امیرالمومنین (ع)انسانیت کے لۓمکمل نمونہ عمل

امیرالمومنین (ع)ایسے مقدس اور نورانی صفات وخصوصیات کےحامل انسان ہیں کہ ہم انھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ کی علمی منزلت آپ کا نورانی مرتبہ آپ کی عصمت و طہارت وہ حقائق ہیں جو آپ کی ذات پاک اورآپ کے قلب منور میں موجزن تھے اور علم وحکمت کی شکل میں آپ کی زبان مبارک پر جاری رہتے تھے، وہ تقرب الہی اور وہ ذکر الہی جو ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے کردارسے نمایاں اور زبان پر جاری رہتا تھا ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی نورانی فطرت کی مانند ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہیں ۔لیکن ہم ان پر یقین و عقیدہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ،چونکہ انھیں سچے انسانوں سے سنا ہے ۔لیکن امیر المومنین (ع) کی دوسری خصوصیات وہ ہیں جوآپ کی ذات مقدس کوہر دورکے تمام انسانوں کیلۓ معیار اور نمونہ عمل بناتی ہیں اور وہ اتباع اور پیروی کرنے کیلۓ ہیں۔ معیاراورنمونہ عمل ان کاموں کو مطابقت دینےکیلۓ ایک میزان اور وسیلہ ہوتا ہے جو انسان انجام دینا چاہتاہے ۔ یہ نمونہ عمل کسی خاص گروہ وطبقے سے مخصوص نہیں ہے ، حتی صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم جو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت اتنی پرکشش ہے اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں۔لہذا جو لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں یا آپ کی امامت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے وہ بھی ان خصوصیات کی عظمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہيں اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مدح وستائش کرنے لگتے ہیں۔بنابرایں یہ خصوصیات سب کیلۓ نمونہ عمل اور مثالی ہیں۔ اور ہم جو آج ایک اسلامی حکومت کے حامل ہیں اور علوی حکومت کادعوی کرتے ہیں ہمارے لیۓ یہ نمونہ عمل سب سے زیادہ ضروری فوری اور ناقابل چشم پوشی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف زبان سے آپ کو امیرالمومنین (ع) کہاجاۓ اور آپ سے اظہار محبت و الفت کی جاۓ لیکن عمل سے آپ کی سیرت اور اس درس کی مخالفت کی جاۓ جو آپ نے اپنے عمل اور کردارکے ذریعے ہمیں دیا ہے۔ میری اور مجھ جیسے لوگوں کی ذمیداریاں سنگین ہیں جو حکومت کے اہلکارہیں ۔چونکہ ہمیں عمل کرنا چاہۓاور اس راستے پر چلنا چاہۓ جس پر وہ چلیں ہیں۔ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ تم کہاں اور امیر المومنین (ع) کہاں؟ان کی طاقت ان کی توانائی ان کا ایمان ان کاصبران کی معنوی اور روحانی طاقت کہاں اور تم کہاں؟البتہ یہ بات بالکل درست ہے ہم میں کسی کا ان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہتر ہیں وہ بلندہیں اور ہم پست؛نہیں ،بنیادی طورپر یہ موازنہ ہی غلط ہے۔وہ آسمان کی بلندیوں پرہیں آپ امیرالمومنین(ع) کی شخصیت کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالیں گے دیکھیں گے کہ اس میں عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔یہ مبالغہ نہیں ہے۔ یہ عجزانسانی کاردعمل ہے کہ انسان نے برسوں امیرالمومنین علیہ الصلواۃ و السلام کی زندگی پر تحقیق کی اوراس نتیجے پر پہنچااوراپنےاندر یہ محسوس کیا کہ علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو اس معمولی فہم کے ذریعے؛یعنی اس معمولی ذہن عقل حافظہ اور ادراک کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں عجائبات ہیں ۔البتہ امیرالمومنین (ع) پیغمبراکرم (ص) کی دوسری تصویر ہیں اورآنحضرت (ص)کے شاگردوں میں ہیں البتہ ہمارے سامنےموجود یہ عظيم شخصیت جواگرچہ خود کوپیغمبر(ص) کے سامنے چھوٹااور معمولی سمجھتی ہے اور خود آنحضرت (ص) کی شاگرد ہےجب ہم اسے انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مافوق البشر شخصیت نظر آتی ہے میں امیرالمومنین (ع) کی زندگی کے بارے ميں ایک نکتہ عرض کروں اور وہ آپ کی وہ خصوصیت ہے جسے میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت میں توازن سے تعبیرکرتاہوں۔آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز توازن پایا چاتاہے یعنی امیرالمومنین (ع) کے وجود میں بظاہر متضاداور ایک دوسرے سےمختلف صفات اتنی خوبصورتی سے جمع ہیں کہ خود ایک طرح کا حسن پیدا کر رہے ہيں۔ انسان کو کسی کے اندر بھی یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔امیرالمومنین (ع) کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں ایک دو نہیں بہت زیادہ ہیں۔اس وقت میں ان میں سے کچھ متضاد صفات جو امیرالمومنین (ع) کے اندرموجودہیں بیان کررہا ہوں ؛مثلا رحم و نرم دلی صلابت وسختی کے ساتھ سازگار نہیں ہوتی،لیکن امیرالمومنین (ع) کے اندر محبت و مہربانی اور رحمدلی اتنے اعلی پیمانے پر ہے کہ عام انسانوں کے اندربہت کم نظر نہیں آتی ہے۔ رحمدلی اور مروت کا عالم یہ ہے کہ آپ نہ صرف یتیم بچوں کے گھرجاتے ہيں ، نہ صرف یہ کہ ان کاتنور جلاتے ہیں ان کے لۓ روٹی پکاتے ہیں اوروہ کھانا جو ان کیلۓ لے گۓ ہیں اپنے ہاتھوں سےان بچوں کو کھلاتے ہیں بلکہ غمگین اور رنجیدہ بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانےکیلۓ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔ان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور انہیں اپنےکندھوں پر بٹھاکرگھماتے ہیں اور ان کے معمولی سے گھر میں انھیں کھیل کود میں مشغول کرتے ہیں تاکہ یتیم بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ آسکے۔ امیرالمومنین کی محبت اور رحمدلی کا عالم یہ ہے کہ اس دور کے ایک بزرگ نے کہاکہ میں نے امیرالمومنین(ع) کو غریب اور یتیم بچوں کے منہ میں اپنی مبارک انگلیوں سے شہد کھلاتے ہوئے اتنا زیادہ دیکھاہے کہ اپنے دل میں سوچا کاش میں بھی یتیم ہوتاکہ علی (ع) مجھ پر بھی اس طرح لطف وکرم کرتے۔( بحار الانوار کی اکتالیسویں جلد کے انتیسویں صفحے پر یہ روایت موجود ہے ) ۔ یہی امیر المومنین نہروان کے واقعے میں جہاں کچھ کج فکر اور متعصب افراد نے بے بنیاد بہانوں سے حکومت گرانے کی کوشش کی تھی جب ان کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں نصیجت کرتے ہیں ،کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،اعتراض کرتے ہیں ،کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،ثالث بھیجتے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،مالی مدد کرتے ہیں اور ساتھ دینےکا وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا توآخر میں صف بندی کرتے ہیں پھر بھی نصیحت کرتے ہیں اور جب اس کا بھی کوئ نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ وہی علی ہیں۔ جب آپ کے مد مقابل بد طینت اور بد ذات لوگ ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند عمل کر رہے ہیں،پھر آّپ سختی سے کام لیتے ہيں۔خوارج کا صحیح ترجمہ نہیں کیا جاتا ، افسوس کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ بات چیت اشعار تقاریراور فیلم وغیرہ ہرچیز میں خوارج کو خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ غلط ہے خشک مقدس کیاہے ؟امیرالمومنین (ع) کے زمانے میں بہت سے ایسے تھے جنھیں صرف اپنی فکر تھی،اگر آپ خوارج کوپہچاننا چاہتے ہيں تو میں اس کا نمونہ اپنے دورمیں آپ کو دکھاتاہوں، منافقین تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔۔۔۔ خوارج کو بخوبی پہچان لیجۓ؛ایسے لوگ جو بظاہر دین کو مانتے تھے ،آیات قرآن کا سہارا لیتے تھے قرآن کانام لیتے تھے نہج البلاغہ کا نام لیتے تھے… بظاہر دین کی بعض باتوں پر عقیدہ رکھتے تھےلیکن دین کے اساسی اور بنیادی اصولوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں متعصب بھی تھے اللہ کا دم بھرتے تھے لیکن شیطان کی پیروی کرتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ منافقین ایک زمانےمیں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور بعد میں جب ضرورت پڑی تو انفلاب ،امام ،اور اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کرنےکیلۓ امریکہ صدام صیہونیوں اور ہر کسی سے ہاتھ ملانے کیلۓ تیار ہوگۓ اور ان کی غلامی کرنے کیلۓآمادہ ہوگۓ،خوارج بھی ایسے ہی تھے۔ پھراس وقت امیرالمومنین(ع) سختی سے پیش آۓ۔ یہ وہی علی ہیں جن کیلۓ سورہ فتح کی انتیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے،اشداء علی الکفار و رحماء بینھم،دیکھیں یہ دونوں خصوصیات نے امیرالمومنین میں کتنی خوبصورتی پیدا کردی ہے۔اتنے رحم دل انسان ہیں کہ آپ کو یہ برداشت نہیں کہ کوئ یتیم بچہ رنجیدہ رہے ،فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسے ہنسا نہں لوں گایہاں سے جاؤں گا نہیں لیکن وہاں ان کج فکر اورکج عمل انسانوں کے سامنے جو بچھو کی مانند ہربیگناہ کوڈنک مارتے ہیں،ڈٹ جاتے ہیں یہ آپ کی حکومت اور تقوے کا ایک اور نمونہ ہے۔بڑی عجیب چیز ہے ورع کے معنی کیا ہیں؟ورع یعنی انسان ہر اس مشکوک چیز سے اجتناب کرے جس سے دین کی مخالفت کی بو آتی ہو۔تو پھر حکومت کا کیا ہوگا کیا ،کیا حکومت میں انسان اس قسم کا زہد و ورع اختیار کرسکتاہے ؟ہم اس وقت میدان عمل میں ہیں جانتےہیں کہ اگر کسی میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو مسئلہ کتنا اہم ہوجاۓ گا ۔حکومت میں انسان کو کلی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس قانون پر عمل کرتاہے اسے ہزار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ممکن ہے اس قانون میں کہیں کسی پر ظلم ہومامور انسان ممکن ہے دنیاکے کسی حصےمیں اس ملک کےکسی گوشےمیں کوئی خلاف ورزی کرے ،انسان اس قدرلامحدود تفصیلات کے ہوتے ہوۓ زہدو ورع کی کیسے پابندی کرسکتاہے؟ لہذ ا حکومت بظاہر زہد و ورع کے ساتھ سازگار نہيں ہے لیکن امیرالمومنین(ع) نےمظبوط ترین حکومتوں کے ساتھ میں بھی زہد و ورع کو اکٹھا کردیا ،اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کوئ مروت نہیں کرتے تھے اگر ان کی نظر مبارک میں کوئی حاکم کمزور ہوتااوراس کام کے لۓ مناسب نہ ہوتاتو اسے معزول کردیتے تھے۔محمد ابن ابی بکر آپ کے بیٹے کی مانند تھے اور آپ انھیں بیٹے کی ہی طرح سمجھتے تھے اور وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے وہ ابو بکر کے چھوٹے بیٹےاور امیرالمومنین کے مخلص شاگرد تھے اور آپ کی آغوش میں پروان چڑھے تھے امیرالمومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا ،اور پھر خط لکھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ تم -ہماری لفظوں میں بیٹا تم مصر کیلۓ کافی نہیں ہو ؛تمیھیں برطرف کررہا ہوں مالک اشتر کو منصوب کر رہا ہوں ۔محمد ابن ابی بکر کو برا لگا اور رنجیدہ ہوگۓ ؛آخر انسان ہیں ۔چاہے جتنے بھی اعلی مرتبے پر کیوں نہ ہوں انھیں برالگا۔ لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اورکوئ اہمیت نہیں دی ۔محمد ابن ابی بکر جیسی عظیم شخصیت جو بیعت کے وقت اور جنگ جمل میں امیرالمومنین(ع) کے بہت کام آئے تھے؛ابو بکر کے بیٹےاور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے، حضرت علی (ع) کے لیۓ اس قدر اہمیت کی حامل تھی ، لیکن آپ(ع) نے محمد ابن ابی بکر کی رنجیدگی کو کوئی اہمیت نہیں دی، یہ زہد و ورع ،ایسا زہد جوحکومت میں ایک انسان اور ایک حکمراں کے کام آتا،ایسااعلی درجےکا زہد امیرالمومنین کے اندرموجود ہے۔دوسرانمونہ آپ کی طاقت و مظلومیت ہے۔ آپ کے زمانے میں کوئ آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔ وہ عجیب و غریب شجاعت حیدری کس کے اندر تھی -آپ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپ کی شجاعت کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔یہی انسان جو اپنے زمانے کا سب سے زيادہ مظلوم انسان تھا بلکہ جیسا کہ کہا گیاہے اور صحیح بھی ہے، شائد تاریخ انسانیت کا سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے “اس کی طاقت و مظلومیت کے دوعنصر ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں ،معمولا جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین(ع) مظلوم واقع ہوۓ ہیں ۔ دوسرانمونہ زہد ہے امیرالمومنین(ع) کے زہد اور دنیا سے عدم دلچسپی کی مثال دی جاتی ہے شائد نہج البلاغہ کا ایک اہم باب زہد نہج البلاغہ ہے امیرالمومنین (ع) جو پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد سے حکومت حاصل ہونے تک اپنی ذاتی دولت سے آبادکاری کے کام کرتے رہے، باغات لگاتے رہے ،کنوئیں کھودتے رہے نہریں جاری کرتے رہے مزرعہ تیار کرتے رہے ، عجیب یہ ہے کہ سب کچہ راہ خدا میں دے دیتے تھے۔یہاں یہ جان لیجۓ کہ امیرالمومنین (ع) اپنے دور کے زیادہ آمدنی والے افراد میں سےتھے،آپ کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہ”وصدقتی الیوم لو قسمت علی بنی ہاشم لوسعہم، میں اپنے مال سےجو صدقہ دیتاہوں اگر تمام بنی ہاشم میں تقسیم کروں تو ان کیلۓ کافی ہو جاۓ گا۔عدل علی ابن ابی طالب(ع) ایک اور نمونہ ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں عدالت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات میں موجودہے تو ہر آدمی ابتدائی طور پر اس سے جو سمجھتاہے وہ یہ کہ وہ سماج میں عدل قائم کرتے تھے۔یہ ہے عدل۔لیکن عدل کی اعلی مثال توازن ہے ۔بالعدل قامت السموات والارض،زمین و آسمان عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ،یعنی خلقت میں توازن ،حق بھی یہی ہے۔عدل و حق نتیجے میں ایک ہی چیزہے اور ایک ہی معنی اورایک ہی حقیقت کے حامل ہیں ۔امیرالمومنین کی زندگی عدل و توازن کی خصوصیات کی مظہر ہےجہاں ہر چیز اپنے مقام اور مرتبے پر ہے اور منزل کمال پر فائزہے امیرالمومنین(ع) کی ایک اور خصوصیت آپ کا استغفار ہےامیرالمومنین(ع) کی دعا توبہ اور استغفار بہت اہم ہے ایسی شخصیت جو جنگ اور جد و جدوجہد کرتی ہے ، میدان جنگ میں فاتح اور میدان سیاست مدبر ہو اور اس دور کے بڑے ملکوں پر تقریبا پانچ سال حکمرانی کی ہو اگر آپ امیرالمومنین کے زیرحکومت علاقے کا آج اندازہ لگا نا چاہیں تو وہ تقریباآج کے دس ملکوں پر مشتمل ہوگا اتنے وسیع قلمرومیں اس قدر کام اورجدو جہد کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم اور مکمل سیاست داں بھی ہیں۔اور دنیا کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔آپ کا وہ میدان جنگ آپ کا میدان سیاست آپ کا سماجی امورسنبھالناعوام کے مابین آپ کے فیصلے اور معاشرے میں عوام کے حقوق کا تحفظ ۔یہ سب بہت عظیم کام ہیں اس کیلۓ بہت کام اور انتظام و اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو ہر وقت کا کرتے رہنا پڑتا ہے ۔اس قسم کے مواقع پر ایک پہلو شخصیت کے حامل افراد کہتے ہیں کہ ہماری دعا و عبادت یہی ہے ہم تو راہ خدا میں کام کر ہی رہے ہیں، اور ہمارا کام تو خدا ہی کیلۓ ہےلیکن امیرالمومنین یہ نہیں کہتے ،آپ وہ کام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں.

12 -11- 1375 ( 1 فروری 1997) خطبات نماز جمعہ

امیرالمومنین (ع) کا طرز حکومت اور سیرت

امیرالمومنین(ع) کے معیارحکومت میں سب سے پہلے دین خدا کی مکمل پابندی اور دین الہی کے قیام پر تاکید ہے۔ یہ سب سے پہلا معیار ہے ۔جس حکومت کے کام کی بنیاد دین خدا کا قیام نہ ہو وہ علوی نہیں ہے ،جو لوگ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں پیش پیش رہے ہو جانتے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں، عین جنگ کے دوران اس وقت جب جنگ اپنےعروج پر تھی جب ہر سپاہی کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح حملہ کرے اور کس طرح اپنا دفاع کرے ، ایک شخص امیرالمومنین کی خدمت میں آتا ہے اور توحید کے بارے میں سوال کرتا ہے ، کہتا ہے کہ قل ھو اللہ احد میں احد کے کیا معنی ہیں؟یہ کوئی بنیادی مسئلہ بھی نہيں ہے،اس نے اصل وجود خدا کے بارے میں بھی سوال نہیں کیا ہے’ایک جزئی سوال کیا ہے ،آپ کے اطراف کے لوگ کہنے لگے کہ بندۂ خدا یہ اس قسم کا سوال کرنے کا وقت ہے ؟امیرالمومنین نے فرمایا کہ ،نہیں مجھے جواب دینے دو، ہم اسی لۓ تو جنگ کر رہے ہيں۔یعنی امیرالمومنین کی جنگ ، امیرالمومنین کی سیاست ،امیرالمومنین کی محاذآرائی ،امیرالمومنین کاصبر،اور تمام بنیادی اصول جو آپ دوران حکومت اپناتے ہيں ،اس لیۓ ہیں کہ دین خداقائم ۔ یہ ایک معیار ہے ۔اگر اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ میں جو خود کو حکومت علوی کے عنوان سے پہچنواتی ہے ،اگر مقصد دین خدا کا قائم کرنا نہ ہو،عوام دین خدا پر عمل کریں یا نہ کریں دین پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں حقوق اللہ ادا ہوں یا نہ ہوں اور ہم یہ کہیں کہ ہم سے کیا مطلب ہے ، تو اگر ایساہو توپھر حکومت علوی نہیں ہے ۔دین الہی کا قیام پہلا معیار ہے اور یہ امیرالمومنین کی حکومت اور زندگی کی تمام دوسری خصوصیات کی جڑ ہے۔آپ کی عدالت کا سرچشمہ بھی یہی ہے ،امیرالمومنین (ع) کی زندگی میں عوام کے حقوق کی پابندی اور جمہوریت کی بنیاد بھی یہی ہے ۔امیرالمومنین(ع) کی حکومت کی دوسری خصوصیت اور معیار عدالت ہے ،عدالت مطلق۔یعنی آپ عدالت پر کسی بھی ذاتی مصلحت اور سیاست کو ترجیح نہیں دیتے ۔تحف العقول کے صفحہ نمبر ایک پچاسی میں آپ کا یہ ارشاد موجود ہے ۔اتامرونی ان اطلبالنصر بالجور لا وللہ یعنی میں ظلم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کیلۓ تیار نہیں ہوں۔آپ دیکھیں کہ یہ معیار کس قدرروشن و درخشاں ہے ،کتنا بلند پرچم ہے۔آپ سے کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس میدان سیاست ، اس علمی مقابلے ،اس انتخابی میدان ،اوراس میدان جنگ میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ظلم انجام دیں۔آپ کس چيز کا انتخاب کریں گے ؟امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ مجھے یہ کامیابی نہیں چاہۓ،میں ناکام ہوجاؤں کوئی بات نہیں ہے لیکن ظلم نہیں کروں گا ۔ آّپ نے امیرالمومنین کی عدال وانصاف کے بارے میں جو کچھ بھی سنا ہے ان سب کا محور ومرکز امیرالمومنین (ع) کی مطلق عدالت محوری ہے۔ انصاف سب کیلۓ اور ہر شعبے میں،یعنی معاشی انصاف ۔سیاسی انصاف سماجی انصاف،اخلاقی انصاف۔ یہ امیرالمومنین(ع) کی حکومت کا دوسرامعیارہے۔آپ ظلم براداشت نہیں کرتے،اور خود بھی ظلم کے سامنے نہیں جھکتے ۔چاہے مصلحت کا تقاضہ کیوں نہ ہو۔ ایک بڑاظلم امتیازی سلوک ہے ،چاہے وہ حکم پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہو یاقانون پر عمل درآمد کے سلسلےمیں ہو۔یہ سب کسی صورت میں بھی امیرالمومنین کوبرداشت نہیں ہے ۔۔۔۔امیرامومنین کی حکومت کی ایک اور خصوصیت اور معیارتقوی ہے۔آپ دیکھیں ؛کہ ان میں سے ہرایک ،ایک پرچم ہے ،ان میں سے ہر ایک ،یک علامت ہے ، تقوی کے معنی کیا ہیں ؟تقوی یعنی انسان اپنے ذاتی کاموں میں بھی حق سے ذرہ برابر منحرف نہ ہو؛ یہ ہیں تقوی کےمعنی ،یعنی پوری طرح خود پر نظر رکھے ،پیسوں کے سلسلےمیں ہوشیار رہے ،لوگوں کی عزت وآبرو کے تئیں ہوشیار رہے،کسی چيز کو انتخاب کرنے میں ہوشیاررہے،کسی کو الگ کرنے کےسلسلےمیں ہوشیار رہے ،بات کرنےمیں ہوشیار ہے برخلاف حق کوئی بات نہ کرے، یعنی بھرپور کنٹرول رکھے۔آپ نہج البلاغہ دیکھیں ،ان باتوں سے بھری ہوئی ہے،آّپ شروع سے آخر تک نہج البلاغہ دیکھ ڈالیں ،اول وآخر تقوی کی تشویق و ترغیب دلائي گئي ہے ،تقوی و پرہیز گاری کی دعوت دی گئی ہے۔جب تک انسان پرہیز گار نہيں ہوگا اس وقت تک دین نہیں قائم کرسکتا ،دامن کی آلودگی بہت بری بلا ہے ،اگر انسان کا دل گناہوں سے آلودہ ہوگا تو انسان حقائق کو سمجھ نہیں سکے گا۔حقیقت کی پیروی کرنا تو بہت بڑی بات ہے ، تقوی جو امیرالمومنین (ع) کی حکومت کی ایک خصوصیت ہے اس کا سرچشمہ عوام کا ارادہ اور خواہش ہے ۔تغلب ،یعنی غلبہ اورطاقت کےذریعے عوام پر حکومت کرنا، یہ امیرالمومنین (ع) کی منطق نہیں ہے ۔باوجود اس کے کہ خود کو برحق سمجھتے تھے لیکن الگ ہٹ گۓ ،یہاں تک کہ عوام نے آکراصرارکیا،التماس کی ،روۓ گڑگڑاۓ اوردرخواست کی مولاآپ ہم پر حکومت کیجۓاور زمام حکومت سنبھالۓ۔اس وقت آپ نے حکومت سنبھالی،آّ نے خود فرمایا ہے کہ اگر لوگ نہ آۓ ہوتے،اگرعوام نے اصرار نہ کیا ہوتا ،اگر یہ عوام کا سنجیدہ مطالبہ نہ ہوتا تو مجھے اس کا م میں کوئي دلچسپی نہیں تھی۔امیرالمومنین کیلۓ حکومت و اقتدارمیں کوئی کشش نہیں ہے ۔حکومت ان لوگوں کیلۓ پرکشش ہوتی ہے جو اپنی ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ امیرالمومنین کیلۓ،وہ شرعی ذمیداری پوری کرنا چآہتے ہيں ؛عدل قائم کرنا چاہتے ہیں؛ عوام نے حکومت آپ کےسپرد کی،چنانچہ آپ نے اقتدار ہاتھ میں لے کر حکومت قائم کی ۔
امیرالمومنین حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر خطاب 30 / 6 / 1381

امیرالمومنین (ع)کے سامنے تین گروہوں کی صف آرائی

امیرالمومنین کی مظلومیت کے ساتھ حکومت کے دور میں تین گروہ آپ کے مد مقابل آۓ ،جس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی حکومت کے دور میں – امیرالمومنین(ع) کی پانچ سال سے کم عرصے کی حکومت میں تین گروہوں نے آپ کے سامنے صف آرائی کی :قاسطین و ناکثیں و مارقین ۔اس روایت کو شیعوں اور سنیوں دونوں نے امیرالمومنین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:امرت ان اقاتل الناکثین والقاسطین والمارقین۔(دعا م الاسلام ،جلد 1 صفحہ388)یہ نام خود آپ نے رکھا ہے ،قاسطین یعنی ظالمین ۔ اس کا مادّہ “قسط” جب مجرد کی شکل میں استعمال ہوتا ہے تو،قسّط یقسط یعنی جار یجور ظلم یظلم – یعنی ظلم کرنے کے معنی دیتا ہے اور جب یہ ثلاثی مزید باب افعال میں لایا جاتا ہے تو- اقسط یقسط – یعنی عدل و انصاف کے معنی دیتا ہے بنا برایں اگر ” قسط ” باب افعال میں استعمال کیا جاۓ تو عدل کے معنی دے گا، لیکن جب قسط یقسط کہا جاۓ تو اس کے برخلاف ہے۔ یعنی ظلم و جور کے معنی دیتا ہے۔ قاسطین اسی مادّہ سے ہے ۔ قسطین یعنی ستمگر امیرالمومنین (ع) نے ان کا نام قاسطین رکھا ۔یہ کون لوگ تھے ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام کو مصلحت کے تحت اور دکھانے کیلۓ قبول کیا تھا اورحکومت علوی کو بنیادی طور پر قبول ہی نہیں کرتے تھے۔امیرالمومنین جو بھی کرتے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ لہذا یہ وہ لوگ تھے جو بنیادی طور پر امیرالمومنین کی حکومت کو قبول ہی نہیں کرتا اور چاہتے تھے حکومت دوسری طرح کی ہو، اور ان کے ہاتھوں میں ہو ،اور بعد میں یہ ظاہر بھی ہوگيا اور عالم اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا ،یعنی وہی معاویہ جو امیرالمومنین سے رقابت کے زمانے میں بعض اصحاب سے محبت وخوش روئی سے پیش آتا تھا بعد میں اپنی حکومت کے دور میں سخت اور تند رویہ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ یزید کا دور آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا ۔ اور پھر مروان عبد الملک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کا دور آیا جو اسی حکومت کا ایک ثمرہ ہے ۔ یعنی وہ حکومتیں، تاریخ جن کے مظالم کے ذکر سے بھی لرزجاتی ہے – جیسے حجاج کی حکومت – یہ وہی حکومتیں ہیں جن کی بنیاد معاویہ نے رکھی ہے اور جس کیلۓ اس نے امیر المومنین سے جنگ کی ۔ پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیاچاہتے ہیں اور کیا حاصل کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یعنی ایک خالص دنیاوی حکومت جس کی بنیاد خود خواہی اور خودپسندی ہو وہی چیزیں جن کا بنی امیہ کے دور میں سب نے مشاہدہ کیا ۔البتہ میں یہاں کوئی کلامی یا عقائدی بحث نہیں کرناچاہتا ۔یہ جو عرض کر رہا ہوں تاریخی حقیقت ہے ۔شیعوں کی تاریخ نہیں ہے ؛یہ ” ابن اثير ” اور تاریخ ابن قتیبہ وغیرہ ہے جس کے متون میرے پاس موجود ہیں، اور نوٹس کے ساتھ محفوظ ہيں ۔یہ وہ باتیں ہیں جو مسلمہ حقا ئق کا حصہ ہیں۔شیعوں اورسنیوں کے نظریاتی اختلافات کی بحث نہيں ہے ۔دوسرا محاذ جو امیرالمومنین (ع) کے ساتھ لڑا وہ ناکثین کا محاذ تھا۔ ناکثين یعنی توڑنے والے اور یہاں اس سے مراد بیعت توڑنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے پہلے امیرالمومنین(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی اور پھر بعد میں بیعت توڑ دی ۔یہ مسلمان تھے اور پہلے گروہ کے برخلاف خود غرض تھے یعنی امیرالمومنین(ع) کی حکومت کو اسی حد تک مانتے تھے جہاں تک ان کے لۓ حکومت میں قابل قبول حصہ موجود ہو ۔ ان سے مشورہ کیا جاۓ ، انھیں ذمہ داریاں دی جائيں،انھیں حکومت دی جاۓ،ان کے پاس موجود دولت وثروت کونہ چھیڑاجاۓ ان سے اس سلسلےميں باز پرس نہ کی جاۓ، یہ نہ پوچھا جاۓ کہ کہاں سے لاۓ ہو۔۔۔ سعد ابن ابی وقاص نے شروع سے ہی بیعت نہیں کی،بعض دوسرے لوگوں نے ابتداء سے ہی بیعت نہیں کی؛ لیکن طلحہ و زبیر اور دوسرے بزرگ صحابہ وغیرہ نے امیرالمومنین (ع) کی بیعت کی ، تسلیم کیا اور قبول کیا ؛ لیکن جب چار پانچ مہینے گذر گۓ اور دیکھا کہ نہیں ، اس حکومت حکومت کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ وہ حکومت ہے جو دوست احباب کو نہیں پہچانتی،اپنے لیۓ کسی حق کی قائل نہیں ہے اپنے گھر والوں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے اگر چہ اسلام لانے میں پہلا کرنے والوں کے لئے حق کی قائل نہیں خود سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔احکام اسلام پر عمل درآمد کرانے میں کسی چوں چرا سے کام نہیں لیتے ۔ انہوں نے دیکہا نہیں اس آدمی (علی ع ) کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ۔لہذا الگ ہو گۓ اور چلے گۓ اورجنگ جمل شروع ہو گئی جو واقعاایک فتنہ تھی ۔ام المومنین عائشہ کو بھی اپنے ساتھ کر لیا ۔اس جنگ میں کتنے لوگ مارے گۓ۔ البتہ امیرالمومنین کامیاب ہوۓ قضیہ ختم کردیا۔ یہ دوسرا محاذ تھا جس نے آپ کو ایک مدت تک مصروف رکھا۔ تیسرامحاذ مارقین کا محاذتھا۔ مارق یعنی گریزاں ،اس کی وجہ تسمیہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ اس طرح دین سے نکل گۓ تھےجس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، آپ جب ایک تیر کمان میں لگاکر پھینکتے ہیں تو وہ کس طرح نکلتا ہے اور دور ہوجاتا ہے ؛ یہ اسی طرح دین سے دور ہو گۓ تھے البتہ یہ دین سے بظاہر متمسک بھی تھےاور دین کا نام بھی لیتے تھے۔یہ وہی خوارج تھے وہ گروہ جس نے اپنے کاموں کی بنیاد اپنی کج فکری پر رکھی تھی جو ایک خطرناک چیز ہے بنا برایں تیسرا گروہ جس کا امیرالمومنین کو سامنا کرنا پڑا البتہ اس پر بھی آپ غلبہ پالیا وہ مارقین کا گروہ تھا۔جنگ نہروان میں آپ نے ان پر کاری ضرب لگائی،لیکن یہ لوگ معاشرے میں موجود تھے جن کی موجودگي آخرکار آپ کی شہادت پر منتج ہو ئی ۔۔۔بعض لوگ خوارج کو خشک مقدس سے شبیہ دیتے ہیں ،نہیں ، بحث خشک مقدس ” اور مقدس مآب کی بحث نہيں ہے ۔مقدس مآب تو ایک طرف بیٹھ کر اپنی نماز دعا میں مشغول رہتا ہے ، خوارج کے یہ معنی نہیں ہیں۔ خوارج وہ عناصر ہیں جو شورش بپا کرتے ہیں، بجران ایجاد کرتا ہے ،میدان میں آتا ہے ، علی سے لڑنے کی بات کرتا ہے ، علی سے جنگ کرتا ہے ؛ لیکن اس کے کام کی بنیاد غلط ہے ۔جنگ غلط ہے، آلہ کار غلط ہے، ھدف و مقصد باطل ہے ، یہ وہ تین گروہ تھےجن سے امیرالمومنین (ع) کا سامنا تھا ۔ صفوں کا مشخص اور واضح نہ ہونا ، امیرالمومنین کے دور حکومت اور پیغیمبر اسلام کی حیات طیبہ اور دور حکومت کا واضح فرق یہ تھا کہ پیغمبراکرم کے زمانے میں صفیں واضح تھی ،ایمان وکفر کی صف ،منافقین پھنس جاتے تھے کیونکہ قرآن کی آیتیں معاشرے میں موجود منافقین کے چہرے بےنقاب کیا کرتی تھیں۔،اور ان کی طرف اشارہ کرتی رہتی تھیں،مومنین کو ان کے مقابلے میں مضبوط کرتی رہتی تھیں، اور منافقین کے حوصلے پست کرتی رہتی تھیں۔یعنی پیغمبر (ص) کے زمانے میں نظام اسلامی میں ہر چیز واضح اور کھلی ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے صفیں واضح تھیں۔ ایک شخص کفر و طاغوت وجاہلیت کا حامی تھا ، اور ایک شخص ایمان اسلام توحید اور معنویت کاطرفدار تھا۔البتہ وہاں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔اس زمانے میں بھی ہرطرح کے لوگ تھے۔ اس زمانے میں بھی گوناں گوں افراد تھے لیکن صفیں واضح تھیں۔امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ صفیں واضح نہیں تھیں، اس وجہ سے کہ دوسرا گروہ یعنی ناکثين جواز پیداکرنے والی شخصیتیں تھیں ہرشخص طلحہ اور زبیر جیسی شخصیتوں کے سامنے شک و شبہ کا شکار ہوجاتا تھا یہ زبیر وہی تھے جو پیغمبر (ص) کے زمانے میں اہم افراد اور شخصیتوں میں شامل تھے پیغمبو کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور آنحضرت (ص) کے قریبی افراد میں سے تھے ۔اور پیغمبر(ص) کے بعد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کی حمایت میں ثقیفہ پر اعتراض کیا تھا۔جی ہاں ۔ ؟؟؟؟؟؟خدا ہم سب کا انجام بخیر کرے ،بعض اوقات جب دنیا ، گوناں گوں حالات اور دنیا کی چمک دمک ایسے اثرات مرتب کرتی ہے ،بعض شخصیتوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے کہ انسان کو خاص افراد کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا ہے ۔ عام لوگوں کی تو بت ہی جدا ہے ۔بنا بریں وہ زمانہ واقعا سخت تھا ،وہ لوگ جو امیرالمومنین کے ساتھ رہے آپ کے ساتھ جمے رہے اور جنگ کی ۔،بہت بصیرت سے کام لیا۔میں نے بارہا امیرالمومومنین (ع) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ،لا یحمل ھذ العلم الااھل البصر و الصبر ۔ (بحارالانوار جلد 34 صفحہ 249) پہلے مرحلے میں بصیرت ضروری ہے ، واضح ہے کہ اس قسم کی الجھنوں میں امیرالمومنین کی مشکلات کیسی رہی ہوں گي ۔ وہ کج فکر جو اسلام کا نام لے کر امیرالمومنین (ع) سے جنگ کررہے تھے اور غلط الزامات لگارہے تھے۔ صدر اسلام میں غلط باتیں بہت سنی جاتی تھی لیکن آیت قرآن نازل ہوتی تھی اور واضح طور پر ان افکار کو مسترد کردیتی تھی ۔چاہے مکہ کا زمانہ ہو یا مدینہ کا دور ہو ،آپ دیکھیں کہ سورہ بقرہ جو ایک مدنی سورہ ہے ، جب انسان دیکھتا ہے ، تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ پیغمبر(ص) کی کشمکش اور جھڑپوں کی تفصیلات موجود ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کی گئ ہیں۔حتی مدینہ کے یہودی پیغمبر(ص) کو اذیت دینے کیلۓ جو طریقہ استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن میں موجود ہے ” لا تقولو راعنا” (بقرہ 104) اور اس جیسی باتیں ،اور پھر سورہ مبارکہ اعراف -کہ جو مکی سوروں میں ہے -فصل مشبعی کا ذکر کرتے ہیں اور خرافات کے ساتھ نبرد آزما ہیں ۔ گوشت کو حلا ل و حرام کرنے کے مسئلے میں اور مختلف قسم کے گوشت کے بارےميں واقعی محرمات کو جھوٹ اور معمولی کہتے تھے ؛”قل انماحرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن”(اعراف 33)یہ حرام ہیں ، نہ وہ کہ جو تم نے ” سائبہ و ” بحیرہ “وغیرہ وغیرہ کو اپنے لئے حرام کرلیاہے ۔قرآن اس قسم کے افکار کے خلاف کھل کرجنگ کرتا تھا؛لیکن امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مخالفین بھی قرآن کو استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن سے استفادہ کرتے تھے ،لہذا امیرالمومنین (ع) کا کام نسبتا ایک لحاظ سے مشکل تھا، امیرالمومنین (ع) کی حکومت کا مختصر دور ان مشکلات میں گذرا ہے ۔ان مشکلات کے مقابلے ميں خود امیرالمومنین (ع) کا محاذ ہے ،در حقیقت ایک مضبوط محاذ ، جس میں عمار ، مالک اشتر ، عبداللہ ابن عباس ،محمد ابن ابی بکر ،میثم تمار ،حجر ابن عدی،جیسی مومن با بصیرت اور با خبر شخصیتیں تھیں جنھوں نے عوام کی ہدایت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے امیرالمومنین کے دور حکومت کا ایک حسین پہلو-البتہ ان بزرگوں کے ہنرمنداہ جد و جہد کے لحاظ سے حسین؛ لیکن ساتھ ہی ان کو در پیش مشکلات تکلیفوں اور پریشانیوں کے لحاظ سے تلخ؛ یہ ان کا کوفہ اور بصرہ کی جانب روانہ ہونے کا منظر ہے، طلحہ اور زبیر اور ان جیسے افراد نے جب صف بندی کی اور بصرہ پر قبضہ کرلیااور کوفہ کی طرف روانہ ہوۓ تو ، حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن اور بعض اصحاب کو بھیجا،انھوں نے عوام سے جو گفتگو کی ہے ،مسجد میں جو باتیں کی ہیں ، جو دلیلیں پیش کی ہیں وہ صدر اسلام کی تاریخ کا فکرانگیز حسین اور ولولہ انگیز حصہ ہے ۔لہذا آپ دیکھیں کہ امیرالمومنین(ع) کے دشمنوں کی زیادہ تر یلغار بھی انھیں پر تھی ۔مالک اشتر(رض) کے خلاف سب سے زيادہ سازشیں کی گئيں،عمار یاسر(رض) بہت سی سازشو ں کا نشانہ تھے۔، محمد ابن ابی بکر(رض) کے خلاف سازشیں تھیں ، تمام وہ لوگ جو امیرالمومنین(ع) کے معاملے میں ابتداء سے ہی امتحان دے چکے تھے اور ثابت کر چکے تھے کہ ان کا ایمان کتنا مستحکم مضبوط اور پائدار ہے ۔اور ان کی بصیرت کتنی زیادہ ہے ،دوسری طرف دشمن طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے اور ان پر قاتلانہ حملے کۓ جاتے تھے ،لہذا اکثر اصحاب شہید ہوگۓ ،عمار (رض) جنگ میں شہید ہوۓ لیکن محمد ابن ابی بکر(رض) شامیوں کی سازشوں کے نتیجے میں شہید ہوۓ ۔مالک اشتر(رض) شامیوں کی عیاری سے شہید ہوۓ ، بعض دوسرے بچے،لیکن بعد میں وہ بھی سخت طریقے سے شہید کۓ گۓ۔ یہ امیرالمومنین (ع) کی زندگی اور حکومت ۔ اگر سب کو یکجاکرلیا جائے تو یوں عرض کرنا چاہۓ کہ آپ کی حکومت کا زمانہ ،ایک مضبوط اور اس کے ساتھ ہی مظلوم و کامیاب حکومت کا دور تھا۔یعنی خود اپنے زمانے میں دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اپنی مظلوما نہ شہادت کے بعد بھی، آپ ہمیشہ فراز تاریخ میں مشعل کی مانند رہے ۔ لیکن اس دوران امیر المومنین کے دل کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف تاریخ کے سخت ترین واقعات و حالات کا جزء ہے۔

امیرالمومنین (ع) کی وصیتیں اور ہدایات

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کا آغاز واختتام تقوی کی وصیت پر مبنی ہے ۔ آپ فرماتے ہيں ؛ میرے بچو: اللہ کی راہ میں الہی معیارات پر قا ئم و دائم رہو۔ ہوشیار رہو؛”تقوی اللہ یعنی ” یعنی یہ ۔ اللہ سے ڈرنےکی بحث نہيں ہے ،جو بعض لوگ تقوی کے معنی اللہ سے ڈرنے کے کرتے ہيں ۔ خشیت اللہ اور خوف اللہ کی بھی اپنی قدرو منزلت ہے ۔ لیکن یہ تقوی ہے۔ ۔تقوی یعنی ہوشیار اور متوجہ رہوکہ جو بھی عمل آپ سے سرزد ہووہ اس مصلحت کے مطابق ہو جو اللہ تعالی نے آپ کیلۓ مد نظر رکھی ہے تقوی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی ایک لمحے کیلۓ چھوڑ دے۔اگر رہا کر دیا تو جان لو کہ راستہ پھسلنے والا ہے ، کھائياں گہری ہیں ،پھسل جائيں گے اور گر جائيں گے۔ یہاں تک کہ ہمیں کوئی سہاراملے کو ئی پتھر ، درخت اور کوئي جڑ ہمارے ہاتھ لگے، اور ہم خود کو اوپر اٹھا سکیں۔” ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون۔”(اعراف آیت ( 201) جو لوگ متقی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے توخدا کو یاد کرتے ہیں اور حقا ئق کو یاد کرتے ہیں ۔شیطان تو ہمارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے لہذا پہلی وصیت تقوی ہے ۔
تقوی کیلۓ کی ضروری ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ بھاگا جاۓ ۔ تقوی اور ہی چیز ہے ؛ وان لا تبغیا الدنیا و ان بغتکما”دنیا کے پیچھے نہ بھاگو اگر چہ دنیا تمھارے پیچھے پیچھے لگی ہو ۔ یہ دوسرا نکتہ ہے ۔یہ بھی تقوی کےلوازمات ہیں ۔ البتہ تمام نیک کام تقوی کے لوازمات میں ہیں۔ان میں سے ایک بلاشبہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑنا ہے ،یہ نہیں کہا ہے کہ ترک دنیا کرلو ۔ ارشاد ہوا ہے ، لا تبغیا ۔دنیا کے پیچھے پیچھے نہ چلو ۔ طلب دنیا میں نہ رہو،ہماری فارسی تعبیر میں یہ معنی ہوتے ہیں کہ دنیاکے پیچھے نہ دوڑو۔ دنیا طلبی کا مطلب ، روۓ زمین کو آباد کرنا ،اور الہی ذخائرو ثروت کوزندہ کرنا نہیں ہے دنیا طلبی کا مطلب یہ نہیں ہے، اس کیلۓ نہیں روکا گیا ہے ۔ دنیا یعنی جو آپ اپنے لیۓ اپنی خواہشات نفس کیلۓ اپنی ہوا و ہوس کیلۓ چاہتے ہیں ۔ اسے دنیا کہتے ہیں ۔ورنہ روۓ زمین کو نیک مقصد کے تحت اور انسانیت کی فلاح کیلۓ آباد کیا جائے تو یہ عین آخرت ہے ، یہ بلاشبہ اچھی دنیا ہے ۔جس دنیا کی مذمت کی گئ ہے اور جس سے روکا گيا ہے وہ ، وہ دنیا ہے جو ہماری توانائیوں کو، ہماری کوششوں کو، ہماری ہمت کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور ہمیں راستے سے بھٹکا دیتی ہے ۔ہماری خود پسندی ،ہماری خود پرستی ، دولت کو صرف اپنے لیۓ چاہنا اور اپنے لیۓ لذتوں کا حصول ایسی دنیا قابل مذمت ہے ۔البتہ اس دنیا میں کچھ چیزیں حرام ہیں اور کچہ چیزیں حلال ہیں ایسا نہیں ہےکہ ہر چیز کی اپنے لیۓ طلب حرام ہے ۔ نہیں: حلال بھی ہیں ۔لیکن تمام حلال چیزوں کی طرف جانے سے بھی روکا گيا ہے۔ اگر دنیا کے معنی یہ ہیں تو حلال بھی بہتر نہیں ہے۔ مادی زندگی کے مظاہر کو اللہ کیلۓ قرار دو ، اسی میں نفع اور فائدہ ہے ۔اور یہی آخرت کے معنی ہیں۔تجارت بھی اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانےکیلۓ ہو ،اپنےلیۓدولت و ثروت اکٹھاکرنےکیلۓ نہ ہو،تو عین آخرت ہے ۔ دنیا کے دوسر تمام کام بھی اسی طرح ہیں ۔ چنانچہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑواور طلب دنیا میں ہی نہ پڑے رہوامیرالمومنین نے اس وصیت میں جو فرمایا ہے وہ اس کیلۓآینۂ تمام نما ہے ۔آپ اگر حضرت علی علیہ السلام کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں گے تو وہ انھیں جملوں کا خلاصہ ہے جو آپ کی مختصر سے وصیت میں آيا ہے ۔”ولاتاسف شيءمنہا زوی عنکما”اگراس دنیاء مذموم سے تمھیں کچہ نہ ملا ہو اور تم سے دریغ کیا گیا ہو،تو افسوس نہ کرو۔ اگرکوئی عہدہ ، کوئی دولت ،کوئی اسباب فلاح تمھیں حاصل نہ ہوا ہو تو افسوس نہ کرو،یہ تیسرا جملہ۔اور اس کے بعد کا جملہ ہے ،”قولا بالحق” یا اصلی نسخے کے مطابق “وقول الحق ” کوئی فرق نہیں پڑتا ،معنی یہ ہیں کہ حق کہو ، حق کہو اور اسے نہ چھپاؤ،اگر آپ کی نظرمیں کوئی چیز آپ کی نظرمیں حق ہے تو اسے جہاں بیان کرنا چاہۓ بیان کیجۓ، حق کو چھپاۓ نہ رہۓ،اس وقت جب زبانیں حق کو چھپائیں اور باطل کو آشکار کریں ، یا حق کی جگہ باطل کو قرار دیں،اگر حق دیکھنےوالے یا حق جاننے والے حق بولیں ، تو حق مظلوم نہیں رہے گا ،حق اکیلا نہیں پڑے گا ۔اوراہل باطل حق کو مٹانے کی ہمت نہیں کریں گے۔اور بعد کا جملہ ہے “و اعملا للآجر “جزا کیلۓ – یعنی الہی وحقیقی جزا و پاداش۔ کام کیجۓ۔اے انسان عبس اور بیہودہ کام نہ کر ،یہ تیرا کا م یہ تیری عمر یہ تیرا سانس لینا ، صرف تیرا سرمایہ ہے ۔ اسے بلاسبب برباد نہ ہونے دے۔اگر عمر بسر کر رہے ہو ، اگر کوئی کام کر رہے ہو ، اگر سانس لے رہے ہو، اوراگر طاقت و توانائی خرچ کر رہے ہو ،تو یہ سب جزاء کیلۓ کرو ،جزاء و پاداش کیا ہے ؟کیا چند تومان انسان کے وجود کی جزاء وپاداش ہے؟کیا یہ اس زندگی کی پاداش ہے جو ہم خرچ کر رہے ہیں ؟ ہمارا کسی کو اچھا لگنا ،ایک انسان کی جزاء و پاداش ہے ؟جی نہیں ؛”فلیس لانفسکم ثمن الاالجنہ علی فلا تبیعوھا بھ غیرھا” ( نہج البلاغہ 456حکمت )یہ ،امام علی (ع) کا جملہ ہے جو آپ فرماتے ہیں کہ “الا حر یدع ھذاہ اللماظۂ لاھلھا؟ انھ لیس لانفسکم الا الجنہ فلا تبیعوھا الا بھا” کونا لظآلم خصما وللمظلوم عوناامام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وکونا لظالم خصماوللمظلوم عونا”ظالم کے خصم رہو ۔ خصم اور دشمن میں فرق ہے کبھی کوئي ظالم کا دشمن ہوتا ہے یعنی ظالم اسے برا لگتا ہے اور اس کا دشمن ہے ، یہ کافی نہیں ہے ۔”اس کے خصم رہو “یعنی “اس کے مد عی رہو”خصم یعنی ایسا دشمن جو مدعی ودعویدار ہے” ایسا دشمن جو ظالم کے گریبان کا پکڑے ہوۓ ہے اور اسے چھوڑ نہیں رہا ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد سے آج تک انسانیت ظالموں کا گریبان نہ پکڑنے کی وجہ سے ، بدنصیب اور روسیاہ ہے۔ اگر ایماندار اور مومن افراد ظالموں اور ستمگاروں کا گریبان پکڑے ہوتے تو دنیا میں ظلم اس قدر آگے نہ بڑھتا، بلکہ وہ جڑ سے ختم ہوجاتا۔ امیرالمومنین(ع) یہ چاہتے ہیں ۔ کونا للظالم خشما”ظالم کے خشم میں رہودنیا میں چاہے جہاں بھی ظلم و ظالم ہو آپ یہیں سے اس کے دشمن رہیں اور خود کو اس کا دشمن سمجھیں۔ ” میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی اٹھ کھڑے ہو اور دنیا کے اس کنارے سے اس کنارے تک جاؤ اور ظالم کا گریبان پکڑ لو ” میں کہتا ہوں ” اپنی دشمنی و خصومت کا ضرور اظہار کردو۔جہاں بھی جس وقت بھی موقع ملے اس کے دشمن رہو اور اس کا گریبان پکڑ لو ، ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب انسان ظالم کے پاس جاکر اظہا ر دشمنی بھی نہیں کر پاتا لہذا دور سے ہی اظہار دشمنی کرتا ہے آپ دیکھیں کہ آج امیرالمومنین علیہ السلام کی وصیت کے اسی ایک جملے پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے دنیا میں کس قدر مسائل پیدا ہوگۓ ہیں اور انسانیت کتنی بد نصیبی و تباہی کا شکار ہے۔ آپ دیکھیں قومیں بالخصوص مسلمان کتنا مظلوم ہے ،اگر امیرالمومنین (ع) کی اسی ایک وصیت پر عمل ہوا ہوتا تو ظلم کے نتیجے میں پیداہونے والی بہت سی مصیبتیں اورظلم کا وجود نہ ہوتا ،” وللمظلوم عونا ” جہاں کہیں بھی مظلوم ہے اس کی مدد کرو ۔ یہ نہیں فرماتے کہ ” اس کے حامی بنو ” نہيں اس کی مددکرنی چاہۓ ،جتنی بھی اور جس طرح سے بھی مدد ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک امیرالمومنین(ع) کی وصیت میں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام )کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ باتیں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام) سے مخصوص نہیں ہیں ۔ انھیں مخاطب قرار دیا گیا ہے ۔لیکن سب کیلۓ ہے ۔امیرالمومنین علیہ الصلوت والسلام بعد کے جملوں میں عمومی وصیت فرماتے ہیں ۔” اوصیکما و جمیع ولدی” تم دونوں بیٹو اور اپنے تمام بچوں کو وصیت کرتاہوں “واھلی “اور تمام اہل و عیال کو ” ومن بلغھ کتابی “اور ہر اس شخص کو جس تک میرا یہ خط پہنـچے۔ اس لحاظ سے آپ حضرات جو یہاں بیٹھے ہیں اور میں جو یہ وصیت آپ لوگوں کیلۓ پڑھ رہا ہوں ، ہم سب سےامیرالمومنین (علیہ السلام )کا خطاب ہے ۔” فرماتے ہیں تم سب کو وصیت کرتا ہوں ” کس چیز کی ؟ پھر “بتقوی اللہ ” ایک بار پھر ” تقوی” امیرالمومنین علیہ الصلات و السلام کا پہلا اور آخری کلمہ تقوی ہے ۔”ونظم امرکم “یعنی زندگی میں جتنے بھی کام کرتے ہو اس ميں منظم رہو ، یعنی کیا؟یعنی زندگي میں جتنے بھی کام کرتے ہو، اس کو منظم طریقے سے کرو۔اس کے معنی یہ ہیں ؟ ممکن ہے یہی معنی ہوں۔ یہ نہیں فرمایا کہ “نظم امورکم” اپنے کاموں کو منظم کرو۔ فرمایا ہے ” نظم امرکم وہ چیز جسے منظم ہونا چاہۓ ” ایک چیز ہے ” “نظم امور نہیں فرمایا ہے ” فرمایا ہے “ونظم امرکم ” انسان سمجھتاہے کہ یہ نظم کام ، تمام افراد کے درمیان ایک مشترکہ امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ” نظم امرکم ” سے مراد اسلامی ولایت وحکومت اورنظام ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت ونظام کے امور میں نظم و ضبط سے کام لو،۔۔۔۔۔وصیت کے دوسرے حصے کی بنیاد عوام کے درمیان خلوص و یکجہتی پراستوار ہے ۔ فرماتے ہیں ” صلاح ذات بین ” یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہو ۔ دل ایک دوسرے سے صاف ہوں ، سب کے درمیان یکجہتی ہو اور تمھارے درمیان اختلاف و جدائی نہ ہو ۔آپ یہ جملہ جو ارشاد فرما رہے ہیں اس کےلۓ قول پیغمبر(ص) سےایک دلیل بھی لا رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ اس پر بہت بھروسہ کرتےہیں اور اس سلسلے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ “صلاح ذات بین ” کی اہمیت نظم امر سے زیادہ ہے ؛ چونکہ صلاح ذات بین زیادہ نازک معاملہ ہے اس لۓ یہ عبارت پیغمبر (ص ) کی جانب سے بیان کرتے ہیں “فانی سمعت جدکما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یقول ؛تمھارے نانا کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ ” صلاح ذات البین افضل من عامۂالصلاۂ والصیام” عوام کے درمیان صلح اور میل جول کرانا تمام نماز و روزہ سے بہتر ہے ؛ فرماتے ہيں ہر نماز وروزہ سے بہتر ہے ؛ آپ نماز و روزہ کی فکر میں ہيں لیکن ایسا بھی کام ہے جو ان دونوں سے بھی بہتر ہے ، اس کی فضیلت زیادہ ہے ۔ وہ کیا ہے ؟وہ ” اصلاح ذات البین ہے ” اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف و تفرقہ ہے تو جايۓ اور جاکر اسے حل کیجۓ ،اس کی فضیلت نمازو روزہ سے زیادہ ہے ۔
یتیموں کی خبرگیری : یہ جملہ ارشاد فرمانےکےبعد مختصر فکرانگیز دلسوزجملے ارشاد فرما رہے ہیں ” وا للہ اللہ فی الایتام”یعنی اے میرے مخاطبین : اللہ اللہ یتیموں کے بارے میں ” اللہ اللہ کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہمارے پاس فارسی زبان میں اس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں ،اگر اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ ” تمھاری قسم اور خدا کی قسم یتیموں کے بارے میں” یعنی یتیموں کیلۓ جو کچھ بھی کر سکتے ہو کروکہیں ایسا نہ ہوکہ انھیں فراموش کر دو،بہت اہم ہے ۔آپ دیکھیں کہ یہ ہمدرد ماہرنفسیات خداشناس انسان شناس ،کس قدر باریک نکا ت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؛ جی ہاں ؛ یتیموں کا خیال رکھنا صرف ایک ذاتی رحم و کرم اور معمولی جذبہ نہیں ہے ۔ ایسا بچہ جس کا باپ مر چکا ہے ایسا انسان ہے جس کی ایک بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے ، اور اسے باپ کی ضرورت ہے ،اس کی کسی نہ کسی طرح تلافی کیجۓ ۔ اگر چہ اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی ،لیکن ہوشیار رہنا چاہۓ کہ یتیم جوان نوجوان یا بچہ کہیں تباہ نہ ہو جاۓ۔” واللہ اللہ فی الایتام ۔ فلا تغبو افواھھم ” کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھوکے رہ جائيں ؛ ایسا نہ ہوکہ کبھی انھیں کچھ مل جاۓ اور کبھی خالی ہاتھ رہ جائيں، “لاتغبو ” کے معنی یہ ہیں۔ ضروریات زندگی کے لحاظ سے ان کا خیال رکھۓ۔ ” ولا یضیعو بحضرتکم ” کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تنہا رہ جائيں اور تمھارے ہوتے ہوۓ ان پر کوئی توجہ نہ دی جاۓ، اگر موجود نہی ہو ، تو بے خبر ہو؛ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم موجود ہو اورایک یتیم – کوئی بھی یتیم – بے توجہی و لاپرواہی کاشکار ہو جاۓ ۔ایسا نہ ہو کہ ہر شخص صرف اپنے کام میں لگ جاۓ اور یتیم بچہ تنہا رہ جاۓ۔
پڑوسیوں کے حقوق کاخیال ” اللہ اللہ فی جیرانکم ” اللہ اللہ تمھارے پڑوسی ؛پڑوسی کے مسئلے کو معمولی نہ سمجھۓ۔بہت اہم معاملہ ہے ۔ ایک عظیم سماجی رابطہ ہے جس پر اسلام نے توجہ دی ہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔لیکن فطرت انسانی سے دور تہذیبوں کے پیچ و خم میں یہ قدریں گم ہوکر رہ گئي ہیں ۔ آپ کو اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہۓ ، نہ صرف مالی و معاشی لحاظ سے، البتہ وہ بھی اہم ہے -بلکہ تمام انسانی پہلؤوں سے ۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ سماج میں کیسی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے ، اور کس طرح لاینحل مسائل حل ہوتے ہیں،” فانھم وصیھ نبیکم ” یہ پیغمبر(ص) کی وصیت ہے کہ ” مازال یوصی بہم حتی ظنا انھ سیورثھم” پیغمبر نے پڑوسیوں کیلۓ اتنی زيادہ تاکید کی کہ ہم نے سمجھا کہ ان کیلۓ میراث معین ہوجاۓ گی ۔

اللہ اللہ فی القرآن اللہ اللہ قرآن میں ۔ ” لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکم”ایسا نہ ہو کہ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے قرآن پر عمل کرکے آگے بڑہ جائيں اور تم جو ایمان رکھتے ہو عمل نہ کرو اور پیچھے رہ جاؤ۔ یعنی یہی جو ہوا ہے ،وہ لوگ جو دنیا میں آگے بڑھے اور ترقی کی ، وہ مسلسل کام کرکے ، پے درپے کاموں میں مصروف رہ کرکے ، اچھی طرح سے کام انجام دے کر کے ، ان صفات کو اختیار کرکے جو خدا پسند کرتاہے آگے بڑھے ہیں ، اپنی برائيوں سے نہیں ،اپنی شراب خوری سے نہیں یا اپنے مظالم کے ذریعے نہيں۔۔۔۔
مسجد کے خالی نہ رہنےکے بارے میں ۔ واللہ اللہ فی بیت ربکم ” لاتخلوہ مابقیتم “مسجد ویران نہ رہنے پاۓ ” فانہ ان ترک لم تناظروا” اگر مسجد چھوٹے گی تو تمھیں مہلت نہیں دی جاۓ گی ( یا زندگی کا امکان نہیں ملے گا) اس عبارت کے مختلف معنی کۓ گۓ ہیں۔
جہاد فی سبیل اللہ کو نہ چھوڑنا ۔ ” و اللہ اللہ فی الجہاد باموالکم و انفسکم والسنتکم فی سبیل اللہ “یعنی اللہ جہاد کے بارے میں ۔ ایسا نہ ہوکہ تم راہ خدا میں جان مال اور زبان سے جہاد ترک کردو۔یہ جہاد وہی جہاد ہے جو جب تک امت مسلمہ میں موجود تھا وہ دنیا کی مثالی قوم تھی اور جب اسے چھوڑ دیا ، ذلیل و خوار ہوگئي۔۔۔۔جہاد اپنی اسی اسلامی شکل میں – کہ جس کے کـچھ حدود و شرائط ہیں – ظلم نہیں ہے ۔ جہاد میں انسانوں کے حقوق کوپامال نہیں کیا جاسکتا جہاد بہانہ بازی اور اسے اُسے قتل کرنا نہيں ہے ۔ جہاد میں کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جو مسلمان نہ ہو اسے ختم کردو ۔جہاد ایک الہی حکم ہے جس کی بہت عظمت ہے ۔ اگر جہاد ہوگا تو قومیں سربلند ہوں گی ۔اس کےبعد ارشاد فرماتے ہیں “و علیکم التواصل والتباذل ” ایک دوسرے سے رابطہ رکھو ۔ ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ عطا بخشش کرو ۔ ” وایاکم بالتدابر والتقاطع” ایک دوسرے کا ساتھ دینا نہ چھوڑو۔ قطع رحم نہ کرو ۔ ” لا تترکوا الا مر بالمعروف والنھی عن المنکر ” امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہرگز ترک نہ کرو کیونکہ اگر ترک کردوگے ” فیولی علیکم شرارکم ” جہاں نیکیوں کی طرف بلانےوالا اور برائیوں سے روکنے والا نہیں ہوتا وہاں اشرار اور برے افراد برسر اقتدار آجاتے ہيں اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔ ” ثم تدعون ” پھر تم نیک لوگ دعا کروگے کہ خدایا ، ہمیں ان برے لوگوں سے نجات دے ،” فلا یستجاب لکم “پھر خدا تمھاری دعا پوری نہیں کرے گا۔۔۔۔۔

حکومت امیرالمومنین ( ع) کو سمجھنے کے تئيں ہماری ذمہ داری

صرف خداکیلۓ ذمہ داریوں کو قبول کرنا ایسی چیز ہے جس کا درس ہمیں امیرالمومنین سے لینا چاہۓ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو اس منزل پر پہنچا دیں – کیونکہ کوئي بھی خود کو اس منزل تک نہيں پہنچا سکتا – بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جو شخص جہاں بھی کام کر رہا ہو اسے یہ مشق کرتے رہنا چاہۓ ،اور یہ نہیں بھولنا چاہۓ اور یہ کوشش کرنی چاہۓ کہ جو بھی کام کر ے خدا کیلۓ کرے ، جو ذمہ داری بھی قبول کرے خدا کیلۓ خدا کیلۓ قبول کرے ،اور جو قدم بھی اٹھاۓ خدا کیلۓ اٹھاۓ۔ اگر انسان جو ذمہ داری قبو ل کرتا ہے ، جو گفتگو کرتا ہے ،اور جو عمل کرتا ہے وہ خدا کیلۓ ہو توانسان کیلۓ وہ کام بھی آسان ہوجاۓ گا۔کیونکہ خدا کیلۓ ہے اس میں انسان کے نفس کا کوئي دخل اور اثر نہیں ہے ۔ نفسانی خواہشات اس میدان میں موجود نہیں ہے ۔ لہذا ذمہ داریوں کو قبول کرنا آسان ہے ،ذمہ داریوں سے دست بردار ہونا آسان ہے ۔ قدم اٹھانا آسان ہے، جو وہ کہنا چاہتا وہ کہنا آسان ہے، جو نہیں کہنا چاہۓ اس کا نہ کہنا آسان ہے ، فیصلہ کرنا آسان ہے ، زہر کا پیالہ پینا آسان ہے،پوری دنیا سے مقابلہ کرنا آسان ہے۔ بڑی طاقتوں کے مد مقابل آنا آسان ہے، مسائل کو جو چیز مشکل بناتی ہے وہ ہمارا نفس ہے ، ہماری خواہشات ہیں ، ہماری ہوا و ہوس ہے ، ہمارے مادی حساب کتاب ہیں ، اگر ایسے رہیں تو کیا ہوگا؟ کیا نقصان پہنچے گا؟ کیا چیز ہمیں نہیں مل پاۓ گی ؟ جب “من” بیچ میں نہیں ہوتا، جب “خود ” درمیان میں نہیں ہوتا ،”شخص ” بیچ میں نہیں ہوتا ،” نفسانی ھوا و ھوس ” بیچ میں نہیں ہوتی ، اور سب کچھ خدا کیلۓ ہوتاہے ، تو تمام بڑے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اس کا واضح اور درخشاں نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو امیرالمومنین (ع) کی زندگی کو دیکھۓ۔ جب چھوڑدینا چاہۓ تھا اور کھجور کے بیج کی مانند منہ سے باہر پھینک دینا چاہۓ تھا ، تو آپ نے وہ کیا ۔ اور جب ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت تھی – فرض کی ادا ئگي کیلۓ، کسی اور چیز کیلۓ نہیں – تو اس وقت آپ نے اسے قبول کیا۔ احساس ذمہ داری کیا ۔ دین کی حفاظت کیلۓ ۔ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کیلۓ اپنا پورا دور خلافت تقریبا جنگ میں گذارا۔اگر نفسانی ھوا و ھوس اور خواہشات کا مسئلہ ہوتا تو دوسری طرح عمل کرتے ۔ نفس کی پیروی کا معاملہ نہیں تھا۔ اور جب اس مقصد کیلۓ جان قربان کرنے کا وقت آیا تو آسانی سے جان بھی فدا کردی۔

عید غدیر کی مناسبت سے حکام سے ملاقات کے موقع پر فرمایا

حکومت امیرالمومنین ہر لحاظ سے چاہے وہ عدل قائم کرنے کامعاملہ ہو ، چاہے ظالم کے مقابلے اور مظلوم کی مدد اورحق کی حمایت کی بات ہو، ہر مرحلہ میں اور ہر حال میں نمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرنی چاہۓ۔ فرسودہ ہونے والی چیز بھی نہیں ہے ،اور یہ دنیا کے تمام سماجی اور سائنسی ماحول اورمختلف حالات میں انسانوں کی سعادت و خوشبختی کیلۓ نمونہ عمل ہو سکتی ہے۔ ہم اس دور کے دفتری طور طریقہ کی تقلید نہیں کرنا چاہتے اور کہیں کہ یہ سب بھی زمانہ کی تبدیلیوں میں شامل ہے، اور مثلا روز بروز نئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہم اس حکومت کے موقف کی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو تا ابد زندہ رہے گا۔ مظلوم کی حمایت ہمیشہ کیلۓ ایک درخشاں اورروشن نقطہ ہے ۔ ظالم سے ساز باز نہ کرنا ، طاقتور اور دولت مند سے رشوت نہ لینا ،اور حقیقت پر اصرار ،وہ اقدار ہیں کہ جو دنیا میں کبھی بھی کہنہ اور پرانےہونے والے نہیں ہيں۔ گوناں گوں حالات اور مختلف زمانوں میں یہ خصوصیات ہمیشہ گرانقدر ہیں ۔ ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہۓ ، یہی اصول ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں اصول پسند حکومت ، یعنی ان پائداراقدار کی اتباع اورپیروی جو ہرگز کہنہ اور پرانے ہونے والے نہیں ہیں۔ اور اتفاق یہ ہے کہ دنیا کی جابر اور استکباری طاقتیں بھی ہماری اسی پایداری سے ناراض ہيں۔وہ اسی سے غصہ میں ہیں ۔خفا ہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت فلسطین کے مظلوموں یا ملت افغانستان کی حامی وطرفدار ہے یا دنیا کی فلاں ظالم واستکباری حکومت سے ساز باز نہیں کرتی ۔آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ بنیاد پرستی یا اصول پسندی ہماری قوم کے دشمنوں کےہاتھوں اور زبان پر ایک گالی کی مانند رہتی ہے ، اسی وجہ سے ہے۔ یہ اصول وہی چیز ہے جس سے دنیا کی جابر طاقتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں ۔ اس دور میں امیرالمومنین (ع) سے بھی انھیں چیزوں کی وجہ سے جنگ کی ۔حکومت کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے خود کو اس دور کے سب سے غریب انسان کی حیثیت سے پیش کیااورفرمایا کہ :میں جو تمھارا امام ہوں، اس طرح زندگی گذار رہا ہوں ۔ عثمان بن حنیف سے ارشاد فرمایا کہ تم میری طرح زندگی نہیں گذار سکتے ، یعنی یہ توقع بھی نہیں ہے ؛”ولکن اعینونی بورع والاجتہاد”لیکن گناہ سے پرہیز کرو اور خود کواس منزل سے قریب کرنے کی کوشش کرو؛یہ وہی بات ہے جو امیرالمومنین (ع) ہم لوگوں سے بھی کہ رہے ہيں کہ جو بھی گناہ اور ناجائز ہےاس سے اجتناب کرواور خود کو قریب کرنے کی کوشش بھی کرو، جتنا قریب پہنچ سکو ، اور جتنا کوشش کر سکو۔۔۔امیرالمومنین کیلۓ حق و انصاف کا قیام اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کے ساتھ سختی ایک اہم مسئلہ تھا- چاہے وہ جو بھی ہو ؛ یعنی ظالم چاہے جو بھی ہو ، اورمظلوم چاہے جو ہو – امیرالمومنین نے مظلوم کی حمایت کے سلسلےمیں اس کے مسلمان ہونےکی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔اسلام کے پابند ،سب سے بڑے مومن، اسلامی فتوحات کے سب سے بڑے سردار امیرالمومنین نے مظلوم کادفاع کرنے کیلۓ مسلمان ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔۔جب ہم امیرالمومنین کے نام کا احترام کرتے تو یہ ہمارے عمل کرنےکیلۓ ہونا چاہۓ ۔ ہم ہمیشہ عوام سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ امیرالمومنین (ع) کی طرح عمل کیجئے ۔ ہم جو آج اسلامی جمہوری نظام میں عہدیدار ہیں ،ہماری ذمہ داریاں سب سے زيادہ ہيں ۔اور سب سے زیادہ فرائض ہمارے کاندھوں پر ہیں ۔ ہمیں امید ہےکہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو امیرالمومنین(ع) کی مانند یہ توفیق حاصل ہوگي اور وہ آپ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر گامزن رہیں گے۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نے اس راہ میں بہت مصائب ومشکلات برداشت کۓ ہیں ۔۔۔۔۔ امیرالمومنین(ع) نے معروف دعا ، دعاءکمیل میں جو آپ ہی کی تعلیم کردہ ہے- اللہ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ فرماتے ہیں” الہی وسیدی و مولائی وما لک رقی من جملہ یہ خطاب بھی میرے کانوں اور ذہن پر بہت اثر انداز ہوا کہ ” یا من الیہ شکوت و احوالی ” مفاتیح الجنان ، دعاء کمیل” اے وہ کہ میں جس سے اپنے شکوے بیان کرتا ہوں : آپ خدا سے شکوے کرتے تھے: آپ کا دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ امیرالمومنین کی تشویش عوام اور معاشرے کیلۓ بھی تھی اور اس دور میں نو تشکیل اسلامی نظام میں دین کی صورتحال اور مذہب کی صحیح سمت میں حرکت اور خود آپ کا شدید احساس ذمہ داری بھی اس میں شامل تھا ۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نےیہ ذمہ داری پوری کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی ۔

تبصرے
Loading...