اسلام میں فکری مآخذ

قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مزید برآں غور و فکر کے سرچشموں کی بھی خبر دیتا ہے۔ یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات و اطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن نے انہیں بیان کیا ہے۔ 

اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جن کا نتیجہ تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موضوعات پر اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے۔ ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔ 

پیغمبر اکرم نے ایسے علم کو بے ہودہ اور لغو کہا ہے جس کے ہونے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن وہ علوم جو فائدہ مند ہیں۔ ان کے لئے تحقیق کے تمام راستے کھلے ہیں۔ اسلام نے ان کی تائید کی ہے اور ان کے بارے میں شوق و رغبت بڑھائی ہے۔ 

قرآن کریم نے غور و فکر کے لئے تین موضوعات کو مفید اور سودمند بیان کیا ہے۔ 

(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب “رسالہ شناخت در قرآن” دیکھئے) 

عالم طبیعت

قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عالم طبیعت کی طرف توجہ دلاتی ہیں: طبیعت یعنی زمین آسمان ستارے سورج چاند بادل بارش ہوائیں دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا نباتات حیوانات حتیٰ ہر وہ محسوس چیز جو انسان کے اردگرد موجود ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں بہت دقیق غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر سے علم حاصل کرنا چاہئے۔ 

بطور مثال یہ آیت ملاحظہ ہو: 

قل انظروا ماذا فی السموات والارض (یونس ۱۰۱) 

“لوگوں سے کہہ دیجئے کہ غور کریں۔ مطالعہ کریں دیکھیں زمین و آسمان میں کیا کچھ ہے؟” 

تاریخ

قرآن کی بہت سی آیات گذشتہ قوموں کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں اور اسے حصول علم کا ایک منبع و سرچشمہ قرار دیتی ہیں۔ قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کے انقلابات یا تغیر و تبدل اصول و سنن کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔ تاریخ میں عزت ذلت کامیابی ناکامی فتح و شکست خوش بختی و بدبختی کا ایک خاص دقیق و منظم حساب کتاب ہے۔ اسی حساب کتاب اور قانون و ضابطہ کو جان کر موجودہ تاریخ عصر حاضر کی لگام اپنے ہاتھ میں لے جا سکتی ہے۔ اپنے اور لوگوں کی سعادت کے لئے ان اصول و روایات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ 

نمونہ کے طور پر یہ آیت مجیدہ ملاحظہ ہو: 

قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة المکذبین (آل عمران آیت ۱۳۷) 

“آپ سے پہلے قوانین اور اصول سنن روبہ عمل آ چکے ہیں۔ پس آپ ذرا زمین میں چل پھر کر گذشتگان کے آثار میں غور و فکر کریں اور دیکھیں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں ہم نے وحی کے ذریعے حقائق بیان کئے اور انہوں نے اسے جھوٹ سمجھا۔” 

انسانی ضمیر

قرآن انسانی ضمیر کو معرفت کا ایک خاص منبع و مآخذ قرار دیتا ہے۔ قرآن کی نظر میں تمام خلقت حقیقت کشف کرنے کے لئے اللہ کی آیات اس کی علامتیں اور نشانیاں ہیں۔ قرآن انسان کی بیرونی دنیا کو “آفاق” اور اندرونی دنیا کو “انفس” کے نام سے یاد کرتا ہے۔ ( سورہ فصلت آیت ۵۳) 

اسی طرح قرآن نے انسانی ضمیر کی خاص اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسلامی ادبیات میں “آفاق و انفس” کی اصطلاح یہیں سے پیدا ہوئی ہے۔ 

جرمن فلسفی “کانٹ” کا ایک مشہور عالم جملہ جو اس کی قبر پر بھی کندہ ہے۔ 

کانٹ کہتا ہے کہ “دو چیزیں انسان کو سخت تعجب میں ڈال دیتی ہیں ایک ستاروں سے بھرا آسمان جو ہمارے سروں پر قائم ہے اور دوسرا وجدان و ضمیر جو ہمارے اندر ہے۔”  

تبصرے
Loading...