حد درجہ مقبول ہوگئی اور عوامی حمایت سے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی جس کے نتیجے میں 2014ء میں بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے انصاراللہ یمن ملک میں برسراقتدار آگئی۔ اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے سعودی عرب نے خطے کے چند عرب ممالک کی مدد سے فوجی اتحاد تشکیل دیا جسے مغربی حکومتوں خاص طور پر امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اور مارچ 2015ء کے آخر میں یمن پر فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا۔ اب سوال یہ پیش آتا ہے کہ انصاراللہ یمن تحریک کن فکری اور سیاسی بنیادوں پر استوار ہے؟ تحریر حاضر میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس تحریک کے تاریخی اور نظریاتی پس منظر کو واضح کریں۔

1)۔ انصاراللہ کی تشکیل میں کارفرما تاریخی عوامل:

انصاراللہ تحریک یا “حوثیہ” درحقیقت ان اقدامات کا ردعمل ہے جن کا منشا یمن کے اندر یا باہر پایا جاتا ہے۔ داخلی سطح پر یمن اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے دوری اور فاصلوں کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس اہم نکتے کو بیان کرنا ضروری ہے کہ حجاز میں دین مبین اسلام کے ظہور اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد یمن اسلامی مرکز یعنی مکہ اور مدینہ سے قریب ہونے کے ناطے وہ پہلا خطہ تھا جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ اسی طرح اس خطے میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے بعض قریبی اصحاب کی موجودگی اور تبلیغی سرگرمیوں کے باعث یہاں پر رہنے والے افراد شیعہ مسلک کی طرف مائل ہوگئے۔ لہذا یمن کو اسلامی تاریخ کا پہلا شیعہ معاشرہ کہا جاسکتا ہے جو بعد میں زیدی شیعوں کی سیاسی سرگرمیوں اور انقلابی تحریکوں کے مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ بنی امیہ اور بنی عباس حکومتوں کے خلاف شروع ہونے والی اکثر انقلابی تحریکوں کا مرکز یمن ہی رہا ہے۔ مصر میں فاطمی حکومت برسراقتدار ہونے کے دوران یمن کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوگئی۔ لیکن شیعہ طرز تفکر کے خاتمے کی غرض سے شمالی افریقہ اور شام میں فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیئے جانے کے بعد خطے سے اہل تشیع کے مذہبی آثار کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ساتھ ہی خطے کے شیعہ باشندوں کو بھی کچلا جانے لگا۔ یمن کے شیعہ شہری بھی ان انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے لگے اور یہ سلسلہ عثمانی سلطنت کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی جاری رہا۔

1962ء میں امام یحیٰی حمید الدین المتوکل جنہیں زیدی شیعہ اپنا امام سمجھتے تھے نے یمن کی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور اس طرح زیدی شیعہ جو ملک کی 20 سے 50 فیصد آبادی کو تشکیل دیتے تھے یمن کے تمام سیاسی مراکز اور مسلح افواج پر قابض ہوگئے۔ لیکن اس کے فوراً بعد یمن میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا جو علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت سے کافی عرصہ چلتی رہی اور اس کے نتیجے میں یمن شدید معاشی، ثقافتی اور سیاسی مسائل کا شکار ہوگیا۔ اس وقت یمن کا شمار جنوب مغربی ایشیا کے پسماندہ ترین اور فقیر ترین ممالک میں ہوتا ہے اور شدید سیاسی اور معاشی کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ انصاراللہ تحریک کی پیدائش میں کارفرما بیرونی عوامل میں سے اہم ترین اس کا ہمسایہ ملک سعودی عرب ہے۔ حجاز پر وہابی مسلک سے گٹھ جوڑ کے بعد آل سعود کی حکومت تشکیل پائی۔ سعودی رژیم اور وہابی طرز تفکر کا اہم حصہ تسلط پسندانہ پالیسیوں پر مشتمل ہے لہذا یمن بھی ان تسلط پسندانہ پالیسیوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ سعودی عرب کیلئے یمن کی اہمیت کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

الف)۔ جیواسٹریٹجک پہاڑیاں: یمن کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلہ نہ فقط سعودی سرحدی علاقوں پر مکمل احاطہ رکھتا ہے بلکہ یمن کے جنوبی حصوں پر مکمل سکیورٹی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے میں بھی اہم رکاوٹ جانا جاتا ہے۔

ب)۔ اسٹریٹجک آبنائے: سعودی عرب ایک اہم اسٹریٹجک مسئلے کا شکار ہے۔ وہ یہ کہ جن سمندروں سے اس کے ساحل ملتے ہیں ان کی اصلی آبی گزرگاہیں دوسرے ممالک کے کنٹرول میں ہیں۔ مثال کے طور پر خلیج فارس میں واقع آبنائے ہرمز کا کنٹرول اسلامی جمہوریہ ایران اور عمان کے پاس ہے جبکہ بحیرہ احمر کی اصلی آبی گزرگاہ شمار ہونے والی نہر سویز مصر کے کنٹرول میں ہے اور اسی طرح آبنائے باب المندب کا کنٹرول یمن اور افریقی سینگ کے ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک میں اس کی کٹھ پتلی حکومتیں برسراقتدار رہیں جن کے ذریعے وہ اپنے سیاسی اور اسٹریٹجک اہداف آسانی سے حاصل کرتا رہے۔

ج)۔ اکثر عرب دنیا سے مختلف آبادیاتی ڈھانچہ: شیعہ مسلک عرب دنیا میں ایک اقلیت شمار ہوتی ہے جسے سماجی و سیاسی میدان میں بھی کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں۔ سعودی عرب جو خود کو عالم اسلام کا “ام القریٰ” قرار دیتا ہے شیعہ مسلمانوں کو اپنے اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے کیونکہ شیعہ مسلمانوں کی ہمدردیاں زیادہ تر ایران کے ساتھ ہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یمن میں زیدی شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ لہذا اس وجہ سے یمن اور باقی عرب دنیا میں کافی حد تک ثقافتی اور سماجی خلیج پائی جاتی ہے۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ جب بھی ایک معاشرہ سماجی طبقاتی فاصلوں اور بیرونی خطرات سے روبرو ہوتا ہے تو اس میں مختلف قسم کی گروہ بندیاں معرض وجود میں آنے کا زمینہ فراہم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہاں سیاسی اور جنگجو تنظیمیں اور گروہ تشکیل پاتے ہیں۔ یہ طبقاتی فاصلے افراد کی سیاسی زندگی پر اثرگزار ہونے کے لحاظ سے دو قسم میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ ایک فعال اور دوسری غیر فعال۔ غیر فعال سماجی طبقاتی فاصلہ انقلابی رہنماوں کی جانب سے سیاسی آگاہی کی فراہمی، تنظیم سازی اور سیاسی عمل کے ذریعے تشکیل پاتا ہے جو بتدریج فعال سماجی طبقاتی فاصلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ معروف سیاسی ماہر اور اسٹریٹجسٹ سیموئیل ہنٹنگٹن اس بارے میں ایک خاص نظریئے کے حامل ہیں جسے وہ “غیر متوازن ترقی” کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سماجی طبقاتی فاصلہ بتدریج ایک سماجی گروہ کو انقلاب لانے کی طرف سوق دیتا ہے۔

ان حالات میں 1990ء کے عشرے میں یمن کے بزرگ شیعہ عالم دین بدرالدین الحوثی کے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوام کے حقوق کی آواز اٹھائی۔ وہ یمنی عوام کی پناھگاہ اور حامی جانے جاتے تھے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کو درپیش مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کیلئے ایک عظیم عوامی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہاں اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ یمن میں گذشتہ چند صدیوں کے دوران زیدی شیعہ علماء اکثر فکری، ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں میں مرکزی کردار کے حامل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علماء عوام میں گھل مل کر رہتے تھے اور عوام بھی انہیں اپنا تصور کرتے ہوئے انہیں اپنی تمام تر مشکلات اور مسائل سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ لہذا یمن کے عوام نے ظلم کے خلاف جدوجہد میں علماء کو اپنا پیشوا اور قائد بنایا۔ اس سماجی ردعمل میں ایک سماجی تحریک کے آغاز کیلئے سیاسی اور مالی کرپشن کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی طبقاتی فاصلے کو غیر فعال سے فعال کرنے کی قابلیت رکھنا بھی ضروری تھا۔ سماجی تحریک درحقیقت اجتماعی رویے کی ایک صورت ہے جو عوام کی فعال شرکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایسی تحریک عام طور پر ایک منصوبے، تنظیم اور آئیڈیالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سماجی تحریک ایسی منظم جدوجہد ہے جس کا مقصد بعض معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنا یا انہیں بچانا ہے۔

حسین بدرالدین الحوثی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہی صعدہ کے پسماندہ اور غریب عوام کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا لیکن خاطرخواہ نتائج حاصل نہ کر پائے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یمنی حکومت اپنے غریب عوام پر خاص توجہ نہیں دیتی۔ لہذا انہوں نے ایک سماجی تحریک چلانے کا ارادہ کر لیا۔ کسی بھی تحریک کے آغاز کیلئے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے لہذا انہوں نے آہستہ آہستہ غریب اور پسماندہ شیعہ عوام کو اپنے گرد اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ بہت کم عرصے میں ان کے گرد بڑی تعداد میں افراد جمع ہوگئے اور تحریک کا آغاز کر دیا گیا۔ دوسری طرف علی عبداللہ صالح کی حکومت اس نئی تحریک سے خوفزدہ ہوگئی اور اسے کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن یمنی حکومت کی جانب سے حسین الحوثی کی سربراہی میں چلنے والی تحریک کے خلاف طاقت کے استعمال کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا اور یہ سماجی تحریک ایک مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی جس کے نتیجے میں خونی چھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حسین بدرالدین الحوثی نے 2002ء میں اپنی مشہور تقریر کے دوران اس جدوجہد کے عظیم مقاصد کو بیان کیا۔ یہ تقریر آج انصاراللہ یمن کا نصب العین تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا: اللہ اکبر، الموت لامریکہ، الموت لاسرائیل، اللعنۃ علی الیھود، النصر للاسلام۔ 2004ء میں حسین بدرالدین الحوثی کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی عبدالمالک الحوثی نے اس جدوجہد کی سربراہی سنبھالی۔ ان کے دور میں انصاراللہ یمن نے بہت ترقی کی۔ عبدالمالک الحوثی ایک مضبوط شخصیت کے مالک انسان ہیں جو انقلابی افکار کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان مقرر بھی ہیں اور ان کی ہر دلعزیز شخصیت نے ایک عشرے کے بعد 2014ء میں اس انقلابی تحریک کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا۔

2)۔ انصاراللہ یمن کی تشکیل میں کارفرما فکری عوامل:

ہر سیاسی تحریک کی نظریاتی بنیادوں اور عملی اقدامات کا منشا اس کے قبول کردہ تصور کائنات، آئیڈیالوجی اور اقدار کے نظام پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی بھی تحریک کے ممکنہ فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں پیشین گوئی کرنے کیلئے اس کے ایسے رہنماوں کی اخلاقی، علمی اور نظریاتی شخصیت کو جاننا ضروری ہے جو انسانی معاشرے پر اثرانداز ہونے کے علاوہ عظیم تبدیلیوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔ انصاراللہ تحریک کے ایسے ہی دو رہنما حسین بدرالدین الحوثی اور عبدالمالک بدرالدین الحوثی ہیں۔ یہ دونوں رہنما دینی عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم تھے۔ ان دونوں کا اپنے گذشتہ اور ہم عصر علماء سے بنیادی فرق اس بات میں تھا کہ انہوں نے دوسرے علماء کے برخلاف انفرادی سرگرمیوں سے نکل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ انصاراللہ یمن کی نظریاتی بنیادوں کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے زیدی شیعہ مذہب کے عقائد و نظریات اور اسلامی انقلاب کی سوچ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

الف)۔ زیدی شیعہ مذہب کے عقائد و نظریات:

زیدی شیعہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کے پیروکار ہیں اور ان کا عقیدہ ہے امام حسین علیہ السلام کے بعد ایسا شخص امام ہے جس نے ظالم حکومت کے خلاف مسلح قیام کیا ہو۔ لہذا وہ امام حسین علیہ السلام کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے زید بن علی علیہ السلام کو اپنا امام مانتے ہیں۔ زیدی شیعہ ایک ایسا اسلامی فرقہ ہے جو شدت سے انقلابی سوچ اور افکار کا حامل ہے اور اسے انقلابی ترین اسلامی فرقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔زیدی شیعہ فرقے کے بھی کئی ذیلی فرقے ہیں جن میں سے “جارودیہ” زیدی فرقہ ایسا فرقہ ہے جو شیعہ اثناء عشری سے بہت قریب ہے۔ انصاراللہ یمن یا حوثی تحریک کے بانی بدرالدین الحوثی کا تعلق بھی اسی جارودیہ فرقے سے تھا اور وہ اپنے فرقے کے بڑے مجہتد شمار کئے جاتے تھے۔ خود اہلبیت اطہار علیھم السلام اور ان کا مکتب انسانی تاریخ میں ظلم کے خلاف قیام کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اس عظیم خاندان کا نعرہ “ھیھات من الذلہ” آزادی پسند انسانوں کی مشعل راہ رہا ہے۔ شیعہ تاریخ کے دوران بھی بزرگ شیعہ علماء نے ظلم کے خلاف قیام کی ثقافت کو زندہ کرنے کیلئے عاشورا کا سہارا لیا ہے۔ یہ اعلٰی اقدار پر مبنی ثقافت ہمیشہ دینی شعائر کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ہے اور جس انسان نے بھی اس عظیم مکتب میں صحیح طور پر تربیت پائی ہو وہ ظالموں کے ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار نہیں کرسکتا اور اس کے ظلم پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ انصاراللہ تحریک کے مذہبی رہنما بھی زیادہ تر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی نسل سے ہیں۔ لہذا ان کی جانب سے ظلم اور ظالمانہ اقدامات کے خلاف قیام کی بڑی وجہ مکتب اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات میں مضمر ہے۔

ب)۔ انقلاب اسلامی ایران کا تفکر:

1970ء کی دہائی کے آخر میں دنیا میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی جو امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی صورت میں تھی۔ یہ اسلامی انقلاب عظیم اہداف اور قیمتی نظریات کا حامل تھا جس کے چند نمونے آزادی اور خود مختاری، سیاسی اسلام، جمہوریت، استکبار دشمنی اور ظلم دشمنی کے طور پر قابل مشاہدہ ہیں۔ ظلم دشمنی کے دو پہلو ہیں: ایک داخلی اور دوسرا بین الاقوامی۔ داخلی سطح پر ظلم دشمنی کا مصداق صاحب اقتدار افراد کے ظلم سے عوام کو بچانا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر اس کا مطلب ظالم قوتوں کو دیگر اقوام کے حقوق پامال کرنے سے روکنا ہے۔ انصاراللہ یا حوثی تحریک کے روحانی رہنما بدرالدین الحوثی امام خمینی (رہ) کی شخصیت سے شدید متاثر تھے۔ انہوں نے کئی بار ایران آکر امام خمینی (رہ) سے ملاقات بھی کی۔ وہ اسلامی انقلابی سوچ کے شیدائی تھے اور اس سوچ سے ان کی والہانہ محبت ان کے بیٹوں حسین اور عبدالمالک الحوثی میں بھی منتقل ہوئی۔ کسی بھی تحریک کی ایک نظریئے اور سوچ سے قربت کو بعض علامات اور آثار سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انصاراللہ یمن میں انقلاب اسلامی ایران سے قربت کی درج ذیل علامات پائی جاتی ہیں:

i)۔ توحیدی نقطہ نظر: انقلاب اسلامی ایران کی اہم ترین خصوصیت توحید پر مبنی اس کا نقطہ نظر ہے۔ اسلامی انقلاب کے تمام اہم رہنما اور سرگرم کارکنان توحیدی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس کے باعث وہ معاشرے میں موجود مسائل کو صرف مادی پہلو سے نہیں دیکھتے بلکہ روحانی پہلووں کو بھی مدنظر قرار دیتے ہیں اور اسی وجہ سے توحیدی نقطہ نظر بہت زیادہ مفید اور موثر واقع ہوتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے اس توحیدی نقطہ نظر کا انعکاس انصاراللہ تحریک کی گذشتہ 20 برس پر مبنی انتھک اور بھرپور مقاومت اور جدوجہد میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انصاراللہ کی یہ جدوجہد کئی محاذوں پر جاری ہے جن میں یمن کا ظالم نظام حکومت، سعودی عرب کے جارحانہ اور مداخلت پر مبنی اقدامات اور ملک میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر سے مقابلہ شامل ہے۔ لہذا انصاراللہ تحریک نتائج کے حصول پر زور دینے کی بجائے شرعی اور عقلی فرائض کی انجام دہی پر تاکید کرتی ہے جس کی وجہ سے اب تک ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے باوجود یہ تحریک پورے زور و شور سے جاری ہے۔

ii)۔ عوام: انقلاب اسلامی ایران کی ایک اور نظریاتی بنیاد اسلامی تحریک کے اصلی حامی ہونے کے ناطے عوام پر خاص توجہ دینا ہے۔ ہر عوامی تحریک کی بقا اور تسلسل کا انحصار عوام کی بھرپور حمایت اور مختلف میدانوں میں ان کی فعال شرکت پر ہوتا ہے۔ عوام کی حمایت اور ملکی امور میں شرکت کا ہونا اور نہ ہونا ایک تحریک کی بقا اور زوال میں انتہائی موثر امر ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کے مختلف گروہوں جیسے خواتین، مرد، جوان، بوڑھوں، علماء، تاجران، ورکرز، فوجیوں وغیرہ کی جانب سے ظلم کے خلاف جدوجہد میں شرکت ہر تحریک کا لازمی حصہ ہے۔ انصاراللہ تحریک کی واضح خصوصیت جو کسی سے پوشیدہ نہیں اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہونا ہے۔ یمنی عوام انصاراللہ تحریک کی ہر طرح مدد کر رہے ہیں اور جانی، مالی اور سیاسی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

iii)۔ استکبار دشمنی: انصاراللہ یمن میں پائی جانے والی ایک اور خصوصیت جو انقلاب اسلامی ایران سے اس کی مماثلت کو ظاہر کرتی ہے عالمی استکباری قوتوں سے دشمنی پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی استکباری قوت کا واضح مصداق ہونے کے ناطے امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں جیسے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور پٹھو عرب حکومتوں نے انصاراللہ تحریک کی شروع سے شدید مخالفت کی ہے۔ انصاراللہ یمن کا موٹو اور بنیادی نعرہ “اللہ اکبر، الموت لامریکا، الموت لاسرائیل، اللعنۃ علی الیھود، النصر للاسلام” بھی اسی استکبار دشمنی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔

iv)۔ عدم انحصار: انقلاب اسلامی ایران کی ایک اور خصوصیت عالمی طاقتوں پر انحصار نہ کرنا ہے کیونکہ انحصار کا لازمی نتیجہ ان کے ساتھ ہمراہی اور ہم آہنگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا انقلاب اسلامی ایران نے “نہ شرقی نہ غربی” کا نعرہ متعارف کروایا۔ کسی بھی انقلابی تحریک جو عظیم انقلابی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہو کی کامیابی میں استعماری طاقتوں پر عدم انحصار انتہائی اہم اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک انقلابی تحریک اس قابل ہونی چاہئے کہ وہ عالمی استکباری طاقتوں کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی اور دوسری پابندیوں کے نتیجے میں پیدا شدہ مشکلات اور سختیوں کو برداشت کرسکے اور بیرونی قوتوں کی مدد اور حمایت کے بغیر اپنے انقلابی اہداف کے حصول کیلئے جدوجہد کو جاری رکھ سکے۔ انصاراللہ یمن میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔

نتیجہ:

مذکورہ بالا مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انصاراللہ تحریک شیعہ انقلابی سوچ کا شاخسانہ ہے اور انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے۔ انصاراللہ تحریک دراصل ملک میں موجود سیاسی اور مالی کرپشن اور بیرونی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے خلاف ایک عوامی انقلاب ہے جسے یمن کے اکثر عوام کی حمایت حاصل ہے۔ 

تبصرے
Loading...