انسانیت اندھی تھی نور پیغمبر سے بینا ہو گئی

یغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت تاریخ کا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کی سمت و جہت کا تعین کرنے والا ماجرا ہے۔ آپ کی عظیم الشان ولادت کے موقع جو واقعات رونما ہوئے جنہیں تاریخ نے نقل کیا ہے، وہ اس ولادت کی حقیقت کی گویا علامتیں ہیں۔ منقول ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے موقع پر دنیا میں کفر و شرک کی علامتوں میں خلل پڑ گیا۔ فارس کا آتشکدہ جو ایک ہزار سال سے روشن تھا پیغمبر اسلام کی ولادت ہوتے ہی خاموش ہو گیا۔ عبادت خانوں میں جو بت رکھے ہوئے تھے گر گئے، بت پرستی کی عبادت گاہوں کے راہب اور خادم ششدر رہ گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے! شرک و کفر و مادہ پرستی پر اس ولادت کی یہ علامتی ضرب تھی۔ دوسری جانب اس زمانے کے ایران کے مشرک و جابر شہنشاہوں کا محل بھی حادثے کا شکار ہو گیا۔ مدائن کے محل کے چودہ کنگورے ٹوٹ کر گر گئے۔ یہ بھی ایک اور علامتی تبدیلی تھی کہ یہ ولادت دنیا میں ظلم و ستم اور طاغوتی طاقتوں سے جنگ کا مقدمہ ہے اور تیاری ہے۔ وہ انسان کی فکری و قلبی ہدایت کا روحانی پہلو اور یہ بشریت کی سماجی رہنمائی کا پہلو۔ ظلم سے مقابلہ، سرکشی کا سد باب، عوام پر ستمگروں کی ناحق حکومت کے خلاف جد و جہد یہ سب ولادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علامتی اشارے تھے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اس زمانے کو بیان کرتے ہوئے جس میں پیغمبر اسلام کے وجود کا تابناک آفتاب طلوع ہوا چند جملے ارشاد فرماتے ہیں: ” الدنیا کاسفۃ النور ظاھرۃ الغرور” (1) انسانی زندگی کی فضا میں روشنی نہیں تھی، انسان ظلمتوں میں زندگی گزار رہا تھا، جہل کی تاریکی، سرکشی کی ظلمت، گمرہی کا اندھیرا تھا اور ان تمام ظلمتوں کا مرکز وہی مقام تھا جہاں پیغمبر اکرم کی ولادت ہوئی اور پھر آپ کو مبعوث کیا گيا، یعنی جزیرہ عرب۔ ہر ضلالت وگمراہی و تاریکی کا ایک نمونہ مکے اور جزیرۃ العرب کے ماحول میں موجود تھا۔ اعتقادی و فکری گمراہی، وہ رسوا کن شرک، وہ تشدد پسندانہ مزاج، وہ بے رحمی و قسی القلبی کہ ” و اذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھھ مسودا و ھو کظیم یتواری من القوم من سوء ما بشر بھ یمسکھ علی ھون ام یدسھ من التراب الا ساء ما یحکمون” (2) یہ ولادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اور آپ کی بعثت کے دوران معاشرے کا مزاج تھا۔ “و كان بعده هدى من الضّلال و نوراً من العمى”(3)

انسانیت اندھی تھی بینا ہو گئی، دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی نور وجود پیغمبر سے منور ہو گئی۔ یہ ہے اس عظیم الشان ولادت اور اس عظیم ہستی کی بعثت کا مفہوم و معنی۔ اس الہی احسان اور ربانی نعمت کے احسانمند ہم مسلمان ہی نہیں بلکہ سارے انسان اس نعمت کے احسانمند ہیں۔ 

درست ہے کہ ان صدیوں میں پیغمبر اسلام کی ہدایت پوری انسانیت کو اپنے دامن میں نہیں لے سکی ہے لیکن یہ شمع فروزاں، یہ شعلہ روز افزوں انسانی معاشرے میں موجود ہے اور سالوں اور صدیوں کے گزرنے کے ساتھ رفتہ رفتہ انسانوں کی اپنے نور سے ہدایت کر رہا ہے۔ اس عظیم ہستی کی ولادت اور بعثت کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہی حقیقت نظر آئے گی۔ انسانیت اقدار کی سمت مائل ہوئی ہے، لوگوں نے اقدار کو پہچانا ہے، بتدریج اس میں وسعت آئے گی اور اس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوگا اور سر انجام انشاء اللہ “ليظهره على الدّين كلّه و لو كره المشركون”(4) یہ (ہدایت پیغمبر اکرم) پوری دنیا کا احاطہ کر لے گی اور انسانیت صراط مستقیم پر، اس ہدایت کی راہ پر اپنا حقیقی سفر شروع کرے گی اور اسی دن سے انسانی زندگی کا حقیقی آغاز ہو گا۔ اس دن لوگوں پر اللہ تعالی کی حجت تمام ہو جائے گی اور انسانیت اس عظیم شاہراہ کی مسافر بن جائے گی۔ امت مسلمہ کی حیثیت سے ہم آج اس عظیم نعمت کو اپنے سامنے موجود دیکھ رہے ہیں، اس عظیم نعمت سے ہمیں بھرپور بہرہ مند ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے دل و دماغ، دین و دنیا، زندگی و ماحول کو اس مقدس دین کی تعلیمات کی برکتوں سے منور اور روشن بنانا چاہئے، کیونکہ یہ نور ہے، بصیرت ہے۔ ہم خود کو اس کے پاس پہنچا سکتے ہیں اور اس سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کا عمومی فریضہ ہے۔

1) نهج البلاغه، خطبه ى 89

2) نحل: 58 و 59

3) مفاتيح الجنان، دعاى ندبه

4) توبه: 33

 

 

تبصرے
Loading...