اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب

اسلام کے جو ایسے تصور کائنات (جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے) پر مبنی ہے ایک ایسا مکتب ہے جو ہمہ گیر اور حقیقت پسند ہے۔ دنیاوی اخروی جسمانی و روحانی عقلی و فکری حساسی و جذباتی انفرادی و اجتماعی انسانی ضرورتوں کے تمام پہلوؤں پر اسلام نے توجہ دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو مجموعی طور پر تین شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(الف) اصول عقائد

چیزیں جن کے بارے میں ہر آدمی کی ذمہ داری ہے کہ ان کے بارے میں اپنا عقیدہ قائم کرے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت تحقیقی و علمی ہوتی ہے۔

(ب) اخلاقیات

ایسی صفات اور خصائل کا مجموعہ جن کا حصول ہر مسلمان شخص کے لئے ضروری ہے۔ ہر مسلمان فرد کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان صفات اور خوبیوں سے آراستہ کرے اور ان سے متضاد و متصادم امور سے اپنے آپ کو بچائے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت خود سازی اور نفس کی نگہداری کرنا ہے۔

(ج) احکام

ایسے اوامر کا مجموعہ ہے جو انسان کی خارجی اور حقیقی سرگرمیوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ یہ تمام معاشی مساوی دنیوی اخروی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں پر محیط ہوتے ہیں۔

شیعہ مذہب کے مطابق اسلامی عقائد کے پانچ اصول ہیں: توحید عدل نبوت امامت اور قیامت۔ یہ وہ عقائد ہیں جن کے بارے میں اسلام کے نزدیک صحیح عقیدے کا حصول ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اسلام ان اصول عقائد کے بارے میں تقلید اور تعبد کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شخص خود سے آزادی اور اختیار کے ساتھ ان عقائد کی درستگی کو جانے۔ اسلام کی نظر میں عبادت فقط نماز روزہ جیسی بدنی عبادات تک محدود نہیں اور نہ ہی زکوٰة و خمس جیسی مالی عبادات میں اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔ بعض اور عبادات بھی ہیں جن میں سے ایک فکری عبادت ہے۔ غور و فکر یا سوچ و بچار جیسی یہ فکری عبادت اگر انسان کو متنبہ اور بیدار کرنے کے لئے ہو تو یہ سالہا سال کی بدنی عبادت سے افضل اور بالاتر ہے۔

قرآن کی نظر میں فکری لغزش کے مقامات

قرآن مجید جو غور و فکر اور فکری بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ تفکر کو عبادت شمار کرتا ہے اصول عقائد کو منطقی غور و فکر کے بغیر ٹھیک نہیں سمجھتا۔ اسی پس منظر میں قرآن نے ایک بنیادی مطلب کی طرف توجہ دی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی فکری لغزشوں کا سرچشمہ کیا ہے اور خطا و گمراہی کی اصل جڑ کہاں ہے؟ اگر انسان یہ چاہے کہ ٹھیک ٹھیک سوچے غلطی نہ کرے منحرف نہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟

قرآن مجید نے بعض امور کو غلطیوں کی علت اور گمراہیوں کے سبب کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

علم و یقین کی بجائے ظن و گمان پر اعتماد

قرآن گویا ہے:وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن( انعام ۱۱۶)

“بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کی بات ماننے لگو تو تمہیں راہ حق سے بھٹکا دیں گے کیوں کہ وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف اندازے ٹیوے سے کام لیتے ہیں۔”

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں ظن و گمان کی پیروی کی شدید مخالفت کی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ولاتقف مالیس لک بہ علم(اسراء ۳۶)

“جب تک کسی چیز کے بارے میں تمہیں علم و یقین حاصل نہ ہو جائے اس کے پیچھے نہ چلو۔ “

آج فلسفی نقطہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشتباہات اور غلطیوں کے بڑے اسباب میں سے ایک یہی ہے۔ قرآن سے ہزار سال بعد “ڈیکارٹ” نے اپنا پہلا منطقی اصول یہ قرار دیا اور کہا کہ میں کسی چیز کو حقیقت نہیں مانوں گا جب تک وہ چیز میرے لئے یقینی نہ ہو جائے۔ اپنی “تصدیقات” کے معاملے میں جلد بازی ذہنی سابقے اور میلان سے پرہیز کروں گا۔ اس وقت تک کسی چیز کو قبول نہیں کروں گا جب تک وہ چیز میرے لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک نہ ہو جائے۔ (سیر حکمت در اروپا جلد اول)

میلانات اور ہوائے نفس

اگر انسان صحیح فیصلہ کرنا چاہے تو جس بات پر وہ سوچ رہا ہو اس کے بارے میں اسے مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ حقیقت پسند بننے کی کوشش کرے دلیل و مدارک کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ بالکل ایک جج کی طرح کہ جب وہ کسی فائل کا مطالعہ کرے تو اسے مقدمے کے دونوں فریقوں کے بارے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر قاضی یا جج کا ذاتی رجحان کسی ایک کی طرف ہو تو غیر شعوری طور پر اسی فریق کے دلائل اس کے لئے جاذب نظر ہوں گے اور اس کے خلاف آنے والے دلائل یا دوسرے فریق کے حق میں جانے والے دلائل خود بخود اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے جائیں گے اور یہ امر قاضی کی خطا کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپنے افکار میں کسی مطلب کی نفی یا اثبات پر اپنے آپ کو غیر جانبدار نہ رکھے اور اس کا ذاتی رجحان کسی اور طرف ہو تو خود بخود اس کی توجہ کے بغیر ہی اس کی فکر کی سوئی اس کے ذاتی رجحان یا اس کی نفسانی خواہش کی طرف مڑ جائے گی۔ اسی لئے قرآن نے ظن و گمان کی طرح ہوائے نفس کو بھی لغزش کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ان یتبعون الا الظن و ماتھوی الانفس ( سورہ نجم آیت ۲۳)

“یہ لوگ تو صرف اپنے ظن و گمان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔”

جلد بازی

ہر فیصلے اور اظہار کے لئے کچھ معین اسناد ضروری ہوتی ہیں جب تک کسی مسئلے پر مطلوبہ اسناد حاصل نہ ہوں کسی بھی قسم کا اظہار نظر جلد بازی اور فکری لغزش کا موجب ہو گا۔ قرآن کریم بار بار انسانی علمی سرمائے کے کم ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے مزید بعض بڑے فیصلوں کے لئے اس کے ناکافی ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ قطعی و حتمی اظہار کو احتیاط سے دور سمجھتا ہے مثلاً:

ما او تیتم من العلم الا قلیل ( سورہ اسرا آیت ۸۵)

“تمہیں جتنا علم دیا گیا ہے وہ کم ہے اور قضاوت کے لئے کافی نہیں ہے۔ “

امام صادق فرماتے ہیں: ۱قرآن میں خدا نے اپنے بندوں کو دو آیتوں کے ذریعے نصیحت کی ہے۔ اول یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم پیدا نہ کر لیں تصدیق نہ کریں (تصدیق کرنے میں جلد بازی نہ کریں)۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہ کر لیں اور علم و یقین کے مرحلے تک نہ پہنچ جائیں اس چیز کی نفی نہ کریں اسے رد نہ کریں (انکار کرنے میں جلد بازی)۔ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں:

الم یوخذ علیھم میثاق الکتاب ان لا یقولو اعلی اللّٰہ الا الحق ( سورہ اعراف آیت ۱۲۹)

“کیا ان سے کتاب (کتاب فطرت یا آسمانی کتب) میں وعدہ نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے (بات کا حق سچ ہونا ضروری ہے)۔”

ایک اور آیت میں یوں فرمایا:بل کذبو ابمالم یحیطوا بعلم ( سورہ یونس آیت ۳۹)

“انہوں نے اس چیز کا انکار کیا اور جھٹلایا جس پر ان کو کوئی احاطہ نہ تھا (یعنی اسے نہ جانتے تھے)۔” (تفسیرالمیزان (عربی) ج ۶ ص ۳۱۹)

 آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

انسان اپنی طبیعت اولیٰ کے تحت جب دیکھتا ہے کہ کوئی ایک خاص فکر و عقیدہ گذشتہ نسلوں میں موجود تھا تو خود بغیر سوچے سمجھے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ قرآن یاددہانی کرواتا ہے کہ گذشتہ نسلوں کے افکار و نظریات کو جب تک عقل و منطق کے معیار پر نہ پرکھو انہیں قبول نہ کرو۔ پہلی نسلوں کے عقائد کے حوالے سے تمہیں آزاد فکر ہونا چاہئے۔

و اذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللّٰہ قالوا بل نتبع ما الفینا علیہ آبائنا اولو کان آباؤ ھم لا یعقلون شیاً و لا یھتدون ( سورہ بقرہ آیت ۱۷۰)

“جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے وحی کے ذریعے جو کچھ نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم صرف اپنی راہ و رسم اور روایات پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا۔”

کیا اگر ان کے آباؤ اجداد کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور انہیں کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا ہو پھر بھی یہ انہی کی پیروی کریں گے؟

شخصیت پرستی

فکری لغزشوں کے اسباب میں سے ایک سبب شخصیت پرستی بھی ہے۔ عظیم تاریخی شخصیات یا معاصر بڑی بڑی شخصیات لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ان کی فکر سوچ ارادے اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ درحقیقت دوسروں کے فکر و ارادہ کو مسخر کر لیتی ہیں۔ پھر دوسرے لوگ اسی طرح سوچتے ہیں جیسے وہ سوچیں اور اسی طرح فیصلے کرتے ہیں جیسے ان کے فیصلے ہوں۔ اس طرح لوگ ان کے سامنے اپنا ارادہ اور فکری آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔

قرآن ہمیں فکری آزادی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑوں کی اندھی تقلید کو دائمی بدبختی کا سبب گردانتا ہے۔ بنابرایں اسی راستے سے گمراہی پر چل نکلنے والوں کی زبانی کہتا ہے:

ربنا انا اطعنا سادتنا و کبرانا فاضلونا السبیلا ( سورہ احزاب آیت ۶۷)

“ہمارے خدا ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں کی پیروی اور اطاعت کی نتیجتاً انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔”

اسلام میں فکری مآخذ

قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مزید برآں غور و فکر کے سرچشموں کی بھی خبر دیتا ہے۔ یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات و اطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن نے انہیں بیان کیا ہے۔

اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جن کا نتیجہ تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موضوعات پر اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے۔ ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔

پیغمبر اکرم نے ایسے علم کو بے ہودہ اور لغو کہا ہے جس کے ہونے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن وہ علوم جو فائدہ مند ہیں۔ ان کے لئے تحقیق کے تمام راستے کھلے ہیں۔ اسلام نے ان کی تائید کی ہے اور ان کے بارے میں شوق و رغبت بڑھائی ہے۔

قرآن کریم نے غور و فکر کے لئے تین موضوعات کو مفید اور سودمند بیان کیا ہے۔

(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب “رسالہ شناخت در قرآن” دیکھئے)

 عالم طبیعت

قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عالم طبیعت کی طرف توجہ دلاتی ہیں: طبیعت یعنی زمین آسمان ستارے سورج چاند بادل بارش ہوائیں دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا نباتات حیوانات حتیٰ ہر وہ محسوس چیز جو انسان کے اردگرد موجود ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں بہت دقیق غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر سے علم حاصل کرنا چاہئے۔

بطور مثال یہ آیت ملاحظہ ہو:قل انظروا ماذا فی السموات والارض (یونس ۱۰۱)

“لوگوں سے کہہ دیجئے کہ غور کریں۔ مطالعہ کریں دیکھیں زمین و آسمان میں کیا کچھ ہے؟”

 تاریخ

قرآن کی بہت سی آیات گذشتہ قوموں کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں اور اسے حصول علم کا ایک منبع و سرچشمہ قرار دیتی ہیں۔ قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کے انقلابات یا تغیر و تبدل اصول و سنن کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔ تاریخ میں عزت ذلت کامیابی ناکامی فتح و شکست خوش بختی و بدبختی کا ایک خاص دقیق و منظم حساب کتاب ہے۔ اسی حساب کتاب اور قانون و ضابطہ کو جان کر موجودہ تاریخ عصر حاضر کی لگام اپنے ہاتھ میں لے جا سکتی ہے۔ اپنے اور لوگوں کی سعادت کے لئے ان اصول و روایات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

نمونہ کے طور پر یہ آیت مجیدہ ملاحظہ ہو:قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة المکذبین (آل عمران آیت ۱۳۷)

“آپ سے پہلے قوانین اور اصول سنن روبہ عمل آ چکے ہیں۔ پس آپ ذرا زمین میں چل پھر کر گذشتگان کے آثار میں غور و فکر کریں اور دیکھیں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں ہم نے وحی کے ذریعے حقائق بیان کئے اور انہوں نے اسے جھوٹ سمجھا۔”

انسانی ضمیر

قرآن انسانی ضمیر کو معرفت کا ایک خاص منبع و مآخذ قرار دیتا ہے۔ قرآن کی نظر میں تمام خلقت حقیقت کشف کرنے کے لئے اللہ کی آیات اس کی علامتیں اور نشانیاں ہیں۔ قرآن انسان کی بیرونی دنیا کو “آفاق” اور اندرونی دنیا کو “انفس” کے نام سے یاد کرتا ہے۔( سورہ فصلت آیت ۵۳)

اسی طرح قرآن نے انسانی ضمیر کی خاص اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسلامی ادبیات میں “آفاق و انفس” کی اصطلاح یہیں سے پیدا ہوئی ہے۔

جرمن فلسفی “کانٹ” کا ایک مشہور عالم جملہ جو اس کی قبر پر بھی کندہ ہے۔

کانٹ کہتا ہے کہ”دو چیزیں انسان کو سخت تعجب میں ڈال دیتی ہیں ایک ستاروں سے بھرا آسمان جو ہمارے سروں پر قائم ہے اور دوسرا وجدان و ضمیر جو ہمارے اندر ہے۔”

تبصرے
Loading...