امت كے ہزیمت خودہ اخلاق كی اصلاح

شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر (رح) نے سولہ اور سترہ صفر سنہ 1389 ہجری كو قیام امام حسین (ع) سے متعلق دو خطبے دیئے جن كا عنوان “تخطیط الحسینی تغییر اخلاقیہ العظیمہ” ہے ۔ آپ (رح ) فرماتے ہیں:

“امام حسین (ع) كو امت اسلامی كو لاحق ایك ایسے مرض كا معالجہ كرنا پڑا جس طرح آپ (ع) كے برادر امام حسن مجتبی (ع) كو ایك اور قسم كے مرض كا علاج كرنا پڑا تھا ۔ امام حسن (ع) كے دور میں امت مرض شك میں مبتلا تھی ۔ یعنی اس پس وپیش میں تھی آیا فریق مخالف سے جنگ و جدال جائز ہے یا نہیں ۔ اس شك كا آغاز اگر چہ امیرالمومنین (ع) كے دور سے ہی ہوگیا تھا تا ہم وقت گزرنے كے ساتھ یہ شك پختہ ہوتا گیا اور دور امام حسن (ع) تك اپنی انتہا كو پہنچا یعنی حقیقی معنوں میں شك كے مرحلے میں داخل ہوا ۔ حالت ایسی ہوگئی تھی كہ اس شك كی بیماری كا علاج قربانی سے بھی ممكن نہ تھا ۔

جب امام حسین (ع) نے قیادت سنبھالی تو امت ایك اور نئے مرض میں مبتلا تھی جو كہ ارادہ كا فقدان تھا ۔ خط واضح، امام حسین (ع) كا موقف واضح تھا ۔

لیكن امت كا ارادہ اس موقف كا ساتھ نہیں دے رہا تھا ۔ وہ امت جو كل تك شك و تردد میں مبتلا تھی، حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) كے ادوار گزرنے كے بعد اب اس كے سامنے راستہ واضح ہوگیا تھا ۔ لیكن امت ارادہ كھوچكی تھی، ان كے ضمیر مردہ ہوچكے تھے ۔ جن لوگوں نے ان كا حق غصب كیا تھا ان كی عزت كو مباح قرار دیا تھا وہی ان كو غافل كرنے میں كامیاب ہوگئے ان كے ارادو ں كو بدل دیا نیز ان سے مقابلہ كرنے كی قوت چھین لی۔یہ وہ دوسری بیماری ہے جس كو علاج امام حسین (ع) نے كرنا چاہا ۔

اس وقت امام حسین (ع) كے لئے درج ذیل مفروضات میں سے كسی ایك پر عمل ممكن تھا ۔

(1) یزید كی طلب بیعت پر آپ (ع) اس كی بیعت كرلیتے جس طرح آپ (ع) كے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) نے تینوں خلفاء كی بیعت كی تھی ۔

(2) یزید كی بیعت كو مسترد كرتے اور مدینہ یا مكہ میں ہی قیام كرتے ۔

(3) اسلامی شہروں میں سے كسی شہر میں پناہ لیتے جیسا كہ آپ (ع) كے بھائی محمد حنفیہ نے تجویز پیش كی تھی ۔

(4) آپ (ع) حركت میں آتے، كوفہ والوں كی دعوت قبول كرتے، كوفہ جاتے اور انجام كار كے لئے آمادہ رہتے ۔

اس وقت كے حالات كے پیش نظر چوتھا مفروضہ ہی امام (ع) كے لئے قابل قبول ہوسكتا تھا كیونكہ امت اس وقت درج ذیل حالات میں مبتلا تھی:

(1) اكثریت اپنی قوت ارادی معاویہ كے دور حكومت میں كھو چكی تھی، مقابلہ كرنے كی طاقت و قدرت ختم ہوگئی تھی ۔ عزت و ذلت ان پر حاوی تھے ۔ امت ایك عظیم نقصان سے دوچار تھی ۔ خلافت اسلامی ملوكیت قیصر و كسری میں داخل ہورہی تھی ۔

(2) امت كے نزدیك اسلام كی اہمیت بہت كم رہ گئی تھی، شخصی مصلحت كو زیادہ اہمیت دی جارہی تھی ۔ اپنی مصلحت، اپنا وجود، اسلام سے زیادہ عزیز تھا ۔

(3) وہ اتنے غافل اور بے حس ہوچكے تھے كہ بنو امیہ كی مختصر سی سازش كامیاب ہوسكتی تھی ۔

اس وقت كے صحابہ بھی خلافت كو ملوكیت میں تبدیل ہوتا ہوا دیكھ رہے تھے مگر خاموش تھے جس طرح بعد وفات پیغمبر (ع) انھوں نے خلا فت كے مسئلہ پر خاموشی اختیار كی تھی پہلے

مرحلے میں تو شاید اس لئے خاموشی اختیار كی ہو كہ اس وقت خلافت تو اپنی جگہ باقی تھی صرف خلیفہ تبدیل ہوا تھا جب كہ عہد معاویہ میں خود خلافت میں ایك واضح تغیر پیدا ہوگیا تھا ۔ اب خلافت قیصر و كسری كے خطرناك مفہوم میں داخل ہوگئی تھی، محض شرعی لبادہ اڑھاركھا تھا ۔ صحابہ خاموش تھے ۔ معاویہ ان كو دھوكا دے رہا تھا اور لوگ صحابہ كی اس خاموشی كو اپنے لئے جواز بنالیتے تھے ۔

(4) ان حالات میں امام حسن (ع) كے لئے معاویہ سے مصالحت كرنے كے علاوہ كوئی اور راستہ نہیں تھا ۔ چنانچہ اپنی حیثیت و حالت كو سامنے ركھتے ہوئے آپ (ع) كو یہی اختیار كرنی پڑی كیونكہ آپ (ع) امت كے امین تھے و سارے حالات سے واقف تھے ۔ اگر نہیں جانتے تھے تو صرف عراقی عوام اور جو عراق سے باہر تھے وہ درك نہیں كررہے تھے جیسے خراسان والے كیونكہ وہ اس امتحان سے نہیں گزرے تھے، اس آگ میں نہیں جلے تھے جس میں امام حسن(ع) جل رہے تھے ۔ ان تك صرف خبریں پہنچتی تھیں ۔ امام حسن (ع) نے جو تنزلی اختیار كی تھی آیا وہ اموی حكومت كو قبول كر كے كی تھی یا مجبوری كے تحت، اہل خراسان یہ تمیز نہیں كر پارہے تھے ۔

یہ ہے ان حالات كی ہلكی سی جھلك جن كے تحت امام حسین (ع) كے لئے ضروری ہوگیا تھا كہ آپ (ع) ایك ایسا موقف اختیار كرتے جس كے ذریعہ ان چاروں گروہوں كا معالجہ كرسكتے ۔ یہ تقسیم كوئی نہائی اور آخری نہیں ہے بلكہ اس كی بھی چار قسمیں ہیں، مملكن ہے ان میں سے ہر ایك پر چند عناوین صادق آتے ہوں ۔ لہذا اب ضروری ہوگیا تھا كہ امام حسین (ع) اس موقف كو اختیار كرلیں جو قسم اول سے مربوط ہے ۔ یعنی لوگ ظالم سے مقابلہ كرنے كی قوت كھو چكے تھے، ذلت و خواری كو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے ۔ بنو امیہ نے لالچ كے زور پر یہ حالات پیدا كئے تھے ۔

دوسرا موقف یہ دیكھنا تھا كہ دین سے متعلق لوگوں كا كیا ایمان ہے، ان كی نظر میں اسلام كی كتنی اہمیت ہے ۔ معاویہ نے خلافت كو ملوكیت میں تبدیل كرنے كی جو منطق كو اپنائی تھی اس كوسلب كرنا، اس كے ہاتھ سے اس دلیل كو چھین لینا صرف اس صورت میں ممكن ہوسكتا تھا كہ اس وقت كے صحابہ معاویہ كے مقابلے میں كھڑے ہوجاتے ۔ امام حسین (ع) نے اس موقف كو اپنا كر واضح كیا كہ صلح امام (ع) كی كیا وجوہات تھیں خلافت كا قیصر و كسری كی ملوكیت میں تبدیل ہونا امام حسن (ع) كی طرف سے امضاء نہیں تھا ۔

اس وقت امت تین قسم كے حالات سے دوچار تھی ۔ امام حسین (ع) كو ان میں سے ایك موقف كو اختیار كرنا تھا:

(1) یزید كی بیعت كرلیتے جس طرح امیرالمومنین (ع) نے بقائے اسلام كی خاطر بحالت مجبوری تینوں خلفاء كی بیعت كی تھی ۔ لیكن ایسا كرنے سے امت كو لاحق كسی بیماری كا علاج نہیں ہوتا ۔ اس لئے كہ یزید كا مسئلہ حضرت ابوبكر و عمر و عثمان كی خلافت سے مختلف تھا ۔ وہاں صرف خلیفہ كانام بدل گیا تھا، خلافت كا مفہوم اپنی جگہ باقی تھا ۔ لیكن یہان مفہوم خلافت كو ہی بدل دیا گیا تھا ۔ چنانچہ ممكن ہی نہیں تھا كہ اس حالت كو یونہی گزرنے دیا جائے ۔ اس كے مقابلے میں اہل بیت (ع) جو ہمیشہ سے صحیح معنوں میں اسلام كے قائل رہے ہیں ۔ ممكن نہیں تھا كہ وہ مزاحمت نہ كرتے اور اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری پوری نہ كرتے ۔

(2) بیعت كو رد كرتے ہوئے مدینہ و مكہ میں قیام كرتے ۔ اس كا جواب یہ ہے كہ امام (ع) چاہتے تھے كہ مفہوم خلافت كو تبدیل ہونے سے بچائیں ۔، حالات امام حسین (ع) كے سامنے تھے اور امام (ع) ان سب كا مشاہدہ كررہے تھے ۔ چنانچہ اگر آپ (ع) مدینہ و مكہ میں قیام كرتے اور بیعت كو وہیں مسترد كرتے تو آپ (ع) بنو امیہ كے ہاتھوں قتل ہوجاتے اگر چہ استاركعبہ سے تكیہ كركے كیوں نہ بیٹھتے ۔ اور اس طرح سے قتل ہونا سودمند نہ ہوتا، لوگوں كے مردہ ضمیر بیدار نہیں ہوتے ۔ لہذا آپ (ع) نے یہ كام كربلا میں شہید ہوكے كیا ۔

لوگوں كو اپنے بنیادی عقیدے كی طرف پھیرنا، لوگوں میں باقی عواطف و شعور كو بیدار كرنا، ان میں جان ڈالنا ممكن نہیں تھا كہ آسانی سے كامیاب ہوجاتے لہذا ضروری تھا كہ ہر اس چیز كو جو عاطفہ كو زندہ كرنے میں فعال ہو اختیار كرتے ۔ مكہ و مدینہ میں قتل ہونا اس مقصد كو پورا نہیں كرتا تھا ۔

(3) تیسرا مفروضہ یہ تھا كہ آپ (ع) كسی اور ملك میں پناہ لے لیتے یہ تجویز گرچہ ایك مختصر مدت كے لئے صحیح تھی ۔ ممكن تھا كہ امام (ع) یمن وغیرہ سے كچھ اپنے شیعوں كو جمع كرنے میں كامیاب ہوجاتے لیكن بہت جلد آپ(ع) پھر تنہا ہوجاتے ۔ حوادث كے ایسے گرداب میں پھنس جاتے جس سے بچنا لازمی تھا ۔ ضروری تھاكہ امام حسین (ع) اپنے فریضہ كو جہاں واقعہ پیش آرہا تھا وہیں انجام دیتے یعنی شام، عراق اور مكہ و مدینہ انہی مقامات پر ہی آپ (ع) كی تبلیغ موثر ہوسكتی تھی ۔

شام مركز خلافت تھا ۔ كوفہ والوں میں جنبش ہے ۔ مدینہ و مكہ مركز اسلام ہیں ۔ لہذا امام (ع) كے لئے ضروری تھا كہ چوتھے موقف كواختیاركریں اور امت كے ضمیر كو زندہ كریں، لوگوں كو یہ باور كرائیں كہ دین اسلام كتنی اہمیت كا حامل ہے ۔ خلافت كو ملوكیت میں تبدیل كرنے كے عمل كو مسترد كركے تمام مسلمانوں پر یہ واضح كریں كہ امام حسن (ع) كی خلافت سے تنزلی اصلاً امضاء نہیں تھا بلكہ یہ قیام امام حسین (ع) كا مقدمہ تھا ۔

امت میں فقدان ارادہ

اب ہم جاننا چاہیں گے كہ امت كو لاحق فقدان ارادہ كا مرض ان كے جسم میں كہاں تك سرائیت كرچكا تھاتاكہ ہم یہ اندازہ كرسكیں كہ اس بیماری كی گہرائی كس حد تك تھی كیونكہ مرض كی تشخیص كے بعد ہی علاج كے بارے میں سوچا جاسكتا ہے، اگر اندازہ وہی ہے جو ہم پہلے سمجھ چكے ہیں یعنی اس وقت جو حالات پیدا ہوچكے تھے تو ان كا علاج صرف اور صرف قربانی تھی ۔ لہذا قربانی بھی اتنی عمیق و گہری ہونی چاہئے جتنی شدید گہرائی میں وہ بیماری ہے یا وہ حالات اتنا سنگین رخ اختیار كرچكے ہیں كہ بیماری اور دوا میں ون ٹوون مقابلہ كرنا ہوگا ۔ اگر مرض كی شدت كی بہ نسبت دوا كم قوت كی ہو یا اس كی خوراك كی مقدار كم ہو تو بیماری ٹھیك نہیں ہوگی ۔

یہ بیماری پوری امت كے تمام گروہوں كو لاحق ہو چكی تھی ۔ سوائے ادھر ادھر كے چند افراد كے سب اس وباكاشكار ہوچكے تھے ۔ بس وہ لوگ جو امام حسین (ع) سے مل گئے تھے محفوظ تھے ۔

امت میں فقدان ارادہ كے مرض كی شمولیت كے نمونے

پہلا نمونہ: عقلاء وبرجستہ شخصیات موت سے ڈرتے تھے: اگر ہم امام (ع) كی حركت و قیام كے دورانیہ پر غور كریں تو ہم دیكھتے ہیں كہ امام حسین (ع) نے جب مدینہ سے مكہ جانے كا ارادہ كیا یا مكہ چھوڑ كر عازم عراق ہوئے تاكہ وہاں جاكر اپنی شرعی مسئولیت كی نبھائیں اور بنوامیہ كے طاغوت كے خلاف كھڑے ہوجائیں، تو ہر جگہ سے عقلاء كی طرف سے یہی نصیحتیں آرہی تھیں كہ تعقل كو تہورپر ترجیح دینا چاہئے یعنی یہ تمام حضرات كود پڑنے پر سوچنے كو ترجیح دے رہے تھے ۔ یہ سارے عقلاء تھے جو اس بات پر متفق تھے كہ امام (ع) كا یہ عمل طبیعی نہیں ہے ۔ یہ لوگ امام (ع) كو موت سے ڈاررہے تھے ۔ یہ لوگ كہتے تھے كہ آپ (ع) كیسے بنوامیہ كے خلاف قیام كریں گے ۔ ان كے ہاتھ میں سلطنت ہے، افرادی قوت ہے، لوگوں كو دھوكہ دینے، ڈرانے، دھمكانے كی تمام طاقت ان كے ہاتھ میں ہے ۔ وہ لوگ امام حسین (ع) كو اس قیام كے انجام سے آگاہ كررہے تھے جس كو امام (ع) آخر میں پہنچے ۔ اس طرح سے اس قیام كے عقلاء امام حسین (ع) كو سلامتی اپنانے كی تلقین كررہے تھے، اور یہ نہیں سمجھ رہے تھے كہ ممكن ہے قربانی، حیات كا نعم البدل ہو اگر چہ نفس كتناہی قیمتی كیوں نہ ہو ۔ خود كو بچانے كی زندگی سے قربانی بہتر ہے ۔ یہ نصیحتیں امام (ع) كو عام لوگوں كی طرف سے نہیں مل رہی تھیں بلكہ یہ سب اس وقت كی سربرآوردہ شخصیات تھیں جن كے ہاتھوں میں زمانے كے حل وعقد تھے ۔ جیسے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، آپ (ع) كے ابن عم عبداللہ بن جعفر آپ (ع) كے بھائی محمدبن حنفیہ ۔

عبداللہ بن جعفر كا آپ سے نسبی رشتہ بھی تھا لیكن نفسیاتی طور پر كمزور تھے ۔ لہذا جب ان كو خبر ملی كہ آپ (ع) مكہ سے جلدی روانہ ہورہے ہیں تو آپ (ع) كو ایك خط میں لكھا تھا كہ آپ (ع) میرے آنے تك انتظار كریں ۔ لیكن امام حسین (ع) نے ان كا انتظار نہیں كیا ۔ جب عبداللہ بن جعفر مكہ پہنچے تو آپ (ع) سے نكل چكے تھے ۔ انھوں نے والی مكہ سے فوراً آپ (ع) كے نام امان نامہ لیا اور امام (ع) تك پہنچے ۔ وہ چاہتے تھے كہ اس امان نامہ كے ذریعہ امام (ع) كو مكہ چھوڑ كر جانے كے تمام ارادے ترك كرنے پر آمادہ كرسكیں ۔ كیونكہ امام (ع) بنوامیہ كے خوف سے مكہ چھوڑ رہے ہیں اور امام نامہ ملنے كے بعد مكہ چھوڑنے كا جواز نہیں رہے گا ۔

یہ وہ نصائح ہیں جو اس وقت امت كی پستی میں ہونے كی دلیل تھی ۔ اس وقت كے روسا ء سب كے سب اس پستی میں گرفتار تھے ۔ عام لوگ تو اس سے بھی كئی گنا زیادہ دنیاوی خواہشات میں گھرے ہوئے تھے ۔ امام حسین (ع) كو امت كے اس قسم كے ضمیر كا سامنا تھا یا یوں كہیں كہ امام (ع) كی تحریك كو ایسے لوگوں كا سامنا تھا ۔ دوسرے عوامل بھی اپنی جگہ موجود تھے ۔ یہ جمود، یہ سكوت اس وقت ایك ایسی سخاوت كے منتظر تھے جو اس پستی كا بدل ہو ۔

دوسرا نمونہ: عبداللہ بن حر جعفی كا موقف ہے: امام حسین (ع) خود بہ نفس نفیس اس سے ملے تھے اور نصرت كی اپیل كی تھی ۔ وہ آپ (ع) كو حق بجانب سمجھتا تھا، مگر اس كے لئے یہ گراں تھا كہ اس كا خون اس راہ میں بہے ۔، سوائے گھوڑے كے كچھ اور دینے كے لئے تیار نہیں تھا ۔ وہ قربانی كے اس ذائقہ كو چكھنا نہیں چاہتا تھا ۔

تیسرا نمونہ: روساء بصرہ كا موقف ہے: امام حسین (ع) نے بصرہ كے چھ بزرگوں كے نام خط لكھا، یہ وہ لوگ تھے جو دور خلافت امیرالمومنین (ع) میں آپ (ع) كے ساتھ تھے ۔ بصرہ كے زعماء و بزرگان دوگروہوں میں تقسیم تھے ایك گروہ حضرت امیرالمومنین (ع) كا حامی تھا اور ایك گروہ جناب عائشہ طلحہ اور زبیر كا حامی تھا ۔ امام حسین (ع) نے ان چھ افراد كو جو حضرت علی (ع) سے مرتبط تھے انتخاب كیا ۔ آپ (ع) جانتے تھے كہ یہ لوگ اہل بیت (ع) سے ولایت ركھنے والے تھے، شعار اہل بیت (ع) سے اتفاق كرنے والے تھے ۔ لہذا ان سے آپ (ع) نے مدد ونصرت طلب كی ۔ اپنی فریاد كو ان تك پہنچایا انھیں خطرہ سے آگاہ كیا جو امت اسلامی كو لاحق تھا ۔ یہ خطرہ یزید ابن معاویہ كی قیصر و كسری جیسی حكومت كی صورت میں تھا ۔

اب دیكھنا یہ ہے كہ ان كا كیا رد عمل سامنے آتا ہے ۔ ان میں سے ایك شخص عبداللہ بن مسعود نھشلی ہیں ۔ انھوں نے دعوت كو قبول كیا اور جواب دیا ان كے علاوہ باقی سب نے خیانت كی ۔ انہی میں سے ایك شخص ( منذربن جارود ) نے امام حسین (ع) كے سفیر كو مع خط كے عبید اللہ بن زیاد كے حوالے كردیا ۔ یہ لوگ شیعہ تھے ۔ عثمانی نہیں، علوی تھے ۔ لیكن ان میں علویت كا مفہوم ختم ہوچكا تھا ۔ تمام ارادے فوت ہوچكے تھے ۔ ایسا كرنا عبیداللہ بن زیاد كی محبت میں نہیں تھا، یہ لوگ اس كے حامی نہیں تھے، اس كو حق پر نہیں سمجھتے تھے بلكہ خود كو بچانے كے لئے ایسا كیا تھا اس ڈر سے كیا تھا كہ كہیں ابن زیادہ كو پتہ نہ چلے كہ حسین (ع) ابن علی (ع) نے ان سے مدد ونصرت طلب كی ہے یہ ان كی كمزوری كی علامت تھی ۔ حاكم كو پتہ نہیں چلا تھا ۔ ضرورت نہیں تھی كہ ان كے سامنے پیش كرتے لیكن صرف یہ چاہتے تھے كہ معمولی سا خفیف بوجھ بھی نہ اٹھائیں ۔ خود كو ہر طرح سے بچانا چاہتے تھے، كم از كم احتمالات سے بچنے اور اپنے لئے سلامتی كو پوری ضمانت لینے كے لئے قاصد حسین (ع) اور خط دونوں كو حاكم كے حوالے كردیا ۔ عبیداللہ كے حكم سے حسین (ع) كا یہ قاصد شہید ہوگیا ۔

ایك اور شخص اختف بن قیس جو حضرت علی (ع) كے ساتھ ہوتے تھے ۔ انھوں نے علی (ع) كو قریب سے دیكھا تھا آپ (ع) كے محضر مبارك میں تربیت پائی تھی ۔ انھوں نے امام حسین (ع) كو خط لكھا: آپ (ع) صبر كریں جلد بازی نہ كریں ۔ اس جواب میں یہ جملہ بھی تھا: “ولایستخفنك الذین لایومنون” یعنی جس چیز پر یقین نہ ہو اس كو ہلكا نہ سمجھیں ۔یہ خط قیام امام (ع) كے خلاف ایك اعراض تھا ۔ یہ تھے اس وقت شیعوں سے ملنے والے جوابات ۔

اختف بن قیس كا خط اس وقت كی امت كے شكستہ اخلاق كی ترجمانی كرتا ہے ۔ امت كس حالت میں مبتلا تھی ! معلوم ہوتا ہے كہ وہ ارادے كھو چكے تھے، اپنے وجود كا احساس نہیں ركھتے تھے یا كم از كم ان كے اندر ایك ایسی شكستگی نموپا رہی تھی جسے ان كے ہاتھوں سے تقویت مل رہی تھی ۔ یہ لوگ جو امت كو ان كی اپنی حالت پر باقی ركھنا چاہتے تھے اور اسی كو طاقت و وسعت دے رہے تھے ۔ كسی قسم كی شجاعت كو تہورسمجھتے تھے، امور مسلمین پر سوچنے كو استعجال، عجلت پسندی سمجھتے تھے ۔ اسلام و مسلمین جن مسائل میں مبتلا تھے ان كے حل سے متعلق اہتمام كرنے كو ہلكا پن سمجھتے تھے ۔ غیر عقلی و عجلت پسندی سے تعبیر كرتے تھے ۔ ان كے شكستہ اخلاق اس وقت كی امت سے آشكار تھے ۔ وہ اپنی اس شكستگی، زبوں ،حالی پسماندگی اور زمین گیری كے جواز میں كہتے تھے: اب مقابلہ كا دور ختم ہوچكا ہے ۔ پہلے والے مفاہیم بدل رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں نئے اقدار نئے اہداف اس كی جگہ لے رہے ہیں ۔ نئے نئے دلائل پیش كررہےتھے ۔ امام (ع) اس اخلاق كا خاتمہ چاہتے تھے تاكہ نئے اخلاق پیدا كئے جائیں ایسے اخلاق جن میں قدرت و حركت اور جدیت ہو ۔ یہاں امام (ع) فرماتے ہیں ” میں موت كو سعادت كے علاوہ كچھ نہیں سمجھتا اور ظالمین كے ساتھ زندگی كو ذلت سمجھتا ہوں ” آپ (ع) امت كے موجودہ اخلاق كو نئے سرے سے بدلنا چاہتے تھے ۔ اخنف بن قیس جیسے لوگوں كے اندر وہ اخلاق ختم ہوچكا تھا اور اس كے ساتھ چلنے والے لوگوں كی بھی یہی حالت تھی ۔

چوتھا نمونہ: قبیلہ بنو اسد كا اپنا گاؤں چھوڑ كر جانا ہے: جب حبیب ابن مظاہر نے امان عالی مقام (ع) سے اجازت طلب كی كہ وہ اپنے قبیلے والوں كو نصرت كی دعوت دیں ۔ اس وقت كے لوگ جانتے تھے كہ حبیب كون ہیں ؟ ان كی جہادی خدمات، درخشندہ تاریخ دی صفات سیرت اور ورع و تقوی سب جانتے تھے ۔ لیكن جب انھوں نے دعوت دی تو یہ نتیجہ سامنے آیا كہ قبیلہ والے اس رات جگہ چھوڑ كر چلے گئے ۔ حبیب ابن مظاہر واپس آگئے اور امام حسین (ع) كو خبر دی كہ قبیلہ والے چاہتے ہیں كہ غیر جانبدار رہیں ۔ وہ سمجھ رہے ہیں كہ ہم كافی نہیں ہیں كہ لشكر عمر سعد سے مقابلہ كریں ۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ” لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم “۔ یہ امت وہ بیماری تھی جس كا امام (ع) علاج كرنا چاہتے تھے ۔

پانچواں نمونہ: بعد از شہادت امام (ع) اہل كوفہ كا موقف ہے: قیس بن مسہر صیداوی كے بارے میں نقل كرتے ہیں جنھیں امام حسین (ع) نے اپنا خط دے كر اہل كوفہ كے پاس بھیجا تھا كہ جب وہ كوفہ میں داخل ہوتے ہیں، اہل كوفہ اس وقت منقلب ہوچكے تھے ۔ راستے بند تھے عبیداللہ ابن زیاد مسلط ہوچكا تھا ۔ چنانچہ امام (ع) كے یہ قاصد گرفتار ہوئے، عبید اللہ كے حاضر كئے گئے ۔ انھوں نے دربار میں پہنچنے سے پہلے ہی امام (ع) كا خط پھاڑدیا ۔ عبیداللہ كے دربار میں پہنچ كر ان سے سوال ہوا خط كو كیوں پھاڑدیا ۔ جواب دیا میں نہیں چاہتا تھا كہ تم اس خط كے مضمون سے آگاہ ہوجاؤ۔ سوال كیا كہ اس خط میں كیا لكھا ہوا تھا ۔ انھوں نے كہا: اگر تم یہ بتانا ہوتا تو میں خط كو ہی نہ پھاڑتا ۔ عبیداللہ نے كہ: منبر پر جاؤ اور علی (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) پر سب كرو ۔ انھوں نے اس موقع كو غنیمت جانا اور منبر پر گئے ۔ ان خطرناك حالات میں اپنی زندگی كے آخری لمحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت شجاعت و جوانمردی كے ساتھ كھڑے ہوگئے ۔ جلادوں كے سامنے اہل كوفہ كی طرف رخ كركے اپناپیغام سنایا ۔ انھوں نے كہا میں حسین (ع) كا نمائندہ ہوں آپ (ع) كوفہ تشریف لارہے ہیں ۔ اس طرح سے انھوں نے منبر سے بے اعتنائی كے ساتھ بات كی اپنے پیغام كو پہنچایا ۔ ادھر سے حكمر ہوا كہ انھیں قتل كردیا جائے ۔ اس طرح آپ نے اپنے ہدف كے حصول میں اپنا خون دے دیا ۔ جو شخص ان كا سر تن سے جدا كررہا تھا اس سے كسی نے پوچھا كیوں قتل كرتے ہو، اس نے كہا میں چاہتا ہوں كہ اس كو راحت كی نیند سلادوں ۔ یہ وہ امت تھی جس كے افراد صرف اپنی ذاتی زندگی سے وابستہ تھے لیكن كل انسان كے وجود سے بے خبر تھے، سوچتے نہیں تھے اپنے عقیدہ كا خیال نہیں تھا كہ ایسا كرنا ان كے لئے مہنگاپڑرہا تھا ۔ اس وجہ سے مقتول كے سركی پرواہ نہ تھی ۔ وہ عبیداللہ بن زیاد كے سائے میں انھیں راحت دلارہاتھا ۔ یہ سكوت، یہ جمود امت كی فكری طور پر پستی كا پتہ دے رہے تھے ۔

چھٹا نمونہ: حكومت كی طرف جھكاؤیا حكومت كا لوگوں پر دباؤ ہے: حكومت كی طرف ایك ایسا گرم تیز رجحان پایا جاتا تھا كہ عبیداللہ بن زیاد نے دو یا تین ہفتہ كے اندر ( قتل مسلم (ع) كے بعد سے لے كر محرم تك كے دوران ) میں اسی شہر كوفہ سے ہزاروں كی تعداد میں لشكر كو آمادہ كیا ۔ یہ اہل لشكر وہی لوگ تھے جو حضرت علی (ع) كے ساتھ ہوتے تھے، ولایت علی ركھنے والے، صفین میں علی (ع) كے ساتھ تھے ۔ اسی طرح دیگر جنگوں، نہروان و جمل میں بھی علی (ع) كے ساتھ تھے، ان میں سے سر فہرست عمروابن حجاج زبیدی ابیہ كے سخت دور كو دیكھا تھا ۔ لیكن اپنے دیدیا كیونكہ وہ دیكھ رہا تھا كہ اگر اس عقیدہ پر قائم رہا تو سودا بہت مہنگا پڑے گا جب كہ اس كے چھوڑنے پر اس كے بدلے میں كھلی دنیا مل رہی تھی ۔ لہذا علی (ع) كے ساتھ جہاد كرنے والا یہ شخص شكست كھا گیا ۔ ایك مسلمان كی حیثیت سے جو شخصیت اس میں باقی تھی وہ بھی ختم ہوگئی ۔ یہ وہ شخص ہے جس نے عمر سعد كو حسین (ع) اور اہل بیت (ع) رسول پر پانی بند كرنے كا بدترین مشورہ دیا، گھاٹ پر پہرے بٹھادیئے گئے ۔

اسی ظالم حكومت كو شبث بن ربعی نے بھی قبول كیا ۔ یہ بھی جنگ صفین میں علی (ع) كے ساتھ تھا ۔ صفین میں وہ جانتا تھا كہ علی (ع) پیغمبر اكرم (ص) كی نیابت میں جنگ لڑرہے ہیں جس طرح خود پیغمبر (ص) نے غزوہ بدر میں لشكر كی قیادت كی تھی ۔ لیكن یہاں دنیوی خواہشات نے اس كا گلا گھونٹ دیا اور دنیا میں حل ہوگیا تھا ۔ وہ اس حد تك غرق ہوچكا تھا كہ جب حبیب عبیداللہ بن زیادہ نے اس كے پاس آدمی بھیجا كہ اسے جنگ كے لئے آمادہ كرے تو اس نے بیماری كا عذر پیش كیا ۔ اس كے علاوہ اس كے پاس كوئی اور عذر نہیں تھا ۔ اس نے یہ نہیں كہا كہ میں وقت كے امام (ع) سے جنگ نہیں كرسكتا ۔ صرف اتنا كہا كہ میں مریض ہوں ۔ عبید اللہ نے دوبارہ آدمی بھیجا اور كہا بھیجا كہ اس سے كہہ دومسئلہ انتہائی حساس ہے، بیماری كو چھوڑ دو یہ اعلان كرو كہ ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمنوں كے ساتھ ۔ واضح جواب چاہئے ۔ اس نے جو نہی یہ سنا اور معلوم ہوا كہ مسئلہ اہم ہے فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور لباس پہن كر عبیداللہ بن زیادہ كے پاس آیا اور لبیك كہا ۔ اس قسم كا منفی رویہ اس وقت كے لوگوں پر طاری بیماری كی واضح وروشن دلیل تھی ۔

ساتواں نمونہ: جناب مسلم بن عقیل (ع) اور ہانی كا آزمائشی مرحلہ تھا: یہ دور حضرت مسلم (ع) اور جناب ہانی بن عروہ كا امتحانی دور تھا جس كی دنیا میں كوئی نظیر نہیں ملتی ۔ یہ ایسا دور ہے جس سے اس مرض كا بخوبی تصور كیا جاسكتا ہے ۔ یہ اس كی بہت واضح اور روشن دلیل ہے كہ فقدان ارادہ كا مرض كس حد تك پھیل چكا تھا ۔ یہ بدترین دور گزرا ہے ۔ انسان كبھی سوچتا ہے كہ مسلم كے ساتھ یہ كیسا اتفاق ہوا كہ تمام تر طاقت وقدرت حاصل كرنے كے بعد بہ یك لحظہ ہاتھ سے نكل گئی ۔ اتنی عوامی تائید كیسے ختم ہوگئی ۔ مسلم كیسے تنہارہ گئے ۔ كیسے كوفہ كی گلیوں میں تردد كے شكار ہوئے ۔ كیوں اس افرادی قوت سے عبیداللہ بن زیاد كے ساتھ مقابلہ نہیں كیا ؟ شہید صدر فرماتے ہیں یہ طاقت نہیں تھی، یہ قدرت نہیں تھی، یہ صرف رجسٹر میں درج نام تھے ۔ یہ اٹھارہ ہزار یا بیس ہزار یا تیس ہزار محض شوشے تھے ۔ یہ عوام كے جلسے جلوس كی طرح تھے ۔ امت مردہ ہوچكی تھی یہ اسی مردہ امت كی تعداد تھی ۔ یہ وہی امت تھی جو انتہائی عجیب حالات میں مبتلا تھی ۔ نفسانی طور پر شكستہ تھی ۔ وجدان گرا ہوا تھا ۔ ضمیر مردہ ہوچكا تھا ۔ جو كچھ پہلے كیا تھا اس كا انجام یہ ہوا ۔

عبیداللہ بن زیادنے ہانی بن عروہ كی طرف ایك شخص سے كہا بھیجا كہ امراء زیادتی كو برداشت نہیں كرتے ۔ امیر كی زیارت كو نہیں آئے كیوں امیر سے نہیں مل رہے ہو ۔ یہ پیغام اس وقت ہانی كو پہنچا جب انھوں نے مسلم ابن عقیل (ع) كو اپنے گھر میں پناہ دیا تھا ۔ شیعہ چھپ چھپ كر آپ (ع) سے ملتے تھے ۔ غرض ہانی كو عبید اللہ بن زیادكے دربار میں لاگیا ۔ عبیداللہ نے ہانی كو متہم كیا اور كہا تم نے مسلم كو اپنے یہاں پناہ دے ركھا ہے تم ہمارے خلاف قیام كرنے كا ارادہ ركھتے ہو ؟ ہانی نے كہا مجھے پتہ نہیں كہ مسلم كہاں ہیں ۔ عبیداللہ نے كہا ہم مسلم كو ضرور پائیں گے ۔ ہانی نے كہا اگر مسلم میرے قدموں كے نیچے ہوں تو میں قدم نہیں اٹھاؤں گا ۔ ہانی كا شمار ان چند افراد میں سے تھا جو یہ استعطاعت ركھتے تھے كہ قیام امام حسین (ع) كے ماہیت كو اس مردہ امت كے لئے كشف كریں ۔ ہانی نے عبیداللہ سے تمام تر نصیحتیں كیں اس سے كہا میں تمہیں نصیحت كرتا ہون كہ تم اور تمہارا خاندان یہاں سے چلا جائے ۔

ہم تمہیں پكڑیں گے نہیں ۔ ہانی اس طرح بات كرتے تھے جیسے ان كے پیچھے ایك افرادی قوت ہے ۔ جو ان كے ارادوں كی پاسداری كے لئے بیھٹے ہیں ۔ جب عبیداللہ نے غضبناك ہو كر انھیں حبس كرنے كا حكم دیا اور یہ خبر پھیلی كہ ہانی قتل ہوگئے ہیں ۔

تو عمر و ابن حجاج چار ہزار لشكر لے كر آیا اور ہانی كی خبر گیری كی دارالامارہ كے باہر دھرنا دیا ور ہانی كی حیات كا مطالبہ كیا۔ عبیداللہ بن زیاد نے قاضی شریح كو بھیجا چونكہ قاضی شریح میں گواہ بننے كے شرائط موجود تھے ۔

عبیداللہ نے كہا: قاضی جاؤ جس كمرے میں ہانی كو ركھا ہوا ہے دیكھو اور باہر جمع لوگوں سے كہہ دو وہ زندہ ہے ۔ شریح قاضی لعنة اللہ علیہ كہتا ہے كہ جو نہی میں كمرے میں داخل ہوا اور ہانی كو دیكھا تو اس نے مجھ كو دیكھ كر چینخ ماری اور كہا: كہاں ہے وہ مسلمان جو مجھے بچائے ؟ اگر دس آدمی بھی محل میں داخل ہوجاتے تو ہانی كو نجات دلاسكتے تھے كیونكہ اندر كوئی پولیس كوئی سپاہی نہیں تھا ۔ اگر دس آدمی آمادہ ہوجاتے تو كوفہ كا رخ بدل جاتا ۔ لیكن وہ جو تصور كررہے تھے كہ اندر پولیس یا لشكر ہے محض ایك وہم تھا ۔ ان كے ارادے ختم ہوچكے تھے ۔ یہ امت تھی جو اپنی شخصیت كو كھوچكی تھی ۔ وہ یہ سوچ كر آئے تھے كہ یہ قصر مركز طاقت ہے یہاں سے گزرنا ناممكن ہے ۔ حقیقت میں یہ قصر اندر سے خالی تھا، نہ مقابلہ كے لئے اسلحہ تھا نہ اتنے افراد تھے كہ دس آدمی سے مقابلہ كرسكتے ۔ لہذا ہانی نے كہا یہ مسلمان كہاں گئے ہیں ۔ اس حكومت كو نابود كرنے كے لئے دس آدمی كافی تھے ۔ دس آدمی آرام سے قبضہ كرسكتے تھے ۔

شریخ قاضی كہتا ہے كہ میں عمر ابن حجاج كی طرف گیا اور اس سے كہا ہانی زندہ ہے تاكہ وہ واپس چلاجائے ۔ عمرابن حجاج اور اس كے ساتھ موجود چارہزار لشكر كا ہدف صرف یہ تھا كہ ہانی زندہ ہوں ۔ ان كو اور كوئی فكر نہیں تھی ورنہ ان كو چھوڑ كرجانے كے بجائے ساتھ لے جاتے ۔ یہ بے دلی عدم ارادہ كی كیفیت ظاہر كرتا ہے ۔ اس كی فكر نہ كی آخر قید كیوں ہیں ۔

قاضی شریح كہتا ہے كہ میں نے چاہا كہ ان لشكر والوں سے كہوں كہ ہانی صرف دس آدمی چاہتا ہے ۔ اس خوفناك جگہ پر ایك دھند نظر آرہا تھا جس میں عبیداللہ بن زیاد بیٹھا تھا اگر دس آدمی ہجوم كرتے تو یہ مجسمہ ٹوٹ جاتا ۔ شریح كہتا ہے كہ میں نے دیكھا میرے پیچھے عبیداللہ ابن زیاد كے فوجی كھڑے ہیں ۔ میں ہانی كی باتیں بتانا چاہتا تھا مگر چپ رہا ۔ میں نے صرف رسمی طور پر گواہی دی كہ ہانی زندہ ہے ۔ اسی بات پر عمر ابن حجاج واپس چلے گئے اور دوسرے دن ہانی شہید ہوگئے ۔

عبیداللہ بن زیاد كے ساتھ تیس سے زیادہ آدمی نہیں تھے ادھر مسلم بن عقیل (ع) كے ساتھ چار ہزار كا لشكر تھا ۔ لیكن ان كے پاس دل تھے ہاتھ نہیں تھے، ارادہ نہیں تھا ان كے نام كیا پڑہوں جو اس معركہ میں مسلم كے ساتھ تھے ۔ اس چارہزار لشكر میں بڑی بڑی شخصیات تھیں لیكن یہ سب شكست كھاگئے ۔

تحریك حسینی میں تحریك تنہا حسین نے پیدا كی حسین (ع) كا ہر قطرہ خون غلوتحریك مصطفی تھا ۔ یہ ستر آدمی جو امام (ع) كے ساتھ شہید ہوئے آزمائشوں كا نچوڑ ہیں ۔ ان لوگوں نے كیوں میدان نہیں چھوڑا ؟ جب كہ وہ افراد جو مسلم بن عقیل كے ساتھ تھے تاریخ لكھتی ہے كہ عورتیں آتی تھیں اور اپنے شوہر، باپ، بھائی، اور بیٹوں كو لے جاتی تھیں اور یہ كہتی تھیں ۔تمہیں كیا ہوگیا ہے كیوں بادشاہوں كے امور میں مداخلت كرتے ہو رہے فقدان ارادہ انسان حل ہوجاتے ہیں عورتوں كی باتوں میں آئے اور واپس گھروں كو چلے گئے ۔ انہی عورتوں میں سے بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جنھوں نے امام حسین (ع) كی شہادت كے بعد ایسے كارنامے انجام دئیے جو تاریخ كے صفحات پر ثبت ہیں ۔ انہی عورتوں نے بعد از شہادت امام (ع) عمر بن سعد كی امیر كوفہ بننے كی تمام ترسازشوں كو ناكام بنادیا ۔ جب یزید ابن معاویہ مرگیا ۔ عمر وسعد نے بنو امیہ كی طرف سے كوفہ میں بیعت كی تحریك چلائی اور خود امیر بننے كی كوشش كی تو یہی خواتین اپنے باپ بیٹوں اور شوہروں كے پاس جا كے انھیں اٹھاكر باہر لائیں ۔ جو ان سے كہتی تھیں تمہیں بادشاہوں سے كوئی كام نہیں، انہی عورتوں نے عمر ابن سعد كے خلاف جلوس نكالا اور مظاہرہ كیا ۔ امام حسین (ع) كا مرثیہ پڑھتی تھیں ۔ یہی چینخ و پكار كہنے لگیں: ” جو حسین (ع) كا قابل ہو وہ كوفہ كا امیر نہیں ہوسكتا ” ۔ یہاں تك كہ عمربن سعد مارا گیا ۔

آٹھواں نمونہ: امت كا عمل اور عاطفہ ہم آہنگ نہیں تھے: شہید صدر (رح ) فرماتے ہیں ان ہزیمت كے مظاہر میں تعجب خیز مظہر وہ تناقض تھا جو امت كے دلوں اور عواطف و عمل میں پایا جاتا تھا ۔ یہ وہ تناقض تھا جس كا ذكر كرتے ہوئے فرزدق نے امام (ع) سے كہا: كوفہ والوں كے دل آپ (ع) كے ساتھ ہیں اور تلواریں آپ (ع) كے مخالف ہیں ۔ انھوں نے یہ نہیں كہاكہ كچھ لوگوں كے دل آپ (ع) كے ساتھ ہیں اور كچھ لوگوں كی تلواریں آپ(ع) كے خلاف كھینچی ہوئی ہیں ۔ بلكہ یہ كہا جن لوگوں كے دل آپ (ع) كے ساتھ ہیں انہی كی تلواریں آپ (ع) كے خلاف ہیں ۔ مذكورہ بالا ان تمام آٹھ قسم كے نمونوں میں تناقض پائے جاتے ہیں ۔

لیكن ان تمام تنقاضات كے باوجود ان میں كوئی تناقض نہیں پایا جاتا كیونكہ جو اپنے ارادوں كا مالك نہ ہو اس كا ہاتھ خود اپنے ہی عاطفہ كے خلاف حركت كرسكتا ہے ۔ لہذا ہم دیكھتے ہیں كہ انھوں نے روتے ہوئے امام حسین(ع) كو شہید كیا ۔ وہ یہ احساس كررہے تھے كہ ہم اپنی عظمت شان و شوكت كو قتل كررہے ہیں ۔ ہم اپنی آخری آرزو كو قتل كررہے ہیں امامت كے ورثہ كو قتل كررہے ہیں ۔

یہ وہ باقی ماندہ آثار تھے جن سے تمام امت كے باشعور افراد كی امیدیں وابستہ تھیں كہ یہ اسلام كے اندر نئی روح ڈالیں گے ۔ یہ لوگ اسی آخری امید كو ذبح كررہے تھے جو ان پر ڈھائے جانے والے مظالم كو بند كرنے والی تھی ۔

وہ شعور ركھتے تھے مگر قدرت نہیں ركھتے تھے ۔ لہذا انھوں نے روتے ہوئے اپنے امام (ع) كو قتل كیا ۔ ہم خدا سے دعاكرتے ہیں كہ ہمیں ان لوگوں میں قرار نہ دے اور ہمارا شمار ان لوگوں میں نہ كرتے جو اہداف امام حسین (ع) كو قتل كرتے ہوں اور روتے بھی ہوں ۔ امام حسین (ع) ایك فرد نہیں جس نے ایك عرصہ زندگی كی ہو اور گزرگیاہو ۔ امام حسین (ع) كل اسلام تھے اور ہیں ۔ امام حسین (ع) كل اہداف ہیں جس كے لئے آپ (ع) شہید ہوئے ۔ یہی اہداف امام حسین (ع) ہیں ۔ یہ اہداف روح و فكر حسین (ع) ہیں ۔ یہ اہداف، اہداف عاطفہ حسین (ع) ہیں ۔ امام حسین (ع) آپ (ع) كے اہداف یہ سب وہ اقدار ہیں جو اسلام میں مجسم ہیں ۔

اہل كوفہ اس امام (ع) كو قتل كئے جارہے تھے اور روئے جارہے تھے ۔ یہاں ایك خطرناك چیز ہے كہ ہم اس آزمائش كے لئے تمنا كریں كہ نعوذباللہ حسین (ع) كو قتل بھی كریں اور روئیں بھی ۔ ہمیں ہوش میں آناچاہئے، سوچنا چاہئے یہ ہم پر واجب ہے كہ ہم كم ازكم حسین (ع) كے قاتلوں میں نہ ہوں ورنہ رونا كسی كام كا نہیں ہے ۔ اس صورت میں عمر سعد قاتل حسین (ع) كے قاتل نہیں ہیں كیونكہ رونا كافی نہیں ہے ۔ اس صورت میں عمر سعد قاتل حسین (ع) نہیں ٹہرے گا كیونكہ وہ بھی رویا ہے ۔ جس وقت حضرت زینب (ع) شہداء كے لاشوں كے پاس سے گزرہی تھیں اور اپنے بھائی كے جسم كو دیكھا تو مدینہ كی طرف متوجہ ہو كر اپنے جد بزرگوار (ص) كو آواز دی ان (ص( كو خبردی كہ یہ آپ (ص) كا حسین (ع) ہے جو خاك و خون میں غلطاں ہے، یہ آپ (ص) كے اہل حرم ہیں جو اسیر ہورہے ہیں ۔ یہ منظر دیكھ كر عمر سعد رودیا اور تمام لشكر بھی رویا ۔ یہی لوگ تھے جنھوں نے امام (ع) كا خون بہایا تھا ۔ لہذا رونا تنہا كوئی ضمانت نہیں ہے، عاطفہ كوئی چیز نہیں ہے ۔ جن كا شہادت امام حسین (ع) كے بارے میں كوئی موقف نہ ہو یا وہ اہداف امام حسین (ع) كو قتل كررہے ہوں ان كا رونا كسی كام كا نہیں ہے ۔ ہمیں اس سلسلے میں سوچنا ہوگا غور كرنا ہوگا تاكہ ہمیں یقین ہوجائے كہ ہم قاتلین امام (ع) میں سے نہیں ہیں ۔ صرف ہمارا یہ كہنا كہ ہم ان (ع) سے محبت كرتے ہیں ہم ان(ع) كی زیارت كو جاتے ہیں، ہم روتے ہیں، ہم پاپیادہ زیارت كو جاتے ہیں، واقعاً یہ سب باتیں عظیم ہیں، ممتاز ہیں، لیكن صرف یہ رجحانات كفایت نہیں كرتے ۔ ہمارے پاس ٹھوس دلیل نہیں ہے كہ ہم یہ ثابت كریں كہ ہم نہیں بھولیں گے ۔ ممكن ہے انسان عاطفی طور پر قیام كرے لیكن عین موقع پر قاتلین امام (ع) كے ساتھ عملاً شریك ہو ۔ اپنے نفس كا خیال ركھنا چاہیئے ۔ اپنے موقف كا امتحان لینا چاہیئے ۔ تدبر كرنا چاہئے، حالات كا احاطہ كرنا چاہئے ۔ تقاضوں كو كھلے دل سے سوچنا چاہئے تاكہ واضح ہو كہ ہم بالواسطہ یا بلاواسطہ قاتلین امام (ع) كے ساتھ شریك نہیں ہیں ۔

ہزیمت خوردہ اخلاق كا ایك ارادت مند اخلاق میں تبدیلی

امت كا اخلاق جب ہزیمت خوردہ ہوجاتا ہے تو ان كے ارادے بھی مردہ اور بے جان ہوجاتے ہیں ۔ ان سے ان كی شخصیت چھن جاتی ہے ۔ لہذا ان كا وہ ہزیمت خوردہ نفس جس كے ساتھ وہ زندگی گزاررہے ہوتے ہیں ایسی شكل اختیار كرلیتا ہے كہ اسے كرامت و شخصیت كا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ راستہ اور ہدف واضح ہے، حق و باطل میں تمیز كی قدرت بھی موجود ہے اس كے باوجود معاویہ كی تجویز یا معاویہ كا كھینچا ہوا نقشہ جس میں دور جاہلیت كو اسلام كے لباس میں پیش كیا گیا ہے منكشف ہوجاتا ہے ۔ ان كے لئے علی (ع) كا نقشہ بھی واضح و روشن ہگیا، جو كہ اسلام كا حقیقی چہرہ ہے ۔

اسی طرح امام حسین (ع) دو قسم كے اخلاق كے بیچ میں كھڑے تھے، ایك وہ ہزیمت خوردہ اخلاق تھا جس میں عاشورسے پہلے امت اسلامی مبتلا تھی اور دوسرا وہ اخلاق جسے امام حسین (ع) امت میں پیدا كرنا چاہتے تھے یا نشر كرنا چاہتے تھے ۔ وہ اخلاق یہ تھا كہ امت صاحب ارادہ بن جائے عزم و استقلال اور جذبہ قربانی ان میں پیدا ہوجائے ۔ آپ (ع) كو اس اخلاق كا بھی سامنا تھا جو صرف مفاہیم كی حد تك كا تصور تھا عمل سے دور تھا ۔ اس اخلاق میں سلب و ایجاب تھا و نفی و اثبات تھا یہ وہ اخلاق تھا جو قوت تحرك كو شل كرچكا تھا ۔ امام (ع) اس اخلاق میں حركت كے بغیر صرف تغیر لانا چاہتے تھے ۔ امام (ع) كو اس اخلاق كا سامنا تھا جس كی مثال اخنف بن قیس كے كلام سے ملتی ہے ۔ جب اس نے امام حسین (ع) كے ركاب میں حركت كرنے والوں كے بارے میں اظہار خیال كیا ۔ وہ كہتا ہے كہ یہ وہ لوگ ہیں جن كو اپنے موقف پر یقیقن نہیں، مسائل كی تحقیق سے پہلے جلد بازی كرتے ہیں، حالات كے پیش آنے سے پہلے خود كو پیش كرتے ہیں ۔ یہ اخنف بن قیس كی سوچ ہے ۔ یہ ایك ایثار و قربانی كے علمبردار كا ہزیمت خوردہ اخلاق ہے ۔ وہ اس قربانی كو اس اقدام كو جو انسان كو موت كی طرف لے جاتی ہے، جلد بازی سے تعبیر كرتا ہے صبر كے خلاف اقدام قرار دیتا ہے اسے عقل و منطق كے دائرہ سے باہر قرار دیتا ہے ۔ اخنف بن قیس كی یہ سوچ امت كے ہزیمت خوردہ اخلاق كا نتیجہ ہے ۔ یہ مفہوم حركت امام كے بعد پاریدہ ہوگیا ۔ شہادت امام حسین (ع) كے بعد امت كے اندر جذبہ قربانی آیا، جانفشانی كے لئے آمادہ ہوئے، حركت توابین كے نام سے چار ہزار لشكر قیام كیا ۔ ان كا كوئی ہدف نہیں تھا وہ صرف جان دنیا چاہتے تھے تاكہ ان كے اپنے گناہوں كا كفارہ ہوجائے یعنی امام سے جو منفی رویہ اپنایا تھا اس كا كفارہ ہوجائے ۔

وہ اخلاق جس كا مظاہرہ آپ (ع) كے رضائی بھائی عمر اطراف كے اس جملے سے ہوتا ہے: “یزید كی بیعت كرنا قتل ہوجانے سے بہتر ہے” یہ ان كا ہزیمت خوردہ اخلاق تھا لیكن قیام امام حسین (ع) كے بعد یہ پسپا اخلاق جاتا رہا ۔

علی بن الحسین (ع) كا یہ جملہ كہ جب آپ(ع) نے اپنے بابا سے پوچھا: بابا جان ! كیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ تو امام (ع) نے فرمایا: ہم حق پر ہیں یہ سن كر علی اكبر (ع) نے جواب دیا اگر ہم حق پر ہیں تو كوئی پروا نہیں كہ موت ہم پر گرے یا ہم موت پر ۔

آپ (ع) كے بھائی محمد حنفیہ نے امام حسین (ع) سے فرمایا: مجھے ڈرہے كہ آپ (ع) كسی ملك میں داخل ہوجائیں گے پھر لوگ آپ (ع) سے اختلاف كریں گے ۔ بعض لوگ آپ (ع) كا ساتھ دیں گے بعض آپ (ع) كے مخالف ہونگے ۔ دوست ودشمن كے درمیان جنگ ہوگی ۔ خون بہے گا ۔ لہذا بہتر ہے آپ (ع) میدان جنگ سے دور رہیں اپنے پیغامات كو لوگوں تك پہنچائیں، اپنے مخبروں كو لوگوں كے مابین چھوڑیں اور ان كے ذریعہ لوگوں كو دعوت دیں ۔ اگر انھوں نے دعوت قبول كی تو بہتر ہے اگر قبول نہ كی تو آپ (ع) اپنے دین كے ساتھ محفوظ تو رہیں گے ۔ یہ ان كے اخلاقی پسپائی تھی جس سے دلوں پر تالے لگے ہوئے تھے، جس كی كایا شہادت كے بعد پلٹ گئی اور امام حسین (ع) كے خون مطہر نے امت كی بیداری كے لئے چابی كا كام كیا جب محمد حنفیہ سمجھ رہے تھے یہ خون ضائع ہوگا ۔ مختار نے زندان میں كہاتھا مجھے وہ كلمہ معلوم ہے جس سے ہم پوری سرزمین عرب پر حكومت كرسكتے ہیں ۔ یہ وہی خون ہے جس كے بارے میں سوچا جارہا تھا كہ ضائع ہوگا مگر یہ سلطنت وقت كی چابی بنی ہے ۔

بنو امیہ كے امیر یزید نے آل ابی طالب (ع) سے متعلق عبیداللہ كو خط میں لكھا یہ لوگ جلد ہی خون بہانے پر اتر آئیں گے ۔ یہ ان كے پسپا شدہ اخلاق كی ترجمانی كرتی ہے ۔ جب پسپائی نے ان كے اخلاق اور وجود میں جڑپكڑ لی تو امام حسین (ع) نے ان كے خلاف قیام فرمایا ۔ آپ (ع) نے فیصلہ كیا ایك ایسے اخلاق كی طرف لوگوں كو لانے كے لئے ایسا خون بہایا جائے جس سے ارادہ زندہ ہو، صحیح اسلامی اخلاق زندہ ہوجائے ۔ مسلمانوں كو اپنے صحیح موقف اور اپنی ذمہ داری كا احساس ہوجائے جسے شریعت مختص كرتی ہے ۔ ایسی تبدیلی لانے میں امام حسین (ع) دقیق ترین مراحل سے گزرے ۔ اس وقت امام حسین (ع) چاہتے تھے كہ امت كے جسم اور ضمیر و وجدان میں نئے اخلاق كا بیج بودیا جائے ۔ امام (ع) اس وقت انتہائی دقت اور باریك بینی سے نگرانی فرمارہے تھے ۔ لوگ ہزیمت خوردہ اور كمزور تقلیدی اخلاق سے نكلنا نہیں چاہتے تھے ۔ لہذا امام (ع) نے تمام تر كوشش یہ كی كہ اس پسپائی كا شكار اخلاق كے خلاف قیام نہ كریں كیونكہ آپ (ع) امت كی تربیت نئے اخلاق كے ذریعے كرنا چاہتے تھے ۔ امت كے ضمیر و وجدان كو حركت میں لانا چاہتے تھے ۔ یہ آپ (ع) كے لئے اس وقت ہی ممكن تھا جب آپ (ع) ایك جائز راستے سے قیام كریں ۔

جس امت كے ارادے مردہ ہوچكے ہوں، اخلاقیات میں نمایاں پسپائی، مفاہیم تبدیل ہوچكے ہوں، ان تمام خدشات كا خیال ركھنا امام (ع) كے لئے ضروری تھا ۔ دقیق منصوبہ بندی اور نقشے كے تحت امام (ع) كو چلنا تھا ۔ غیر طبیعی طریقے سے نہیں بلكہ قانونی اور شرعی طریقے سے امت كے اخلاق كو جھنجوڑ كر اس سے پسپائی كو دور كرنا ہے ۔ ان كے تبدیل شدہ مفاہیم كی جگہ اصل مفاہیم كو پیدا كرنا ہے لہذا آپ اس مقصد كے لئے منصوبہ بندی كرتے رہے ۔ آپ (ع) نے پہلے ہی دن سے ایك ایسے مثبت، واضع اور روشن موقف كو اپنے اور خدا كے درمیان اختیار كیا كہ آپ (ع) كو كسی صورت اس معركہ میں كودنا تھا جس كے لئے خواہ كتنی ہی قیمت كیوں نہ اداكرنی پڑے ۔ آپ (ع) نے ہر چلینج كا مقابلہ كرنے اور آخری دم تك لڑنے كا تہیہ كرلیاتھا ۔

آپ (ع) امت كی حركت كے رد عمل میں حركت نہیں كررہے تھے بلكہ ان كے رد عمل كی مناسب اصلاح پیش كررہے تھے ۔ آپ (ع) طبیعی راستے سے حركت كررہے تھے اس كی دلیل یہ ہے كہ امام حسین (ع) نے بصرہ میں اپنے وابستہ شخصیات كو خط لكھا ہے ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا ہے كہ امام حسین (ع) نے كوئی كھلا خط كوفہ والوں كے نام لكھا ہے یا نہیں لیكن آپ (ع) نے بصرہ میں موجود آپ (ع) سے وابستگی ركھنے والوں كو خط لكھ كر دعوت كا آغاز كیا ۔ آپ (ع) نے یہ اعلان كیا كہ ہم بنو امیہ كے خلاف قیام كرنے والے ہیں ان پر یہ واضح كردیا كہ اس خط كا قاصد ان كی نمائندگی كرتا ہے اور آپ اپنے بھائی اور پدربزرگوار كی نمائندگی كررہے ہیں ۔ آپ (ع) نے فرمایا:

” میں ابھی تك خاموش رہا۔ میرے باپ اور میرے بھائی نے خاموشی اختیار كی ۔ یہاں تك كہ بنوامیہ قرآن و سنت كی پاسداری كو چھوڑنے لگے ۔ جب كتاب و سنت كی ہتك حرمت ہونے لگی، سنت مردہ ہوچكی ،۔ بدعت عام ہوچكی تو میرے لئے ضروری ہوگیا كہ قیام كروں اور تبدیلی كے لئے اٹھوں ۔ تمہارے اوپر بھی فرض ہےكہ تو لوگ بھی اپنے موقف كو واضح كرو “

آپ (ع) نے اپنے خطوط كے ذریعے اپنی دعوت كے بارے میں اپنے نظریئے كو واضح كیا ۔ ان كو دعوت دی كہ وہ آپ (ع) كے قیام كے ابتدائی مراحل میں ہی شامل ہوجائیں ۔ یہ اس بات كی دلیل ہے كہ امام حسین (ع) اپنے موقف كی حمایت صرف عاطفہ دینے كے حق میں نہیں تھے بلكہ آپ (ع) یہ بھی نہیں چاہتے تھے كہ لوگ صرف لفظی یا زبانی طور پر آپ (ع) كا ساتھ دیں ۔ آپ (ع) پہلے ہی دن سے امت كو ہدف كے ساتھ حركت میں لانا چاہتے تھے ۔

جب والی مدینہ نے آپ (ع) كو نصف شب اپنے پاس بلایا اور یزید كے لئے بیعت طلب كی تو آپ (ع) نے اسی وقت اس پر یہ واضح كردیا كہ حسین (ع) كو یزید كی بیعت قبول نہیں ہے ۔ یہ حقیقی معنوں میں بیعت كو مسترد كرنے كی ایك صورت تھی ۔، اس كے بعد آپ (ع) نے واضح انداز میں فرمایا كہ خلافت كے لائق و سزا اور صرف آپ (ع) ہیں ۔ آپ(ع) نے والی مدینہ سے فرمایا: تم بھی صبح كرو، ہم بھی صبح كرتے ہیں ۔ تم بھی دیكھو ! ہم بھی دیكھیں گے كہ كون اس منصب كے لئے سزاوار ہے ۔

آپ (ع) كا یہ عزم وارادہ اور اس طرح كی حركت حاكم وقت كے خلاف ایك واضح قیام تھا چلینچ تھا ۔ بصرہ والوں كو جو خط لكھا وہ حكومت وقت كے لئے چیلنج تھا ۔ یہ سب وہ قرائن، دلائل اور شواہد ہیں كہ امام (ع) پہلے ہی دن سے منصوبہ بندی كررہے تھے ۔

آپ (ع) امت كو حركت میں لانا چاہتے تھے چاہے حالات جو بھی ہوں ۔

امام حسین (ع) كا اپنے موقف كی توجیہ میں شعار

امام (ع) اس اخلاقی پسپائی كی شكار امت كے لئے شعار بلند كرتے تھے ۔ وہ امت جو روحی و نفسانی طور پر شكست خوردہ تھی اور اتنی متاثر كہ اس كے ارادے ختم ہوچكے تھے ۔ آپ (ع) موقع پر واضح اور روشن انداز میں شعار دیتے تھے ،۔ چونكہ اس ہزیمت خوردہ اخلاق میں یہ امت مبتلا تھی امام (ع) كے لئے اس كا مقابلہ كرنا ضروری تھا ۔ اگر وہ اس اخلاق كے خلاف براہ راست مقابلہ كو نكلے تو وہ اپنے عمل كی شرعی حیثیت كو كھو بیٹھیں گے ۔ امام (ع) كا یہ عمل ان كے ضمیر كو بیدا نہیں كرسكتا ۔ چنانچہ ان كو حركت میں آنا چاہئے ۔

پہلاشعار: قتل ناگریز ہے ۔ كچھ لوگ امام (ع) پر اعتراض كرتے تھے كہ آپ (ع) كیوں قیام كررہے ہیں ۔ عبد اللہ بن زبیر وغیرہ نے اس قسم كے اعتراضات كئے تھے ۔ آپ (ع) نے ان كے جواب میں فرمایا:

” مجھے ہر حال میں شہید ہونا ہے ۔ میں حشرات الارض كے بلوں میں چھپ جاؤں تب بھی یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔ میں جہاں بھی چلا جاؤں بنو امیہ پیچھا نہیں چھوڑیں گے مجھے ہر حال میں مرنا ہے ۔ چاہے میں مكہ میں رہوں یا مكہ سے باہر جاؤں ۔ بہتر ہے كہ میرا قتل مكہ میں نہ ہوتا كہ اس گھر كی حرمت باقی رہے ” ۔

آپ دیكھیں گے كہ یہ شعار واقعیت سے كتنی مطابقت ركھتا ہے وہ اخلاق جو زندہ رہنے كا خواہش مند ہے یہ پسپا ہزیمت خوردہ اخلاق ہے ۔ ان كے پاس كوئی منطق نہیں جو ان كو نجات دلادے ان كے لئے قابل ہضم ہو ۔

وہ یہ منطق نہیں ركھتے تھے كہ امام (ع) كی اس تحریك پر تنقید كریں ۔ امام (ع) نے فرمایا:

” نشانات، شواہد، قرائن، بتاتے ہیں كہ میں مارا جاؤں گا۔ بنوامیہ یہ عہد كرچكے ہیں كہ مجھے قتل كریں، اغوا كریں یا دھوكا دے كر قتل كریں خواہ میں استاركعبہ سے كیوں نہ چمٹ جاؤں “۔

آپ (ع) اس لئے شعار دیتے تھے تاكہ آپ كے موقف كی وضاحت ہوجائے ۔ اس قسم كی پسپائی كی شكار قوم كے ساتھ یہی مناسب تھا یعنی جب ایك انسان كو مرنا ہی ہے تو كیوں نہ آزاد مرے ۔

دوسرا اشعار: امام حسین (ع) كی یہ حركت ایك حكم غیبی كے تحت تھی ۔ مختلف شخصیات آتی ہیں اور اعتراض كرتی ہیں كہ آپ (ع) كیوں قیام كرتے ہیں ۔ جب محمد حنفیہ نے آپ (ع) سے بہت ساری نصیحتیں كیں تو آپ (ع) نے فرمایا: ” دیكھوں گا ! میں سوچوں گا ! ” محمد حنفیہ اٹھ كر چلے جاتے ہیں ۔ بعد میں خبر ملتی ہے كہ امام حسین (ع) نكل گئے ہیں تو محمد حنفیہ جلدی آتے ہیں اور زمام ناقہ كو پكڑ كر پوچھتے ہیں: برادر ! آپ (ع) نے مجھے وعدہ نہیں دیا تھا ؟ آپ نے نہیں كہا تھا كہ سوچیں گے ۔ آپ (ع) نے فرمایا ہاں ! میں نے ضرور كہا تھا لیكن رات كو پیغمبر اكرم (ص) خواب میں آئے اور فرمایا: مجھے قتل ہونا ہے ۔ جب آپ (ع) نے یہ جواب دیا، خواب كو ایك غیبی فیصلے كی صورت میں سنایا تو پسپائی خوردہ اخلاق كے لئے آپ (ع) كا یہ جواب قابل انكار نہیں تھا ۔ صاحب اخلاق كو جب تك حسین (ع) پر ایمان ہو وہ آپ (ع) سے یہ نہیں كہہ سكتا كہ اس غیبی فیصلہ كو رد كریں ۔ اس قسم كا اخلاق ركھنے والا امام (ع) كی اس منطق كو رد كرسكتا جسے امام (ع) كے خواب پر ایمان كو بتایا لیكن عبداللہ زبیر كو نہیں بتایا كیونكہ وہ آپ (ع) نے خواب كے بارے میں محمد حنفیہ كو بتایا لیكن عبداللہ بن زبیر كو نہیں بتایا كیونكہ وہ آپ (ع) كے خواب پر ایمان نہیں ركھتے تھے ۔ یہ ایك شعار ہے جس كا رخ حتمی موت كی طرف ہے ۔

امام (ع) نے فرمایا: ” میری موت كا فیصلہ اوپر سے ہوچكا ہے مجھے قربان ہونا ہے مجھے سفر پر جانا ہے، اگر قتل بھی ہوجاؤں ” ۔

یہ ایك ایسا شعار ہے جو واقعیت سے منجسم ہے پھر بھی یہ ایك شعار حقیقی ہے ۔

تیسرا اشعار: اہل كوفہ كی دعوت كو قبول كرنا ضروری تھا ۔ آپ (ع) نے بہت سی جگہوں پر لوگوں سے خطاب كیا ۔ وہاں فرمایا مجھے اہل كوفہ كی طرف سے دعوت ملی ہے، انھوں نے مجھے بلایا ہے، حالات سازگار ہیں كہ میں وہاں جاؤں اور حق كی مدد كروں اور باطل كو ختم كردوں ۔ تو لوگوں كی طرف سے اس كے رد عمل میں باتیں ہوتی تھیں ۔ لوگ آپ (ع) كے سفر كے خلاف طرح طرح كی تفاسیر كرتے تھے ۔ آپ(ع) فرماتے ہیں :میرا كوفہ جانا اور ان كی دعوت قبول كرنا۔ ان كے طلب كا جواب ہے ۔ امت حركت میں آچكی ہے ارادہ كرلیا ہے ۔ لہذا ان پر واجب ہے كہ حركت كریں ۔ امام حسین (ع) اس واقعہ میں مرحلہ جہادی پر اكتفاء نہیں كرتے یہ نہیں فرماتے كہ امت نے میری قیادت طلب كی ہے ۔ اگر صرف امت كی دعوت پہ جارہے تھے تو بصرہ والوں كو خط نہ لكھتے ۔ امام (ع) نے خود بھی دعوت دی تھی، نصرت طلب كی تھی ۔

امام حسین (ع) ایك شخص سے كہتے ہیں كہ اہل كوفہ كی دعوت پر ان كی طرف جارہا ہوں لیكن حالات میں فرق ہے ۔ ایك انسان حركت كرتا ہے، ایك انسان كسی امت كی دعوت كو قبول كركے جوان پر ایمان لائے ہیں، ان كی قیادت پر ایمان لائے ہیں یہاں پر ایك خلاقی شكست ہے وہ یہ كہ جلدی ابجام پذیر ہونے میں بعد میں شكست ہوتی ہے ایسے موقعوں پر عاقبت كے بارے میں نہیں سوچا جاتا ۔ جب امام حسین (ع) كا یہ عمل اجابت دعوت ہے تو كیا حالات سازگار تھے ؟ شكستہ اخلاق والے نہیں كہہ سكتے كہ عمل دیوانہ پن پر مبنی ہے یا غیر تجربہ شدہ حركت ہے ۔ لہذا آپ ان كی دعوت كو قبول نہ كریں ۔

چوتھا شعار: حكومت وقت كے خلاف قیام ضروری ہونا ہے ۔ كبھی امام حسین (ع) ان تمام شعار كے مقابلے میں یہ بھی فرماتے تھے كہ پیغمبر اكرم (ص) نے فرمایا ہے كہ اگر كسی حاكم، سلطان جائر كو خدا كے نازل كردہ احكام كے خلاف حكم كرتے ہوئے دیكھیں اور لوگ اپنے قول وفعل سے اسے نہ روك سكیں تو خدا پر واجب ہے كہ ان لوگوں كو جہنم میں ڈال دے ۔ اس اشعار سے متعلق جو شریعت كے عین مطابق ہے یہ امت كیا كہہ سكتی تھی ۔

اخلاق ہزیمت خوردہ سے استعفادہ كرنے كے چند طریقے ہوسكتے ہیں

1) آپ (ع) نے جنگ كا آغاز نہیں كیا

یہ ان طریقوں میں سے ایك ہے جسے آپ (ع) نے اپنایا ۔ آپ (ع) نے اس ہزیمت خوردہ اخلاق كے ساتھ اس طرح كا رویہ اختیار كیا كہ یہ اخلاق ہزیمہ بتدریج اخلاق ایثار میں بدل جائے ۔ آپ (ع) نے فرمایا كہ میں جنگ كے سلسلہ میں دوسروں سے پہل نہیں كروں گا ۔ یہ وہ شعار ہے جسے حضرت علی (ع) نے بلند كیا تھا ۔ فرق یہ ہے كہ كہ علی (ع) رئیس حكومت اسلامی تھے ۔ چنانچہ بحیثیت حاكم آپ (ع) كے لئے ضروری تھا كہ جنگ میں ابتدانہ كریں ۔ اطاعت كی ریسمان كو نہ توڑیں اور آپ (ع) كے خلاف كہیں اعلان بغاوت نہ كریں ۔ مفروض یہ تھا كہ جناب عائشہ سے جنگ میں علی (ع) پہل نہ كرتے، طلحہ و زبیر سے جنگ میں پہل نہ كرتے، كیونكہ وہ آپ (ع) كے ہمشہری تھے، جب تك حد سے تجاوز كرگئے ۔ آپ (ع) نے ان كے خلاف جنگ نہیں كی ۔ لیكن یہاں امام حسین (ع) انقلاب كے لئے نكلے تھے ۔ آپ (ع) ایك ایسے جنگ نہیں كی ۔ لیكن یہاں امام حسین (ع) انقلاب كے لئے نكلے تھے ۔ آپ (ع) ایك ایسے حكمران كے خلاف كھڑے ہوئے تھے جو ظالم و جابر تھا ۔ اس سے جنگ میں پہل نہ كرنے كی منطق بظاہر صحیح نہیں لگتی ۔ لیكن امام حسین (ع) نے اس اشعار كو بھی اپنایا كہ اخلاق شكستہ سے سازگار ہوجائے اور امام حسین كے لئے اپنے اس عمل كو شرعی بنانے میں ركاوٹ باقی نہ رہے ۔

حر كی قیادت میں آئے ہوئے اس لشكر سے امام حسین (ع) ملتے ہیں جو آپ (ع) كا راستہ روكنے آئےتھے ۔ یہ لشكر ایك ہزار كا تھا ۔ زہیر ابن القین نے آپ كو ان سے جنگ كرنے كی پیشكش كی ۔ ان كاكہنا یہ تھا كہ اس لشكر سے جنگ كرنا آسان ہے ۔ ہم جنگ كا آغاز كریں اور كوفہ جانے كا راستہ كھل جائے گا ۔ لیكن امام (ع) نے فرمایا جنگ كرنے میں پہل نہیں كروں گا ۔ یہ اس شعار كا مصداق ہے جسے آپ (ع) كے نمائندے مسلم بن عقیل نے كوفہ میں اپنایا تھا ۔

2) جنگ میں پہل نہ كرنا

بعض اذہان میں شك و تردد كی صورت میں یہ سوچ ابھرتی ہے كہ مسلم بن عقیل (ع) حالات كا صحیح طریقے سے جائزہ لینے میں ناكام رہے ۔ حوادث كا بصیرت سے موازنہ نہ كرسكے ۔ مسلم كو چاہئے تھا كہ كوفہ میں داخل ہوتے ہی حالات كو اپنے كنٹرول میں لے لیتے ۔ یہ تصور اس وقت صحیح اور مفید تھا اگر حسین بن علی (ع) كی طرف سے مسلم حاكم و والی بن كر گئے ہوں، گویا امام (ع) نے اپنے حكومت قائم كر لی ہو اور مسلم (ع) كو حاكم كوفہ بناكر بھیجا ہو ۔ تاریخی نصوص میں كوئی نص یا دلیل نہیں ملتی كہ امام (ع) نے مسلم (ع) كے ساتھ كوئی ایسا خط لكھا ہو یا كوئی اشارہ دیا ہو جس سے یہ ثابت ہوجائے كہ مسلم (ع) كو آپ (ع) نے اختیار دیا تھا كہ وہ ضرورت پڑے تو جنگ كریں اور دارالامارہ پر قبضہ كرلیں ۔ جب كہ آپ (ع) نے كوفہ والوں كو لكھا كہ میں اپنے اہل بیت (ع) كے معتمد ترین شخص كو تمہاری طرف بھیج رہا ہوں تاكہ تمہارے حالات سے آگاہی حاصل ہوسكے اور تمہارے اخلاص كے بارے میں اطمینان حاصل ہوسكے ۔ اگر مسلم مجھے لكھتے ہیں كہ تمہارے خطوط اور تمہارے نمائندوں پر اعتماد كیا جاسكتا ہے تو میں اس كی موافقت میں تمہاری دعوت كو قبول كروں گا، اور تمہاری طرف آجاؤں گا ۔ جناب مسلم (ع) اس خط كے مضمون كی حد تك مكلف تھے ۔ ان كاكام صرف یہ تھا كہ كوفہ كی عوامی رائے عامہ كو معلوم كریں اور اس سے امام (ع) كو آگاہ كریں ۔ آپ كو اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں دی گئی تھی ۔ چنانچہ مسلم بن عقیل (ع) نے اس سے زیادہ اقدام نہیں كیا ۔

آپ كوفہ میں داخل ہوئے مختار كے گھر قیام كیا ۔ یہ گھر شیعہ دوستوں كے لئے كھلا رہتا تھا ۔ آپ اپنے دوستوں كو اہداف امام حسین (ع) سے واقف كراتے تھے اور یہ لوگ بھی اپنے خلوص كا یقین دلاتے تھے ۔ لوگ ان اہداف كے حصول میں خود كو مستعد اور آمادہ ہونے كا اعلان كرتے تھے ۔ یہاں تك كہ عبیداللہ بن زیاد كوفہ میں داخل ہوا ۔ حالات بدل گئے ۔ جب مسلم (ع) نے ان بدلتے ہوئے حالات كو دیكھا تو مصلحت یہ سمجھی كہ كسی اور گھر میں پناہ لے لیں ۔ اب مسلم (ع) نے روپوشی اختیار كرلی ۔ چونكہ عبیداللہ ابن زیادہ كو ان كے پیچھے لگنا تھا، انھیں كسی صورت تلاش كرنا تھا جب كہ سابق والی كوفہ نعمان ابن اثیر اس سلسلے میں عدم تعرض كا رویہ ركھتا تھا ۔

ابن زیاد اس اجتماع سے مقابلہ كرنے اور اس تجمع كے اسباب وعوامل كے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ جب ،مسلم بن عقیل (ع) نے ہانی ابن عروہ كے گھر روپوشی اختیار كی وہاں بھی شیعہ جمع ہوتے تھے ۔

جناب مسلم بن عقیل (ع) اس وقت منظر عام پر آئے جب ہانی بن عروہ كو گرفتار كرلیا گیا اور ان كی رہائی كے لئے آپ كے ساتھ چار ہزار لشكر بھی نكلا، آپ نے چاہا كہ اس لشكر كی مدد سے دارالامارہ پر قبضہ كریں اور حكومتی باگ ڈور كو اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ لیكن یہ عمل آپ كے بنائے ہوئے منصوبہ كی حد سے باہر تھا ۔ جس منصوبہ كا آپ اور امام حسین (ع) كے درمیان اتفاق ہوا تھا اس میں یہ منصوبہ نہیں تھا ۔ یہ عمل مسلم كا اپنی حیثیت سے دفاع تھا ۔ كیونكہ مسلم دفاعی پوزیشن میں تھے اور ابن زیادہ نے ہجوم كیا تھا ۔ وہ چاہتا تھا كہ اس تحریك كے مركز كو ختم كردے اس بنیاد كو ختم كردے ۔ مسلم جنگ نہیں كررہے تھے ۔ حالات نے انھیں مجبور كیا تھا كہ وہ اس پوزیشن میں آجائیں ۔ اگر آپ یہ اقدام نہیں كرتے تو عبیداللہ كا لشكر ہجوم كرتا اور شیعوں كو ختم كردیتا ۔ ایسا كرنا آپ كے اوپر فرض تھا ۔ امام حسین (ع) كی طرف سے حكم نہیں تھا اور نہ یہ عمل آپ بطور حاكم انجام دے رہے تھے ۔ مسلم ایك فرد تھے جن كا پیچھا ہورہا تھا ۔ آپ اپنے دفاع كے لئے پہل كررہے تھے ۔ جس طرح اپنے نفس اور اہل وعیال كا دفاع كرنا لازمی ہے آپ بھی اپنے نفس اور اپنے ماننے والوں كا دفاع كررہے تھے ۔

آپ اس خط كو پڑھیں جسے امام حسین (ع) نے قیس بن مسہر صیداوی كے ساتھ بھیجا تھا ۔ خط میں لكھا تھا كہ میں ( حسین بن علی (ع) ) بہت جلد تم تك پہنچنے والا ہوں اپنے امور كو منظم انداز میں بجالاؤ تاكہ میرے آنے تك شیرازہ نہ بكھر جائے ۔ اس خط میں امام (ع) نے كسی ایسے منصوبہ كے بارے میں نہیں لكھا جس میں یہ حكم ہو كہ آپ حاكم یا والی كے حوالے سے مسلط ہوجائیے ۔ خط میں تو اپنی حفاظت كرنے كی بات تھی، اجتماع كو آپ (ع) كے تشریف لانے تك یكجا ركھنے كی بات تھی ۔ مسلم كی ذمہ داری تھی كہ اس اجتماع كا تحفظ كریں یہاں تك كہ امام حسین (ع) كوفہ تشریف لائیں اور اجتماع كو سنبھالیں ۔ یہ سب امام حسین (ع) كے كوفہ میں داخل ہونے پو موقوف تھا ۔ لہذا امام نے سفارش كی تھی كہ اس اجتماع كو محفوظ ركھیں، احتیاط سے ركھیں، امام (ع) كے خط میں صرف ایك عبارت تھی وہ یہ كہ مسلم كوفہ كے حالات سے انھیں آگاہ كرتے رہیں ۔ ضروری معلومات فراہم كریں ۔ مسلم كو جنگ كرنے كا اختیار یا ہدایت نہیں دی تھی ۔ لہذا مسلم اس وقت اٹھے جب دفاع كی نوبت آپہنچی، كوئی اور راستہ نہیں تھا ۔ یہ سب درحقیقت جنگ میں پہل نہ كرنے كے اس شعار كی آواز ہے ۔

امام (ع) اس قسم كے شعار كا بلند كرنا ایك مفروضہ تھا تاكہ لوگ یہ سمجھیں كہ یہاں عمل شك پر موقوف ہے ۔ امام(ع) اس وجہ سے جنگ كرنے میں دیر نہیں كررہے تھے جب كہ عام مسلمان بھی اس كو جائز سمجھ رہے تھے بلكہ یہ امت كے اس ہزیمت خوردہ روح كے مقابلے میں تھا ۔ جب ہم دیكھتے ہیں كہ امام حسین (ع) عازم عراق ہوئے آپ (ع) ہمیشہ سفر كو جاری ركھنے كی تاكید فرماتے ہیں ۔ باربار اس منطق كو اٹھاتے ہیں كہ انھوں نے بلایا ہے ۔ ہمارے اوپر فرض ہے كہ اس دعوت كو قبول كریں ۔ راستے میں مسلم كی شہادت كی خبر ملی ۔ آپ كے موقف میں تبدیلی نہیں آئی ۔ شعار امام (ع) سے ساقط نہیں ہوا، شعار بلند ہی رہا ۔ آپ (ع) مسلم كی شہادت كے بعد بھی فرماتے رہے كہ كوفہ والوں نے دعوت دی ہے فرض بنتا ہے كہ اس دعوت كو قبول كریں ۔ ہانی بن عروہ كی شہادت كے بعد بھی آپ (ع) كا موقف نہیں بدلا ۔ آپ (ع) كے قاصد قیس بن مسہر صیداوی كی شہادت كے بعد بھی آپ (ع) كا وہی رویہ برقرار رہا ۔

حر ابن یزید ریاحی نے آپ(ع) كا راستہ روكا ۔ طرماح سے ملے انھوں نے امام (ع) سے عرض كیا آپ(ع) اس پہاڑ پر چلے جائیں ہم قبائل سے بیس ہزار كا لشكر جمع كركے لائیں گے جو كوفہ والوں كا نعم البدل ہوگا ۔ یہاں بھی امام (ع) نے فرمایا میرا ان سے معاہدہ ہے مجھے كسی صورت جانا ہی ہے ۔ كوفہ والوں كے تمام عہدو پیمان كے ٹوٹنے كی ساری علامتیں ظاہر ہونے كے بعد بھی امام (ع) كا اپنے وعدہ پر باقی رہنا اس بات كا ثبوت ہے كہ امام (ع) نہیں چاہتے تھے كہ خود كو بری الذمہ قرار دے دیں ۔ صرف ان كی وعدہ خلافی كو بنیادبنانا اطمینان بخش نہیں تھا ۔ آپ (ع) یہ نہیں فرماتے تھے كہ اب میرا وہاں جانا نتیجہ خیز نہیں رہا ان كی دعوت كی اجازت ضروری نہیں ۔

راستے میں پتہ چلا كہ عوامی تائید ختم ہوچكی ہے لوگوں نے خیانت كی ہے ۔ آپ (ع) كی نمائندے كو شہید كیا ہے ۔ اس كے باوجود سفر جاری ركھنا ایسا شعار ہے جو اس اخلاق كے ساتھ سازگار تھا جس كے بل بوتے پر یہ امت زندگی كررہی تھی ۔ امام (ع) كے لئے ضروری تھا كہ اس شعار كو بلند كرتے تاكہ اپنے اس عمل كو ان كی نظروں میں جو سلامت رہنا چاہتے تھے، ان كی نظر میں جو اس عمل كو غیر عقلی اور بے صبری پر مبنی اقدام سمجھے رہے تھے قانونی و شرعی حیثیت دے سكیں ۔

ہزیمت خوردہ اخلاق سے اتعفادہ كرنے كا دوسرا نمونہ میدان جنگ میں تمام عواطفی احساسات كو حركت میں لانا تھا ۔ آپ (ع) نے اس سلسلے میں اپنی پوری طاقت و قدرت كو جمع كیا اور اپنے آپ(ع) كو شہادت كے لئے پیش كیا تاكہ ہزیمت خوردہ اخلاق والے یہ نہ كہیں كہ ایك شخص جو سلطنت چاہتا تھا قتل ہوا بلكہ لوگ یہ كہیں كہ نہیں انھوں نے چاہا خود قتل ہوجائیں، انكی اولاد قتل كردی جائے ۔ خواتین كو اسارت كے لئے آمادہ كیا تاكہ یہ ثابت كریں كہ ایك انسان جتنی مصیبتیں درد و الم برداشت كرنا پڑے تاكہ ہزیمت خوردہ اخلاق اس قیام كے بارے میں جتنا بھی شك كر سكتا ہے كرے لیكن یہ شك نہیں كرسكتا كہ بنو امیہ كے لشكر نے عترت آل محمد (ص) كے ساتھ جو كچھ كیا وہ كسی صورت جائزنہ تھا اور تمام اصولوں كے خلاف تھا ۔

امام (ع) كے لئے ضروری تھا كہ اپنا خون، اپنی اولاد، اپنی مستورات، اہل حرم سب كو بطور عواطف پیش كریں ۔ یہ وہ آثار تھے جسے دور رسول اللہ (ص) سے لے كر اب تك باقی ركھا تھا ۔ یہ رسول اللہ (ص) كا عمامہ، آپ (ص) كی تلوار، عباسب عواطف كو حركت میں لانے میں معاون ہوسكتے تھے ۔ سب كو میدان میں لائے تا كہ ہزیمت خوردہ اخلاق كو جھنجوڑ كر اس میں تبدیلی لائیں ۔ یہ ایك طریقہ تھا ۔ یہ ایك احتجاج تھا ۔ تاكہ حالات كے ساتھ تسلیم ہونے والے ان مردہ ضمیروں كو بیدار كرسكیں ۔ چنانچہ امام حسین (ع) اپنے اس منصوبہ سے ہر ہزیمت خوردہ ضمیر والے انسان كو حركت میں لاسكے ۔

قیام امام حسین (ع) كی منصوبہ بندی سے ملنے والے دروس و عبرتیں

آپ (ع) نے اپنے قیام كو جس نہج پر استوار كیا ہے اس سے ہم بہت سے دروس اور عبرتیں حاصل كرسكتے ہیں جن میں سے كچھ درج ذیل ہیں:

اس امت كے اخلاق میں تبدیلی لانے والوں كے لئے ایك ایسا عمل انجام دینا جائز نہیں كہ ان میں موجودہ اخلاق كا دوبدو مقابلہ كیا جائے ۔ كیونكہ واضح اور صریح صورت میں اس اخلاق فاسدہ كا مقابلہ كرنے سے وہ شخص اس امت سے الگ تھلگ اور دور نظر آئے گا ۔ پھر اس كا كائی كام انجام دینا امت كی نظر میں جائز نہیں ہوگا ۔

جس وقت وہ چاہے كہ اس مت كے ضمیر ووجدان كو بیدار كرے ضروری ہے كہ ان میں موجود اخلاق سے مقابلہ كرنے كی فكر كی بجائے نئے سرے سے، نے اخلاق پیدا كرنے كا سوچے ۔ جو شخص ان سے جدا ہوجائے اس كو ایسے تغیر كا راستہ اختیار كرنا چاہئے كہ امت كے ضمیر كے اندر نفوذ كرسكے ۔یہ اس صورت میں ممكن ہے كہ دقت سےعمل كی معقولیت كا خیال ركھے اور امت میں اس عمل كو شرعی و قانونی دكھانے كی كوشش كرے ۔ چنانچہ امام حسین (ع) كے اس عمل كے خلاف زرہ برابر شك كرنے والا كوئی نہیں تھا ۔ سب جانتے اور مانتے تھے كہ آپ (ع) كا یہ عمل صحیح اور ایك عمل مشروع تھا جب كہ بنو امیہ كا عمل ظلم و تعدی اور جبر پر مبنی تھا ۔ یہ واضح اور روشن بات ہے یہی وجہ ہے كہ مسلمان آہستہ آہستہ اپنے سابقہ اخلاق كو چھوڑ كر نئے اخلاق، نئے افكار كے دائرے میں داخل ہونے لگے ۔ ان كا یہ تصور اس قدر واضح تھا كہ مسلمانوں كو ضمیر كو حركت میں لایا اور ابھی تك حركت میں ہے ۔

خون حسین (ع) اتنا كم قیمت نہیں جس سے ایك زمانے كے انسان یا ایك گروہ كے ضمیر بیدار ہوجائیں اور بس !خون حسین (ع) كے قیمت یہ نہیں كہ اس سے بنوامیہ كی بنیادیں ہل گئیں اور ان كے چہرہ سے پردہ ہٹ گیا ۔ ایك گروہ كا بیدار ہونا كافی نہیں ۔ خون پاك حسین (ع) كی ارزش اس سے كئی گنا ہے كیونكہ یہ خون راہ خدا اور راہ اسلام میں بہا ہے ۔ یہ خون ہمیشہ محرك و منور رہے گا ۔ یہ خون ہمیشہ اسلام كا دفاع كرے گا ۔ یہ خون ہر امت كے لئے مطہر رہے گا ۔ ضروری ہے كہ ہم اور آپ سب كے ضمیر حركت میں آئیں ۔ جب بھی ہمیں كسی دھوكے كا سامنا ہو ہمیں اس عظیم قربانی كی طرف رجوع اور احساس كرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی توجہ اس كی طرف كرنا چاہئے ۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن كو اپنی حقیر ذات كو قربان كرنے كی دعوت دی گئی ہے ۔ جب بھی اسلام ہم سے طلب كرے ہم كتنے ہی ضعیف و حقیر كیوں نہ ہوں اس عظیم قربانی كی طرف متوجہ ہونا چاہئے جو قربانی كے حوالے سے لامحدود ہے جسے امام حسین (ع) نے پیش كیا تھا ۔ ہمیں خود كو چھوٹا نہیں دكھانا چاہئے ۔ ہر چیز كو حقیر سمجھتے ہوئے اسلام كی سربلندی كے لئے قیام كرنے كا ذمہ دار سمجھنا چاہئے ۔ اسلام قربانی چاہتا ہے ۔ آپ اپنے وقت كی قربانی دیں، راحت و آرام كو قربان كریں، شخص مصلحت كی قربانی دیں، خواہشات نفسانی كی قربانی دیں، اپنی تمام توانائیوں كو جمع كریں، اپنے وسائل كو پیغام رسالت كے لئے صرف كریں ۔ یہ قربانیاں اس عظیم قربانیاں اس عظیم قربانی كے مقابلے میں كیا چیز ہیں ۔

كون ہے جو اپنے خون كے آخری قطرے تك قربانیاں پیش كرسكے ؟ كون ہے جو اپنے خاندان كے آخری فرد تك كا قربانی دے سكے ؟ كون ہے جو ایك دنیادار انسان ہونے كے ساتھ ساتھ اپنی كرامات اور بخشش كی آخری حد تك قربانی پیش كر سكے ؟ ان مقاصد كو حاصل كرنے كے لئے ہمیں اس عظیم قربانی كو سامنے ركھنا چاہئے تا كہ خون حسین (ع) تاریخ میں زندہ و جاوید رہے ۔

تبصرے
Loading...