اسلام ایک ہمہ گیر انسانی تہذیب

اسلامی تہذیب کی بنیاد فطرت اور عقلِ انسانی پر ہے اور یہ کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور کائنات کی فطرت الٰہی فطرت کا پرتو ہے لہٰذا اس کے خلاف انسان اگر حرکت کرے گاتو وہ تہذیب اسلامی کے خلاف حرکت ہوگی جوفردِ اور معاشرے کے لئے ضرر رساں ہوگی۔

انسان کے کسی بھی عمل اور سوچ کو انسانی معاشرے سے لا تعلق نہیں مانا جاسکتا اسی طرح انسانی معاشرے کا مجموعی کردار بھی ہر فرد کے لئے تاثیر رکھتا ہے لہٰذا فرد اورمعاشرہ ایک دوسرے سے ہرگز بے گانہ نہیں ہوسکتے۔

فرد معاشرے کے لئے ذمہ دار ہے اور معاشرہ فرد کے لئے ۔ جب اسلام کا یہ تصور ہو تو پھر اسلامی تہذیب سے مراد ایک انسانی تہذیب ہے اور اسلام کی تعلیمات اور اقدار ساری انسانیت کے لئے سرمایہ اور ورثہ ہیں، اس پر کسی گروہ، نسل، علاقے یا قوم کی اجارہ داری کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے ہر وہ فکر اور ہر وہ کام جو انسانی فطرت اور عقل کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئے، اسلامی ہے اگرچہ اس پر اسلام کا لیبل چسپاں نہ بھی کیا گیا ہو۔

جب بھی غور اور مطالعہ کیا جائے گا ایسے فکروعمل کو انبیاءالٰہی کی تعلیمات کا نتیجہ پایا جائے گا۔ اس لئے تمام انبیاءکی تعلیمات بھی بشریت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ انبیاءعقل وفطرت کے راستے پر انسان کو دعوت دیتے تھے اور اس راستے سے انحراف کے خطرناک عواقب و نتائج سے ڈراتے تھے لہٰذا تمام انبیاءساری بشریت کے لئے محترم ہیں اور اسلام ان میں کسی تفریق کا روادار نہیں۔

قرآن نے اسی بات کو ”ہم اُس کے رسولوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے“ کہہ کر بیان کیا ہے۔ ان کی کتب پر ایمان کو نا گزیر قرار دے کر قرآن ان کی تعلیمات کی سچائی اور درستی کی تائید کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سب انبیاءایک ہی دین کے پیروکار اور مبلغ تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن نے تمام انبیاءکے نام نہیں لیے اور نہ روایات (بشمول اسرائیلیات) میں تمام انبیاءکے نام آئے ہیں۔ قرآن اور پیغمبراسلام کو اپنی تعلیمات کی وضاحت اور ماقبل انبیاءکی تائید نیز وضاحتی مثالوں کے لئے جہاں اور جب ضرورت پڑی کسی ایسے نبی کا تذکرہ فرمایا ہے جس سے مخاطبین اولین پہلے ہی سے کسی حد تک مانوس تھے اور حکمت کلام کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس لئے عرب سرزمین سے باہر بھی قدیم متون میں آج بھی الٰہی تعلیمات کی جھلک نظرآتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مصاحف آسمانی اورعظیم الٰہی انسانوں کی تعلیمات کی دستاویزات انسانی دست برد اور حوادثِ تاریخ سے محفوظ نہ رہ سکیں سوائے قرآنِ پاک کے جو خاتم النبین پر اتارا گیا۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم مقدس کتابوں میں تمام تر تاریخی حادثات کے باوجود انبیاءکی بنیادی ترین تعلیمات موجود ہیں اور یہ تمام کتب ہم افق معلوم ہوتی ہےں۔جب ہم اسلامی یا دینی تہذیب کی بات کرتے ہیں اور جب ہم اس کا رشتہ انبیاءاور ان کی تعلیمات سے جوڑتے ہیں تو درحقیقت ہم اس کائنات کی روحانی تعبیر کے بارے میں اپنی معرفت اور ایمان کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو کائنات کو یک بعدی دیکھتے ہیں ان کی معرفت کو ہم ناقص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اسلامی تہذیب کو انسانی تہذیب کہتے ہیں تو ہم یہ بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم مرد اور عورت کو ایک حقیقتِ انسانی کے دومظاہر اور عناصر سمجھتے ہیں جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے ۔”ہم نے تمھیں نفسِ واحدہ پیدا کیا،پھر اُسے مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا اور پھر اُن کے ملاپ سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا کیں۔“

نیز جب ہم تہذیب انسانی کی بات کرتے ہیں اور اسلامی تہذیب کو انسانی تہذیب کہتے ہیں تو ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ انسان جو ہر خلقتِ الٰہی ہے اور انسانی باطن جلوہ گاہِ اسماءالٰہی ہے، اسی لئے اس اشراف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاءکی تعلیمات کا مرکز تکریم آدمیت رہی ہے اور قرآن نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ”ہم نے بنی آدم تکریم و عزت عطا کی“ ، ”ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا“ اور ” میں نے اپنی روح میں سے اس میں پھونکا“۔

یہاں پر یہ واضح کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے فہم کے حوالے سے ایک مشکل اس کی یک بُعدی شناخت کی رہی ہے ۔کسی نے اسے احکام فقہی کے حوالے سے دیکھا، کسی نے علم کلام کی بحثوں میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی، کوئی اسے حدود و تعزیرات کے قدیم کتابی تصورات کی عینک سے دیکھا کیا، کسی نے عبادات وذکروفکر میں محدود جانا، کسی نے حکومت سازی کے پہلو سے سمجھا، کسی نے قرآنی بلاغت واعجاز ہی کو اسلام کا سب کچھ جانا، کسی نے کفرواسلام کے معرکہ ہائے با لسیف میں اسے تلاش کیا، کوئی ظواہر کلام سے چمٹ گیا اور حرفیت پسندی میں بند ہوگیا اور کوئی اسے پیغمبراسلام کے دور کے عرب کلچر سے ممتاز نہ کر سکا، علیٰ ھذا القیاس۔

ان میں سے ہر کسی کے پاس سچائی کا ایک پہلو موجود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کو ایک ہمہ گیر انسانی اور الٰہی تہذیب کی حامل تعلیمات کا امین اور پرچم بردار جانا جائے جس نے مساوات وتکریم انسانی کا پیغام پہنچایا ۔ جس نے قانونی مساوات پر زور دیا۔ جس نے عورت کو بھی مرد کے برابر انسانی شرف کا حامل قراردیا۔ جس نے قبائل وشعوب کی بنیاد پر لڑنے والوں کو آدمیت کی لڑی میں پرو دیا۔ جس نے معاشی عدالت کے تصور کو پروان چڑھایا۔ جس نے گورے اور کالے میں فرق کو روا نہیں جانا۔ جس نے عرب وعجم کی تمیز کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا۔ جس نے حکمرانی کے انسانی و الٰہی تصورات کو اجاگر کیا۔

جس نے فطرت وعقل کے خزانوں کو دریافت کیا۔ جس نے تعلیم وتعلم کی فضا پیدا کی۔ جس نے دین میں اکرا ہ کی نفی کی۔ اس نے شرف انسانی کے دشمنوں کے خلاف جرات وشہامت سے جہاد کو فروغ دیا۔ جس نے مذہب اور روایات کے نام پر بنائی گئی زنجیروں کواتار پھینکا۔ جس نے انسانوں کو عادت وروایت، رسم ورواج ، آباءپرستی ،اندھی تقلید اور جمود فکر سے نجات کا پیغام دیا۔ جس نے انسانی اخلاق کا ہمہ گیر اور کمال آفریں تصور دیا۔ جس نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دے کر ہر فکروعمل کے دائمی اور لازوال اثرات کا تصور پیش کیا۔

جس نے انسانوں کواحترام باہم کا پیغام دیا۔ جس نے نیکی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر باہمی تعاون کو معاشرے میں ہم کاری کی بنیاد قرار دیا۔ جس نے ماقبل کے سچے انسانوں اورماقبل کی پاکیزہ عقلی تعلیمات کی نفی پر نہیں بلکہ ان کی تائید پر اپنی تعلیمات کی بنیاد رکھی اور انھیں اپنی جدوجہد کے لئے سرمایہ بنا لیا۔ جس نے معاشرے میں موجود مفید روایات اور قوانین سے بھی استفادہ کیا۔ جس نے امرونہی کے تصور کو معاشرے کے عرف اور ضمیر انسانی کی آواز سے جوڑ دیا۔ کیا ایسی خصوصیات کے حامل اسلام کو مذکورہ بالا ابعاد میں سے کسی ایک میں مقید کیا جاسکتا ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام ایک ہمہ گیر انسانی تہذیب کا حامل ہے۔

تبصرے
Loading...