امام علی علیه السلام کی امامت اور خلافت کو کیسے ثابت کیا جاسکتا هے؟

کیا آپ ثابت کر سکتے هیں که امام علی علیه السلام خلافت کے مستحق تھے؟

ایک مختصر

بیشک دین اسلام کی بقا اور اس کی حیات کو جاری رکھنے کے لئے محافظ هادی اور مسلسل ایسے شائسته افراد کی ضرورت هے جو دین کے معارف اور دستور کو لوگوں تک پهنچائیں،اور دین کے صحیح قواعد و ضوابط کو اسلامی معاشره میں نافذ کریں- چونکه تخلیق کا ایک مقصد ، لوگوں کی براه راست هدایت کر نا هے ، اس لئے خداوند متعال کی حکمت کا تقاضا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد ، دین کی حفاظت اور لوگوں کی هدایت کے لئے کسی قائد و پیشوا کو مقرر ومعین فر مائے اور لوگوں کو ان کی محدود عقل کے رحم و کرم پر نه چھوڑ دے ، جو اکثر نفسانی خواهشات کی شکار هوجاتی هے-

حضرت علی علیه السلام کی امامت کا ثبوت ، امامت کے خاص مباحث میں سے هے، اس کو ثابت کر نے کے لئے صرف براه راست عقلی دلیل سے استفاده نهیں کیا جاسکتا هے ، بلکه آیات و روایات اور تاریخی واقعات سے استناد کر کے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خلافت و امامت کے عهده کو ثابت کیا جاسکتا هے:

الف: قرآنی دلیل:

قرآن مجید میں بهت سی آیات پائی جاتی هیں جن کی شان نزول کے بارے میں بیان کی گئی پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی احادیث سے استفاده کر کے حضرت علی علیه السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا هے- اس سلسله میں جن آیات کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا هے وه حسب ذیل هیں: آیه تبلیغ ، آیه ولایت ، آیه اولی الامر اور آیه صادقین – تفصیلی جواب میں ان کی تشریح کی جائے گی-

ب :حدیثی دلیل:

شیعه اور اهل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے بهت سی ایسی روایتیں نقل کی گئی هیں، جن میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے که : “میرے بعد میرے وصی اور جانشین علی(ع) بن ابیطالب هیں، ان کے بعد ان کےدو بیٹے حسن و حسین (علیهما السلام) اور ان کے بعد امام حسین (ع) کی نسل سے یکے بعد دیگرے نو امام هیں-” لیکن یه روایت ان روایتوں کے علاوه هے جو حدیث منزلت، حدیث غدیر خم اور مشهور حدیث ثقلین کے نام سے بیان هوئی هیں ، یاوه احادیث جن میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے که : ” میرے بعد باره خلیفه هوں گے جن کے ذریعه دین عزیز هوگا-“

تفصیلی جوابات

اس میں کوئی شک وشبهه نهیں هے که دین اسلام کی بقا ء اور اس کی حیات کو جاری رکھنے کے لئے محافظ، ه ا دی اور مسلسل ایسے شائسته اور کامل و معصوم انسانوں کی ضرورت هے جو دین کے معارف اور احکام کو لوگوں تک پهنچا ئ یں اور دین کے صحیح قواعد وضوابط کو اسلامی معاشره میں نافذ کریں – چونکه تخلیق کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی بلاواسطه هدایت کر نا هے ، اس لئے خدائے مهربان کی حکمت کا تقاضا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد دین کی حفاظت اور لوگوں کی هدایت کے لئے کسی قائد وپیشوا کو مقرر و معین فر مائے اور لوگوں کو ان کی محدود عقل کے رحم وکرم پر نه چھوڑ دے،جو اکثر نفسانی خواهشات کی شکار هو جا تی هے – لهذا پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد تمام زمانوں کے لئے ، اور لوگوں کی هدایت ، دین کی حفاظت اور اس کے احکام کے نفاذ کے لئے معصوم اور علم لدنی کے مالک اماموں کی ضرورت عقلی دلیل سے ثابت اور واضح هے-

امام علی علیه السلام کی امامت کا ثبوت، امامت کے خاص مباحث میں سے هے- اس کو ثابت کر نے کے لئے براه راست صرف عقلی دلیل سے استفاده نهیں کیا جاسکتا هے ، بلکه امامت اور هر زمانه میں [1] امام کی ضرورت کے سلسله میں عقلی دلیل سے کام لے کر ،  اور آیات ا و ر روایات ور تاریخی واقعات سے استناد کر کے، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد حضرت علی علیه السلام کی خلافت و امامت کو ثابت کیا جاسکتا هے اور اس طریقه سے مقصد تک پهنچا جاسکتا هے-

ذیل میں هم گنجائش کے مطابق اس سلسله میں قرآن مجید اور احادیث میں موجود دلائل کے ذریعه حضرت علی علیه السلام کی امامت و خلافت کو ثابت کریں گے:

الف: قرآنی دلیل:

قرآن مجید میں بهت سی ایسی آیات پائی جاتی هیں جو امام علی(ع)اور دوسرے ائمه اطهار علیهم السلام کی امامت پر دلالت کرتی هیں- البته ان آیات کی دلالت [2] ان بے شمار(متواتر) احادیث کے پیش نظر هے که جو رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی طرف سے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں بیان هوئی هیں- هم یهاں پر چند ایسی آیات کی طرف اشاره کریں گے جن کی شان نزول کے بارے میں نقل کی گئی احادیث کو شیعه اور اهل سنت دونوں قبول کرتے هیں: [3]

١- آیه تبلیغ: “اے پیغمبر! آپ اس حکم کو (لوگوں تک) پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا هے- اور اگر آپ نے یه نه کیا تو گویا اس کے پیغام کو نهیں پهنچایا خداوند متعال آپ کو لوگوں کے (ممکنه) شر سے محفوظ رکھے گا که الله کا فروں کی هدایت نهیں کر تا هے-“ [4]

مذکوره آیه شریفه میں خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص) کو پوری شدت کے ساتھـ حکم د یا هے که اپنی رساالت کو پهنچادیں اور روایات کے مطابق ،اس آیه شریفه کے نازل هو نے کے بعد غدیر خم نام کے مقام پر حضرت علی(ع) کے بارے میں فر مایا : ” جس کا میں مولاهوں اس کے علی(ع) بھی مولا هیں-” اور اس طرح انھیں اپنا جانشین معین فر مایا- [5]

٢- آیه ولایت: “ایمان والو! بس تمهارا ولی الله هے اور اس کا رسول اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکواه دیتے هیں-” [6]

مفسرین اور محد ثین کی ایک بڑی تعداد نے کها هے که یه آیت حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے- [7]

اهل سنت کے مشهور دانشور،” سیوطی” اپنی تفسیر” الدر المنثور” میں اس آیت کے ذیل میں ” ابن عباس” سے نقل کر تے هوئے کهتے هیں: : ” علی(ع) نماز میں رکوع کی حالت میں تھے که ایک سائل نے مدد کی درخواست کی اور حضرت(ع) نے اپنی انگوٹھی صدقه کے طور پر ا ُ سےدیدی، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے سائل سے پوچھا : یه انگوٹھی ، کس نے تمھیں صدقه کے طور پر دیدی؟ سائل نے حضرت علی(ع) کی طرف اشاره کر کے بتایا: ” اس شخص نے جو رکوع کی حالت میں هے” اس وقت یه آیه نازل هوئی-“ [8]

اس کے علاوه اهل سنت کے دانشوروں میں سے ” واحدی” [9] اور” زمخشری” [10] نے بھی اس روایت کو نقل کیا هے اور واضح طور پر کها هے که آیه” انما ولیکم الله—” حضرت علی (ع) کے بارے میں نازل هوئی هے-

فخر رازی ، اپنی تفسیر میں عبدالله بن سلام سے نقل کر تے هیں که،جب یه آیه شریفه نازل هوئی ، میں نے رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے عرض کی که میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا که علی(ع) نے رکوع کی حالت میں ایک حاجتمند کو صدقه دیدیا، اسی وجه سے هم ا ن کی ولایت کو قبول کر تے هیں ! اس کے علاوه اس آیه شریفه کی شان نزول کے بارے میں اسی کے مشابه ایک اور روایت ابوذر سے نقل کی گئی هے- [11]

طبری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیه شریفه کے ذیل میں اور اس کی شان نزول کے بارے میں متعدد روایتیں نقل کی هیں ، اکثر ان روایتوں میں کها گیا هے که: ” یه آیت حضرت علی(ع) کے بارے میں نازل هوئی هے-“ [12]

مرحوم علامه امینی نے اپنی کتاب ” الغدیر” میں حضرت علی علیه السلام کے بارے میں اس آیت کے نازل هو نے کے سلسله میں اهل سنت کی تقریباً بیس معتبر کتا بوں سے ان کے صحیح اور محکم  اسناد و منابع ذکر کر کے متعدد روایتیں نقل کی هیں- [13]

اس آیه ولایت میں ، حضرت علی علیه السلام کی ولایت، خدا وند متعال اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی ولایت کی فهرست میں قرار پائی هے-

٣- آیه اولی الامر:            ” ایمان والو! الله کی اطاعت کرو اور رسول(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے هیں-“ [14]

اس کے علاوه دانشوروں [15] نے کها هے که آیه اولی الامر حضرت علی علیه الاسلام کے بارے میں نازل هوئی هے-

مثلاً : “حاکم حسکانی “، حنفی نیشا پوری ( اهل سنت کے مشهور مفسر) نے اس آیه شریفه کے ذیل میں پانچ حدیثیں نقل کی هیں که ان سب میں ” اولی الامر” کا عنوان حضرت علی علیه السلام پر من طبق هوا هے- [16]

ابو حیان اندلسی مغربی اپنی تفسیر ” البحر المحیط” میں اولی الامر کے بارے میں نقل کئے گئے اقوال کو (تین مفسرین) مقاتل ، میمون اور کلبی سے نقل کر تے هیں ،جن سے مراد، ائمه اهل بیت علیهم السلام هیں- [17]

) اهل سنت کے ایک عالم)ابوبکر بن مٶمن شیرازی نے اپنے رساله” اعتقاد” میں ابن عباس سے نقل کیا هے که مذکوره آیه شریفه حضرت علی علیه السلام کے بارے میں نازل هوئی هے – [18]

اس کے علاوه اس آیه شریفه میں ایک هی سیاق سے اور تکرار کے بغیر (اطیعوا) خدا ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی گئی هے، اس لحاظ سے اولی الامر معصوم هیںجیسے خدا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم معصوم هیں اگر ایسا نه هو تا تومطلق طور پر ان کی اطاعت کا حکم معنی نهیں رکھتا- اور روایات کے مطابق ، معصوم صرف شیعوں کے امام هیں-

جوکچھـ ذکر هوا ، وه ان احادیث کا ایک حصه تھا جو اهل سنت کی معتبر کتا بوں سے اور قابل قبول راویوں سے اور شیعوں کی کتابوں میں صرف حضرت علی کی امامت کے بارے میں نازل هوئی مذکوره تین آیتوں کے بارے میں نقل کیاگیا هے – ان آیات و روایات کے بارے میں اهل سنت کی کتابوں میں کچھـ مزید قابل ذکر نکات پائے جاتے هیں، ان کے بارے میں تفصیلی معلو مات حاصل کر نے کے لئے قابل اعتبار کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے-

خلاصه کےطور پر ذکر کی گئی مذکوره تین آیتوں کے علاوه مزید کئی آیات حضرت علی(ع) اور دوسرے ائمه اطهار علیهم السلام کی امامت کے بارے میں بلا واسطه طور پر وضا حت کرتی هیں ، جن کو اهل سنت کی کتابوں میں نقل کیا گیا هے، مثال کے طور پر درج ذیل آیات قابل ذکر هیں:

آیه صادقین: “یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وکونوا مع الصادقین” [19] اور آیه قربی:” قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المود ۃ فی القربی” [20] – اس کے علاوه حضرت علی علیه السلام اور دوسرے ائمه اطهار علیهم السلام کی ولایت و امامت کو بلا واسطه طور پر پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی روایات میں بیان کیا گیا هے ، جو اهل سنت اور شیعوں کی کتابوں میں درج کی گئی هیں-

مذ کوره آیات کے علاوه کئی دوسری آیات بھی هیں جو رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے دوسرے صحابیوں پر حضرت علی علیه السلام کی فضیلت اور برتری بیان کرتی هیں – اب هم عقل کے حکم کے استناد پر که ” مرجوح” کو” ارحج” پر مقدم کر نا قبیح هے، نتیجه حاصل کر سکتے هیں که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی جا نشینی و امامت کے حقدار حضرت علی علیه السلام هیں-

ب حدیثی دلیل:

شیعوں اور اهل سنت کی بهت سی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے یه روایت نقل کی گئ هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا که:” میرے بعد میرے وصی اور جانشین علی بن ابیطالب (ع) هیں اور ان کے بعد آپ (ع) کے دو فرزند حسن وحسین (علیهما السلام)اور ان کے بعد امام حسین علیه السلام کی نسل سے (یکے بعد دیگرے) نو فرزند هیں- [21] البته یه روایت ان روایتوں کے علاوه هے جو ” حدیث یوم الدار” ، ” حدیث منزلت” حدیث غدیر خم اور مشهور” حدیث ثقلین” کے سلسلے میں بیان هوئی هیں یا وه احادیث جن میں فر مایا هے : “میرے بعد باره خلیفے هوں گے جن کی وجه سے دین عزیز هوگا-“

بحث کو واضح کر نے کے لئے هم ذیل میں خلاصه کے طور پر تین اهم روایتوں کی طرف اشاره

کر تے هیں:

١- حدیث منزلت:

اس حدیث کی داستان یوں هے که: غزوه تبوک کے سلسله میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اپنے بهت سے صحابیوں کے همراه مدینه سے باهر تشریف لائےاور رومانیه کی طرف روانه هوئے- آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے مدینه منوره میں اپنی جگه پر جانشین کے طور پر حضرت علی علیه السلام کو مقرر فر مایا،  تاکه مدینه رهبر سے خالی نه رهے – بعض صحابیوں نےً طعنه زنی کے طور پر زبان کھولی اور کها :” پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم نے علی(ع) کو مدینه میں رکھا تاکه عورتوں اور بچوں کی نگرانی کر یں !”

حضرت علی علیه السلام نے اس سلسله میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی خدمت میں شکایت کی اور آنحضرت نے اس وقت یه تاریخی جمله فر مایا “: میرے نزدیک ت مھارا مقام و منزلت ، حضرت موسی(ع) ک ے نزدیک ھارون کے  به نسبت مقام و منزلت کے مانند هے، صرف اس فرق کے ساتھـ که میرے بعد کوئی پیغمبر نهیں هوگا-“ [22]

٢- حدیث ثقلین:

یه حدیث اهل سنت کی بهت سی معتبر کتابوں [23] میں نقل کی گئی هے که: پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے اصحاب سے مخاطب هو کر یوں فر مایا “: لوگو! عنقریب مجھے خدا وند متعال کی طرفسے بلا وا آئے گا اور میں خدا کی اس دعوت کو قبول کروں گا – میں آپ کے در میان دو گرانقدر چیزیں یاد گار کے طور پر چھوڑ تا هوں ، ان میں سے ایک خدا کی کتاب اور دوسری میری عترت(ع) ه ے – خدا کی کتاب ایک رسی کے مانند هے جو آسمان سے زمین تک پھیلی هوئی هے اور میری عترت وهی میرے اهل بیت (ع) هیں- یه دونوں آپس میں جدا نهیں هون گے ، یهاں تک که حوض کوثر پرمجھـ سے آملیں گے- لهذا دیکھئے که آپ میرے بعد ان کے ساتھـ کیسا برتاٶ کریں گے-“ [24]

٣- حدیث غدیر:

غدیر کا واقعه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی عمر شریف کے آخری ایام میں پیش آیا هے – پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم نے اس دن فر مایا :” من کنت مولاه فهذا علی مولاه” ” جس کا میں مو لاهوں اس کے یه علی(ع) بھی مولا هیں-” اور اس طرح علی بن ابیطالب کی امامت کی وضاحت فر ما کر اپنی رسالت کی ذمه داری انجام دی-

اس واقعه کو پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد [25] (١١٠ افراد)، ٨٤تابعین اور ٣٦ دانشوروں اور مصنفوں نے نقل کیا هے – علامه امینی نے ( اهل سنت و شیعه کی ) اسلامی کتا بوں میں سے مستحکم دلائل کے ساتھـ اپنی مشهور کتاب “الغدیر” میں ان تمام روایتوں کو درج کیا هے-

جوکچھـ بیان هوا، وه حضرت علی علیه السلام کی بلا فصل خلافت کے سلسله میں بے شمار دلائل میں سے مشتے از خروارے کے مانند هے- [26]

اس موضوع کے سلسله میں معلومات حاصل کر نے کے لئے مندرجه ذیل منابع کا مطالعه کر سکتےهیں:

تفسیر پیام قرآن، تحت نظر آیتالله ناصر مکارم شیرازی،ج٩( امامت وولایت در قرآن مجید،صفحه ١٧٧کے بعد)

عنوان : “اثبات امامت امام علی (ع) از قرآن” ، سوال نمبر 3121 (3399)-

 

[1]   – مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو:١- دلا یل عقلی امامت نمبر٦٧١- ٢- دلایل عقلی امام زمان (عج)نمبر ٥٨٢-

[2]   – اس امر کی آگاهی کے لئے که قرآن مجید میں کیوں واضح طور پر اماموں کے نام نهیں آئے هیں ؟ ملاحظه هو عنوان: “نام امامان علیهم السلام در قرآن-

[3] – مزید آگاهی کے لئے ملاحظه هو عنوان:” دلایل اعتقاد به امامت و امامان” –

[4]   – ” یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک—” مائده، ٦٧ مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو عنوان:” اهل سنت وآیه تبلیغ”

[5]   – مکارم شیرازی ، پیام قرآن ،ج٩، امامت در قرآن ،ص١٨٢ کے بعد-

[6]   – ” انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه—” مائده، ٥٥-

[7]   – چونکه روایات کے مطابق جس نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دی هے وه حضرت علی( ع) تھے-

[8]   – الدر المنثور،ج٢،ص٢٩٣-

[9]   – اسباب النزول، ص١٤٨-

[10]   – تفسیر کشاف،ج١،ص٦٤٩-

[11]   – تفسیر مخر رازی،ج١٢،ص٢٦-

[12]   -تفسیر طبری،ج٦،ص١٨٦-

[13]   – الغدیر ،ج٢،ص٥٢ و ٥٣-

[14]   – ” یا ایها الذین امنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم—” نساء ٥٩-

[15]   – تفسیر برهان میں بھی منابع اهل بیت(ع) سے اس آیت کے ذیل میں دسیوں روایتیں نقل کی گئی هیں ، جن میں کها گیا هے که: مذکوره آیه شریفه حضرت علی یا حضرت علی اور دوسرے تمام ائمه اطهار علیهم السلام کے بارے میں نازل هوئی هے اور یهاں تک که بعض روایتوں میں ایک ایک کر کے باره اماموں کے نام بھی ذکر هوئے هیں- تفسیر بر هان ، ج١،ص٣٨١- ٣٨٧-

[16]   – شواهد التنزیل ،ج١،ص١٤٨ تا ١٥١-

[17]   – بحر المحیط ،ج٣،ص٢٧٨-

[18]   – احقاق الحق،ج٣،ص٤٢٥-

[19]   -” یا ایها الذین امنوا اتقوا الله وکونوا مع الصادقین—” توبه،١١٩-روا یتوں میں آیا هے که: “صادقین” سے مراد حضرت علی(ع) اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت اطهار علیهم السلام هیں :ینابیع الموده ، ص١١٥و شواهد التنزیًل،ج١،ص٢٦٢)

[20]   – شوری، ٣٣- مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو: “اهل بیت علیهم السلام و آیه مودت”

[21]   – تذ کره الخواص، سبط بن جوزی، طبع لبنان،ص٣٢٧ ،   ایضاً ینا بیع الموده، شیخ سلیمان قندو زی، باب ٧٧، ص٤٤٤، طبع اسلامبول: اسی طرح فرائد السمطین ، جو ینی ، بیروت ، ج٢،ص١٣٤-

[22]   – ” انت منی بمنزله هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی : فضائل الخمسه ، ج١،ص٣١٦- ٢٩٩-

[23]   – صحیح مسلم ، صحیح ترمذی ، ج٢،ص ٣٠٨: خصائص نسائی ، ص ٢١پیغ مستدرک حاکم ،ج٣،ص١٠٩: مسند احمدبن حنبل،ج٣،ص١٧-

[24]   – ” انی اوشک ان ادعی فاجیب و انی تارک فیکم الثقلین کتا ب الله عز وجل وعترتی- کتاب الله حبل ممدودمن السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی ، انهما لن یفتر قا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بم تخلفونی فیهما : فضائل الخمسه ، ج٢،ص٥٣- ٤٤-

[25]   – ابو سعید خدری ، زیدبن ارقم، جابر بن عبدالله انصاری ، ابن عباس، براء بن عازب ، حذیفه، ابو هریره، ابن مسعود و عامر بن لیلی ان میں شامل هیں-

[26]   – مزید معلو مات کے لئے علامه امینی کی گراں بها کتاب ” الغدیر” ج١اور کتاب: ” پیشوائی از نظر اسلام ” تالیف آیت الله جعفر سبحانی ص ٢٧٤ و٣١٧ کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے جو حدیث غدیر کے اسناد و تجزیه پر مشتمل هے-

تبصرے
Loading...