اصلاح نفس کے لیے خلوت

کبھی کبھی انسان تنہائی کے عالم میں آینہ اٹھاتا ہے اور اپنے چہرے پر نگا ہ کرتا ہے تاکہ اس کی اچھائی اور برائی یا خوبصورتی اور بدصورتی کو دیکھے۔

خلوت اور تنہائی اپنے باطن کی اچھائی اور برائی کو دیکھنے کے لیے بہت ضروری ہے اس لیے کہ جلوت اور لوگوں کے مجمع میں انسان اپنی طرف نگاہ نہیں کر پاتا بلکہ صرف دوسروں کو دیکھتا ہے۔

پس ماہ رمضان خلوت میں بیٹھ کر اپنے آپ کو دیکھنے  اور اپنی اچھائیوں اور برائیوں کا محاسبہ کرنے کے لیے بہترین فرصت ہے۔

ماہ رمضان اپنا محاسبہ  اور حساب و کتاب کرنے کا موسم ہے۔

محاسبہ اور مراقبہ ایک آئنہ ہیں لیکن چہرے کے لیے نہیں بلکہ روح ونفس کے لیے۔ شاید انسان لوگوں کے مجمع میں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ میں اپنا حساب و کتاب کرنے کا موقع نہ پا سکے۔

اسی وجہ سے ماہ رمضان کے با برکت اور معنوی لمحات بہترین  فرصت ہیں اس کام کے لیے۔

اپنے آپ اور خدا سے خلوت اختیار کرنے کی فرصت، اور مجلس مراقبہ اور محاسبہ میں بیٹھنے کا وقت ہے ایسی فرصت ہے کہ جس میں اپنے دل کی کتاب کھولیں اور اپنا نامہ اعمال پڑھیں۔

تم یہ کہتے تھے کہ اتنی مشکلات اور پریشانیاں ہیں کہ تنہائی کی فرصت نہیں ملتی۔

پس یہ تمہارے لیے نایاب فرصت ہے اسے تمہیں غنیمت سمجھنا چاہیے  تمہیں تمرین اور پریکٹس کرنا چاہیے مجمع میں تنہائی کی، بھیڑ بھاڑ میں خلوت کی اور شور شرابہ میں خاموشی کی۔

رمضان کیا ہے اور تم جنت کے کس مقام پر ہو  ؟ ذرہ اس کا اندازہ لگاؤ۔

تم کون سی دعوت پر اس مہمانی میں تشریف لائے ہو؟

کس معنوی  دسترخوان  پر بیٹھے ہو ؟ تمہارے یہاں بیٹھنے اور یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟

یہ بھی ایک طرح کا محاسبہ  اور اپنا حساب و کتاب کرنا ہے۔

تمہیں معلوم ہے کہ تم ضیافت الٰہی کے دسترخوان پر بیٹھے ہو۔

اس دسترخوان کے لذیذ کھانے: سحرخیزی کی لذت، افطار کی معنویت، راتوں کو دعائے افتتاح اور کمیل کی قرائت ، قرآن کی تلاوت اور اس کے ساتھ انس پیدا کرنے کے جلسات، نماز شب میں گڑگراہٹ، روزانہ سے مخصوص دعاؤں کی پابندی، یہ تمام چیزیں اس خوان کی زینت ہیں۔ تمہیں دعوت دی ہے تا کہ اپنی ہمت اور توان کے مطابق ان غذاؤں کو استعمال کر سکو۔ اور اپنی جان و روح کو تقویت بخش سکو۔

تم خدا کے نیک بندوں کی بزم میں حاضر ہوئے ہو۔لہذا ان لمحات کو غنیمت جانو۔

تم کیا لے کر آئے ہو اس بزم میں اور کیا لے کر جاؤ گے یہاں سے؟

اس ماہ خودسازی میں تم نے اپنی کون سی خصلت اور عادت کو بدلا ہے اور کون سی اچھی صفت کو تحفہ کے طور پر حاصل کیا ہے؟

خدا کے ساتھ خلوت ایک عظیم نعمت ہے۔ کوئی دوسرا نہیں ہے جو تمہارے راز کو فاش کرے۔ تم ہو اور تمہارا خدا۔

اپنے درمیان سے پردے درکنار کر دو اور ا س کے ساتھ محرمیت اختیار کر لو۔

ان ایام میں کبھی کبھی تنہائی کی گلیوں میں ٹہلتے ٹہلتے اپنی کارکردگی پر فکر کرتے رہنا

کہ اس کے اندر مثبت نکات زیادہ ہیں یا منفی۔سفید نکات زیادہ ہیں یا سیاہ؟

مہینوں انتظار کیا کہ ماہ خدا آئے اور تم ہر طرف سے امید ختم کر کے اس کی طرف دست نیاز بلند کرو اور اسے اپنی تمام تر حاجتیں بیان کرو۔

شب ہائے قدر کے دوبارہ آنے کے لیے لمحے شمار کیا کرتے تھے۔

ابھی بھی ان راتوں میں اشک بہانے، گریہ و زاری کرنے، اور خدا سے مناجات کرنے کا مزہ تمہاری زبان میں باقی ہے۔سب مل کر خدا خدا کرنے، اس کے واقعی عاشقوں کی طرح اسے پکارنے کی طراوت اور رطوبت ابھی بھی باد نسیم کی طرح تمہارے وجود کی فضا کو معطر بنائے ہوئے ہے۔

قرار یہ تھا کہ گزشتہ رمضان میں اپنے آپ کو بخشواؤ گے اور خدا کی بخشش کی علامت اپنے گلے میں ڈال کر جاؤ گے۔لیکن کیا ہوا؟

اس سال بھی رمضان وہی کیفیت اور وہی معنویت لے کر آیا ہے۔

خدا کی رحمت ہمیشہ جاری و ساری ہے اگر کوتاہی ہے تو ہماری طرف سے ہے۔ ” اگر گدا کاہلی کرے تو صاحب خانہ کا کیا قصور؟” وہ اشک اور فریاد کہاں گئی؟

یہ سب صرف ان شب ہائے قدر سے مخصوص نہیں تھا۔

یہ طے نہیں تھا کہ وہ گریہ و زاری  وہ اپنے دل و جان کی گہرائیوں سے خدا کو پکارنا اور اس کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل و خوار سمجھنا صرف شب قدر میں مسجد کی درو دیوار میں منحصر ہو جائے۔

اس سال بھی یہ طے نہیں ہے کہ رمضان کی لذت کو، شب ہائے قدر کی معنویت کو، سحر کی نورانیت کو، قرآن اور دعا   کی مجلسوں کو نماز شب اور نوافل کی عادت کو ماہ رمضان میں چھوڑدو اور اس لباس بہشتی کو اتار کر ماہ شوال میں داخل ہو۔

پس عید فطر کس بات کی؟

جو چیز انسان عیدی کے طور پر لیتا ہے اسے پورا سال خرچ نہیں کرتا اور اس کو اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اسے کہیں گم نہیں کرتا۔

سچ مچ، اس ضیافت الٰہی سے تمہاری سوغات کیا ہے؟

ہاں، آئنہ اٹھاؤ اپنے باطن کو دیکھو، کہ تم کون ہو؟ کہاں ہو؟ اورکیا کر رہے ہو؟

ماہ مبارک کو خالی ہاتھ سے نہ جانے دینا۔

تبصرے
Loading...