انبیاء اور بشارت

قرآن مجید نے صریح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ بشریت کا تاریخی عہد انبیاء کی بعثت اور رسولوں کے آنے سے شروع ہوا۔ انبیاء اور رسولوں نے اپنی امتوں کو اعلیٰ حیات اور کامل ترین انسانی وجود کی طرف ہدایت کی۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ 

معاشرۂ انسانی میں انبیاء کا نور و ظہور اسی وقت سے ہے جب سے بشریت کی تاریخ شروع ہوئی ہے ۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

(کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰہ النّبیین مبشّرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیمااختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الا الّذین اوتوہ من بعد ما جائتھم البینات بَغْیاً بینھم فھدی اللّٰہ الذین آمنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ واللّہ یہدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم) (١)

لوگ ایک ہی امت تھے، پس خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبی بھیجے اور ان پر برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں در حقیقت اختلاف انہیں لوگوں نے کیا جنہیں(نبی کے ذریعہ) کتاب دی گئی اور ان پر آیتیں واضح ہو گئی ہیں ایسا انہوں نے بغاوت کی وجہ سے کیا ہے تو خدا نے ایمان قبول کرنے والوں کو ہدایت دیدی چنانچہ انہوں نے

…………..

١۔ بقرہ: ٢١٣۔

اختلاف میں حکمِ خدا کو پا لیا اور خدا جس کو چاہتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔

خدا کی رحمت و حکمت کا یہ تقاضا ہوا تھاکہ اس نے انسانوں کے درمیان ایسے انبیاء بھیجے جن کے ہاتھوں میں ہدایت کا پرچم ہو اور وہ لوگوں کوخواہشات کے غار سے نکال کر عقل کی بلندی پر پہنچا دیں، اور جنگ و جدال(جو طاقت و غریزہ کی وجہ سے ہوتی ہیں) کی لت سے ہٹاکر نظام کی منطق پر پہنچا دیں جس کا سرچشمہ قانون ہے ، انبیاء کے ذریعہ انسان حیوانیت سے بلند ہوا اور اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ عقل و روح کا پیکر ہے ۔ انبیاء نے انسان کے لئے ایک گھاٹ(حوض، چشمہ) کی نشاندہی کی جو زندگی کی وحدت سے بہت بلند ہے ۔

یہ ایسی وحدت ہے جو عقیدہ کی بنیاد پر استوار ہے اس سے انسانی تعلقات کو وسعت ملتی ہے، یہ مادی روابط سے معنوی روابط کی طرف لے جاتی ہے ، عہد نبوت کے بعد سے انسانوں کے درمیان اختلافات کا سبب معنوی امور قرار پائے، دین و عقیدہ میں اختلاف ہوا، واضح رہے انبیاء کے لائے ہوئے دین کو لغو قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ ان کا سلسلہ جاری رہے گا ان میں تنوع ہوتا رہیگا ہاں اس موضوع کا سرچشمہ غریزہ نہیں ہے بلکہ قانون کو قرار دیا گیا ہے۔ اور انسانی وحدت و ارتقاء اور ان کے تعاون کے لئے وہی قانون، مستقل دستور بن سکتا ہے جس کی دین نے ضمانت لی ہے۔(١)

حضرت علی بن ابی طالب نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں (پیدائش عالم، تخلیق آدم اور زمین پر بسنے والے افرادکی تاریخ بیان کرنے کے بعد)اس بات کی وضاحت کی ہے کہ تاریخ انسان اور کمال و ارتقاء کی طرف اس کے سفر کا محور انبیاء کی روشنی اور ان کی مسلسل بعثت ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے تاریخ کے ساتھ اپنے تعامل کے طریقہ میں اسکی وضاحت کی ہے :

ارشاد ہے:”…واصطفیٰ سبحانہ من ولد (آدم) انبیائ، اخذ علیٰ الوحی میثاقھم ”

ان سے یہ عہد لیا تھا کہ جو وحی ان پر کی جائے گی وہ اسے لوگوں تک پہنچائیں گے اور لوگوں کے لئے اسی چیز کو شریعت بنائیں گے جو وحی کے ذریعہ ان تک پہنچے گی۔

…………..

١۔ حرکة التاریخ عند الامام علی ص ٧١۔ ٧٣۔

خدا نے اولادِ آدم میں سے بعض کو نبی بنایا اور ان سے یہ عہد لیا کہ وہ اس چیز کی تبلیغ کریں گے جس کی ان پرخدا کی طرف سے وحی ہو گی۔

تبلیغِ رسالت کے لئے ان سے عہد لیا یہ ان کے پاس امانت ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد میں رد و بدل کر دی تھی،یعنی میثاق فطرت کو بدل دیا تھا۔

جس کے نتیجہ میں وہ اس سے جاہل رہے اور اس کی مثال قرار دینے لگے۔ اور شیطان نے انہیں معرفتِ خدا کے راستہ سے ہٹا دیا اور انہیں اسکی عبادت سے بہکا دیا۔

خدا کے علاوہ انہوں نے دوسرے معبود بنا لئے تھے۔

لہذا خدا نے ان میں اپنے رسولوں کو بھیجا،ایک کے بعد ایک ان کے درمیان اپنے انبیاء بھیجے تاکہ وہ ان سے فطری میثاق کی ادائیگی کا تقاضا کریں اور انہیں خدا کی نعمت یاد دلائیں جس کو وہ بھلا چکے ہیں، اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حّجت تمام کریں،عقل کے دفینوں کو ان پر آشکار کریں اورانہیں پوشیدہ نشانیاں دکھائیں، آسمان کا شامیانہ دکھائیں، زمین کا بچھا ہوا فرش دکھائیں، ان کو فنا کرنے والی اجل سے آگاہ کریں، ان کو بوڑھا کرنے والے رنج و مشقت اور پے در پے رونما ہونے والے حوادث کی طرف متوجہ کریں۔

خدا وند عالم نے اپنی مخلوق کو” نبیِ مرسل ”، ”کتاب منزل”، ضروری و لازمی حجّت اور واضح راستہ سے محروم نہیں کیا ہے ۔

رسولوں کی کم تعداد ان کی ہمت پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی اور نہ جھٹلانے والوں کی کثرت سے وہ مرعوب ہوتے تھے۔جو پہلے آتا تھا اسے بعد والے کا نام بتا دیا جاتا تھا اور وہ اس کی بشارت دیتا تھا، یا اس کے آنے سے پہلے اس کاتعارف کر ایاجاتاتھا۔

اسی طرح صدیاں گذرگئیں، زمانے بیت گئے، باپ اسلاف میں اور بیٹے اخلاف کے زمرہ میں چلے گئے تو خدا نے اپنا وعدہ پورا کرنے اور سلسلۂ نبوت کی تکمیل کے لئے محمد ۖ کو رسولۖ بنا کر بھیجا۔ انبیاء سے آپ ۖکی نبوت کا عہد لیا جاچکا تھا۔ پہلے انبیاء کی کتابوں میں ان کی علامتیں بیان ہو چکی تھیں، ان کی ولادت پاک و پاکیزہ تھی اہل زمین مختلف مذہبوں میں بٹے ہوئے اور پریشان خیالیوں میں مبتلا تھے، پراگندہ گروہ تھے، ان میں سے بعض تو خدا کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دیتے تھے بعض اس کے نام میں الحاد کرتے تھے( یعنی خدا کو ناروا صفات سے متصف کرتے تھے)یا اس کے غیر کو خدا مانتے تھے۔

پس رسولۖ نے انہیں گمراہی سے نجات عطا کی ، ہدایت کے راستہ پر لگایا۔ انہیں جہالت و نادانی سے نکالا(اور علم سے آراستہ کیا) پھر خدا نے محمدۖ کو اپنی ملاقات کے لئے منتخب کیا اور اس بات کو پسند فرمایا کہ انہیں دارِ دنیا سے اپنے پاس بلائے اور دنیا کی آزمائش سے نجات بخشے چنانچہ خدا نے آپۖ کو اٹھا لیا ، اور تمہارے درمیان انہوں نے وہی چیزیں چھوڑیں جو گذشتہ انبیاء نے اپنی امتوں کے درمیان چھوڑی تھیں، تمہیںواضح راستہ اور باقی رہنے والی نشانی کے بغیر حیران و پریشان نہیں چھوڑا ۔(١)

بیشک گذشتہ انبیاء آنے والے انبیاء کی جو بشارت دیتے تھے اس سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچتا رہا یہ چیز ان کی آنکھیں کھولتی ہے اور انہیں اس نبی کے استقبال کے لئے تیار کرتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے ۔ انہیں شک و شبہ سے نجات دلاتی ہے اور اطمینان و یقین کی دولت عطا کرتی ہے ۔

واضح رہے کہ جب انسان اپنی اصلاح سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ شر و خیانت کے طریقے سوچنے لگتا ہے ، اور اصلاح کرنے والے انبیاء کی آمد کی بشارت ان لوگوں کو حسرت و یاس سے نجات عطا کرتی ہے جو اصلاح کے منتظر ہوتے ہیں اور زندگی سے محبت کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خیر و صلاح کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

…………..

١۔انبیاء نے اپنی امتوں کو ان چیزوں سے محروم نہیں رکھا ہے کہ جن کی انہیں ان کے مرنے کے بعد ضرورت پیش آ سکتی تھی اس سلسلہ میں جو چیز ان پر فرض تھی وہی محمدۖ پر بھی فرض تھی چنانچہ آپۖ نے اپنی امت میں کتاب خدا چھوڑی ہے جس میں ان کے دین سے متعلق ہر چیز موجود ہے اسی طرح اپنے معصوم اہل بیت چھوڑے اور انہیں قرآن کا ہم پلہ قرار دیا، جیسا کہ حدیث ثقلین نے اس کی وضاحت کی ہے حدیث ثقلین متواتر ہے اور بہت سے محدثین نے اس کی روایت کی ہے۔

اپنے نبیوں کی بشارت سے مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے کافروں کو اپنے کفر کے بارے میں شک ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نبیۖ کی دعوتِ حق کے مقابلہ میں کمزور ہو جاتے ہیں اور اس سے ان کے اسلام قبول کرنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جب بشارتوں سے یقین و اعتماد پیدا ہو جاتا ہے تو پھر نبیۖ سے معجزہ طلب کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے نیزبشارت دلوں میں اتر جاتی ہے اور اس سے یقین حاصل ہوتا ہے ، بشارت لوگوں کو غیر متوقع حوادث سے بچاتی ہے اوراس سے نبیۖ کی دعوت لوگوں کے لئے اجنبی نہیں رہتی ہے ۔(١)

واضح رہے کہ تمام انبیاء نے ایک ہی راستہ کی نشاندہی کی ہے، پہلے نے بعد والے کی بشارت دی ہے اور بعدمیں آنے والا پہلے والے پر ایمان لایا ہے ، سورۂ آل عمران کی آیت (٨١) میں بشارت کے طریقہ کی وضاحت ہوئی ہے یہ ان مثالوں میںسے ایک ہے جن کوہم آئندہ پیش کریں گے۔

گذشتہ انبیاء نے محمد ۖبن عبد اللہ کی رسالت کی بشارت دی

١۔ قرآن مجید نے اس بات کو صریح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دعا کی صورت میں حضرت خاتم النبیین کی رسالت کی اس طرح بشارت دی ہے (مکہ مکرمہ میں خانۂ خدا کی بنیادوں کو بلند کرنے، اپنے اور حضرت اسماعیل کے عمل کو قبول کرنے اور اپنی ذریت میں ایک گروہ کے مسلمان رہنے کی دعا کرنے کے بعد)( ربّنا وابعث فیھم رسولًا منھم یتلوا علیھم آیاتک و یعلّمھم الکتاب و الحکمة و یزکّیھم انک انت العزیز الحکیم۔)(٢)

پروردگار! ان میں انہیں میں سے رسول ۖ بھیجنا جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے بیشک تو عزت و حکمت والا ہے ۔

٢۔قرآن مجید نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ توریت کے عہد قدیم اور انجیل کے عہد جدید میں محمدۖ کی

…………..

١۔محمد فی القرآن ص ٣٦ و ٣٧۔

٢۔بقرہ: ١٢٩۔

نبوت کی بشارتیں ہیں یہ دونوں عہد، نزولِ قرآن اور بعثتِ محمدۖ کے وقت موجود تھے اگر ان دونوں عہدوں میں یہ بشارت نہ ہوتی تو ان کے ماننے والے اس بات کو جھٹلا دیتے۔

ارشاد ہے :(الّذین یتّبعون الرّسول النّبی الامّی الّذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التّوراة و الانجیل یأ مرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحّل لھم الطّیبات و یحرّم علیہم الخبائث و یضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیہم) (١)

جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکروہ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے پاک و صاف چیزوںکو حلال قرار دیتا ہے گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان سے بارگراں اور پابندیوں کو اٹھا دیتا ہے ۔

سورہ صف کی چھٹی آیت اس بات کی صراحت کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے توریت کی صداقت کی تصریح کی ہے اور اپنے بعد آنے والے اس نبی کی رسالت کی بشارت دی ہے جس کا نام احمد ہوگا اور یہ بات آپ نے تمام بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمائی تھی صرف حواریوںکو مخاطب قرار نہیں دیا تھا۔

اہل کتاب ہمارے نبیۖ کی آمد کے منتظر تھے

جس نبی کی بشارت دی جا چکی تھی ان سے پہلے آنے والے انبیاء نے ہمارے نبی کے عام اوصاف، بیان کرنے پرصرف اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی ایسی علامتیں بھی بیان کر دی تھیںجن کے ذریعہ لوگ انہیں بخوبی پہچان سکتے تھے مثلاً ان کی جائے پیدائش، جائے ہجرت اور ان کی بعثت کے وقت کے خصوصیات ان کے جسمانی صفات اور کچھ ایسے حالات بیان کئے تھے جن کے ذریعہ آپۖ اپنے کرداراور اپنی شریعت میں دوسروں سے ممتاز تھے لہذا قرآن نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ اس

…………..

١۔ اعراف: ١٥٧۔

رسول ۖ کو کہ جس کی، دونوں قدیم و جدید، عہدوں میں بشارت دی گئی ہے ویسے ہی پہچانتے تھے جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں(١) بلکہ اس بشارت کی بنا پرانہوں نے عملی آثار بھی مرتب کر لئے تھے اور ان کی جائے ہجرت اور مرکزِ حکومت کا پتہ لگا لیا تھا اور اسی جگہ سکونت پذیر ہو گئے تھے۔(٢) اور ان کی آمد کے سبب کافروں پر فتح پانے کے متمنی تھے اور اپنے رسولۖ کی مدد سے اوس و خزرج (کے قبیلوں) کو ڈراتے تھے(٣) ان کے علاوہ اور راہبوں کے ذریعہ یہ خبریں دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ گئی تھیں جومدینہ میں عام ہوئیں اور مکہ تک پہنچ گئیں۔ (٤)

آنحضرت ۖ کے اعلانِ رسالت کے بعد قریش کا ایک وفد اس لئے مدینہ کے یہود یوںکے پاس گیا تاکہ دعوائے نبوت کے صحیح ہونے کا پتہ لگائے اور ایسے معلومات حاصل کرے جن کے ذریعہ انہوں نے نبی کو آزمایا(٥) ہے یا انہیں ان کی آمد کی خبر ہوئی ہے اور اس سے یہ واضح ہو جائے کہ ان کا دعویٰ سچا ہے ۔

بہت سے اہل کتاب اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ انہیں علامتوں کے پیش نظر کوئی معجزہ دیکھے بغیر آپۖ پر ایمان لے آئے تھے، یہ بشارتیں، توریت و انجیل کے بعض نسخوں میں آج تک پائی جاتی ہیں۔(٦)

آپۖ کی نبوت کی بشارتیں آپۖ کی ولادت سے پہلے اور بعثت سے قبل آپ کی حیات میں بھی بیان ہوتی رہتی تھیں ان بشارتوں اور خبروں میں سے بحیرا راہب وغیرہ کی بشارت ابتدائے بعثت ہی سے مشہور تھی۔(٧)

حضرت امیر المومنین علی نے بھی اپنے ایک خطبہ میں اس تاریخی حقیقت کی گواہی دی ہے:

…………..

١۔انعام: ٢۔

٢۔ سیرت رسول اللہ ج١ ص ٣٨ و ٣٩۔

٣۔بقرہ: ٨٩۔

٤۔ا شعة البیت النبویۖ ج١ ص ٧٠ اس میں اغانی ج١٦ ص ٧٥،تاریخ یعقوبی ج ٢ ص ١٢ سے منقول ہے۔ حیات نبی الاسلام ص ١٣ ،اس میں سیرت ابن ہشام ج١ ص ١٨١۔

٥۔ ملاحظہ فرمائیں: سورۂ کہف کی شان نزول۔

٦۔ سیرت رسول اللہ و اہل بیتہ ج١ ص ٣٩، انجیل یوحنا و اشعة البیت النبوی ج١ ص ٧٠ اس میں توریت سے منقول ہے ۔

٧۔ بشارتوں کے سلسلہ میں سیرت نبوی اور تفسیر کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔

”…الیٰ ان بعث اللّٰہ سبحانہ محمّداً رسول اللّٰہ، لا نجاز عدتہ و اتمام نبوتہ ماخوذاً علیٰ النبیین میثاقہ مشہور ةً سیمائہ…” (١)

یہاں تک خدا نے وعدہ وفائی اور نبوت کی تکمیل کے لئے محمدرسولۖ کو مبعوث کیا کہ جن کی نبوت پر انبیاء سے عہد لیا تھا اور جن کی علامتیں اور بشارتیں مشہور تھیں۔

ابن سعد کی کتاب طبقات میں عتیبہ کے غلام سہل سے روایت ہے کہ وہ اہل حریس میں سے ایک نصرانی تھا اوراپنی ماں اور چچا کے زیر سایہ یتیمی کی زندگی گزار رہا تھا وہ انجیل پڑھتا تھا…وہ کہتا ہے: میں نے اپنے چچا کی کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنے لگا میری نظر سے ایک صفحہ گذرا کہ جس کی تحریر میں کوئی ربط معلوم نہ ہوا تو میں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر دیکھا، راوی کہتا ہے : میں نے دیکھا کہ ایک صفحہ دوسرے سے چپک گیا ہے ۔ میں نے دونوںکو الگ کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں محمدۖ کی تعریف و توصیف اس طرح مرقوم ہے :

آنحضرت ۖ نہ دراز قد ہوں گے نہ کوتاہ قد ہوں گے،گندم گوں رنگ ہو گا، بال گھنگرالے ہوں گے، دونوں شانوں کے درمیان مہر(نبوت) ہوگی بڑے سخی و فیاض ہوںگے، صدقہ نہیں لیں گے، گدھے اور اونٹ پر سوار ہونگے، بکری کا دودھ دوہیں گے، پیوند لگا کپڑا پہنیں گے اس لئے کہ جو ایسا کرتا ہے اس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ہے اور وہ اسماعیل کی ذریت سے ہوں گے، ان کا نام احمدہوگاسہل کہتے ہیں: جب میں یہاں تک محمدۖ کا ذکر پڑھ چکا تو میرے چچا آئے انہوں نے جب اس صفحہ کو دیکھا جس کو میں پلٹ چکا تھا کہنے لگے : تم نے اس صفحہ کو کیوں پڑھا ؟! میں نے عرض کیا : اس میں نبی احمد کے صفات کا ذکر ہے انہوںنے کہا: وہ ابھی تک تو آئے نہیں! (٢)

…………..

١۔نہج البلاغہ خطبۂ اولیٰ۔

٢۔ الطبقات الکبریٰ ج١ ص ٣٦٣۔

تبصرے
Loading...