اسلام اورحجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام کي تاکيد

يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوئ استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے،خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر وزمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے۔

حجاب و پردے ميں اسلام کي سنجيدگي

اسلام، خاندان اورگھرانے کيلئے بہت زيادہ اہميت کا قائل ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کي تمام پروپيگنڈا مشينريوں کا اختلاف اورجرح و بحث اِسي مسئلے پر ہے۔ آپ ديکھئے کہ اہل مغرب حجاب و پردے کے مسئلے پرکتني حسّاسيت ظاہر کرتے ہيں! اگر يہ حجاب ، اسلامي جمہوريہ ميں ہو اُسے برا شمار کرتے ہيں، اگرعرب ممالک کي يونيورسٹيز و جامعات ميں ہو کہ جہاں جوان لڑکياں اپني معرفت، آگاہي اور اپنے تمام ميل و اختيار سے حجاب کا انتخاب کرتي ہيں ،تو اپني حساسيت ظاہر کرتے ہيں اور اگر سياسي پارٹيوں اور جماعتوں ميں حجاب ہو تو بھي ان کي بھنويں چڑھ جاتي ہيں۔حتي اگرخود اُن کے اسکولوں ميں لڑکياں باحجاب ہوں تو باوجود يہ کہ يہ لڑکياں اُن کے ملک کي باشندہ ہيں ليکن پھر بھي يہ لوگ حجاب کي نسبت حسا س ہوجاتے ہيں۔ پس اختلاف کي جڑ يہيں ہے۔ البتہ خود يہ لوگ اپني پروپيگنڈا مشينري کے ذريعے ہر وقت فرياد بلند کرتے رہتے ہيں کہ اسلام ميں يا اسلامي جمہوريہ ميں خواتين کے حقوق کو پائمال کيا جارہا ہے ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ خود اُن کو اس مسئلے کا يقين نہيں ہے اور وہ جانتے ہيں کہ اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کے حقوق کمزور اور پائمال ہونے کے بجائے اُن کا بہت زيادہ خيال رکھا جاتا ہے۔

اسلامي انقلاب اورحقوق نسواں!

آپ توجہ کيجئے کہ آج ايران کے اعليٰ تعليمي اداروں اور جامعات ميں خواتين طالب علموں اور تحصيل علم ميں مصروف لڑکيوں کي تعداد زيادہ ہے يا زمانہ طاغوت ميں؟ توآپ ديکھيں گے کہ تعداد آج زيادہ ہے ۔ حصول تعليم کے ميدان ميں اچھي پوزيشن اور اچھے نمبر (درجات) لانے والي لڑکيوں کي تعداد آج زيادہ ہے يا شاہي حکومت کے زمانے ميں تھي۔ وہ خواتين جو ہسپتالوں ، صحت کے مراکز اورمختلف علمي اداروں ميں کام اور تحقيق ميں مصروف عمل ہيں آج اُن کي تعداد زيادہ ہے يا گزشتہ زمانے ميںزيادہ تھي؟ وہ خواتين جو ملکي سياست اور بين الاقوامي اداروں ميں اپني شجاعت و دليري کے ذريعے اپنے ملک و قوم کے حقوق اور موقف کا دفاع کرتي ہيں، اُن کي تعداد آج زيادہ ہے يا انقلاب سے قبل اُن کي تعداد زيادہ تھي؟ آپ ديکھيں گے کہ ان کي تعداد آج پہلے کي نسبت زيادہ ہے۔شاہي حکومت کے زمانے ميں خواتين مختلف گروپوں کي شکل ميں سياحت اور سفر کيلئے جاتي تھيں اور يہ سفر بہت اعليٰ پيمانے پر ہوتے تھے ليکن ہوس راني، شہوت پرستي اور اپني وضع قطع اورزينت و آرائش کو دوسروں کو دکھانے کيلئے۔ ليکن آج کي مسلمان عورت بين الاقوامي اداروں ، بين الاقوامي کانفرنسوں، علمي مراکز اور جامعات ميں علمي ،سياسي اور ديگر قسم کي فعاليت انجام دے رہي ہے اور انہي چيزوں کي قدرو قيمت ہے۔

مغربي اور مغرب زدہ معاشرے ميں خواتين کي صورتحال

طاغوتي ايام ميں ہماري لڑکيوں کو ’’آئيڈيل لڑکي‘‘اور ’’بہترين مثال‘‘ کے نام سے خاندان اور گھرانوں کے پاکيزہ اور پيار ومحبت سے لبريز ماحول سے باہر کھينچ کر برائيوں کي کيچڑ ميں ڈال ديتے تھے ليکن آج ايسي کوئي بات نہيں۔ حقوق نسواں کہاں ضايع ہوتے ہيں؟ جہاں خواتين سے تحصيل علم، مناسب ملازمت ، اُن کي فعاليت اور خواتين کي خدمت کرنے جيسے اہم امور کے دروازے خواتين پر بند کرديے جاتے ہيں اور جہاں اُنہيں تحقير و تذليل کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ جائيے اور امريکي معاشرے کو ديکھئے! آپ مشاہدہ کريں گے کہ اُس معاشرے ميں عورت کي کتني تحقير کي جاتي ہے! گھر کي عورت ، شوہر کي طرف سے اہانت کا نشانہ بنتي ہے اورماں اپنے بچوں کي طرف سے تحقير کا۔ ماں کے حقوق کہ جس طرح اسلامي مراکز اور معاشروں ميںموجود ہيں، اُس معاشرے ميں اُن کا تصور بھي ممکن نہيں۔

خواتين، معاشرہ اور حجاب!

ميں نے ايک بين الاقوامي فورم ميں بہت ہي اہم اور معروف تقرير ميں خاندان اور گھرانے سے متعلق گفتگوکي۔ بعد ميں جو رپورٹ ہميںملي وہ اِس بات کي عکاسي کررہي تھي کہ اُس ملک کے باشندوں نے ميري تقرير کے اُسي حصے کو بہت توجہ سے سنا اور بہت زيادہ پسنديدگي کا اظہار کيا ۔ وجہ يہ ہے کہ اُن ممالک ميں خاندان اور گھرانوں کي صورتحال بہت خراب ہوچکي ہے اور وہاں کے معاشرتي نظام ميں خواتين مختلف قسم کي ظلم کي چکي ميں پِس رہي ہے ۔ ليکن ہمارے يہاں مرد و عورت کے درميان ايک حد اورفاصلہ موجود ہے۔ اِس حد اورفاصلے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ مرد وعورت ايک جگہ علم حاصل نہيں کريں،ايک جگہ عبادت انجام نہ ديں اور ايک جگہ کاروبار اورتجارت نہ کريں، اس کي مثاليں ہمارے يہاں زيادہ موجود ہيں ، بلکہ اس کا معني يہ ہے کہ وہ اپني معاشرتي زندگي ميں اپنے اخلاق و کردار کيلئے اپنے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديں اوريہ بہت اچھي چيز ہے۔ ہمارے معاشرے ميں خواتين (مردوں کے ساتھ معاشرتي تعلقات کے باوجود) اپنے حجاب کي حفاظت کرتي ہيں۔ ہماري عوام نے حجاب کيلئے چادر کو منتخب کيا ہے۔ البتہ ہم نے کبھي يہ نہيں کہا کہ ’’حجاب و پردے کيلئے صرف چادرکو ہي ہونا چاہيے اورچادر کے علاوہ کوئي اور چيز قابل قبول نہيں ہے‘‘، ہاں ہم نے يہ کہا ہے کہ ’’چادر دوسري چيزوں سے زيادہ حجاب کيلئے موزوں اور بہترين ہے‘‘۔ ہماري خواتين اِس بات کي خواہاں ہيں کہ وہ اپنے پردے کي حفاظت کريں لہٰذا وہ چادر کو پسند کرتي ہيں۔ چادر ہماري خواتين کا قومي لبا س ہے۔ چادر قبل اس کے کہ اسلامي حجاب ہو، ايک ايراني حجاب ہے۔ چادر ہماري عوام کا منتخب کيا ہوا حجاب اور خواتين کا قومي لباس ہے۔

اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کي ترقي

ہمارے معاشرے ميں تعليم يافتہ،مسلمان اورباايمان خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے جو يا تحصيل علم ميں مصروف ہيں يا ملکي جامعات ميں اعليٰ درجے کے علوم و فنون کو بڑے پيمانے پر تدريس کررہي ہيں اوريہ بات ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہے ۔الحمد للہ ہمارے يہاں ايسي خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے کہ جو طب اور ديگر علوم ميں ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کي مالک ہيں بلکہ ايسي بھي خواتين ہيں کہ جنہوں نے ديني علوم ميں بہت ترقي کي ہے اور بہت بلند مراتب ودرجات عاليہ تک پہنچي ہيں۔ اصفہان ميں ايک بہت ہي عظيم القدرخاتون گزري ہيں ’’اصفہاني بانو‘‘ کے نام کي کہ جو مجتہدہ ، عارف و فقيہ تھيں۔ اُس زمانے ميں صرف وہ تنِ تنہا تھيں ليکن آج بہت سي ايسي جوان لڑکياں ہيں جو مستقبل قريب ميں علمي، فلسفي اور فقہي اعليٰ مقامات تک رسائي حاصل کرنے والي ہيں اور ايسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ يہ خواتين ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہيں۔ اِسے کہتے ہيں پيشرفت زن اور خواتين کي ترقي

تبصرے
Loading...