ام ابیھا کے معنی میں مختصر وضاحت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ام ابیہا ہونے کے متعلق عالم تشیع کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی مظاہری سے ایک گفتگو کو اپنے قارئین کے لیے نقل کرتے ہیں۔

ترجمہ: جعفری

ام ابیھا کے معنی میں مختصر وضاحت

حضرت زہرا(س) کے اسماء و القاب کے سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ آپ کے لیے جو کنیت بیان ہوئی ہے وہ ام ابیہا(۱) ہے۔یعنی فاطمہ زہرا (س) پیغمبر اکرم (ص) کی ماں ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی اس کنیت کے تین معنی ہیں۔ اور تینوں معنی نہایت اہم ہیں۔ اگر ان پر توجہ کی جائے تو اس کے علاوہ کہ آپ کی نسبت ہمارا عقیدہ مزید مستحکم ہو گا آپ کی زندگی کو بہتر انداز میں اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیں سکیں گے۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغبر اکرم(ص) کی تخلیق کی علت غائی
پہلے معنی یہ ہیں کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے علت غائی ہیں معروف و مشہور روایت لَوْلاکَ لما خَلَقْتُ الأفْلاکَ و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما (۲) کا پہلا حصہ یعنی لولاک لما خلت الافلاک سند کے اعتبار سے معتبر ہے اور شیعہ و سنی کتابوں میں متواتر طریقہ سے نقل ہوا ہے (۳) کہ پروردگار عالم نے فرمایا: یا رسول اللہ کائنات کے وجود کی علت غائی آپ ہیں اور آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو خلق نہ کرتا۔
اس روایت کا دوسرا حصہ یعنی عبارت ”و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما‘‘ اگر چہ سند کے لحاظ سے پہلے حصے کے برابر نہیں ہے لیکن پھر بھی متعدد شیعہ و سنی کتابوں میں یہ فقرہ بیان ہوا ہے۔ اگر امیر المومنین علی(ع) نہ ہوتے تو خدا اپنے حبیب کو بھی خلق نہ کرتا یعنی پیغمبر اکرم(ص) کی علت غائی علی ہیں اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو پیغبر اور علی دونوں نہ ہوتے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو کائنات نہ ہوتی یعنی فاطمہ زہرا(س) در حقیقت کائنات کی وجہ تخلیق ہیں۔ خداوند عالم نے حضرت زہرا (س) کے صدقے میں کائنات کو خلق کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پروردگار عالم کے یہاں حضرت زہرا کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ماسوائے خدا ہر چیز ان کے صدقے میں ہست و بود ہوئی ہے۔
اور شاید اس بات کے معنی بھی یہی ہوں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زہرا (س) کو ام ابیہا کہا ہے وہ اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ پیغمبر اکرم (ص) یہ بتانا چاہتے ہوں کہ اے فاطمہ تم میری تخلیق اور ہستی کا سبب ہو۔ لہذا اس معنی میں حضرت زہرا پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے دین اسلام کی علت غائی ہوں گی۔
بزرگان اور اہل معرفت اس معنی پر تاکید کرتے ہیں اور اسی وجہ سے روایت «لَوْلاکَ لما خَلَقْتُ الأفْلاکَ و لَوْلا عَلیٌ لَمْا خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَمْا خَلَقْتُکُما» کے لیے خاص اہمیت کے قائل ہیں۔
شخصیت پیغمبر اکرم (ص) حضرت زہرا (س) کی مرہون منت
ام ابیہا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت حضرت زہرا (س) سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرم (ص) اپنی ماں حضرت آمنہ کی مرہون منت ہیں کہ انہوں نے جزء العلہ ہونے کے اعتبار سے آپ کو وجود بخشا ہے حضرت زہرا (س) کی والدہ حضرت خدیجہ (س) کا بھی یہی مقام ہے یعنی انہوں نے بھی اپنی تمام تلاش و کوشش کے ذریعے تیرہ سال اسلام کو مکہ میں پروان چڑھایا۔ اگر حضرت خدیجہ کی دولت و ثروت نہ ہوتی تو مکہ کی بنجر زمین میں آندھیوں اور طوفانوں سے بچ کر نہال اسلام کا تنومند ہونا ناممکن ہو جاتا۔ اگر پیغمبر اکرم(ص) شعب ابوطالب میں چالیس افراد کے ساتھ مشکلات کو متحمل کر پائے تو یہ حضرت خدیجہ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔
حضرت خدیجہ کی پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت کے سلسلے میں گفتگو طولانی ہے ہم صرف یہاں پر ایک جملہ میں ان تمام قربانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہ (س) نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے بعد پہلی رات ہی اپنے تمام مال و منال کی سندوں کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پیش کردیا اور فرمایا: میں آپ کی خدمتگذار ہوں اور یہ سارا مال آپ کا ہے۔(۴)
شادی کی پہلی رات میں حضرت خدیجہ کی بات صرف ایک تعارف اور تکلف نہیں تھا بلکہ انہوں نے عملا اس چیز کو ثابت کر دیا اور اس طریقہ سے اپنی بات پر سچائی کا ثبوت دیا کہ دنیا سے جاتے وقت اپنے پاس کفن تک بھی نہ تھا۔ اور اپنے شوہر پیغمبر گرامی اسلام کو یہ بات کہتے ہوئے بھی شرما رہی تھیں کہ مجھے کفن دے دینا۔ لہذا انہوں نے اپنی بیٹی جناب زہرا (س) کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) سے یہ وصیت کرتے ہوئے کہلوایا کہ وہ عبا اور چادر جسے نزول وحی کے وقت آپ اپنے شانوں پر ڈالتے ہیں اسے میرا کفن قرار دیں۔ جناب خدیجہ (س) کی درخواست دو اعتبار سے توجہ کی طالب ہے ایک یہ کہ یہ وحی کی عبا ہے اور متبرک ہے اور دوسرے یہ کہ آپ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کر دیا تھا لہذا آپ کے پاس کفن تک کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
حضرت رسول اسلام (ص) نے بھی وصیت کے مطابق عمل کیا اور اسی عبا کو اپنی بہترین شریک حیات جناب خدیجہ کے لیے کفن قرار دیا۔ جناب خدیجہ کو کفن دیتے وقت جناب جبرئیل (ع) بھی جنت سے کفن لے کر نازل ہو گئے۔ رسول خدا (ص) اپنی عبا اور بہشتی کفن دونوں سے جناب خدیجہ کو کفن دیا اور دفن کر دیا(۵)۔
خود حضرت زہرا (س) نے مدینہ میں دس سال کے عرصہ میں حضرت علی علیہ السلام کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کی ہمیشہ نصرت کی۔ اگر حضرت زہرا اور حضرت علی علیہما السلام نہ ہوتے تو پیغمبر اکرم کے لیے مدینہ میں موجود مشکلات کو سر کرنا بھی بہت ناگوار ہو جاتا۔
فدک، میراث حضرت زہرا(س)
پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ کے دس سالوں میں ۸۴ جنگیں لڑیں۔ اور بالاتفاق شیعہ اور شنی جس شخص نے ان تمام جنگوں میں فتح حاصل کی وہ تنہا ذات حضرت علی علیہ السلام کی ہے۔ اور جس نے ہر حال میں حضرت علی (ع) کی نصرت کی اور انہیں جنگوں کے لیے آمادہ کیا وہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ذات ہے اور اس کے بعد فدک کا سرمایہ ہے۔
در حقیقت فدک اصل میں حضرت خدیجہ(س) کی جائداد تھی، شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یہودیوں نے اسے نہایت ارزاں قیمت کے بدلے میں اپنے قبضہ میں کیر لیا تھا۔ فتح خیبر کے بعد جب رسول اسلام (ع) نے فدک واپس لیا اور اسے اپنی ملکیت قرار دیا تو یہ آیت نازل ہوئی «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ …» (۶)
شیعہ و سنی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اسلام (ص) نے فدک کو جو در حقیقت حضرت خدیجہ کا باغ تھا اسے حضرت زہرا (س) کو دے دیا۔ (۷)
حضرت زہرا (س) نے اپنی پوری زندگی اس کے سرمایہ سے استفادہ نہیں کیا بلکہ اس کا سارا سرمایہ آپ بنی ہاشم کے فقرا اور مساکین میں تقسیم کیا کرتی تھیں۔(۸) آپ نے خود نہایت سادہ زندگی گزاری، یہاں تک کہ سورہ ھل اتی کی شکل میں اس کی سند مل گئی۔ آپ کی زندگی بہت سادہ تھی جبکہ آپ فدک کے سرمایے سے اپنی زندگی کو بہتر بھی بنا سکتی تھیں۔ لیکن جب آپ کی والدہ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال و منال راہ اسلام میں خرچ کر دیا تو کیسے آپ فدک کے سرمایہ کو اپنی ذاتی زندگی میں استعمال کر سکتی تھیں۔ لہذا آپ اس بات کی معتقد تھیں کہ فدک کا مال اسلام کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے۔ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح مکہ میں تیرہ سال اسلام کو جناب خدیجہ سے اپنے مال سے پروان چڑھایا اسی طرح مدینہ کے دس سال میں حضرت زہرا (س) نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ام ابیہا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت اور دین اسلام کی شخصیت حضرت زہرا(س) سے وابستہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مکہ میں اسلام حضرت خدیجہ (س) سے وابستہ تھا اور مدینہ میں حضرت زہرا(س) سے تو غلط نہیں ہو گا۔ اگر پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت زہرا (س) کو ام ابیہا کہا ہے تو شاید اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ آپ کی شخصیت حضرت زہرا(س) کے وجود پر موقوف ہے۔ دین اسلام اور قرآن کی بقا حضرت زہرا (س) پر موقوف ہے۔
حضرت زہرا (س) کا مخصوص احترام
ام ابیہا کے تیسرے معنی حضرت فاطمہ زہرا (س) کا رسول گرامی اسلام (ص) کی جانب سے مخصوص احترام ہے۔ یعنی حضرت زہرا(س) کا احترام کرنا رسول اسلام (ص) اور ائمہ اطہار پر ضروری ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) حضرت زہرا (س) کے لیے فوق العادہ احترام کے قائل تھے روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہر روز حضرت زہرا کے گھر جاتے تھے۔ جس طرح مستحب ہے کہ مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی جائے رسول خدا (ص) جناب زہرا (س) کے گھر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے کبھی آپ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی پیشانی کا۔ اور فرماتے تھے: میں زہرا (س) سے جنت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔ اور ایک خاص ادب کے ساتھ حضرت زہرا (س) کے سامنے بیٹھتے تھے(۹) اگر حضرت زہرا(س) پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آتی تھی تو پیغمبر اکرم اپنے پورے وجود کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ اور ان سے گفتگو کرتے تھے اور اگر پیغمبر اکرم (ع) جناب زہرا (س) کے گھر میں آتے تھے تو زہرا (س) آپ کا ایسے ہی احترام کرتی تھیں۔ (۱۰) میں نے اس جملہ کو کہیں نہیں پڑھا لیکن ایک قابل اعتماد بزرگ عالم دین کی زبان سے سنا ہے: جب پیغمبر اکرم (ص) جناب زہرا(س) کے گھر سے باہر جاتے تھے تو پچھلے پیر باہر نکلتے تھے یعنی جناب زہرا کی طرف پیٹھ نہیں کرتے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) جناب زہرا کی نسبت ایک مخصوص طرح کے احترام کے قائل تھے۔
تسبیح حضرت زہرا(س)
تسبیح حضرت زہرا (س) کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے۔ حضرت زہرا(س) کو گھر کے کاموں اور چار بچوں کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹانے کے لیے ایک خادمہ کی ضرورت تھی لہذا حضرت علی علیہ السلام کی اجازت سے رسول خدا کے پاس گئیں پیغمبر اکرم (ص) بھی جناب زہرا (س) کو منع نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے بجائے منع کرنے کے فرمایا: «یا فَاطِمَةُ أُعْطِیکِ مَا هُوَ خَیرٌ لَکِ مِنْ خَادِمٍ وَ مِنَ الدُّنْیابِمَا فِیهَا» (۱۱)
اے فاطمہ میں ایسی چیز تمہیں عطا کروں گا جو خادمہ اور دنیا سے زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
اس کے بعد فرمایا: نماز کے بعد، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ الحمد للہ، تنیتیس مرتبہ سبحان اللہ پڑھو۔ یہ عمل اللہ کے نزدیک دنیا اور مافیھا سے بہتر ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر تسبیح کے بعد لا الہ الا اللہ (۱۲) اور استغفر اللہ (۱۳) بھی کہا جائے تو بہتر ہے لیکن تسبیح کا جزء نہیں ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: تسبیح حضرت زہرا (س) میرے نزدیک، ہزار رکعت نماز سے زیادہ محبوب ہے۔ (۱۴)۔ اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تسبیح حضرت زہرا سے وابستہ ہے۔ اس ماجرا کے بعد حضرت زہرا (س) واپس گھر امیر المومین کے پاس آئیں اور پورا واقعہ نقل کیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ رسول خدا (س) جناب فضہ کو خادمہ کے عنوان سے لے کر جناب زہرا کے گھر تشریف لائے۔ اور انہیں جناب زہرا کو ہدیہ دے کر فرمایا: بیٹا یہ عورت بھی آپ کی طرح ہے آرام کو دوست رکھتی ہے اور زیادہ کام کرنے سے تھک جاتی ہے۔ لہذا اس کے ساتھ کاموں کو تقسیم کر لینا۔ ایک دن یہ کام کرے اور ایک دن آپ۔(۱۵)۔
پیغمبر اکرم (ص) اور امیر المومنین علی (ع) نے کبھی بھی حضرت زہرا کے سامنے ”نہ‘‘نہیں کہا۔ اور آپ کے لیے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے اور ائمہ معصومین (ع) بھی اسی وجہ سے ایک آپ کی نسبت مخصوص احترام کرتے ہیں۔
حضرت زہرا (س) کے حجت ہونے کے معنی
امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: : «نَحنُ حُجَجُ اللَّه عَلَى خَلقِه وَ جَدَّتُنَا فَاطِمَة حُجّة اللَّه عَلَینا»(۱۶) ہم ائمہ لوگوں پر اللہ کی حجتیں ہیں اور ہماری ماں فاطمہ ہمارے اوپر حجت ہیں۔
اس روایت کے اندر عجیب دقیق معنی پوشیدہ ہیں۔ خلاصہ کے طور پر عرض کروں۔ جب رجعت کا زمانہ آئے گا اور اہلبیت علیہم السلام کی عالمی حکومت ہو گی اور لاکھوں سال اہلبیت علیہم السلام روئے زمین پر حکومت کریں گے اس دوران حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی حجیت نمایاں ہو گی۔ یہ جو امام عسکری علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ ہماری ماں زہرا ہمارے اوپر حجت ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں عالم وجود کی ملکہ حضرت زہرا (س) ہوں گی۔ البتہ پیغمبر اکرم (ص)، امیر المومنین (ع) اور دیگر ائمہ(ع) کے زمانے میں بھی جناب زہرا (س) حجت خدا رہی ہیں۔ لیکن امام زمانہ (ع) کے دور میں آپ کی حجیت آپ کے صحیفہ ” مصحف فاطمہ‘‘ کے ذریعہ خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے اور اسی طرح رجعت کے زمانے میں۔
البتہ اس سلسلے میں کہ مصحف فاطمہ (س) کی حقیقت کیا ہے ہماری معلومات بہت کم ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جبرئیل امین جناب فاطمہ زہرا (س) پر نازل ہوتے تھے اور کچھ اسرار و رموز کو انہیں تعلیم کرتے تھے اور امیر المومنین علی علیہ السلام ان کی کتابت کرتے تھے (۱۷) یہ اسرار و رموز مصحف فاطمہ(س) کے نام سے معروف ہو گئے اور ائمہ معصومین (ع) کے علاوہ کسی کو مصحف فاطمہ(س) تک رسائی نہیں ہے اور ہمارے زمانہ میں یہ صحیفہ امام مھدی ارواحنا فداہ کے پاس ہے۔ (۱۸) لیکن یہ کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس میں کیا لکھا ہوا ہے جو قرآن میں نہیں ہے سوائے ائمہ کے کسی کو خبر نہیں ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ رجعت اور عالمی اسلامی حکومت کے زمانے میں جو لاکھوں سال بلکہ کروڑوں سال ہو گی اس میں بنیادی قانون مصحف فاطمہ (س) ہو گا لہذا اس اعتبار سے بھی حضرت زہرا ائمہ معصومین (ع) پر حجت ہیں اور کائنات کی ملکہ ہیں اور ام ابیہا ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔
حوالہ جات
1. ر.ک: مقاتل الطالبین، ص 29؛‌بحارالأنوار، ج 43، ص 19 و …
2. الجنّة العاصمه، ص 148 ، مجمع النورین، ص 14
3. بحارالانوار، ج 15، ص 28؛ ج‌16، ص‌406؛ ینابیع المودة، ج 1، ص 24؛ کشف الخفاء، ج 2، ص 164؛
4. الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 140-141.
5. شجرۀ طوبی، ج 2، ص 234.
6. اسراء / 26.
7. بحارالأنوار، ج 21، ص 22؛ الدرّالمنثور، ج 4، ص 177 و …
8. ر.ک: الکافی، ج 7، صص 48- 49؛ کشف المحجّة، ص 182و…
9. بحارالأنوار، ج 43، ص 25؛ المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 154و…
10. اعلام الوری، ص 150و …
11. بحارالأنوار، ج 82، ص 336.
12. الکافی، ج 3، ص 343.
13. ثواب الاعمال، ص 163.
14. الکافی، ج 3، ص 343.
15. الخرائج و الجرائح، ج 2، 530؛ اندیشه‌های ناب، ص 91.
16. اطیب البیان، ج 13، ص 225.
17. الکافی، ج 1، ص458.
18. ر.ک: بصائر الدرجات، صص 158-153؛ من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 419

 

تبصرے
Loading...