انسان شناسی کی تعریف

١۔انسان شناسی کی تعریف 

ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروپ یا طبقہ کا کسی زاویہ سے جائزہ لیتی ہے اس کو انسان شناسی کہا جا سکتا ہے ،انسان شناسی کی مختلف اور طرح طرح کی قسمیں ہیںکہ جس کا امتیاز ایک دوسرے سے یہ ہے کہ اس کی روش یا زاویہ نگاہ مختلف ہے، اس مقولہ کوانسان شناسی کی روش کے اعتبار سے تجربی ،عرفانی، فلسفی اور دینی میں اور انسان شناسی کی نوعیت کے اعتبار سیکلی اورجزئی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

١۔روش اور نوعیت کے اعتبار سے انسان شناسی کے اقسام

انسان شناسی کے اقسام 

روش کے اعتبار سے 

نوعیت کے اعتبار سے

تجربی 

عرفانی 

فلسفی 

دینی 

جامع 

اجزائ

٢۔انسان شناسی کے اقسام 

تجربی،عرفانی،فلسفی اور دینی 

متفکرین نے انسان کے سلسلہ میں کئے گئے سوالات اور معموں کو حل کرنے کے لئے پوری تاریخ انسانی میں مختلف طریقہ کار کا سہارا لیا ہے ،بعض لوگوں نے تجربی روش سے مسئلہ کی تحقیق کی ہے اور ”انسان شناسی تجربی ”(١)کی بنیاد رکھی جس کے دامن میں انسانی علوم کے سبھی مباحث موجود ہیں ۔(٢)

بعض لوگوں نے عرفانی سیرو سلوک اور مشاہدہ کو انسان کی معرفت کا صحیح طریقہ مانا ہے،اور وہ کوششیںجو اس روش سے انجام دی ہیں،اس کے ذریعہ ایک طرح سے انسا ن کی معرفت کو حاصل کر لیاہے جسے انسان شناسی عرفانی کہا جا سکتا ہے،دوسرے گروہ نے عقلی اور فلسفی تفکر سے انسان کے وجودی گوشوں کی تحقیق کی ہے اور فکری تلاش کے ما حصل کو انسان شناسی فلسفی کا نام دیا گیا ہے اور آخر کار ایک گروپ نے دینی تعلیمات اور نقل روایت سے استفادہ کرتے ہوئے انسان کی معرفت حاصل کی اور انسان شناسی دینی کی بنیاد رکھی ہے ،اس کتاب کی آئندہ بحثوں میں جو منظور نظر ہے وہ دینی تعلیمات اور نقل احادیث کے آئینہ میں انسان کی تحقیق ہے لہٰذاانسان شناسی کے باب میں دینی تعلیمات کو

ہم آئندہ مباحث میں محور قراردیں گے اگرچہ انسان شناسی فلسفی ،تجربی اور عرفانی معلومات بھی بعض جگہوں پروضاحت اور انسان شناسی دینی میں ان کا تقابل اور ہماہنگی کے بارے میں گفتگو کی جائیگی ، لہٰذا انسان شناسی میں ہماری روش ،نقل روایت اور ایک طرح سے تعبدی یا تعلیمات وحی کی روش ہوگی ۔(3)

انسان شناسی خردو کلاں یا جامع و اجزائ

انسان کے بارے میںپوری گفتگو اور انجام دی گئی تحقیق کو دو عام گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کبھی انسان کی تحقیق میں کسی خاص شخص،کوئی مخصوص گروہ ،یا کسی خاص زمان و مکان کو پیش نظر رکھ کر افراد کے سلسلہ میں مفکرین نے سوال اٹھائے ہیںاوراسی کے متعلق جواب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کبھی انسان بطور کلی کسی شخص یا خاص شرائط زمان و مکان کا لحاظ کئے بغیر مفکرین و محققین کی توجہ کا مرکز قرار پاتا ہے اور انسان شناسی کے راز کشف کئے جا تے ہیں ،مثال کے طور پر انسان کے جسمانی طول ،عرض، عمق کی بناوٹ کی کیفیت کے بارے میں ،اسی طرح اولین انسان یا جسم میںتاریخی اعتبار سے تبدیلی اور تغیر کیبارے میں گفتگو ہوتی ہے یا ابتدائی انسانوں کے فکری ،عاطفی وعملی یا مخصوص سرزمین میں قیام یا معین مرحلۂ زمان میں زندگی گزارنے والے افراد کے طریقۂ زندگی ،کلچر، آداب و رسومات کے بارے میں تحقیق و گفتگو ہو تی ہے اور کبھی عام طور پر انسان کے مجبور و مختار ،دائمی اور غیردائمی یا دوسری مخلوقات سے اس کی برتری یا عدم برتری نیز اس کے انتہائی کمال اور حقیقی سعادت و خوش بختی کے بارے گفتگو ہوتی ہے جو کسی ایک فرد یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی۔انسان شناسی کی پہلی قسم کو انسان شناسی خرد یا ”جزنمائی” اور انسان شناسی کی دوسری قسم کو انسان شناسی کلاں یا ”کل نمائی” کہا جا سکتا ہے ۔

اس کتاب کے زاویہ نگاہ سے انسان شناسی کلاںیا کل مورد نظر ہے اسی بنا پر انسان کے سلسلہ میں زمان و مکان اور معین شرائط نیز افراد انسان کے کسی خاص شخص سے استثنائی موارد کے علاوہ گفتگو نہیں ہو گی،لہٰذا اس کتاب میں مورد بحث انسان شناسی کا موضوع ،انسان بعنوان عام ہے اور انسان کو بہ طور کلی اور مجموعی مسائل کے تناظر میں پیش کیا جائے گااور وہ تجربی اطلاعات و گزارشات جو کسی خاص انسان سے مختص ہیں یا کسی خاص شرائط و زمان و مکان کے افراد سے وابستہ ہیں اس موضوع بحث سے خارج ہیں۔

…………..

(١)انسان شناسی تجربی کو انسان شناسی logy Anthropo کے مفہوم سے مخلوط نہیں کرنا چاہیئے ،جیسا کہ متن درس میں اشارہ ہوچکا ہے، انسان شناسی تجربی، علوم انسانی کے تمام موضوعات منجملہ Anthropologyکو بھی شامل ہے، گرچہ پوری تاریخ بشر میں مختلف استعمالات موجود ہیں، لیکن دور حاضر میں علمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اس کے رائج معانی علوم اجتماعی کے یا علوم انسانی تجربی کے موضوعات میں سے ہے جس میں انسان کی تخلیق کا سبب ، جمعیت کی وسعت اور اس کی پراکندگی ، انسانوں کی درجہ بندی ، قوموں کا ملاپ ، ماحول و مادی خصوصیات اور اجتماعی و سماجی موضوعات،نیز روابط جیسے مسائل کو تجربہ کے ذریعہ واضح کیا گیاہے ۔

(٢) فارسی میں کلمہ علوم انسانی کبھی کلمہ Humanitiesاور کبھی کلمہ Social sciencesکے مترادف قرار پاتا ہے ۔ کلمۂ Humanitiesکا فارسی معنی علوم انسانی یا . . .معارف انسانی قرار دینا بہتر ہے ، اس کا ابتدائی استعمال ان انگریزی اور یونانی آثار پر ہوتا تھا جو قرون وسطی میں اہل مدرسہ کی خدا شناسی کے برخلاف انسانی پہلو رکھتا تھا اور آج ان علوم میں استعمال ہوتا ہے جو انسان کی زندگی ، تجربہ رفتار و کردار کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔یورپ اور امریکہ میں یہ کلمہ ادبیات ، لسان ، فلسفہ ، تاریخ ، ہنر ، خداشناسی اور طبیعی و اجتماعی علوم کی موسیقی کے موضوعات کی جدائی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور روش کے اعتبار سے علمی و تجربی روش میں منحصر نہیں ہے ، معارف دینی بھی جب فکر بشر کا نتیجہ ہو گی تواسی دائرہ اختیار میں قراردی جائیگی ، اسی بنا پر دینی معارف کے تفکرات و اعتبارات، خدا کی طرف سے اور فطرت سے بالاتر ذات سے حاصل ہونے کی وجہ سے اس گروہ سے خارج ہیں ، کلمہ ٔ Social sciencesکا بالکل دقیق مترادف ” علوم اجتماعی تجربی ” ہے اور کبھی انسانی علوم تجربی کا استعمال، طبیعی تجربی علوم کے مد مقابل معنی میں ہوتا ہے،اور جامعہ شناسی، نفسیات شناسی ، علوم سیاسی و اقتصادی حتی مدیریت ، تربیتی علوم اور علم حقوق کے موضوعات کوبھی شامل ہے ۔ اور کبھی اس کے حصار میں جامعہ شناسی ، اقتصاد ،علوم سیاسی اور انسان شناسی ( Anthropology) بھی قرار پاتے ہیں اور اجتماعی نفسیات شناسی ، اجتماعی حیات شناسی اجتماعی جغرافیا اور اس کے سرحدی گوشے اور حقوق ، فلسفہ اجتماعی ، سیاسی نظریات اور طریقہ عمل کے اعتبار سے تاریخی تحقیقات ( تاریخ اجتماعی ، تاریخ اقتصادی ) اس کے مشترکہ موضوعات میں شمار ہوتا ہے ۔رجوع کریں

Kuper Adman The social Sciences Encyclopedia Rotlage and Kogan paul. 

و: فرہنگ اندیشہ نو ، بولک بارس و غیرہ ، ترجمہ پاشایی و نیز :

Theodorson George, A modern Dictionary of Social Sciences .

(3)طریقہ وحی سے مراد یہ ہے کہ واقعیت اور حقایق کی شناخت میں تجربی طریقۂ سے استفادہ کرنے کے بجائے عقلی یا شہودی اور وحی الٰہی کے ذریعہ معرفت حاصل کی جائے . ایسی معرفت پیغمبروں کے لئے منزل شہود کی طرح ہے اور دوسرے جو دینی مقدس متون کے ذریعہ اسے حاصل کرتے ہیں وہ سندی یا نقلی طریقہ سے حقیقت کو حاصل کرنا ہے اسی بنا پر اس کو روش نقلی بھی کہا جاتا ہے ۔ البتہ کبھی طریقہ وحی سے مراد، دین کی مورد تائید طریقوں کا مجموعہ ہے جوروش تجربی ، عقلانی اور شہودی کو اس شرط پر شامل ہے کہ جب وہ واقع نما اور ان کاقطعی ہونا ثابت ہوجائے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی روش کو دینی روش کہنا چاہیئے ۔ دینی متون اور منابع کے درمیان فقط وہ اسلامی منابع مورد توجہ ہوناچاہیئے جو ہمارے نظریہ کے مطابق قابل اعتبار ہوں۔ چونکہ تمام منابع اسلامی کے اعتبار سے (خواہ وہ آیات و روایات ہوں) مسئلہ کی تحقیق و تحلیل کے لئے مزید وقت درکار ہے لہٰذا اسلام کا نظریہ بیان کرنے میں تمام مذاہب و فرقوں کے درمیان سب سے مستحکم و متقن منبع دینی یعنی قرآن مجید سے انسان شناسی کے مختلف موضوعات کی تحقیق و تحلیل میں استفادہ کریں گے اور مخصوص موارد کے علاوہ روائی منابع سے استناد نہیں کریں گے ؛ اسی بناپر مورد بحث انسان شناسی کو اسلامی انسان شناسی یا قرآنی انسان شناسی بھی کہا جاسکتا ہے ۔

 

 

تبصرے
Loading...