انبیائے الٰہی کی صفات

اہلسنت و شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ انبیائے الٰہی میں ان صفات کا ہونا ضروری ہے. معارف اسلامی کے دروس کے سلسلے کا یہ چوتہا درس ہے جس میں امامت کے متعلق بحث و گفتگو نو دلیلوں پر مشتمل ہو گی ۔ تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ انبیائے الٰہی میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے۔ ان صفات و خصوصیات کے متعلق اہلسنت و شیعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

اہلسنت و شیعہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ انبیائے الٰہی میں ان صفات کا ہونا ضروری ہے. معارف اسلامی کے دروس کے سلسلے کا یہ چوتہا درس ہے جس میں امامت کے متعلق بحث و گفتگو نو دلیلوں پر مشتمل ہو گی ۔ تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ انبیائے الٰہی میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے۔ ان صفات و خصوصیات کے متعلق اہلسنت و شیعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

* پہلی صفت جو ایک نبی (ع) کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس وسیع علم ہونا چاہئے یعنی وہ تمام چیزیں جو ہدایت بشر کے لئے ضروری ہیں نبی انہیں جانتا ہو ۔ ایسا کوئی بہی مسئلہ جو لوگوں کی ہدایت کے لئے ضروری ہو اور نبی اس کو نہ جانتا ہوتو پہروہ نبی نہیں کہلایا جاسکتا۔

** دوسری صفت یہ ہے کہ وہ عظیم قدرت و طاقت کا حامل ہو ۔ہماری کتابوں میں اس طاقت کو بعنوان معجزہ ذکر کیا جاتا ہے ۔ آدم سے لے کر خاتم تک کسی نبی نے یہ نہیں کہا کہ ہم عام لوگوں کی طرح صرف معمولی کام انجام دے سکتے ہیں غیر معمولی کام انجام دینے سے قاصر ہیں ۔ اگر کوئی نبی اس بات کو کہے تو یقینا وہ نبی نہیں ہو سکتا لہذا نبی کو حتماً صاحب اعجاز ہونا چاہئے۔ اگر وہ چاہے تو درخت چلنے لگے ،ایک خشک درخت کو ہرا بہراا ور پہل دار بنا دے اور یہ سب کچہآن واحد میں ہو جائے ۔علم کلام کی روشنی میں اسے ولایت تکوینی سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی نبی تکوینیات میں بہی دخیل ہو سکتا ہے ۔معجزہ وہ دلیل ہے جس کی بنا ء پر لوگ ایک نبی کی نبوت کو تسلیم کرتے ہیں لہذا نبی کے پاس وسیع علم کے ساتہ ساتہ معجزہ بہی ہونا چاہئے ۔ یہ ایک طویل بحث ہے ۔ مختصر یہ کہ نبی (ع) اور ایک معمولی انسان کے درمیان یہ فرق پایا جاتا ہے کہ نبی(ع) خارق عادات و غیر طبیعی امور کو انجام دے سکتا ہے لیکن معمولی انسان غیر طبیعی امور کو انجام نہیں دے سکتا ۔

***  تیسری صفت جو ایک نبی میں ہونی چاہئے وہ عصمت ہے یعنی نبی عالم غیب سے ایکآئین زندگی حاصل کرے اور لوگوں کے حوالے کر دے تاکہ لوگ اسآئین زندگی کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر منزل کمال سے ہم کنار ہوسکیں ۔اس کا عالم غیب سےآئین زندگی کا حاصل کرنا ،اپنے پاس محفوظ کرنا اور لوگوں تک پہنچاناوغیرہ جیسے تمام مراحل کے لئے عصمت کا ہونا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی تمام صورتوں اور حالات میں غلطی سے محفوظ ہوتا ہے ۔

****  چوتہی صفت جو ایک نبی (ع) کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عالم وحی اور فرشتوں سے اس کا ارتباط ہو۔ یہ صفت مذکورہ صفات کا لازمہ ہے۔ اگر کوئی نبی یہ کہے کہ اسکا عالم وحی سے کوئی رابطہ نہیں ہے توقطعاً نبی نہیں ہو سکتا ۔ بہرحال کسی نہ کسی صورت میں اس کا رابطہ عالم وحی سے ہونا چاہئے خواہ براہ راست ہو یا بالواسطہ حتیٰ عالم خواب میں ، اس لئے کہ یہ رابطہ اس کو ان تمام گذشتہ صفات کا حامل بناتا ہے ۔

***** پانچویں صفت ان انبیاء (ع) سے مخصوص ہے جو اولو العزم اور صاحب کتاب و شریعت ہیں ۔ انہیں تمام فضائل و کمالات کی بنا پر وہ تمام افراد سے افضل ہوتے ہےں اور لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں ۔ اگر یہ فضائل ان کے اندر نہ پائیں جائیں تو ان کی لائی ہو ئی کتاب و شریعت کا نفاذ معاشرہ میں نہیں ہو سکتااور نہ ہی انہیں کوئی تسلیم کر سکتا ہے۔ کیونکہ مزاج انسانی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کمال سے عاری انسان کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے۔

****** چہٹی صفت یہ ہے کہ نبی کا انتخاب صرف خدا کر سکتا ہے ۔ بندہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نبی کو انتخاب کرے کیونکہ اس کے لئے کہ صلاحیت درکار ہوتی ہے ۔ جو خصوصیات انبیا ء کے لئے بیان کی گئیں ہیں وہ ایسی خصوصیات نہیں ہیں جنہیں عوام الناس تشخیص دے سکیں مثلاًوسیع علم ، معجزہ ، عصمت اور عالم غیب سے رابطہ وغیرہ ۔یہ عام لوگوں سے بالاتر چیزیں ہیں لیکن ان میں صرف معجزہ ہی ایسا امرہے جس کو عوام تشخیص دے سکتے ہیں ۔پوری تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی نے کبہی یہ کہا ہو کہ نبی کا انتخاب ہم کریں یا خدا ، یا پہلے ہم منتخب کریں بعد میں خدا تصدیق کر دے، یا پہلے خدا تعارف کرا دے بعد میں ہم منتخب کرلیں ، یا ہم تعارف کرا دیں اور خدا اسے منتخب کرے، سب صورتیں مساوی ہیں ۔

تبصرے
Loading...