امامت کے سلسلہ شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

عقلی اور نقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے اور جو شرائط پیغمبر (ص)کے لئے (وحی اور بانی ٴ شریعت ہونے کے علاوہ ) معتبر ہیں وہ امام میں ہونے چاہئے۔

اب ہم دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

پیش آنے والے نئے مسائل :

پیغمبر اکرم (ص)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام (ص)کے ہاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ہیں؟یہ طے شدہ بات ہے کہ کافی نہیں ہیں۔بلکہ آنحضرت (ص) کے بعد ایسے معصوم پیشواوٴں کی ضرورت ہے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر (ص)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر (ص) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے اور نہ حضرت (ص) کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام (ص)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جہد میںبسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ (ص) الٰہی شریعت کے احکام بیان کرتے ہیں کامیاب نہ ہوئے بلکہ آپ (ص) نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا ذہن ہموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰہی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نہیںتھے،لہٰذا آپ (ص) نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

جب آنحضرت (ص) مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ (ص) کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رہی لیکن آپ (ص) نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یہودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اہل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ (ص) کا بڑا قیمتی وقت صرف ہوا۔

یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم (ص)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

اگر قرآن یہ فرماتا ہے کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“ (۱) تو اس سے پیغمبر اکرم (ص) اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ہوئے آیت کے نزول یعنی دس ہجری کے وقت مراد یہ ہے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم (ص)کے ہاتھوں تکمیل ہوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نہیں رہا اور یہی کلیات صبح قیامت تک امت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بہت ہی دشوار اور پیچیدہ کام ہے جو عام افراد کے بس کا نہیں ہے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقہی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت (ص) کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نہیں ہے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نہیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ہے جو اپنے الٰہی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰہی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ہو۔

ساتھ ہی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا لہٰذا وہی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

یہاں ایک دوسری بات بھی کہی جاسکتی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ہے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررہی ہے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی (ع)کی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی ہے ۔اب رہی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باہر کی چیز ہے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جانا چاہئے کہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لیکر نہیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا (ص) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا کے تمام ہونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقہی دلائل ہمارے پاس کافی نہیں ہیں بلکہ بہت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ہی نہیں کئے گئے ہیں۔

ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تمام الٰہی احکام خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ (ص) کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بہت ہی مختصر تھی،ساتھ ہی ہر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لہٰذا آپ (ص) نے وہ تمام تعلیمات الٰہی اور جو کچھ بھی آپ (ص) نے وحی کے ذریعہ الٰہی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچھ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت (ص) کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ (ص) کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتہ رفتہ امت کو بتائے ۔ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ہو اور ہر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ہو صرف پیغمبر اکرم (ص)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نہیں پہچان سکتی۔

یہ بھی عرض کردوں کہ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص)جو کچھ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نہیں ہے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر اکرم (ص)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بہت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت (ص) نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ہی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انھیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر (ص)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہ گئی ۔

آخر میں یہ یاد دہانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ہوئے جن سے پیغمبر اسلام (ص)کے عہد میں سابقہ نہیں پڑا تھا اور آنحضرت (ص) نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں بتائی تھی۔

قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بہت ہی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ہے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وہبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت (ص) نے اس کے حوالے کیا ہے۔

اہل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم (ص)کی چار سو حدیثوں سے ہی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاہتے ہیں لیکن جونکہ بہت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ہیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نہیں پاتے لہٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نہیں ہے ،کا سہارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقہی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نہیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ہو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سے 

پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پہچنے کی راہ میں زیادہ موٴثر ثابت ہوگی ۔

پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ہو تو ایسی صورت میں ہم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی اساس و بنیاد ہی ناہموار اور پھس پھسی ہے کیا ایسی صورت میں ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الہٰی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بہت سے واقعات اپنے دامن میںلئے ہوئے ہے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ہے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ہو اور مستقل الٰہی تعلیمات کولوگوں تک پہنچاتارہے۔ہم یہاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جہالت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میںایک شوہر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ہوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راہنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ہے تو وہ قصور وار ہے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی اس کے رحم میں ہے؟

۲۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوہرکو جس کی بیوی دوسرے شہر میں رہتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ہو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاہے ،سنگسار نہیں ہے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

۳۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواہی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ہر ایک کی سزا جدا جدا ہے۔ایک کافر ذمی ہے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نہیں کیاہے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ہے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ہے اور غیر شادی شدہ ہے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ہے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ہے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

۴۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رہا ہے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ہے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رہے آخرکار مجبور ہوکر انہوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ (ع) نے فرمایا: اس شخص کو مہاجرین و انصار کے مجمع میں پھراوٴاگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کہہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ہے تو اس پر حجت تمام ہے اور اس پر حد جاری ہوگی ورنہ اسے معذور سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

۵۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ہو۔عورت کو دوبارہ عدالت میںپیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوہر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجھ پر پیاس کا غلبہ ہوا میں نے وہاں موجود شخص سے بہت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ہر بار یہ کہتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ہوجاوٴتو میں تمہیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوٴںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ہوس کے آگے تسلیم ہوگئی۔

اس وقت حضرت علی (ع)نے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہ اکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔اس طرح کے حوادث 

پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں پیش نہیںآئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت(ص) سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰہی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ہونا چاہئے ۔کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ہے ۔چاہے امت کی نادانی و جہالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکام لے لیں․ (۲)

۱۔ مائدہ /۳ ۔ یعنی آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا․

۲۔ اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے۔علامہ امینی (رہ) نے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔

 

 

 

تبصرے
Loading...