امامت قرآن کی روشنی میں

شھید مرتضی مطھری

 

اس سے قبل ہم نے آیت ” الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الاِسۡلَامُ دیناً [18] کے سلسلہ میں بحث کی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ خود آیت کے اندر موجود قرائن اور ان کے علاوہ اس سے متعلق دوسرے آثار و شواہد، یعنی آیت کی شانِ نزول کے تحت شیعہ و سنی ذرائع سے وارد ہونے والی روایات بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مذکورہ آیت واقعہ غدیر خم سے تعلق رکھتی ہے۔

چونکہ اس موضوع کے ذیل میں قرآن کی آیتیں ہماری بحث کا محور ہیں یعنی وہ آیتیں جن سے شیعہ اس باب میں استدلال کرتے ہیں لہٰذا ہم مزید دو تین آیتیں جنہیں علماء شیعہ استدلال میں پیش کرتے ہیں یہاں ذکر کررہے ہیں تاکہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ استدلال کا طریقہ کیا ہے ؟

ان آیات میں سے ایک اسی ” سورہ مائدہ کی آیت ہے جو مذکورہ بالا آیت سے تقریباً ساٹھ آیتوں کے بعد ذکر ہوئی ہے اور وہ یہ ہے: یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس (مائدہ / ۶۷ ) اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادیجئے اوراگر آپ نے یہ نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری ہیں تاکہ اس آیت کے مفاد کی وضاحت ہوجائے نیز یہ مقدمہ گزشتہ آیت کے تحت بیان کئے گئے مطالب کے لئے بھی معاون و مددگار ثابت ہوگا۔

 

اہل بیت سے متعلق آیات کا خاص انداز

یہ بات واقعاً ایک اسرار کی حیثیت رکھتی ہے کہ مجموعی طور پر قرآن میں اہل بیت سے متعلق آیتیں اور خصوصاً وہ آیتیں جو کم ازکم ہم شیعہ کے نقطۂ نظر سے امیرالمومنین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، ایک خاص وضع و کیفیت کی حامل ہیں۔ اور وہ یہ کہ خود اس آیت کے اندر مطلب کی حکایت کرنے والی دلیلیں اور قرائن تو پائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی نظر آتی ہے کہ اس بات کو دوسرے مطالب کے درمیان یا دوسری باتوں کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے گزر جایا جائے۔ اس پہلو کو جناب محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب ” ولایت و خلافت ” کی ابتدائی بحثوں میں نسبتاً اچھے انداز سے بیان کیا ہے اگر چہ دوسروں نے بھی اس نکتہ کو بیان کیا ہے لیکن فارسی میں شاید پہلی بار انہوں نے ہی اس کا ذکر فرمایا ہے۔ آخر اس کا راز کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ان لوگوں کا جواب بھی ہوجائے گا جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تھا کہ علی (ع) پیغمبر (ص) کے جانشین ہوں، تو پھر قرآن میں صاف صاف ان کے نام کا ذکر کیوں نہیں ہے۔

 

آیت تطہیر

مثال کے طور پر آیت کو لے لیں ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ” ( احزاب /۳۳) اس آیت کے بارے مٰں دریافت کیا جائے توع ہم کہیں گے کہ اس کا مفہوم و مطلب بالکل واضح ہے۔ اللہ نے یہ ارادہ کیا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ ( اہل بیت ) تم سے کثافتوں کو دور کرے، تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے، ویطھرکم تطھیراً اور تمہیں مخصوص نوعیت اور خاص انداز میں تطہیر وپاکیزہ رکھے یا کرے۔ ظاہر ہے کہ جس تطہیر کا ذکر خدا کررہا ہے وہ عرفی یا طلبی تطہیر نہیں ہے کہ یہک کہا جائے کہ خدا تم سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتا ہے یا ( معاذاللہ ) کے تمہارے بدن کے امراض کے جراثیم کو زائل کررہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ تطہیر کا مصداق نہیں ہے، لیکن مسلّم طور پر جس کو خدا اس آیت میں بیان فرمارہا ہے اس سے مراد پہلی منزل میں وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں خود قرآن جس کا نام دیتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ رجس و رجز وغیرہ یعنی وہ تمام چیزیں جن سے قرآن منع کرتا اور روکتا ہے اور جنہیں گناہ شمار کیا جاتا ہے چاہے وہ اعتقادی گناہ ہو، اخلاقی گناہ ہو یا عملی گناہ، یہ سب رجس و کثافت ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے مراد عصمت اہل بیت ہے یعنی ان کا ہر طرح کی کثافت اور آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہوتا۔

فرض کیجئے کہ نہ ہم شیعہ ہیں نہ سنی، بلکہ ایک عیسائی مستشرق ہیں، عیسائی دنیا سے نکل کر آئے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کتاب ( قرآن ) کیا کہنا چاہتی ہے ہماری نظر قرآن کے اس جملہ پر پڑتی ہے پھر ہم اس سے متعلق مسلمانوں کی تاریخ اورسنن و احادیث کا جائزہ لیتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف وہ فرقہ جسے شیعہ کہتے ہیں اور جو اہل بیت (ع) کا طرفدار ہے بلکہ وہ فرقے بھی جو اہل بیت (ع) کے کوئی خصوصی طرفدار نہیں ہیں اپنی معتبر کتابوں میں جب اس آیت کی شان نزول بیان کرتے ہیں تو اسے اہل بیت پیغمبر (ص) کی فضیلت قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جس واقعہ کے تحت یہ آیت نازل ہوئی اس میں حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسینِ، اور خود حضرت رسول اکرم(ص) موجد تھے اور اہل سنت کی احادیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو زوجۂ رسول اکرم ام سلمہ [19] آنحضرت کی خدمت میں آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ (ص) ” اہل بیت (ع) ” میں میرا بھی شمار ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تم خیر پر ہو لیکن ان میں شامل نہیں ہو۔ عرض کرچکا ہوں کہ اہل سنت کی روایات میں اس واقعہ کے حوالے ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔

یہی آیت ہمیں اپنے مفہوم سے مختلف دوسری آیات کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس سے قبل و بعد کی آیتیں ازواج پیغمبر (ص) سے متعلق ہیں۔ اس سے پہلے کی آیت یہ ہے ” یا نساء النبی لستن کاحد من انساء ” [20] اے ازواج پیغمبر (ص)!تم دوسری عورتوں جیسی تمیں ہو تم اور دوسری عورتوں میں فرق ہے، ( یقیناً قرآن یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم دوسروں پر امتیاز رکھتی ہو )۔ تمہارا گناہ دگنا اور دُہرا ہے کیونکہ اگر تم گناہ کرو گی تو گناہ تو یہ ہے کہ تم نے وہ عمل بد انجام دیا اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رسوائی کی مرتکب ہوئیں۔ اس طرح دو گناہ تم سے سر زد ہوئے۔ یوں ہی تمہارے نیک اعمال بھی دوہرا اجر رکھتے ہیں کیو نکہ تمہارا ہر عمل خیر دو عمل کے برابر ہے۔ بلکل یوں ہی جیسے کہا جاتا ہے کہ سادات کرام کے کار خیر کا ثواب اور بُرے عمل کا گناہ دُوہرا ہے۔ اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ان کا ایک گناہ سنگین ہوجاتا ہے اور فرق رکھتا ہے۔ بلکہ ان کا ایک گناہ دو گناہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سید ( معاذاللہ ) شراب پیئے۔ تو وہ شراب پینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے عمل کا بھی مرتکب ہوا ہے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ پیغمبر (ص) اور آل پیغمبر (ص) سے منسوب ہے لہٰذا اپنی شراب نوشی کے ذریعہ پیغمبر (ص) کی ہتک و رسوائی کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پیغمبر (ص) کی اولاد اس قدر کھلم کھلا ان کے حکم کے خلاف عمل کر رہی ہے تو اس کی روح پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوگا۔

ان آیات میں تمام ضمیریں مؤنث کی استعمال ہوئی ہیں ” لستن کاحد من النساء ان اتقیتن ” ٓصاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد ازواج پیغمبر اکرم (ص ) ہیں۔ دو تین فرقوں کے بعد یک بیک ضمیر مذکر ہوجاتی ہے اور ہم اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں، ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم ( عنکن نہیں ہے ) الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً” اس کے بعد دوبارہ مؤنث کی ضمیریں استعمال ہونے لگتی ہیں قرآن کا کوئی لفظ عبث اور غلط نہی ہے۔ اولاً یہاں کلمہ “اہل البیت ” استعمال ہوا ہے۔ اوراس کے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ ہے ” یانساء النبی ” یعنی ” نساء النبی ” کا عنوان ” سے اہل البیت ” میں تبدیل ہوگیا اور دوسرے مؤنث کی ضمیر مذکر میں تبدیل ہوگئی یہ سب لغو اور عبث نہیں ہے۔ ضرور کوئی دوسری چیز ہے۔ یعنی قرآن گذشتہ آیات سے الگ کوئی دوسری بات کہنا چاہتا ہے۔ آیت تطہیر سے قبل و بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبر اکرم (ص) کے لئے حکم، دھمکی اور خوف و رجاء کا انداز پایا جاتا ہے : وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ ” اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کے مانند اپنے بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو۔ گویا ایک کے بعد ایک حکم اور تہدید و دھمکی ہے۔ ساتھ ہی خوف و رجاء بھی ہے کہ اگر نیک اعمال بجالاؤ گی تو ایسا ہوگا اوراگر بُرے اعمال کروگی تو ویسا ہوگا۔

یہ آیت یعنی ( آیت تطہیر ) مدح سے بالاتر ایک بات ہے قرآن اس میں اہل بیت کی گناہ و معصیت سے پاکیزگی اور طہارت کے مسئلہ کو باین کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت کا مفہوم اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں کے مفہوم و مطلب پہلے اور بعد کی آیتوں سے اس قدر مختلف ہے، ان آیت کے دمیان میں قرار دی گئی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جو اپنی گفتگو کے دوران الگ سے ایک بات کہہ کر گفتگو کے سلسلہ کو پھر جوڑ دیتا ہے۔ اور اپنی بات جاری رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی روایات میں بڑی تاکید سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے قرآنی آیات کی ابتدا میں کوئی ایک مطلب بیان ہوا ہو۔ درمیان میں کوئی دوسرا مطلب اور آخر میں کوئی تیسری بات کہی گئی ہو۔ اور قرآن کی تفسیر کے مسئلہ کو ان حضرات نے جو اتنی اہمیت دی ہے اس کا سبب بھی یہی ہے۔

یہ بات صرف ہماری روایات اور ائمہ کے ارشادات میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اہل سنت حضرات نے بھی ان تمام مطالب کو نقل کیا ہے ” انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس ” اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے فرق رکھتی ہے۔ اس کا مضمون اور اس کے مطالب بھی الگ ہیں یہ آیت ان ہی لوگوں سے متعلق ہے جو اس واقعہ (کساء ) میں شامل ہیں۔

 

دوسرا نمونہ

آیت ” الیوم اکملت لکم دینکم ” میں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے۔

بلکہ یہاں مذکورہ بالا آیت تطہیر سے زیادہ عجیب انداز نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کی آیت ہی سادے اور معمولی مسائل ذکر کئے گئے ہیں ” احلت لکم بھیمۃ الانعام ” [21] چوپایوں کا گوشت تمہارے لئے حلال ہے، ان کا تزکیہ یوں کرو اور اگر مردار ہو تو حرام ہے۔ وہ جانور جنہیں تم دم گھونٹ کر مرڈالتے ہو ( منخنقۃ ) حرام ہیں اور وہ جانور جو ایک دوسرے کے سینگھ مارنے سے مرجاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہے اور پھر یک بیک ارشاد ہوتا ہے ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً ” اس کے بعد دوبارہ مسائل کا ذکر شروع ہوجاتا ہے جو پہلے بیان ہورہے تھے مذکورہ آیت کے یہ جملہ اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے سرے سے میل نہیں کھاتے۔ یعنی یہ اس بات کی نشاندھی ہے کہ یہ وہ بات ہے جو دوسرے مطالب کے درمیان الگ سے سر سری طور سے بیان کردی گئی ہے اور پھر اسے ذکر آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت ہم جس آیت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ( آیت بلغ ) اس کا بھی یہی حال ہے، یعنی وہ بھی ایسی آیت ہے کہ اگر ہم اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے درمیان سے نکال دے تو بھی ان آیتوں کاربط کسی طرح نہیں ٹوٹ سکتا۔ جیسا کہ آیت ” الیوم الملت ” کو اس کی جگہ سے ہٹادیں تو اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا یوں ہی زیر بحث آیت میں دوسری آیت کے درمیان ایک ایسی آیت ہے نہ اسے ماقبل کی آیتوں سے متعلق کہا جاسکتا ہے اور نہ مابعد کی آیتوں کا مقدمہ، بلکہ اس میں ایک دم الگ سے بات کہی گئی ہے۔ یہاں بھی خود آیت میں موجود قرائن اور شیعہ و سنی روایات اسی مطلب کی حکایت کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس آیت کو بھی قرآن نے ایسے مطالب کے درمیان رکھا ہے جو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے اس میں ضرور کوئی راز ہوگا، آخر اس کا راز کیا ہے ؟

اس مسئلہ کا راز : اس میں جو راز پوشیدہ ہے، خود قرآن کی آیت کے اشارہ سے بھی ظاہر ہے اور ہمارے ائمہ (ع) کی روایات میں بھی اس کی اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور اوہ یہ ہےکہ اسلام کے تمام احکام و دستورات میں آل ہیغمبر (ص) کا مسئلہ یعنی امیر المومنین (ع) کی امامت اور خاندان پیغمبر کی خصوصیت ہی ایسا مسئلہ اور ایسا حکم تھا جس پر بدقسمتی سے سب سے کم عمل ہوسکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اہل عرب اپنی روح کی گہرائیوں میں تعصبات رکھتے تھے جس کے سبب ان میں اس مطلب کے قبول کرنے اورا سپر عمل پیرا ہونے کی آمادگی بہت ہی کم نظر آتی تھی اگر چہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں امیرالمومنین سے متعلق حکم پہنچتے تھے لیکن حضرت ہمیشہ اس تردد میں رہتے تھے کہ اگر میں حکم بیان کردوں تو وہ منافقین جن کا ذکر قرآن برابر کرتا رہے کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر کنبہ نوازی سے کام لے رہے ہیں۔ جبکہ پوری زندگی پیغمب راکرم (ص) کا یہ شیوہ رہا ہے کسی مسئلہ میں اپنے لئے کس یخصوصیت کے قائل نہ ہوئے۔ ایک تو آپ کا اخلاق ایسا تھا، دوسرے اسلام کا حکم ہونے کی بناپر آپ اس بات سے غیر معمولی طور پر گریز کرتے تھے کہ اپنے دوسروں کے درمیان کوئی امتیاز برتیں اور یہی پہلو پیغمبر اسلام (ص) کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب تھا۔

یہ مسئلہ ( یعنی اس حکم کی تبلیغ کہ علی جیرے جانشین ہیں ) خدا کا حکم تھا، لیکن پیغمبر جانتے ھتے کہ اگر اسے بیان کردیں تو ضعیف الایمان افراد کا گروہ جو ہمیشہ رہا ہے، کہنے لگے کہ دیکھو ! پیغمبر اپنے لئے عظمت و امتیاز پیدا کرنا چایتے ہیں۔ آیت ” الیوم الذین کفروا من دینکم فال تخشوھم واخشون ” تھیَ جس میں قرآن فرماتا ہے کہ اب کافروں کی امیدیں تمہارے دین سے منقطع ہوچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف اب تک جو جد وجہد کررہے تھے کہ کہ اس دین پر کامیاب ہوجائیں گے ان کی یہ امیدیں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ یہسمجھ گئے ہیں کہ اسبان کے بگاڑے کچھ بگڑ نہیں سکتا۔ ” فلا تخشوھم ” لہٰذا اب کافروں کی جانب سے کسی طرح کا خوف وخطر نہ رکھو ” واخشون ” کیجن مجھ سے ڈرتے رہو۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اس کامطلب ہے اس بات سے ڈرتے رہو کہ اگر تم میں خود اندرونی طور پر خرابیاں پیدا ہوئیں تو میں اپنی سنت اور قانون کے مطابق یعنی جب بھی کقوئی قوم ( فساد اور بُرائی میں پڑ کر ) اپنی راہ بدلتی ہے میں بھی ان سے اپنی نعمت سلب کرلیتا ہوں۔ ( نعمت اسلام کو تم سے سلب کرلوں گا ) یہاں ” واخشون ” کنایہ ہے۔ مجھ سے ڈرو کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ سے ڈرو یعنی اب خطرہ اسلامی معاشرہ کے اندر سے ہے باہر سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آیت سورۂ م،ائدہ کی ہے اور سورہ مائدہ پیغمبر اکرم (ص ) پر نازل ہونے وال اآخری سورہ ہے۔ یعنی یہ آیت پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے دوتین ماہ پہلے نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے جب اسلام طاقت واقتدار کے اعتبار سے وسعت پاچکا تھا۔

جو آیت ہماری بحث کا محور ہے اورجسے میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، اس میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ خطرہ داخلی طور پر ہے خارجی طور پر سکی طرح کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ ارشاد ہے :” یاایھا الرسول بلغ امانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما ابلغت رسالتہ والہہ یعصمک من الناس ” ہمیں قرآن میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت نظر نہیں آتی جو پیغمبر اکرم (ص) کو ( سکی عمل کی انجام دہی کے لئے ) آمادہ کرے اور شوق دلائے۔ اس کی مسال اسی ھی ھے جے آپ کسی کام کے لے تشویق کیجیے اور وھ اس کے لے ایک قدم آگے بڈھے پھر ایک قدم پیچھے ھٹ جاے جیسے وہ خطرے یا تزبزب کا شکار ھے یھ ٰآیت بھی پیغمبر کو تبلیغ کی دعوت دیتی ہے اوراس تبلیغ کے سلسلہ میں ایک طرف دھمکی دیتی ہے اور دوسری طرف شوق پیدا کراتی اور تسلّی دیتی ہے۔ دھمکی یہ ہے کہ اگر اس امر کی تبلیغ تم نے نہیں کی تو تمہاری رسالت کی تمام خدمت اکارت اور بے کار ہے اور تسلّی یوں دی جاتی ہے کہ ڈرو نہیں ! خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ واللہ یعصمک من الناس ” آیت ” الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم ” میں فرمایا آپ کافروں سے خوف زدہ نہ ہو۔ در حقیقت پہلی منزل میں پیغمبر کو کافروں سے نہین ڈرنا چاہئے۔ لیکن آیت ” یاا یھا الرسول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر بمیناک اور فکر مند تھے۔ پس ظاہر ہے کہ آنحضرت کا یہ تردد و فکر مندی مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے افراد سے ہے۔ مجھے فی الحال اس سے سروکار نہیں ہے کہ مسلمانوں میں وہ لوگ ( جو اس تبلیغ یعنی علی (ع) کی جانشینی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے ) باطنی طور پر کافر تھے یا نہیں تھے۔ بہرت حال یہ مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ لوگ اس کے لئے آمادہ اور اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔

 

تاریخی مثالیں

اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ہم نے جو علی (ع) کو خلافت کے لئے منتخب نیں کیا وہ ” حیطۃ علی الاسلام ” تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور انہیں (خلیفہ ) نہیں مانتے !! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نہیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رہے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر ہوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں ہوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل ہوجائٰں گے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش کو مسئلہ ( خلافت امیرالمومنین ) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے ہی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جون افکار و خیالات کا مدلّل جواب ہیں۔

بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زیارتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا ہے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے ہیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو ہوتے ہیں لہٰذٓ مسلمان ہونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا ( لہٰذا علی خلافت کے لئے مناسب نہیں ہیں ) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچی وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اس منصب کے لئے علی کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔

بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں ہی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ ہے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ ہی قرآن یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و روگردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں طاہر ہو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا ہے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے ہیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ ہو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رہے۔ یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ آیت تطہیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا ہے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انساب بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری ہی بات ہے۔ اسی طرح قرآن نے آیت ” الیوم اکملت ” اور آیت ” یاایھا الرسول بلغ ” کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا

آیت انما ولیکم اللہ

اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی ہیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی ہے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر آیت ” انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین اٰمنوا الذین یقیمون الصلوٰ ۃ ویؤ تون الذکوٰۃ وھم راکعون ” ( مائدہ / ۵۵ ) عجیب تعبیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ ” تمہارا ولی خدا ہے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نہیں ہے جسے ایک اصل کلی کے طور پع ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفہوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ ہی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا ہے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی ہے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

الذین یؤتون الزکوٰ ۃ وھم راکعون۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں ” یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو وجود میں آگیا ۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بلا استثنا تمام شیعہ و سنی روایات کہتی ہے کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

 

عرفاء کی باتیں

دوسری آیتیں بھی ہیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی وہی اس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا ہو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مفرد جوہر تک رسائی حاصل کرلی ہو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا ہے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد ہی اسے درک اور سمجھ سکے ہیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس مفہوم تک پہنچتے ہیں اور کچھ نہیں پہنچ پاتے۔

اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے ہیں ہمارا مقصود یہ ہے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے ہیں ہم ان سے آگاہ ہوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفہوم

قرآن مین ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسے کا ایک حصہ بھی ہے اور بظاہر عجیب آیت ہے۔ البتہ یہ خود امیر المومنین (ع) کی ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق ہے، ان ہی معنی میں ہے جسے ہم ذکر کرچکے ہیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے ہیں۔

ہم کہہ چکے ہیں کہ عہد قدیم سے ہی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اس م سئلہ کو اس انداز میں اٹھایا ہے کہ : امامت کے شرائط کیا ہیں ؟ انہوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے ہیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا اتا ہے؛ ہم کہتے ہیں شرائط امام یہ ہیں کہ وہ معصوم ہو اور منصوص ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا ہو۔ اور وہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں و مامامت کی دنیوی حیثیت ہے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو ہے جیسے نبوت کے سلسلہ میں ہے پیغمبر اکرم (ص) کی شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نہیں ہے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب ہے جس کے ہزاروں پہلو اور ہازاروں معانی و مطالب ہیں۔ پیغمبر کی سان یہ ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔ وہ نبی ہونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی ہے، اہل سنت کہتے ہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے اور امام وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم ہو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفہوم سے آگے نہیں بڑھے۔ لیکن یہی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ ہے جو بالکل نبوت کے ہی قائم مقام قدم بقدم ہے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر ہے یعنی انبیاء اولوالعزم وہی ہیں جو امام بھی ہیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے ہی نہیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز ہوئے ہیں۔

غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود ہیے کسی اور کے حاکم بننے کا سال ہی نہیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل ہے، یوں ہی جب تک امام موجود ہے حکومت کے لئے کسی اور کی بات ہی پیدا نہیں ہوتی۔ جب وہ نہ ہو ( چاہے یہ کہیں کہ بالکل سے موجود ہی نہیں ہے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاہوں سے غائب ہے ) اس وقت حکونمت کا سوال اٹھتا ہے کہ حاکم کون ہے ؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلہ حکومت میں مخلوط نہیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے ہیں اور ہم کی اکہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفہوم ہے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل ہیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نہیں ہیں۔ یہ بات ہیں ہے کہ قائل تو ہیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے ہیں۔

 

امامت ابراہیم کی ذرّیت میں

یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں وہ امامت کے اُسی مفہوم کو ظاہر کرتی ہے جسے شیعہ پیش کرتے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں، اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امامت ایک الگ ہی حقیقت ہے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (ص) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رہی ہے اور یہ منصب حضرت ابراہیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی ہے وہ آیت یہ ہے : ” واذبتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین ” [22] جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراہیم کے آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے ) فرمایا : میرا عید ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔

ابراہیم معرض آزمائش میں حجاز کی جانب ہجرت کا حکم

خود قرآن حکیم نے جناب ابراہیم کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے ہیں۔ نمرود اور نمودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انہیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان ہی آزمائشوں میں خداوند عالم کا یاک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا وند کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا ہو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ ہو اور ستّر اسّی کے سن مٰں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد ہوتی ہے اور ایسے میں اسے حکم ملتا ہے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ ہے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ ی ہحکم خدا ہے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا ہوں ( جسے حضرت ابراہیم نے محسوس کیا تھا کہ کیونکہ آپ پر وحی ہوتی تھی ) کسی اور منطق سے میل نہیں کھاتا۔

” ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموالصلاۃ ” [23] پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرادیا تاکہ یہ لوگ نماز اداکریں البتہ آپ خود الٰہی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا ہے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔

 

بیٹے کو ذبح کردو

ان سب سے بالا تر بیٹے کو ذبح کرنے کا مرحلہ ہے۔ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو منیٰ میں ذبح کردو۔ وہیں جہاں آج ہم جناب ابراہیم کی اس نے مثال اطاعت و بندگی اور تسلیم و رضا کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں ( چونکہ خدا نے حکم دیا ہے لہٰذا انجام دیتے ہیں۔ یہاں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے۔ ) دو تین مرتبہ جب خواب کے عالم میں آپ پر وحی ہوتی ہے اور آپ کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وحی پروردگار ہے تو اپنے بیٹے کے سامنے یہ بات رکھتے ہیں اوراس سے مشورہ کرتے ہیں۔ بیٹا بھی بلا کسی حیل وحجت اور بہانے کے کہتا ہے : ” یا ابت افعل ماتؤمر ” اے پدر بزرگوار جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے بجالائیے ” ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین ” [24] آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ قرآن کیس اعجیب اور حیرت انگیز منظر پیش کرتا ہے :” فلما اسلما ” جب یہ دونوں تسلیم ہوگئے یعنی جب انہوں نے ہمارے حکم کے آگے مکمل طور پر اطاعت و بندگی کا اظہار کیا: ” و تلّہ للجبین ” اور ابراہیم نے اپنے فرزند کو پیشانی کے بھل لٹایا ( یعنی اس آخری مرحلہ پر پہنچ گئے جہاں نہ ابراہیم کو بیٹے کے ذبح کرنے میں شک رہا اور نہ اسماعیل کو ذبح ہوجانے میں کوئی شبہ باقی رہا باپ بھی اطمینانِ کامل کی منزل پر اور بیٹا بھی یقینِ کامل کے درجہ پر ) ” ونا دیناہ ان یا ابراہیم قد صدّقت الرؤیا” [25] تو ہم سے ندادی اور وحی کے کہ اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یعنی ہمارا مقصد فرزند کو ذبح کرنا نہیں تھا۔ ہم نے نہیں چاہا تھاکہ اسماعیل ذبح کردیئے جائیں، یہ نہیں فرمایا کہ اس حکم کو عملی طور پر انجام دینا لازمی نہیں ہے بلکہ فرمایا تم نے انجام دے دیا، کام ختم ہوگیا، کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ اسماعیل کو ذبح کردیا جائے بلکہ ہمارا مقصد اسلام و تسلیم کی نمود اور تم دونوں باپ بیٹوں کی تسلیم و رضا کا اظہار تھا جو انجام پاگیا۔

قرآن کے مطابق خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو عالم پیری میں نعمت اولاد سے نوازا۔ قرآن حکایت کرتاہے کہ جب فرشتوں نے آکر ان کو یہ خبر دی کہ خداوند عالم آپ کو فرزند عطا کرے گا تو ان کی زوجہ نے فرمایا :” ءالد وانا عجوز و” ھٰذا بعلی شیخاً ” میں بوڑھی عورت صاحب اولاد ہوں گی جب کہ یہ میرا شوہر بھی، بوڑھا ہے ؟ ” قالوا اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت ” [26] فرشتوں نے ان سے کہا، کیا آپ کو امر خدا پر تعجب ہے ؟ اے اہل بیت (ع) آپ پر خدا کی رحمتیں اوراس کی برکتیں ہیں۔ بنابر ایں خداوند عالم نے ابراہیم کو بوڑھاپے میں اولاد ہوئے جب منصب پیغمبری پر فائز ہوچکے تھے۔ کیونکہ جناب ابراہیم کے بارے میں قرآن کے اندر بہت سی آیتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسب ابراہیم کے بارے میں قرآن کے اندر بہت سی آیتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب ابراہیم کے پیغمبر ہونے کے سالہا سال کے بعد زندگی کے آخری ایام یعنی ستّت اسّی سال کے سن میں خداوند عالم انہیں نعمت اوالد سے نوازتا ہے اور آپ اس کے دس بیس سال بعد تک زندہ بھی رہتے ہیں یہاں تک کہ جناب اسماعیل و جناب اسحٰق بڑے ہوجاتے ہیں اور جناب اسماعیل تو ان کی حیات میں اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر سے اپنے پدر بزرگوار کا ہاتھ بٹاتے ہیں آیت :” واذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لاینال عھدی الظالمین ” [27] بتاتی ہے کہ خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو آزمائش میں مبتلاکیا۔ آپ نے ان آزمائشوں کو پورا کر دکھایا اوران میں کھرے اترے اس کے بعد خداوند عالم نے فرمایا ؛ میں تمہیں لوگوں کا امام قرار دیتا ہوں جناب ابراہیم نے دریافت کیا، کیا میری ذریّت سے بھی یہ منصب متعلق رہے گا ؟ جواب ملا، میرا عہد ( ان میں سے ) ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔ یہ آیتیں کس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں ؟ کیا جناب ابراہیم کے اوائل زندگی سے ؟ مسلّم طور پر نبوت سے پہلے کی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان آیتوں میں وحی کی بات کہی گئی ہے۔ بہر حال دوران نبوت سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیا یہ زمانہ نبوت کا ابتدائی زمانہ ہے ؟ نہیں، بلکہ نبوت کا آخری زمانہ ہے۔ اس کی دو دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ آیت کہتی ہے کہ یہ منصب آزمائش کے بعد ملا اور جناب ابراہیم کی تمام آزمائش آپ کی نبوت کے پورے دور میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں آپ کی ذریت اور اولاد کا تذکرہ بھی ہے۔ جیسا کہ ابراہیم نے خود فرمایا ” ومن ذریتی ” جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صاحب اولاد تھے۔

یہ آیت جناب ابراہیم سے جو نبی تھے اور رسول بھی، اب آخر عمر میں یہ کہری ہے کہ ہم تمہیں ایک نیا عہدہ اور ایک دوسرا منصب دینا چاہتے ہیں۔ ” انّی جاعلک للناس اماماً ” میں تمہیں لوگوں کا امام بنانا چاہتا ہوں۔” معلوم ہوا کہ ابراہیم پیغمبر تھے۔ رسول تھے۔ ان مراحل کو طے کر چکے تھے، لیکن ابھی ایک مرحلہ اور تھا جس تک ابھی رسائی حاصل نہیں کرپائے تھے اور نہیں پہنچے جب تک تمام آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزر نہیں گئے۔ کیا یہ بات یہ ظاہر نہیں کرتی کہ قرآن کی منطق میں منصب امامت ایک دوسری ہی حقیقت کا نام ہے ؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ امامت کے معنی کیا ہے ؟

 

امامت، کدا کا عہد

امامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس منزل پر فائز ہو کہ اصطلاح زبان میں اُسے انسان کامل کہا جائے کہ یہ انسان کامل اپنے پورے وجود کے ساتھ دوسروں کی رہبری و ہدایت کا فریضہ انجام دے سکے۔ جناب ابرہیم کو فوراً اپنی اور اولاد یاد آتی ہے خدا یا ! کیا میری ذریت اور میری نسل کو بھی یہ منصب نصیب ہوگا ؟ جواب دی اجاتا ہے :” لاینال عھدی الظالمین ” میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ یہاں امامت کو خدا کا عہد کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم جس امامت کی بات کرتے ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے۔ چنانچہ قرآن بھی یہی فرماتا ہے ” عھدی ” یعنی میرا عہد، نہ کہ عوام کاعہد۔ جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ امامت کا مسئلہ حکومت کے مسئلہ سے جدا ہے۔ تو اس پر تعجب نہ ہوگا کہیہ عہد یعنی امامت خدا سے متعلق کیوں ہے ؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت و حاکمیت خدا سے متعلق ہے یا انسانوں سے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ حکومت جسے ہم حکومت کہتے ہیں امامت سے الگ ایک چیز ہے۔ امامت میرا عہد ہے اور میرا عہد تمہاری ظالم اور ستم گر اولاد تک نہیں پہنچے گا۔ ابراہیم کی اولاد کو دوحصون میں تقسیم کرکے ظالم اور ستم گر افراد کو الگ کردیا تو ان میں وہ افراد رہ جاتے ہیں جو ظالم و ستم گر نہیں ہیں۔ اور اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل ابراہیم میں اجمالی طور سے امامت پائی جاتی ہے۔

 

دوسری آیت

اس سلسلہ میں قرآن ایک اور آیت : وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ [28] بھی جناب ابراہیم سے متعلق ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ؛ خداوند عالم نے اسے ( یعنی امامت کو ) ایک باقی اور قائم رہنے والی حقیقت کی صورت میں ابراہیم کی نسل میں باقی رکھا۔

 

طالم سے کیا مراد ہے ؟

یہاں ” ظالمین ” کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ ائمہ علیہم السلام نے ہمیشہ ظالمین سے متعلق اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ ظالم سے مراد کیا ہے ؟ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خود اپنی ذات پر یا دوسروں پر ظلم کرے، ظالم ہے۔ عرفِ عام ہمیشہ ہم ظالم اسے کہتے ہیں جو دوسروں پر ظلم کرے یعنی جو لوگوں کے ھقوق پر ڈالے ہم اسے ظالم کہتے ہیں، لیکن قرآن کی نظر میں ظالم عمومیت رکھتا ہے چاہے وہ دوسرے کے ساتھ ظلم کرے یا خود پر کرے جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا ہے وہ بھی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ قرآن میں اپ اپنی ذات یا اپنے نفس پر ظلم کو بیان کرنے والی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔

علّامہ طباطبائی (رح) اپنے ایک استاد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد سے متعلق خدا وند عالم سے جو سوال کیا ہے، اس سلسلہ میں نسل و ذریت ابراہیم کے نیک و بد سونے کی تفسیر کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ ہم فرض کریں کہ حضرت کی اولاد میں کچھ ایسے افراد تھے جو ابتدا سے آخر عمر تک ہمیشہ ظالم تھے۔ دوسرے یہ کہ بعض ایسے افراد تھے جو ابتدائے عمر میں ظالم تھے لیکن آخر عمر میں نیک اور صالح ہوگئے۔ تیسرے کچھ افراد وہ تھے جو ابتدائے عمر میں نیک تھے اور بعد میں ظالم ہوگئے۔ اور چوتھے یہ کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو کبھی ظالم نہ تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جناب ابراہیم منصب امامت کی عظمت و جلالت کو سمجھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ منصب اتنا اہم ہے جو نبوت و رسالت کے بعد آپ کو عطا کیا گیا ہے، لہٰذا محال ہے کہ اسیے منصب کی درخواست خداوند عالم سے آپ نے اپنی اولاد کے لئے کیا ہے۔ اب ان نیک اور صالح افراد کی بھی دوقسمیں ہیں۔ ایک وہ جو ابتدا سے زندگی کے آخری لمحہ تک ہمیشہ نیک رہے اور ایک وہ جو پہلے ظالم اور بُرے تھے اب نیک اور صالح ہوگئے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ حضرت ابراہیم کا تقاضا ان دو طرح کے افراد کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتا، تو اب ممکن ہے کہ یہ منصب ان افراد کو نصیب ہو جو اگرچہ اس وقت ظالم و ستمگر نہیں ہیں لیکن ان کی گزشتہ زندگی آلودہ اور ظالمانہ تھی۔ یعنی ان کی زندگی کا پچھلا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ( لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ) قرآن صاف طور سے فرماتا ہے، لاینال عھدی الظا لمین ” جو لوگ ظلم سے سابقہ رکھتے ہیں اس منصب کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ہمارا عید ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ لہٰذا مسلّم طور پر جو اس وقت ظالم ہے یا ہمیشہ ظالم رہا ہے یا پہلے ظلم نہیں تھا لیکن اس وقت ظالم ہے، ان میں سے کوئی ایک حضرت ابراہیم کی درخواست کا مصداق نہیں ہے۔ اس بنا پر قرآن صاف طور پر اس کی نفی کرتا ہے کہ امامت اس شخص تک پہنچے جس کی پچھلی زندگی ظالمانہ رہی ہو۔

یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر شیعہ استدلال کرتے ہیںکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امامت ان لوگوں تک پہنچے جو اپنی زندگی کے کسی دور میں مشرک رہے ہوں۔

 

سوال و جواب

سوال : معصوم کا کیا مطلب ہے ؟ یہ ہماری شیعہ منطق کا ساختہ و پرداختہ کوئی کوئی مفہوم ہےیا اس کی کچھ بنیادیں ہیں اور ہم نے انہیں پروان چڑھا کر بہتر بنایا ہے ؟ اصولی طور ہر کیا معصوم اس شخص کو کہتے ہیں جو گناہ نہ کرے، یا اسے کہتے ہیں جو گناہ کے علاوہ کوئی اشتباہ یا غلطی بھی نہ کرتا ہو ؟ ہم بیس سال پہلے میرزا ابوالحسن خان فروغی مرحوم کے درس میں شریک ہوا کرتے تھے یہ بزرگوار خاص طور سے عصمت کے مسئلہ میں خصوصی اور وسیع مطالعہ اور خاص عقیدہ رکھتے ھتے، اور اس موضوع پر بہترین انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے اگر چہ ہم اس وقت ان کی اسی فی صد گفتگو سمجھنے سے قاصر تھے لیکن اس میں سے بیس فیصدی جو سمجھتے تھے، اس کے مطابق وہ عصمت کی ایک دوسرے انداز میں تعریف کرتے تھے وہ فرماتے تھے، معصوم وہ نہیں ہے جو گناہ نہ کرے۔ ہماری نگاہ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں گناہ ہی نہیں کیا، لیکن انہیں معصوم نہیں کہتے۔ اس وقت ہمیں اس فکر سے سروکار نہیں ہے۔ آقائے مطہری کے پاس یقیناً اس کا جواب ہوگا کہ معصوم سے کیا مراد ہے ؟ اگر معصوم وہ شخص ہے جس سے کبھی کوئی غلطی یا بھول چوک بھی نہ ہوئی ہوتو ہم دیکھتے ہیں کہ بارہ امام علیہم السلام میں سے صرف دو حضرات مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے: حجرت علی اور حسن اور وہ بھی بڑی مختصر مدت کے لئے اوراس میں بھی شک نہیں ہ ان حضرات سے خلافت کے معاملات اور حکومت چلانے کے سلسلہ میں بہت سے اشتباہ ہوئے اور تاریخی نقطۂ نظر سے ان اشتباہات اور غلطیوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں۔ اور یہ بات معصوم کی مذکورہ بالا تعریف سے کسی طرح میل نہیں کھاتی۔

مثال کے طور پر امام حسن علیہ السلام کا عبیداللہ بن عباس کو معاویہ سے جنگ کے لئے مامور کرتا۔ یا خود حضرت علی علیہ السلام کا عبداللہ ابن عباس کو بصرہ کا حام مقرر کرنا۔ اگر آپ جانتے ہوتے کہ یہ شخص اس قدر رسوائی کا باعث ہوگا اور ایسی بد عملی کا مظاہرہ کرے گا تو یقیناً آپ یہ کام نہ کرتے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ آپ حقیقت سے واقف نہ تھے یعنی پہلے آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جسے انتخاب کیا ہے وہ اس کام کے لئے بہترین شخص ہے۔ لیکن بعد میں وہ شخص غلط نکلا۔ اور اگر حضرت کے دورہ حکومت سے متعلق مزید تحقیق کی جائے تو اس طرح کے اور بھی مسائل نظر آئیں گے اور تاریخی لحاظ سے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ بعد عصمت کی اس تاریخ سے میل نہیں کھاتی اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ بحث کرنے کا ایک طرفہ انداز یعنی سارے موافق حضرات کا کسی بحث میں حصہ لینا زیادہ مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعی جب انسان کوئی عقیدہ رکھتا ہے تو اسے دوست بھی رکھتا ہے اور اسے یہ گوارہ نہیں ہوتا کہ اپنے اس عقیدہ کے خلاف کچھ سنے۔ خاص طور سے ہم جو بچپن سے ہی شیعیت اور خاندان علی بن ابی طالب سے محبت اپنے دل میں رکھتے آئیں ہیں اور کبھی اس کے خلاف تنقید نہیں سنی۔ شاید خود دین و اصول دین یہاں تک کہ توحید خدا پرستی سے متعلق اعتراضات یاتنقیدیں توآسانی سے سن لی ہوں لیکن تشیع اور ا ئم علیھم السلام پر تنقید یا کسی کاان حضرات کی زندگی کہ انھوں نےیہ کام کیوںکیا اور وہ کیوں نہ کیا،سے ہمارے کان آشنانہیں ہیں،اسی وجہ سےاگر کوئ مثال کے طور پرامام حسن کے عمل یا امام حسین کے اقدام پر اعتراض کرے تو ہمیں بہت شاق گزرتا ہے۔

لیکن مثال کےطور پر یہ آیت جسے آقائے مطہری نے پہلے جلسہ میں اور اس جلسہ میں موضوع قرار دیا ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے ” وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات ادا کرتے ہیں ” اس کے بعد آپ نے استدلال فرمایا کہ یہ آیت اس واقعہ کے تحت جس میں حضرت علی نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی سائل کو دی تھی، سوائے حضرت علی کے کسی اور کے بارے میں نہیں ہے۔ نیری نظر میں یہ بات کچھ منطقی اور معقول نہیں لگتی، کیونکہ اول تو ہم نے امیر المومنین کی زندگی کے بارے مٰں یہ پڑھا اور سنا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کی توجہ خدا وند عالم کی جانب سے اس قدر ہوا کرتی تھی کہ گردو پیش کے لوگوں سے بے خبر ہوجاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وضو کرتے وقت بھی اگر آپ سامنے سے لوگ گزر جاتے تھے تو آپ انہیں پہچان نہیں پاتے تھے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نماز کی حالت میں ایسے شخص کے حواس اس قدر دوسروں کی طرف متوجہ ہوں کہ سائل مسجد میں وارد ہوتا ہے، سوال کرتا ہے، کوئی اسے کچھ نہیں دیتا اور حضرت اپنی انگوٹھی اتارکر اس کے حوالہ کردیتے ہیں۔ مزید یہ کہ سائل کو پیسے دینا کوئی اچھی بات بھی نہیں ہے۔ سائل کو پیسہ دینا اس قدر اہم نہیں ہے کہ انسان اپنی نماز کو کم از کم باطنی اور روحانی اعتبار سے ہی ناقص کردے یا اس میں خلل پیدا کرے ؟

اس کے علاوہ زکات کا تعلق انگوٹھی سے نہیں ہے اور فقہائے شیعہ کے فتووں کے مطابق زکوٰۃ سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں شامل بھی نہیں ہے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر وہ افراد جو اس سلسلہ میں کٹّر ہیں اس موضوع کو بہت زیادہ بڑھا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے یہ بھی فرماگئے ہیں کہ یہ انگوٹھی بہت زیادہ قیمتی تھی ۔ جبکہ حضرت علی (ع) نے قیمتی انگوٹھی نہیں پہنی۔ ؟ جواب : جس نکتہ کی طرف انہوں نے اشارہ فرمایا کہ جلسہ میں مخالف موقت رکھنے والے افراد بھی ہونے چاہئے یقیناً تمام جلسوں کے لئے یہ ایک مفید فکر ہے اور میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ یہ کام اچھا اور مفید ہے۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ عصمت کیا ہے ؟ تو اس سلسلہ میں اکثر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ عصمت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں بعض مخصوص افراد کی ہمیشہ نگرانی کیا کرتا ہے کہ جیسے ہی وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتے ہیں فوراً انھیں روک دیتا ہے۔ مسلّم طور پر عصمت کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور اگر ہون بھی تو یہ کسی کے لئے کمال کی بات نہیں ہے۔ اگر کسی بچہ پر ایک شخص برابر نگرانی رکھے اور اسے کوئی غلط کام کرنے نہ دے تو یہ اس بچہ کے لئے کوئی کمال شمار نہ یوگا۔ لین عصمت کا ایک مفہوم اور بھی ہے جو قرآن سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید حضرت یوسف صدیق کے بارے میں اس سخت منزل میں جب زلیخا ان کو اپنی طرف مسائل کر رہی تھی، فرماتا ہے ؛

” ولقد ھمت بہ ٰعنی اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔

وھم بھا لولا ان رابرھان ربہ [29] اور یوسف بھی اگر دلیل پروردگار کا مشاہدہ نہ کرتے ہوتے تو اس کا ارادہ کرتے۔

یعنی وہ بھی ایک انسان تھے،جوان تھے اور جذبات رکھتےتھے۔ زلیخا یوسف کی طرف بڑھی لیکن یوسف چونکہ صاحب ایمان آپ کی اچھائی اور برائی کو دیکھ رہے تھے وہ ایمان جو خدا نے یوسف کو عطا تھا، وہی ایمان آپ کو اس عمل سے روک رہا تھا۔ ہم میں کا ہر شخص کسی طاقت کے روکے ٹوکے بغیر بعض لغزشوں اور گناہوں سے معصوم ہے اور یہ ہمارے اس ایمانی کمال کا نتیجہ ہے جو ہم ان گناہوں کے خطرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی چار منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگانا۔ یا آگ میں کود پڑنا یہ بھی گناہ ہیں لیکن ہم پر گزان گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے خطرات و نقصان ہمارے لئے ثابت اور ایک دم عیاں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ادھر ہم نے بجلی کے تگے تار کو چھوا ادھر ہماری جان گئی۔ ہم صرف اسی وقت گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں جب ان خطرات سے آنکھیں بند کرلیں، لیکن ایک بچہ دہکتے ہوئے انگار پر ہاتھ مارتا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس خطرہ کا گناہ جس قدر ہم پر ثابت و عیاں ہے اس پر عیاں نہیں ہے ایک عادل انسان تقویٰ کا ملکہ رکھتا ہے اسی بنا پر بہت سے گناہ وہ سرے سے انجام ہی نہیں دیتا۔ یہی ملکہ اسے اس حد تک کہ وہ ان گناہوں سے دور رہے، عصمت بخشا ہے۔ بنابر ایں گناہوں سے عصمت کا تعلق انسان کے درجہ ایمان سے ہے کہ وہ فلاں گناہ کو گناہ اور فلاں خطرہ کو خطرہ سمجھتا ہے یا نہیں۔ ہم نے گناہوں کو نعبداً قبول کیا ہے یعنی ہم ی ہکہتے ہیں کہ چونکہ اسلام نے کہا ہے کہ شراب نہ ہو پیو اس لئے ہم نہیں پیتے۔ کہا ہے کہ جوا نہ کھیلو، ہم نہیں کھیلتے، ہم کم و بیش جانتے بھی ہیں کہ یہ جان برے ہیں، لیکن جس قدر خود کو آگ کے حوالے کردینے کا خطرہ یا گناہ ہم پر روشن و واضح ہے اس قدر ان گناہوں کے خطرات اور گناہوں پر یقین و ایمان رکھتے تو ہم بھی ان گناہوں سے معصوم ہوتے۔ پس گناہوں سے عصمت کا مطلب ہے منتہی وکمالِ ایمان۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے ” لو کشف الغطاء لما ازددت یقینی ” [30] “اگر پردے اٹھ جائیں پھر بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔” وہ قطعی طور پر گناہوں سے معصوم ہے۔ وہ پردے کے اس سمت سے بھی پس پردہ کی چیزوں کو مجسّم دیکھتا ہے۔ یعنی مثال کے طور پر وہ محسوس کرتا ہے کہ ایک بُری بات منہ سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حقیقتاً اپنی جان کے لئے ایک بچھو پیدا کرلیا ہے اسی بنا پر وہ ایسے کام نہیں کرتا، اور بلا شبہ قرآن بھی اس پایہ کے ایمان کا تذکرہ فرماتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ عصمت نسبی ہے یعنی اس کے مراتب و درجات ہیں۔

معصومین ان چیزوں میں جو ہمارے لئے گناہ ہے اور کبھی ہم ان کے مرتکب ہوتے ہیں اور کبھی ان سے پر ہیز کرتے ہیں معصوم ہیں اور ہر گز گناہ نہٰں کرتے ۔ لیکن تمام معصومین ایک جیسے نہیں ہیں۔ عصمت کو بھی مراحل و مراتب ہیں۔ عصمت کے بعج مراحل میں وہ ہمارے جیسے ہیں یعنی جس طرح ہم گناہوں سے معصوم نہیں ہیں، وہ حجرات بھی ( عصمت کے ان مراحل جیسے ہیں یعنی جس طرح ہم گناہوں سے معصوم نہیں ہیں، وہ حضرات بھی ( عصمت کے ان مراحل و مراتب ہیں ) معصوم نہیں ہیں۔ جن چیزوں کو ہم گناہ شمار کرتے ہیں ان میں وہ صدفی صد معصوم ہیں لیکن ایسی چیزیں بھی ان کے لئے گناہ ہیں جو ہمارے لئے حسنہ اور نیکیاں ہیں، کیونکہ ہم ( اس درجہ تک ) نہیں پہنچے ہیں۔ مثال کے طور پر درجہ پانچ کا طالب علم چھٹے درجہ کا کوئی سوال حل کردے تو یہ اس کے لئے باعث شرف و فضیلت اور انعام کے لائق بات ہے۔ لیکن اگر اسی سوال کو نویں درجہ کا طالب علم حل کرے تو یہ اس کے لئے کچھ اہمیت کی بات نہ ہوگی۔ اسی طرح سمجھیں کہ کچھ چیزیں ہمارے لئے تو حسنات ہیں لیکن ان کے لئے گناہ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن انبیاء کے معصوم ہونے کے باوجود ان کی طرف عصیان کی نسبت دیتا ہے ( وعصیٰ اٰدم ربہ ) [31] ( آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ) یا پیغمبر اسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتاہے :

“لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر [32]

تاکہ خدا وند عالم آپ کے پچھلے اور اگلے گناہوں کو بخش دے۔

ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عصمت ایک نسبی امر ہے۔ گویا وہ اپنی حد میں اور ہم اپنی حد میں۔ پس وصمت کی اصل و ماہیت گناہ سے ایمان کے درجہ اور کمال ایمان کی طرف پلٹتی ہے۔ انسان ایمان کے کسی بھی درجہ میں ہو لیکن جس موضوع سے متعلق وہ کامل ایمان رکھتا ہے۔ یعنی :

” ولم لا ان راٰ برھان ربہ ” کے درجہ پر فائز ہے اور دلیل پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس میں وہ لامحالہ معصوم ہے۔ نہ کہ خود معصوم بھی ہماری ہی طرح ہے کہ وہ گناہ و معصیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے لیکن اللہ کی طرف سے مامور کوئی فرشتہ اس کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے اور اسے روک دیتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو مجھ میں امیر المومنین میں کوئی فرق نہیں ہے کیو نکہ میں بھی گناہ کی طرف مائل ہوتا ہوں اور ( معاذاللہ ) وہ بھی مائل ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ان پر ایک ملک معین ہے جو انہیں اس کام سے روکتا ہے اور ہم پر اس طرح کا کوئی مامور نہیں ہے۔ اگر انسان کو گناہ سے روکنے کے لئے کو ئی خارجی مامور بھی موجود ہو تو یہ کوئی کمال کی بات نہ ہوئی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص چوری کرتا ہے اور میں چوری نہیں کرتا۔ لیکن میں جو چوری نہیں کرتا اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے اعمال کا نگراں ایک شخص ہمیشہ کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں، میں بھی اسی کی طرح چور ہوں فرق یہ ہے کہ کوئی نگراں اسے اس کام سے نہیں روکتا اور میرے حرکات و سکنات کا نگراں میری راہ میں حائل ہے۔ یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہوئی۔

مسئلہ عصمت میں اہم اور کلّی مسئلہ گناہ سے معصوم ہونے کا مسئلہ ہے۔ خطا سے معصوم ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہے اور اس کی بھی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک احکام کی تبلیغ میں خطا کا مسئلہ ہے مثلاً ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ہمارے لئے احکام بیان فرمائے ہیں لیکن شاید اس میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا ہے۔ شاید خدا وند عالم نے ان پر وحی کی اور شکل میں نازل فرمائی تھی لیکن آنحضرت نے اشتباہاً اسے دوسری طرح سے بیان فرمایا۔ بالکل یوں ہی جیسے ہم خطا کرتے ہیں۔ یعنی اس امکان پر کہ ممکن ہے پیغمبر نے تبلیغ احکام میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا ہو،سرے سے پیغمبر اسلام کی باتوں پر پر اعتمادی نہ ہو، قطعی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اب رہی تمام مسائل میں معصوم سے خظا کی بات تو یہاں انجینیئر صاحب نے اپنی عترت فیصلہ کا ثبوت دیتے ہوئے امیر المومنین پر ظلم کیا ہے اور واقعی یہ بہت بڑا ظلم ہے۔آپ نے کیسے تیزی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر آپ امیر المومنین کی جگہ پر ہوتے تو عبد اللہ ابن عباس کا انتخاب نہ کرتے، اور ؟ اسی طرح کے تاریخی مسائل میں ظنی وگمانی فیصلوں کے اظہار میں تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ مثلاً انسان کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرے کہ میں سوچتا ہوں اگر فلاں شخص پانچ سو سال پہلے اس کام کے بجائے یہ کام کرتا تو بہتر تھا، اور کوئی اس سے یہ کہے کہ کیا قطعی ایسا ہے؟ تو وہ جواب دے کہ میرا یہی خیال ہے؟ تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل میں کوئی قطعی فیصلہ کرنا امیر المومنین ہی کی نسبت نہیں؟ دوسرے افراد کی نسبت بھی صحیح نہیں ہے۔

حضرت ان واقعات و مسائل میں خود حاضر و ناظر تھے اور عبد اللہ بن عباس کو ہم اور آپ سے بہتر جانتے تھے، یوں ہی اپنے دوسرے اصحاب کو بھی ہم سے اور آپ سے زیادہ طور پر پہچانتے تھے۔ اور ہم اپنی جگہ بیٹھ کر قضاوت کریں کہ اگر حضرت علی عبد اللہ بن عباس کی جگہ پر کسی دوسرے کو منتخب فرماتے تو وہ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیتا۔ یہ در اصل اس طرح کے مسائل میں عجولا نہ قضاوت کی نشانی ہے۔ مزید یہ کہ آپ نے خود خود اپنے بیانات میں جن سے ہم ہمیشہ استفادہ کرتے رہے ہیں، برابر یہ بات ذکر کی ہے کہ علی ایک مخصوص سیاست پر گامزن تھے اور نہ وہ خود چاہتے تھے نہ ان کے لئے سزاوار ہی تھا کہ ذرہ برابر بھی اس سیاست سے الگ ہوتے اور یہ وہ راہ سیاست تھی جس میں ان کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے۔ حضرت خود بھی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ افسوس میرے پا س افراد نہیں ہیں۔ یہی عبد اللہ بن عباس اور دوسرے افراد حضرت علی کی خدمت میں آتے تھے اوران سے اپنی روش میں لوچ اور نرمی پیدا کرنے کی درخواست کرتے تھے یعنی وہی طرز عمل اپنانے کو کہتے تھے جسے آج کی دنیا میں سیاست کہتے ہیں۔ آپ کم از کم یہی ثابت کیجیئے کہ حضرت علی کے پاس ان کے ہم فکر و ہم نوا کافی افراد موجود تھے اور آپ نے ان کے درمیان اشخاص کے انتخاب میں اشتباہ سے کام لیا۔ میں تو شباہت نہیں کرسکتا کہ حضرت علی کے پاس حسب ضرورت افراد موجود رہے ہوں۔ میں بس اسی قدر جانتا ہوں کہ علی جنہیں پیغمبر نے خلافت کے لئے معین فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے خلافت پر قبضہ کر لیا تو اس قدر احتجاج اوار شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے میرا حق مجھ سے چھین لیا، لیکن عثمان کے بعد جبن لوگ آپ کی بیعت کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ خود کو اس امر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:

“دعونی والتمسوا غیری فانا مستقبلون امراً لہ وجوہ والوان وان الافاق قد اغامت والمحجّۃ قد تنکرت [33] مجھے چھوڑ دو اور ( اس خلافت کے لئے ) کسی دوسرے کو ڈھونڈلو۔ بلا شبہ ہامرے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ ہیں، جسے نہ دل برداشت کرسکتے ہیں اور نہ عقلیں مان سکتی ہیں۔ فضائیں تاریک ہوچکی ہیں اور راستہ پہچانتے میں نہیں آتا”

مفہوم یہ ہے کہ، حالات اب خراب ہوچکے ہیں، اب کام نہیں کیا جاسکتا یعنی نیرے پاس افراد نہیں ہیں، میرے رفقاء تمام ہوگئے اب میرے کام کے آدمی نہیں رہے ( جن کی مدد سے معاشرہ کی ) اصلاح کرسکوں۔ اس کے بعد فراماتے ہیں:

لولا حضور الحاضر وقیام الحجۃ لوجود الناصر

اب مجھ پر حجت تمام ہوگئی میں تاریخ کے روبرو کوئی عذر نہیں رکھتا تاریخ میری یہ بات نہیں مانے گی، کہا یہی جائے گا کہ علی نے موقع ہاتھ سے کھو دیا، اس کے باوجود کہ یہ موقع میرے لئے کوئی موقع نہیں ہے لیکن تاریخ کا منھ بند کرنے کے لئے کہ یہ نہ کہا جائے کہ بہترین موقع تھا جسے علی نے کھو دیا اس منصب کو قبول کرتا ہوں۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے خود اس کو اظہار فرمایا کہ میرے پاس آدمی نہیں ہیں اور یہ میری خلافت کا موقع نہیں ہے۔

انسان ہر شخص کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار ہوسکتا ہے لیکن خود حضرت علی کے لئے تاریخ کو بھی اس بات میں شک نہیے ہیں کہ آپ خود کو دوسروں کی بہ نسبت خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے اور اہل سنّت بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ علی خلافت کے لئے خود کو ابوبکر و عمر وغیرہ سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔ پھر یہ کیا ہوا کہ جو علی اپنے آپ کو ابوبکر و عمر سے خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے، جب لوگ عثمان کے بعد خلافت کے لئے اس کے پاس جائیں تو وہ پیچھے ہٹتا ہوا مظر آئے اور یہ کہے کہ:۔

تمہارا امیر بننے سے بہتر ہے کہ میں اس کے بعد بھی تمہارا مشیر ہی بن کررہاہوں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی کے پاس ایسے افراد نہیں تھے۔ اب اس کے اسباب و علل کیا تھے، یہ ایک دوسری بحث ہے۔

اب رہا:” ویؤمنون الزکوٰۃ وھم راکعون” کا مسئلہ تو اول یہ جو انہوں نے فرماءا کہ زکات انگوٹھی پر نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ کلی طور پر کارِ خیر کے لئے ہر طرح کے انفاق کو زکات کہتے ہیں۔ آج کل جو فقہا کی عرف میں زکات کی اصلاح رائج ہے اس سے مراد زکات واجب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی “یقیمون الصلوٰۃ ویؤمنون الزکوٰۃ ” آیا ہوا اس سے مراد یہی زکوٰۃ واجب ہے۔ زکات کا مطلب ہے مال کا پاک وصاف کرنا۔ حتیٰ کہ اس سے مراد روح و نفس کی زکات کہتا ہے۔ چنانچہ لفظ صدقہ کا مفہوم بھی اسی قدر وسعت رکھتا ہے آج صدقہ کا ایک خاص مفہوم ہے مثلاً کہتے ہیں صدقۂ سرّی ( چھپا کر صدقہ دینا ) لیکن قرآن ہر کار خیر کو صدقہ کہتا ہے۔ اگر آپ ایک اسپتال تعمیر کریں یا کوئی کتاب لکھیں جس کا فائدہ عام طور سے لوگوں کو پہنچتا ہو۔ قرآن کی نظر میں وہ صدقہ ہے “صدقۃ جاریۃ ” ایک جاری صدقہ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنّت نے بھی جب مزکورۃ آیت سے اخذ شدہ مفہوم پر اعتراض کرنا چاہا ہے تو اس لفظ پر ایسا کوئی اعتراض نہیں کیا ہے کہ زکات انگوٹھی سے متعلق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ ادبیات عرب سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ لفظ زکات، زکات واجب سے مخصوص نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ عمل حالت رکوع میں کیوں اور کیسے انجام پایا؟ یہ اعتراج فخرالدین رازی جیسے قدیم مفسرین نے بھی اٹھایا ہے کہ علی ہمیشہ حالت نماز میں اس قدر کھوجاتے تھے کہ انہیں ارد گرد کا احساس بھی نہ رہتا تھا۔ پھر آپ یہ کیسے کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں یہ عمل انجام ہایا؟ جواب یہ ہے کہ

اول تو: علی کا نماز کی حالت میں اپنے آپ سے بے خبر ہوجانا ایک حقیقت ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اولیائے خدا کے تمام حالات و کیفیات ہمیشہ ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ خود پیغمبر اکرم کے لئے دونوں کیفیتیں بیان کی جاتی ہیں۔ کبھی نماز کی حالت میں آپ پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی تھی کہ اذان کے تمام ہونے کی تاب بھی نہ رہتی تھی فرماتے تھے:” اَرحنایا بلال ” ائے بلال جلد اذان ختم کرو کہ ہم نماز شروع کریں اور کبھی نماز کی حالت میں ہوتے تھے، سجدے کے لئے سر مبارک کو خاک پر رکھتے تھے اور آپ کے نواسے امام حسن یا امام حسین آکر آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تھے اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ یوں ہی ٹھہرے رہتے تھے کہ یہ بچہ کہیں گر نہ پڑے اور جب تک نواسہ اتر نہ آتا تھا سجدہ کو طول دیتے تھے۔

ایک مرتبہ پیغمبر اکرم نماز میں قیام کی حالت میں تھے۔ نماز کی جگہ پر سامنے گویا کسی نے تھوک دیا تھا۔ پیغمبر نے ایک قدم آگے بڑھایا اور قاؤں سے اسے مٹی میں چھپادیا اس کے بعد اپنی جگہ واپس پلٹ آئے۔ فقہاء نے اس واقعہ کی روشنی میں نماز سے متعلق بہت سے مسائل اخز کئے ہیں۔ سید بحرالعولم فرماتے ہیں:۔

ومشی خیرا الکلق فی المحراب یفتح منہ اکثر الابواب

مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں پیغمبر اسلام دو قدم آگے بڑھے۔ وہ عمل انجام دیا اور واپس پلٹ آئے اس عمل نے بہت سے مسائل کو حل کردیا کہ نماز کی حالت میں کس حد تک اضافی عمل جائز ہے یا جائز نہیں ہے۔ اسی طرھ اور بہت سی باتوں کا حل مل گیا۔ چنانچہ ان حضرات کے حالات و کیفیات مختلف رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں دوسرا مطلب جو عرفانی ہے یہ ہے کہ وہ افراد جو عرفانی مزاق رکھتے ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ اگر استغراق و انجذاب کی کیفیت اپنے کمال پر ہوتو اس میں “بر گشت” کی حالت پائی جاتی ہے یعنی اس صورت میں انسان خدا کی ذات میں مستغرق ہونے کے ساتھ ہی ماسواے اللہ میں بھی مشغول رہتا ہے۔ یہ اہل عرفان کا خیال ہے اور میں بھی اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن اس جلسہ میں شاید بہت زیادہ قابل قبول نہ ہو کہ میں اسے عرض ہی کردوں۔ یہ خلع بدنی کے مسئلہ کی مانند ہے۔ جو افراد اس مرحلہ میں تازہ وارد ہوتے ہیں ایک لمحہ یا دو لمحہ ایک گھنٹہ تک اپنے آپ سے بے خبر یا اپنے جسم سے الگ ہوجاتے ہیں۔ بعض افراد ہر حال میں اپنے جسم سے الگ یا خود سے بے خبر رہتے ہیں ( البتہ میں اس کا معتقد ہی نہیں بلکہ عینی گواہ بھی ہوں مثال کے طور پر اس وقت ہمارے اور آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اپنے جسم سے دور الگ اور التعلق ہیں۔

اہل عرفان کی نظر میں یہ حالت و کیفیت کہ نماز کے دوران پاؤں سے تیر نکال لیا جائے اور انسان متوجہ نہ ہو، اس حالت و کیفیت سے ناقص تر ہے جس میں انسان نماز کے دوران فقیر وسائل کی طرف بھی متوجہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں وہ خدا سے غافل ہے اور فقیر کی طرف متوجہ ہے بلکہ اس کی توجہ خدا کی طرف اس قدر کامل ہے کہ اس حالت میں وہ تمام عالم کو اپنے سامنے موجود پاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام قرائن کی موجودگی میں ان حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

[18] سورہ مائدہ آیت نمبر ۳

[19] یہ معظمہ شیعوں کے نزدیک بہت محترم ہیں۔ اور خدیجہ کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی سب سے زیادہ جلیل المرتبت زوجہ ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی بہت محترم ہیں اور ان کی نگاہ میں خدیجہ و عائشہ کے بعد امّ سلمہ ہی معظم و محترم خاتون ہیں۔

[20] سورہ احزاب آیت ۳۲

[21] سورہ مائدہ آیت نمبر ۱

[22] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

[23] سورۂ ابراہیم آیت ۳۷

[24] سورۂ صافات آیت ۱۰۳۔۱۰۲

[25] سورۂ صٰفّٰت آیت ۱۰۴

[26] سورۂ ہود آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳

[27] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

[28] سورہ زخرف آیت ۲۸

[29] سورہ یوسف آیت ۲۴

[30] سفینۃ البحار ج۲ ص ۷۳۴ ( از حضرت علی علیہ السلام )

[31] سورہ طٰہٰ آیت ۱۲۱

[32] سورہ فتح آیت ۲

[33] ۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام۔ خطبہ۹۱

 

 

تبصرے
Loading...