انبیا اور صالحین کی قرآنی دعائیں

    اللہ تعالی ارشاد فرمارہا ہے ((وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ))  ؛
مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جھنم میں داخل ہوں گے )) اور  اللہ تعالی اپنے بندے کی اتنی ہی پروا کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے (( قل ما یعبؤا بکم ربی لولا دعاؤکم ))  ؛ (( پیغمبر ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمھاری پروا بھی نہ کرتا )) تو جو اللہ سے منہ موڑتا ہے تو خداوند عالم  بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور نہ ہی اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔
اس نگارش میں موجود مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے کس طرح مشکلات میں اللہ تعالی کو پکارا ہے اور اللہ نے ان کی فریاد اور آواز کو سن کر کس طرح نجات دی ہے ۔ انبیاء ؑ اور اولیاء کی دعائیں درحقیقت انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے اور مالک حقیقی کے ساتھ صحیح رابطہ قائم کرنے کے طریقہ کی تعلیم ہے ۔ ان کی سیرت کو اپناتے ہوئے ہمیں بھی ان دعاؤں کی تلاوت اور حفظ کرکے روزمرہ کی زندگی میں پڑھتے رہنا چاہئے ۔ قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے ۔ سورج کی طرح ہر زمانہ ، قوم و نسل کو روشنی دیتی ہے تاکہ لوگ روشنی سے مدد لیتے ہوئے ہدایت کے راستے پر گامزن ہوسکیں ، اسلئے کوشش کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی قرآن مجید میں نقل ہونے والی دعاؤں پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے ۔
۱۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا

((رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ))
قرآن مجید میں  ایک سورہ حضرت نوح علیہ السلام کے نام سے آیا ہے ۔ حضرت نوح نے تقریبا ۲۵۰۰ سال عمر کی ہے جس میں ۹۵۰ سال تبلیغ کی اور طوفان کے بعد ۵۰ یا ۶۰ سال زندہ رہے اور ان کی نسل ان کے بیٹے حام ، سام اور یافث سے آگے بڑھی ۔ اللہ تعالی نے حضرت نوحؑ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا تاکہ قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈرائیں انھوں نے قوم سے کہا : اللہ کی عبادت کرو ، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اللہ تمھارے گناہوں کو بخش دےگا۔

جناب  نوح کے اس پیغام سے لوگ ہوش میں نہیں آئے تو جناب نوح نے کہا : پروردگارا ! میں نے اپنی قوم کو دن رات بلایا پھر بھی میری دعوت کا کوئی اثر نہیں ہوا سوائے اس کے کہ کہ انہوں نے فرار اختیار کیا اور جب میں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا اور اپنے کپڑے اوڑھ لئے اور شدت سے اکڑے رہے ۔ میں نے علی الاعلان اور خفیہ طور سے دعوت دی کہ خدا تمہیں بخش دے گا اور مال ، اولاد ، پانی ، باغات اور نہروں کے ذریعے تمھاری مدد کرے گا لیکن لوگوں نے بہت بڑا مکر کیا اور لوگوں سے کہا  کہ خبردار ! اپنے خداؤں کو مت چھوڑنا تو جناب نوح نے کہا کہ پروردگار اس زمین پر بسنے والے کافروں میں سے کسی کو نہ چھوڑنا اگر انہیں چھوڑدے گا  تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اور اولاد پیدا نہیں کریں گے پھر جناب نوحؑ نے دست بدعا ہوکر فرمایا : (( رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ))
پروردگارا  ! مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو اور تمام مؤمن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور کافروں کی ہلاکت میں مزید اضافہ فرما ))

سورہ مؤمنون میں آیا ہے جب لوگوں نے حضرت نوح (ع) کو جھٹلایا تو فرمایا : (( رب  انی مغلوب فانتصر ))  ( پروردگار ان کی تکذیب کے مقابلے میں میری مدد فرما ) ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وحی کی کہ اے نوح ! ہماری نظروں کے سامنے کشتی بناکر مقررہ وقت پر روانہ ہوجا اور جب ساتھیوں سمیت کشتی پر اطمینان سے بیٹھ جاؤ تو اللہ کا شکر ادا کرو اور کہو :  ((رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ)) ،   (( پروردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ تو بھترین اتارنے والا ہے ))  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا : اے علیؑ ! جب کسی مقام پر اترنا ہوا تو کہو : (( اللہم انزلنی منزلا مبارکا و انت خیر المنزلین )) تاکہ اس مقام کی خوبی آپ کو نصیب ہو اور بدی آپ سے دور ہوجائے  ۔

جب کشتی چلنے لگی تو جناب نوح نے اپنے فرزند کو جو الگ جگہ پر تھا آواز دی کہ اے فرزند ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں میں سے نہ ہوجانا ، اس نے کہا میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا اور وہ مجھے پانی سے نجات دے گا ۔ جناب نوح نے کہا : آج حکم خدا سے کوئی بچانے والا نہیں ہے. بہرحال ،  نوح کا بیٹا کشتی پر سوار نہیں ہوا اور جناب نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار میرا فرزند میرے خاندان میں سے ہے اور تیرا وعدہ خاندان کو بچانے کا برحق ہے تو ارشاد ہوا : اے نوح یہ تمھارے خاندان میں سے نہیں ہے ، یہ لڑکا سرتا پا خطاکار  ہے لھذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمھیں علم نہیں ہے میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہیں تمھارا شمار جاہلوں میں نہ ہوجائے ! تو حضرت نوحؑ نے فرمایا : (( رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ))  ؛ (( میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا )) .  یہاں پر ایک ظریف نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ سعادت اور کامیابی کیلئے حسب و نسب معیار نہیں ہے بلکہ عمل صالح ملاک ہے ۔ اگر انسان کا عمل صالح ہو اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں ہو تو دنیوی اور اخروی کامیابی ہے اگر عمل صالح نہ ہو تو اولو العزم پیغمبر کا بیٹا بھی کیوں نہ ہو وہ ظالموں میں شمار ہوگا ۔

2۔حضرت ایوبؑ کی دعا

(( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ))  
حضرت ایوب علیہ السلام وہ نبی ہیں جن کا صبر دنیا میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی نے جناب ایوب ؑ کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا اور وہ بھی عبادت گزاروں میں اپنے مثال آپ تھے اس لئے شیطان نے جناب ایوبؑ کی بندگی پر حسد کرکے اللہ تعالی سے کہا : اے اللہ  ! اگر حضرت ایوب ؑ تیرے فرمانبردار ہیں تو صرف تیری نعمتوں  کی وجہ سے ہیں ورنہ اتنے مطیع نہیں ہوتے ۔ خداوندمتعال  نے حضرت ایوب ؑ کی بندگی کا اخلاص ثابت کرنے کے لئے ہر طرح سےامتحان  لیا یہاں تک کہ آپ کی ساری دولت اور اولاد ضائع ہوگئی پھر بھی انہوں نے صبر کیا اور آخری مرحلہ میں عرض حال کرکے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ((أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ)) (( مجھے بیماری نے آلیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے )) ۔  ایک اور آیت میں اس طرح آیا ہے : (( ۔۔۔ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ))  ( شیطان نے مجھے بڑی تکلیف اور اذیت پہنچائی ہے ) ۔ شیطان جناب ایوب ؑ کے صبر کو آزماتا رہا اور پروردگار بھی اس پر واضح کرتا رہا کہ ہمارے مخلص بندے ایسے ہی ہوتے ہیں ( یعنی ان کو رزق و روزی اور نعمات ملیں یا نہ ملیں وہ فرمانبردار ہی ہوتے ہیں ) ۔
جناب ایوب ؑ کی حاجت قبول ہوگئی اور خدا نے صبر کے صلہ میں پہلی جیسی تمام نعمتیں دے دیں  بلکہ ان میں اضافہ بھی کردیا جو صبر کرنے والے کے ساتھ اس کی مہربانی کا تقاضا ہے اور یہی معنی ( ان الله مع الصابرین) کے ہیں ۔

3۔ طالوت کے سپاہیوں کی دعا

 ((رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ))
حضرت موسیؑ کے بعد بنی اسرائیل نے حسب عادت شرارتیں کیں ۔ خدا نے ان پر جالوت جیسا بادشاہ مسلط کردیا اور اس نے مظالم کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اب ان لوگوں نے اپنے وقت کے پیغمبر جناب صموئیل ؑ سے فریاد کی کہ کوئی حاکم معین کریں جس کی سرکردگی میں جالوت کا مقابلہ کیا جائے ۔ انہوں نے حکم پروردگار سے طالوت کا انتخاب کردیا ۔ بنی اسرائیل نے حسب عادت اعتراض کیا کہ یہ دولت مند نہیں ہیں ۔ جناب صموئیل ؑنے  علم اور شجاعت کا حوالہ دیا اور خدائی نمائندہ ہونے کے ثبوت میں تابوت سکینہ کی آمد کا حوالہ دیا تب بہ مشکل  تمام بظاہر ایمان لے آئے ۔ یہ لوگ جب جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا : ((رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ))  ؛ (( خدایا ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ہمارے قدموں کو ثبات دے اور ہمیں کافروں کے مقابلہ میں نصرت عطا فرما )) ان کی دعا مستجاب ہوگئی اور ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دے دی ! ۔

۴۔ آسیہ زوجہ فرعون کی  دعا

   ٍ
((رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ))
 “تلازم حق” اسلام کا کھلا قانون ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کسی کو اس وقت تک کوئی حق نہیں دیتا جب تک کسی کے ذمہ کوئی فرض عائد نہیں کردیتا ہے اور اس وقت تک اس کے ذمہ کوئی فرض عائد نہیں کردیتا ہے جب تک اس کے مقابلہ میں کوئی حق ادا نہ کردے ۔ ازواج پیغمبر ﷺ کے بارے میں بھی اس کا یہی نظام ہے کہ انہیں عام امت سے بالاتر مرتبہ دیا ہے افراد امت کے لئے ماں قرار دیا ہے ان کے ساتھ کسی صورت میں بھی نکاح کو روا نہیں رکھا ہے تو اس کے مقابلے میں ان کی عظیم ذمہ داریاں بھی قرار دی ہیں انہی  ذمہ داریوں کی ادئیگی کو ان کی عظمت کا راز قرار دیا ہے ورنہ صرف زوجیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اسی لئے اس نے دونوں طرف کی مثالیں بیان کردی ہیں ۔ ایسی مثال بھی جہاں ایمان دار عورتیں بدترین شوہروں کے ساتھ رہیں اور  انہیں کوئی نقصان نہ ہوا اور ایسی مثال بھی جہاں بے ایمان عورتیں بہترین شوہروں بلکہ پیغمبروں کے ساتھ رہیں اور انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا اس لئے کہ دین خدا زوجیت اور قرابت کا دین نہیں ہے اس میں ایمان اور کردار معیار ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوحؑ اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے اور ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ آسیہ کی مثال بیان کی ہے جو کہ خدا پرست تھیں  ۔  آسیہ فرعون کی زوجہ اس کے گھر میں زندگی بسر کررہی تھی لیکن فرعون کے خدائی دعوی کو نہیں مانتی تھیں جب فرعون کو معلوم ہوا کہ اس کی زوجہ خدا پرست ہے اس کے حکم سے آسیہ کو سزا دی گئی یہاں تک کہ اس کی روح پرواز کرگئی اور ظالموں کے ظلم سہتے ہوئے اللہ کو اس طرح پکارتی تھی ((رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ)  (( پروردگارا  ! جنت میں میرے لئے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما ! ))  پس معلوم ہوا ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے ایمان اور بندگی کو حفظ کرسکتا ہے ۔

5۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی دعائیں

  ))رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا((
    الف)  قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مختلف تعلیمات دی ہیں ان میں سے ایک دعا یہ ہے جس میں اللہ تعالی حضور ﷺ کو حکم دیتا ہے خدا کو یوں پکاریں :  ((اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ))  (( اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے  خالق ، پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ))

ب) پیغمبر اسلام ﷺ کے دشمن بڑے سرکش لوگ تھے۔ وہ پیغام حق سے دور بھاگتے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ہر دن ایک نئی چال چلتے تھے۔ پھر بھی ہر چال اور بہانہ کے مقابلے میں حضور ﷺ سے مناسب جواب دریافت کرتے تھے اور اکثر اوقات خود پیغمبر ﷺ بھی اللہ تعالی کے جانب سے جواب کے منتظر رہتے تھے تاکہ دشمنوں کو جواب بھی مل جائے اور حضور ﷺ کے عزم اور ارادے میں پختگی بھی بڑھ جائے ۔
اللہ تعالی سورہ انبیاء میں توحید کے منکروں کو جواب دیتے ہوئے رسولخدا ﷺ کو اس طرح دعا کرنے کی تعلیم دیتا ہے : ((رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ)) ((پروردگار ! ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور ہمارا رب یقینا مہربان اور تمہاری باتوں کے مقابلہ میں قابل استعانت ہے )) ۔

ج)  سورہ مؤمنون ، مؤمنین کے پیغام نجات سے شروع ہوئی ہے اور کافرین کی عدم نجات پر تمام ہوئی ہے جیسا کہ اللہ ارشاد فرمارہا ہے : جو اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور کافروں کے لئے نجات بہر حال نہیں ہے ۔ اس کے بعد فوراً مغفرت کی دعا کی گئی ہے تاکہ انسان توفیق الہی اور رحمت پروردگار کے سہارے مؤمنین کے زمرے میں شامل رہے اور کفار  کے گروہ میں محشور نہ ہونے پائے اور خداوند رسول ﷺ کو دعا کرنے کا تعلیم دیتا ہے کہ رسولخدا ﷺ کہہ دیجئے :  ((رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ))  ؛ (( اے میرے پروردگار ! معاف فرما اور رحم فرما اور تو سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے )) حضور ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے ہمیں بھی ہر وقت سارے مؤمنین کی مغفرت کے  لئے دعا کرنی چاہئے ۔

د)  اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور کہتے رہیں ((رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا))  (( پروردگارا میرے علم میں اضافہ فرما )) ۔ اس مطلب کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ہمارے رسول ﷺ کے مخلوقات میں سب سے داناترین شخص ہونے کے باوجود اللہ تعالی انہیں حکم کرتا ہے کہ وہ (رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) کی تلاوت کرتے رہے تو ہمارے لئے جو کہ ایک ذرے سے زیادہ علم نہیں رکھتے ، ضروری ہے کہ اس دعا کا ورد کرتے ہوئے خدا سے زیادہ سے زیادہ علم طلب کریں ۔

ھ)  اللہ تعالی حضور اکرم ﷺ کو حکم کیا کہ وہ اس طرح اللہ کے حضور دعا کرے : ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا)) (( پروردگارا  ! مجھے ( ہر مرحلہ میں ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ ( اس سے ) نکال اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو )) ۔

 امام صادق ؑ نے فرمایا : تم جب کسی ایسی جگہ میں داخل ہو جہاں پر تمہیں خوف ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو  ۔
مفسرین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے کہ فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اسلام ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوگئی اور اللہ نے فرمایا : اے محمد تم آیہ ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا))  کی تلاوت کرکے داخل ہوجاؤ ۔ ابن عباس اس آیت ((رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا))  یعنی ((  اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو  ) کے بارے میں کہتا ہے :  خدا کی قسم اللہ تعالی نے حضور ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور علی بن ابیطالب ؑ کو رسول ﷺ کے لئے عطا کیا جنہوں نے دشمنوں کے خلاف حضور ﷺ کی مدد کی  ۔

و)  اللہ تعالی کبھی رسول ﷺ کو اس طرح دعا کرنے کا حکم دیتا ہے :
((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ))  ؛(( خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے ، جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ساری خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شئی پر قادر ہے ۔  تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بےجان اور بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے )) ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : جب بھی اسم اعظم کے ساتھ دعا کی جائے تو مستجاب ہوجاتی ہے جو عبارت  ((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ  ))   ۔

معاذبن جبل کہتا ہے : ایک دن نماز جمعہ حضور اکرم ﷺ کی امامت میں ادا نہیں کرسکا جب حضور ﷺ نے مجھے دیکھا تو مجھ سے سوال کیا: اے معاذ ! کس چیز نے تم کو نماز سے روکا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں یوحنای یہودی کو کچھ مقدار سونے کا مقروض ہوں وہ میرے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا تاکہ جب میں گھر سے باہر نکلوں تو وہ مجھ سے سونا مانگے ۔ چونکہ میرے پاس سونا نہیں ہے اس لئے میں گھر سے باہر نہیں نکلا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہارا قرض اداکرے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ، حضور ﷺ نے فرمایا : تم آیات ((اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ اللَّيْلَ فِي الْنَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الَمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ))   کی تلاوت کرو اس کے بعد یوں پڑھو : (( یا رحمن الدنیا والآخرة و رحیمهما تعطی منهما ما تشاء و تمنع منهما ما تشاء صل علی محمد و آل محمد اقض عنی دینی یا کریم )) یعنی ( اے دنیا اور آخرت کو بخشنے والا، اے دو جہان کے مہربان ، تو دنیا اور آخرت میں سے جو چاہو دیتے ہو  اور دونوں میں سے جو چاہتے ہو منع کرتے ہو پس محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میرے قرض کو ادا کر اے کریم )  اگر تمھارے ذمے پوری زمین کے برابر سونا ہی کیوں نہ ہو ، اللہ تعالی ادا کرے گا  ۔

6۔ حضرت سلیمان ؑ کی دعا

))رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ))
خدا نے جناب سلیمان ؑ کو ایک بے مثال حکومت عطا کی تھی۔ اس کا مقصد لوگوں کو توحید اور اہداف الہی کی طرف دعوت دینا تھا سارے چرند، پرند اور حیوانات آپ ؑ کے مطیع اور فرمانبردار تھے ۔ اللہ نے آپ ؑ کو سب مخلوقات کی زبانوں کا علم بھی دیا تھا جس کو حضرت سلیمان ؑ خود بھی اللہ کا کھلا ہوا فضل اور کرم سمجھتے تھے ۔ ایک دن حضرت سلیمان ؑاپنے عظیم لشکر ( جو جنات ، انسان اور پرندوں سے تشکیل پایا تھا ) کے ساتھ وادی نمل تک آئے ۔ ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو آواز دی کہ اے چیونٹیو ! سب اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجاؤ کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمھیں پائمال نہ کر ڈالے اور انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو تو جناب سلیمان ؑ اس کی بات پر مسکرادئے اور کہا :(( رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ))  ؛ (( پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما )) ۔
اہمیت اس بات کی ہے کہ آیہ کریمہ نے واضح کردیا کہ چیونٹیوں کے پاس بھی شعور اور ادراک ہے اور ان کے پاس بھی قومی تنظیم کی صلاحیت اور سردار لشکر کی معرفت حاصل ہے اور یہ بات ہے کہ یہ معرفت اس قدر کامل نہیں ہے کہ سلیمان ؑ کی طرف ایسے عمل کی نسبت نہ دی جائے جو نبی خدا کے شایان شان نہ ہو اور شاید یہ نسبت لشکر کے اعتبار سے تھی کہ نبی کا معصوم ہونا اصحاب کے بے عیب ہونے کی ضمانت نہیں ہے ۔ جناب سلیمان ؑ بھی  شکر خدا کی دعا کر کے یہ واضح کردیا کہ اقتدار کا مصرف یہ نہیں ہے کہ انسان اس بات پر اکڑ جائے کہ رعایا میرے خوف سے سوراخوں میں داخل ہوتی جارہی ہے بلکہ اقتدار کا مصرف یہ ہے کہ انسان اس بات پر شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے یہ شرف بخشا ہے اور دوسری مخلوقات کو اس کی عزت اور کرامت سے نہیں نوازا ہے ۔

بے مثال حکومت کے لئے حضرت سلیمان ؑ کی دعا :

))رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ))
اللہ تعالی نے حضرت سلیمان ؑ سے امتحان لینے کے خاطر، ان کے تخت پر ایک بے جان جسم ڈال دیا  ۔ یہاں پر بے جان جسم کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جناب سلیمان ؑ ہی شدید بیماری کے شکل میں تخت پر ڈال  دئے گئے تھے اور یہ کسی ترک اولی کا نتیجہ تھا ۔اور  بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے وارث تخت و تاج کا انتظام شروع کیا اور یہ تمنا کی کہ شجاع اور قدرتمند اولاد انہیں نصیب ہو تا کہ ملک کو چلانے خصوصا اللہ کے راہ میں جہاد کر کے کام آجائے چونکہ ان کی بیویاں زیادہ تھیں جناب سلیمان ؑ نے سب کے ساتھ نزدیکی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ بچے زیادہ پیدا ہوجائیں لیکن انشاء اللہ کہنے سے غفلت کی ۔ اور اس زمانے میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا سوائے بے جان کی طرح ایک ناقص الخلقہ بچہ کے ، جس کو جناب سلیمان ؑ کے تخت پر گرادیا گیا  پھر انہوں نے خدا کی طرف توجہ کی اور فرمایا : ((  رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ))  (( میرے رب  ! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو یقینا تو بڑا عطا کرنے والا ہے )) ۔ اللہ تعالی نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور تمام مخلوقات کو ان کے لئے مسخر بنادیا اور جناب سلیمان ؑ کی بادشاہت کی عظمت آج تک بے مثال ہے  ۔
7۔ ملک سبا بلقیس کی دعا

))رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ))
ایک دن حضرت سلیمان ؑ اپنے تخت پر شان و شوکت سے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ سارے پرندے اپنے پروں کے ذریعے آنحضرت ؑ کے سر پر سایہ کر رہے تھے تاکہ سورج کی دھوپ سیدھی نبی کے سر پر نہ آئے اتنے میں نبیؑ نے دیکھا کہ ایک سوراخ سے دھوپ آپ ؑ کے سر پر آرہی ہے۔ دیکھا تو ہُد ہُد کی جگہ خالی ہے اور وہیں سے دھوپ آرہی ہے ۔ آپ ؑ نے فرمایا : مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ میں اسے سخت ترین سزا دوں گا یا پھر ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل لے آئے ۔ تھوڑی دیر میں ہُد ہُد آگیا اور کہا یا نبی اللہ ، میں ملک سبا ( جو یمن میں ہے ) سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں وہاں پر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو سب پر حکومت کر رہی ہے ۔ اسے دنیا کی ہر چیز حاصل ہے ۔ اس کے پاس بہت بڑا تخت بھی ہے ۔ وہ اور اس کی قوم سب سورج کی پوجا کرتے ہیں ۔ شیطان نے ان کی نظروں میں اس عمل کو اچھا بنادیا ہے اور انہیں صحیح راستے سے روک دیا ہے ۔
حضرت سلیمان ؑ نے  ہُد ہُد کے ذریعے ملکہ سبا کو ایک خط بیھج دیا جس کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  لکھ کر حق کے سامنے تسلیم ہونے کا مشورہ دیا۔ ملکہ نے اپنے صاحبان قوت اور ماہرین جنگ سے رائے لینے کے بعد ایک ہدیہ حضرت سلیمانؑ کو بھیج دیا اس خیال سے کہ اگر سلیمان کوئی عام بادشاہ ہوا تو ہدیہ قبول کرلے گا اگر نبی ہوا تو ردٖٖ کردے گا ۔ لیکن سلیمان ؑ نے ہدیہ کو رد کردیا اور قاصد کو واپس کر دیا ۔ جناب سلیمان ؑ کے جواب سے مطمئن ہوکر ملکہ تخت و تاج چھوڑ کر جناب سلیمانؑ کی طرف روانہ ہوگئیں ادھر جناب سلیمان نے اس کے تخت کو ایک شخص کہ جس کے پاس کتاب کے ایک حصہ علم تھا کے ذریعے اپنے پاس منگوالیا اور اس کی ہیئت میں تبدیلی لاکر ناقابل شناخت بنادیا کہ ملکہ اس کو سمجھ پاتی ہے یا نہیں ۔

جب ملکہ  سلیمانؑ کے دربار پہنچیں تو سلیمانؑ نے پوچھا کیا تمھارا تخت ایسا ہی ہے ؟ اس نے کہا شاید یہی ہے اور مجھے تو پہلے ہی علم ہوگیا تھا اور میں نے اسلام قبول کرلیا تھا اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ قصر میں داخل ہوجائے اور قصر میں نیچے پانی اس کے اوپر شیشے لگائے گئے تھے ملکہ بلقیس داخل ہوتے ہی سمجھی کہ کوئی گہرا پانی ہے اور اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔سلیمانؑ نے کہا؛ یہ پانی نہیں شیشہ ہے ۔تو بلقیس نے جناب سلیمان میں نبوت کی نشانیاں اور خود کو غلط راستے پر دیکھ کر کہا : (( رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ))  (( پروردگارا ! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا  اور اب میں سلیمان کے ساتھ اس خدا پر ایمان لے آئی ہوں جو عالمین کا پالنے والا ہے ))۔ ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلقیس اس قدر شریف النفس عورت تھی کہ اس نے حق کی خاطر سارا اقتدار چھوڑدیا اور جناب سلیمانؑ پر ایمان لے آئی جبکہ آج کے دور میں برسوں کے مسلمان مردوں میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ حق کی خاطر اپنے مال و دولت اور جاہ و منصب قربان کرسکیں بلکہ اس کے باقی رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی جواز نکال لیتے ہیں اور جذبہ قربانی کو پائمال و برباد کردیتے ہیں ۔
   ۸۔ حضرت یوسف ؑ کی دعائیں

 ))رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ((
قرآن مجید میں حضرت یوسف ؑ کے قصے کو احسن القصص سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جب جناب یوسفؑ نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے ، سورج و چاند ان کو سجدہ کررہے ہیں ۔ اس کی تعبیر یہ تھی کہ ماں ، باپ اور بھائی سب ان کے سامنے خضوع سے پیش آنے والے ہیں۔ یہ بات بھائیوں کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ بھائیوں کا اعتراض یہی رہا کہ یوسف ہمارے باپ کی نگاہ میں زیادہ محبوب کیوں ہیں ؟ ۔ بھائیوں نے حسادت کی وجہ سے آپس میں مشورہ کیا ۔ کسی نے کہا یوسف کو قتل کردو ، کسی نے کہا یوسف کو کسی زمین میں پھینک دو ۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ ان کو اندھے کنویں میں ڈال دو تاکہ کوئی قافلہ ان کو کہیں دور لے جائے ۔ بھائیوں نے اسی پر اتفاق کیا۔ باپ سے اجازت لے کر صحرا کی طرف لے گئے اور اس کو کنعان کے کنویں میں ڈال کر یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر روتے ہوئے باپ کے پاس آکر کہنے لگے : بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑدیا تھا ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا ۔ جناب یعقوب ؑ نے کہا یہ بات صرف تمھارے دل نے گڑھی ہے ؛ لھذا میرا راستہ صبر و جمیل کا ہے ۔
لیکن صحرائے کنعان سے ہوتے ہوئے ایک قافلہ کنویں کے پاس پہنچا ۔ پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو ایک خوبصورت بچہ باہر آگیا اور بھائیوں نے یوسف کو معمولی قیمت  پر بیچ ڈالا مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اسے عزت و احترام کے ساتھ رکھو شاید ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا فرزند بنالیں ۔ جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو اللہ نے انہیں خوابوں کی تعبیر اور علم کی نعمت سے نوازا ۔ ادھر سے ملکہ زلیخا نے ان سے اظہار محبت کیا اور ان سے برائی کا ارادہ کر کے محل کے دروازے بند کردئے اور کہنے لگی لو آؤ ۔ یوسف نے کہا : معاذ اللہ ! وہ میرا مالک ہے ! اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی۔ شہر کی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز مصر کی عورت اپنے جوان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور اسے اس کی محبت نے مدہوش بنادیا ۔ جب زلیخا نے ان عورتوں کی مکاری اور تشہیر کا حال سنا تو خواتین کو ایک پرتکلف دعوت کا  انتظام کر کے بلا بیجھا ۔ سب کو چھری سے کاٹنے والے پھل دئے اور یوسف ؑ سے کہا کہ تم ان کے سامنے گزرو۔ ان لوگوں نے جیسے ہی یوسف کو دیکھا بڑا حسین و جمیل پایا اور غفلت سے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہا یہ تو آدمی نہیں بلکہ کوئی محترم فرشتہ ہے ۔ زلیخا نے کہا یہی وہ شخص ہے کہ جس کے بارے میں تم لوگوں نے میری ملامت کی ہے اور میں نے اس کو کھینچنا چاہا تھا کہ یہ نکل گیا اور اگر اب بھی میری بات نہیں مانی تو قید کیا جائے گا اور ذلیل بھی ہوگا تو حضرت یوسف ؑ نے کہا : (( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ ))  ؛  (( اے میرے رب ! قید مجھے اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کی مکاریاں مجھ سے دور نہ فرمائے گا تو میں ان عورتوں کی طرف راغب ہوجاؤں گا اور میرا شمار جاہلوں میں سے ہوسکتا ہے )) ۔ تو پروردگا ر نے یوسف کی دعا  قبول کرلی ۔

حضرت یوسف کچھ مدت قید خانے میں رہے وہاں پر دین و مذہب ، عقائد کی باتیں اور تعبیر خواب لوگوں کو بتاتے رہے یہاں تک کہ بادشاہ مصر کے اس خواب کی تعبیر بتائی جس کو کوئی تعبیر نہیں کرسکا تھا ۔ ادھر سے بادشاہ مصر نے یوسف ؑ کے کمالات دیکھے ادھر سے اس کی بیوی نے کہا کہ اب حق و باطل واضح ہوگیا کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں ۔ بادشاہ نے جناب یوسف کو قید خانے سے آزاد کردیا اور زمین کے خزانوں پر مقرر کردیا ، گویا جناب یوسف کو اقتصاد کی وزارت مل گئی ۔ بعد میں کنعان کے لوگ  شدید قحط سے دو چار ہوگئے اور جناب یعقوب ؑ کے بیٹے بادشاہ مصر سے غلہ مانگنے کیلئے مصر روانہ ہوگئے ۔ وہاں حضرت یوسف اپنے بھائیوں کو پہچانتے  ہیں اور دوسری مرتبہ اناج کے لئے آنے کی دعوت دیتے ہیں اسی طرح حضرت یوسف کے والدین اور بھائی سارے مصر آتے ہیں اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑتے ہیں تو یوسف نے کہا : بابا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے جسے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے کہ مجھے قید خانہ سے نکال لیا آپ لوگوں گاؤں سے نکال کر مصر میں لے آیا جبکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان  فساد کرچکا تھا بے شک میرا پروردگار اپنے ارادوں کو بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور صاحب علم و حکمت ہے اور فرمایا : ((رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنُيَا وَالآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ))  ؛ (( اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا ، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی ، مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا )) ۔

کردار یوسف کو دیکھتے ہوئے انسان کو ہر حال میں ، قید خانے میں ہو یا حکومت میں ، کنویں کی تاریکیوں میں ہو یا محل میں یا شیطان کے حملوں کی جگہ ، ۔۔ اللہ ہی کو ہر چیز کا مالک سمجھتے ہوئے اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیئے اور مسلمان ہی مرنے کے لئے دعا کرنی چاہیئے ۔
9۔ حضرت یونس ؑ کی دعا

)) لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ))
حضرت یونس ؑ نے ایک طویل عرصے تک لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دی لیکن لوگ صحیح راستے پر نہ آئے بلکہ اپنے کفر پر ضد کرتے رہے تو وہ قوم کی بے ایمانی سے عاجز آکر ناراض ہوکر آبادی سے باہر نکل گئے اور قوم کو عذاب کے حوالے کردیا تھا تو خدا نے انہیں کشتی کے ذریعہ مچھلی کے شکم تک پہنچادیا۔ گویا حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ کی قید رہنا پڑا تو انہوں نے اس ترک اولی کا اعتراف کر کے توبہ کی کہ مجھے قوم کو لاوارث نہیں چھوڑنا چاہئے تھا اگر میں ایسا نہ کرتا تو خدا مجھے مچھلی کے حوالہ نہ کرتا ۔ آپ ؑ نے مچھلی کے شکم کی تاریکیوں میں آواز دی :   (( لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ))     (( پروردگار ! تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا )) ۔ تو خدا نے ان کی دعا  کو قبول کرلیا اور انہیں غم سے نجات دے دی اور فرمایا : ہم اس طرح صاحبان ایمان کو نجات دیتے رہتے ہیں ۔ مچھلی کے شکم سے نجات پانے کے بعد حضرت یونس ؑ قوم کے پاس پلٹ گئے اور قوم بھی جناب یونس کے گرد جمع ہوکر راہ توحید پر گامزن ہوگئی ۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں اسم اعظم کی راہنمائی کروں کہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کو پکارنے سے دعا مستجاب ہوجاتی ہے اور وہ دعا جناب یونس کی دعا ہے جس نے تاریکیوں میں آواز دی       ((  لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ  ))    تو ایک صاحب نے سوال کیا یا رسول اللہ یہ دعا صرف جناب یونس کے لئے ہے یا سب کے لئے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے پوری آیت نہیں سنی ہے (( وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ)) اسی طرح ہم صاحبان ایمان کو نجات دیتے ہیں ( تو ہر دور میں صاحبان ایمان پائے جاتے ہیں ) یقینا اللہ تعالی بھی ارشاد فرمارہا ہے کہ (( اگر یونس تسبیح کرنے والے میں سے نہ ہوتے تو روز قیامات تک شکم میں رہ جاتے ))  (( فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ))  یعنی یہی تسبیح الہی اور گناہ کا اعتراف تھا کہ یونس نجات پاگئے ۔ امام صادق ؑ نے فرمایا :مجھے تعجب ہے اس غمزدہ شخص پر جو اس دعا کو نہیں پڑھتا: (( لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ)) چونکہ اس کے بعد اللہ تعالی فرمارہا ہے : ((فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ)) پھر ہم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا اور غم سے نجات دے دی ہم اس طرح مؤمنین کو نجات دیتے رہتے ہیں ۔

محمدبن یعقوب کلینیؒ نے نقل کیا ہے : اہل خراسان کے ایک مرد نے مکہ اور مدینہ کے درمیان سرزمین ربذہ پر امام صادق ؑ کی خدمت میں عرض کیا : میں آپ ؑ پر قربان جاؤں ! اب تک میں صاحب فرزند نہیں ہوا ہوں۔ کیا کروں؟ امام ؑ نے فرمایا : جب اپنے وطن واپس لوٹ کر اہلیہ کے پاس جانا چاہوگے تو ان آیات (( وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ، فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ، وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ  )) کو پڑھ لو خدا تمھیں اولاد دے گا انشاء اللہ  ۔ ترجمہ :((  اور یونس ؑ کو یاد کرو جب وہ غصے میں آکر چلے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکیوں میں جاکر آواز دی کہ پروردگار تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انہیں غم سے نجات دے دی کہ ہم اس طرح صاحبان ایمان کو نجات دیتے رہتے ہیں )) ۔
10۔ حضرت زکریا ؑ کی دعا

))رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاء))
حضرت زکریا ؑ بھی دیگر انبیاءؑ کی طرح اہل دعا اور مناجات تھے ۔ کئی سالوں سے بارگاہ ایزدی سے اولاد کی درخواست کرتے رہے تاکہ آپ کا وارث پیدا ہو لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں ملا شاید وہ مایوس ہوچکے تھے چونکہ ان کی عمر ۱۲۰ سال زوجہ کی عمر ۹۸ سال بتائی جاتی ہے  ۔  لیکن جناب مریم ؑ کے پاس عالم غیب سے آئے ہوئے  بےموسم کے پھل دیکھ کر آپ کی مایوسی امید میں تبدیل ہوگئی ۔ آپ ؑ نے حضرت مریم سے پوچھا یہ پھل کہاں سے آئے ہیں؟ ۔ حضرت مریم نے جواب دیا : یہ سب خدا کی طرف سے ہیں وہ جسے چاہتا ہے  بے حساب روزق عطا کردیتا ہے ۔ حضرت زکریا نے دعا کی کہ پروردگار ! تو بے فصل کے میوے پیدا کرسکتا ہے تو ضعیفی میں اولاد بھی دے سکتا ہے اور بارگاہ الہی میں عرض کیا : (( رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاء )) (( یعنی پروردگار مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر ، یقینا تو ہی دعا سننے والا ہے )) حضرت کی دعا قبول ہوگئی اور فرشتوں نے محراب میں حضرت یحیی کے پیدا ہونے کی بشارت دی تو جناب زکریا نے قدرت کاملہ کے مزید اظہار کے لئے سوال کردیا کہ یہ کس طرح ہوگا ؟ جواب ملا کہ یہ ہماری قدرت کا کرشمہ ہے ۔

ایک اور آیت میں حضرت زکریا کی دعا اس طرح آئی ہے کہ آپ نے بارگاہ الہی میں یوں فرمایا : (( رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ))   یعنی ( میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے ۔ ) تو اللہ تعالی بعد والی آیات میں فرمار ہا ہے :      (( ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلی ہے اور انہیں یحیی جیسا فرزند عطا کردیا ‌۔ حارث نصری کہتا ہے میں نے امام صادق ؑ کی خدمت میں عرض کیا ! میرا خاندان ختم ہوچکا ہے اور میری اولاد بھی نہیں ہے ( کہنا چاہتا تھا کہ بچہ پیدا ہونے کے لئے دعا یا تعویذ دے دیں )  امام ؑ نے فرمایا : سجدے میں جاکر کہو : ((رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاء  )) ٰ، ((رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ))  ۔  حارث کہتا ہے :میں نے امام ؑ کے فرمان پر عمل کیا اور سجدے کی حالت میں ان دونوں آیتوں کو پڑھ لیا ، اللہ تعالی نے مجھے دو فرزند بنام علی اور حسین عطا کئے  ۔

پروردگار ! ہم سب کو سیرت انبیاء علیہم السلام سے سبق لیتے ہوئے اللہ سے رابطہ مضبوط کرکے اس کے نیک بندوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین رب العالمین !

 
………………………..
منابع :

  1  – سورہ غافر /60
   2 –  سورہ فرقان /۶۰
   3  – سورہ نوح /۲۸
  4 -سورہ نوح /۲۸
  5 – سورہ مؤمنون/۲۶  
  6  – سورہ مؤمنون /۲۸
  7 – تفسیر صافی ، جلد ۳ ، ص ۳۹۹
  8 –  سورہ مؤمنون آیت ۴۲۔ ۴۳
  9  –  سورہ ہود/ ۴۷
 10 – سورہ انبیاء / ۸۳
 11 – سورہ ص /۴۱
 12 – سورہ بقرہ /۲۵۰
 13 – سورہ بقرہ /۲۵۰     
 14 – سورہ تحریم /۱۱
 15 – سورہ تحریم / ۱۱۰ ، ۱۱۱
 16 – سورہ تحریم / ۱۱
 17 – اسراء / ۸۰
 18 – سورہ زمر /۴۶
 19 – سورہ انبیاء / ۱۱۲   
 20 – سورہ مؤمنون /۱۱۸
 21 – سورہ طہ / ۱۱۴
 22 – سورہ اسراء / ۸۰
 23 – المحاسن ، احمد بن خالد برقی ، ج ۲ ، ص ۳۶۷
 24 – تفسیر قمی ، علی بن ابراہیم قمی ، ج ۲ ، ص ۲۵
 25 – شوہد التنزیل لقواعد التفضیل عبیدالله بن عبدالله حسکانی ، ج ۱ ، ص ۴۵۲   
 26 – آل  عمران / 26۔27
 27 – تفسیر نور الثقلین ، حویزی ، ج ۳ ، ص ۳۲۴
 28 – عدۃ الداعی و نجاح الساعی ، ابن فھد حلی ، ۶۳
 29 – سورہ نمل / ۱۹
30- سورہ نمل / ۱۹
 31 – سور ص / ۳۵
 32 – تفسیر نمونہ ، مکارم شیرازی ، ج ۲۳ ، ص ۲۸۰
 33 – سورہ نمل /۴۴
 34 – سورہ نمل ۴۴  
 35 – سورہ یوسف /۳3
 36 – سورہ یوسف /۳3
 37 – یوسف / 101   
 38 – سورہ انبیاء / ۸۷
 39 – سورہ صافات / ۱۴۳۔ ۱۴۴
 40 – اصول الکافی کلینی ، ج ۲ ، ص ۱۰
 41 – سورہ آل عمران / ۳۸
 42 – تفسیر مجمع البیان ، طبرسی ، ج ، ۱و ۲ ، ص ۴۳۹
 43 – سورہ انبیاء /89
 44 – سورہ آل عمران / ۳۸
 45 – سورہ انبیاء /89
 46 – الکافی ، محمدبن یعقوب کلینی ، ج ۸ ، ص ۸ ، باب الدعا فی طلب الاولاد

تبصرے
Loading...