اسلامی حکو مت

اسلام میں شمشیر کشی اور جھاد کا مسئلہ چند اعتبا ر سے قا بل غور ہے :

 (1)۔اسلام کی نظر میں مشر کین کے لئے دو راستو ں کےعلاوہ تیسراراستہ موجود نھیں ہے۔

 (2) رسمی ادیان کے پیرو کا روں کو جو صا حب کتاب تہے اور خو د کو سا بقہ الھی پیشوا ؤ ں کا پیرو سمجھتے تہے ، اسلام نے فقط اپنی حکو مت اور سر پر ستی قبو ل کر وانے کے بعد انکے مذھبی عقائد کے سلسلے میں آزاد چہو ڑ دیا تھا ۔

 (3)۔آیا اسلام نے کفار کے علاوہ دیگر گر و ہو ں کے سا تہ بھی جنگی اقدامات کئے یا نھیں ؟ اور وہ کون سے گر وہ تہے ؟

 (4)۔ اسلام اپنی حکو مت کو تما م قو مو ں اور ملتوںپر مسلط کر نا چا ھتا تھا ۔

 (5) ۔ جنگ کے سلسلے میں اسلام کی راہ وروش کیاتھی ؟

 (6) ۔ مسئلہ جز یہ (ٹیکس ) کی کیا نو عیت تھی ؟

 (7) ۔ آیا اسلام کی نشو ونما اور ار تقا ء میں شمشیر اور خو نریز ی دخیل تھی ؟

 (8) ۔آیا حکو مت اسلامی کا دائر ہ ،جنگ اور خو نریزی  کے ذریعہ وسیع کیا گیا ہے ؟

 (1)۔ اسلام نے مشرکین کیلئے صرف دور ا ستو ں کا انتخاب کیا تھا

 فقہ اسلامی اور معتبر تا ریخی شو ا ھد سے یہ با ت ثا بت ہو چکی ہے کہ اسلام نے مشر کین کو دور اہو ں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے مخیّرکردیا تھا کہ یا اسلام کو  قبو ل کر لیں یا دوسر ا اور آخری راستہ یہ تھا کہ آمادئہ جنگ ہو جا ئیں ۔

 انسانی فطر ت اور نفسیا ت کے دقیق مطا لعے کے بعد یہ بات ظا ھر ہو تی ہے کہ صا نع عا لم کا و جو د اور اسکی یکتا ئی ایک عمیق اور دقیق تر ین مسئلہ ہے جسکو معمو لی انسا نوں کی نفسیات میں خا صا دخل ہے حتی کہ منکر ان الو ھیت بھی نا دا نستہ اور اجمالی طور پر یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ اگر ایسی کسی ذات کا اس کا ئنات میں وجو د ہو تو وہ با عظمت ترین ذات اور یہ نظر یہ عظیم تر ین نظر یہ ہو گا ۔ دوسری طرف یھی انسان جب مقا م پر ستش میں آتا ہے تو خدا کی ذات کے اتنے عظیم تصور کے باوجود اسکی منزلت کو اتنا گر اد یتا ہے کہ دست انسانی کے ذریعے تر اشے گئے ایک پتھرکو اس کا شریک اور جایگزیں بنا دیتا ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایک بے جان پتھر یا ایک جا مد مادہ طبیعی تغیرات کے سا منے بے دست و پا اور سر ا پا تسلیم محض ہے اور کسی قسم کا شعو ر وا حساس نھیں رکھتا ہے ۔یہ نہ صرف خدا کی بز ر گ وبالا ذات کی توھین ہے بلکہ اسمیں دنیا ئے بشر یت کی بھی اھانت مضمر ہے ۔

 ایسا انسان جو اپنے مقدس تر ین اور بز ر گترین جذبے اور تصو رکو (جوکہ مقا م والا ئے خدا وند ی ہے ) اس حد تک تنز ل دید ے کہ اپنے ھی ھا تہو ں سے تر ا شے ہوئے پتھر وں کے سا منے سر نیا ز خم کر دے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اسکے نز د یک کسی بھی بزرگ اور با عظمت مفہو م کی کو ئی اھمیت نھیں ہے ۔ اسی بنیا د پر اسلام نے مشرکین سے جنگ کو اختیا ر کیا ورنہ اگر مشر کین بھی خود کو اھل کتاب اور انھیں کی طرح خدا وند عالم کی عظیم ذات کا معتر ف اور معتقد قرا ر دیتے تو انکے ساتھ بھی اھل کتا ب والا سلوک روار کھا جا تا یعنی وہ بھی دیگر خارجی گرو ہو ں کی طرح جز یھ(ٹیکس ) ادا کر کے اسلام کی عا دلا نہ حکو مت کے زیر سا یہ ز ندگی بسر کر سکتے تہے ۔

  (2) ۔ رسمی اور الھی ادیا ن کے صا حبا ن کتاب پیرو کار صرف اسلامی حکو مت کو قبو ل کر نے پر مجبو ر تہے

 فقہ اسلامی اور تاریخ کے متفقہ فیصلہ کی مدد سے یہ بات پائے ثبو ت کو پہو نچ چکی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر ادیان کے تا بعین پر اسلامی عقائد کو تحمیل کر نے کے لئے ھر قسم کے جبر وزبر دستی سے اجتنا ب کیا ہے بلکہ اسکے بر خلاف انکے عقا ئد کو محتر م جانا ہے ۔ آپکی روش یہ تھی کہ صرف انکے فا سد اور منحرف عقا ئد پر اعتراض فر ماتے تہے ۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیاگیا ہے:

 ”قل یا اھل الکتاب تعالو اا لی کلمۃ سواء بیننا  وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربا بامن دون اللہ فا ن تو لو افقو لو ااشھد وابانا مسلمون “(آل عمران 64)

 رسمی اور سا بقہ الٰھی ادیان کے پیروکا ر اسلامی تحریک کے مقا بلے میں تین امو ر میں سے کسی ایک کو اختیار کر نے پر مجبور تہے:

 (1) ۔ قبو لیت اسلام

 (2)۔ حکو مت اسلامی کے سامنے تسلیم ہو نا اور اپنی فر دی اور اجتما عی زند گی کی حفا ظت کیلئے جز یہ وغیرہ اداکر نا

 (3)۔ جنگ : جیسا کہ آئند ہ ذکر ہو گا کہ یہ جنگیں اپنے عقا ئد کو منوا نے کےلئے نھیں تھیں بلکہ اسلام کی عا دلا نہ حکو مت کو قبو ل کر انے کے لئے تھیں

   (3) آیا اسلام نے کفارکے علاوہ دیگر افراد کے ساتھ بھی اعلان جنگ کیا تھا ؟

   یقینا اسلام نے مملکت اسلامی میں ھر باغی اور منحرف گروہ کے ساتھ پیکار کی ہے اور اسی طرح مانعین زکاة کے ساتھ بھی سلوک کیا ہے باوجود یکہ وہ باغیانہ قصدنھیں  رکھتے تہے ( چونکہ ان دونوں مسائل کی قطعی علت واضح اور روشن ہے اس کی توضیح اور تفصیل سے احتراز کیا گیا ہے ۔) ۔

 (4)  حکو مت اسلامی کو تمام اقوام وملل پر تسلط پیدا کرنے کی کیا وجہ تھی ؟

 شاید یہ مسئلہ ھماری بحث کا اھم ترین مسئلہ ہے ۔ یقیناً یہ کھا جاسکتاہے کہ قطعی دلیلیں اور واضح براھین ، اسلام کی مستحکم اور عدالت خواہ حکومت کو ثابت کرتے ھیں۔ اس سلسلے میں احکام اسلامی اور اسلام کے حقیقی حکام کی راہ وروش اور طرزحکومت سے استدلال کیا جائیگا۔

اولاً اسلام نے جھاں تک انسانی فطرت کا مطالعہ اور اسکی طبیعت و جبلت کے بارے میں مکمل طور پر تحقیق کی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں حکو مت اور حاکمیت کا تصور ایک حساس ترین مسئلہ ہے جس کی اساس یہ ہے کہ انسان کو سعادت اور خوش بختی کی جانب حتی الامکان رھنمائی اور اس کو سعادت ا بدی سے ھمکنار کرنے کی آخری مرحلے تک سعی وکوشش کی جائے ۔

 حکو مت اورحاکمیت کا مسئلہ ایسا مسئلہ نھیں ہے جس سے سرسری طور پر گزرا جاسکے یا اپنی تسلی خاطر کے لئے خوبصورت اور ادبی اسلوب بیان میںعمدہ عبارتوںمیں بیان کر دیا جائے ۔بغیر کسی جھجک اور پر دہ پو شی کے یہ بات کھی جا نا چاھئے کہ ھر حا کم اور ھر حکمراں بلکہ ھر اجتما عی اور مذھبی مکتب کی ا ھمیت اور حیثیت کا اندا زہ انسان ، جو ھر مکتب اور مذ ھب کی تمام کا ر کر د گیو ں کا محو را ور اساس ہے ، کے سلسلہ میں اسکی راہ وروش اور طر ز تحقیق و تبیین سے لگا یا جا سکتا ہے ۔ یھی طر زتفکر اور طر یقۂ تحقیق و   شنا خت اس مکتب کی حقیقی حیثیت کا کا شف ہو سکتا ہے۔

پیغمبر اسلام نے فطرت انسانی اور بشری نفسیات کی بطور کامل شناخت اور اسکی منطقی طور پر تحقیق کی ہے ۔اس بات کی تصدیق  دوطر یقو ں سے کی جا سکتی ہے :

 (1) ۔ وہ اصو ل جن کو قرآن ( اسلامی آئین ) نے انسان کے سلسلے میں بیان فر مایا ہے جنکو ان مبا حث کے مقدمہ میں مفصل بیان کیا جا چکا ہے اور اس بحث میں بھی ا جما لی طور پر اشا رہ کیا جا ئے گا ۔

 (2) ۔ ان افراد کی گوا ھی جو اسلام کے با رے میں اطلا عا ت رکھتے ھیں ۔ علا وہ بر ایں ، انسان کے سلسلے میں خو د پیغمبر اسلام اور آپکے سا تھیو ں کی را ہ وروش بھی قا بل استفا دہ ہے ۔

 انسان کے سلسلے میں قر آن کر یم میں جو اصو ل و نظر یات بیان کئے گئے ھیں وہ کسی ایک پھلو کی نشا ندھی نھیں کر تے بلکہ اسکی مختلف جھات سے تشر یح کر تے ھیں۔

 (1)۔انسان سعا دت و شقا وت کے اعتبا ر سے ایک ثابت مو جو د نھیں ہے بلکہ تغیرات پذیر ی اسکا خا صہ ہے ۔

 (2) ۔ انسا ن کے ا ندر مذ کو رہ دونو ں صفا ت غیر محدو د طور پر جلو ہ گر ہو سکتی ھیں ۔جب سعا دت اور خوش بختی کی مقدس اور پا کیزہ صفا ت اسکے اندر جلو ہ نمائی شروع کر تی ھیں تو وہ خدا کی عظیم اور ما فو ق کائنا ت ، ذات کے صفا ت کا مظھر بن جاتاہے ۔ جیسے ابرا ھیم (ع) خلیل خدا ، مو سی (ع) بن عمران ،عیسی (ع) بن مریم ، محمد بن عبد اللہ اور علی بن ابی طالب (ع) اور جب یھی انسان شقا وت اور پستی کی منازل میں وارد ہو تا ہے تو پست تر ین حد تک گر سکتا ہے جسکی کو ئی انتھا نھیں ہے جیسے فر اعین و ستمگا ران بنی اسرا ئیل وا بن ملجم وفر عون اور اسی طر ح بیشمار افراد ۔

 (3) ۔ ان دونو ں صفات میں سے کوئی بھی صفت ،انسانی توانائی اور اسکے اختیارات کے حدود کی تعیین کئے بغیر قابل حل نھیں ہے۔

(4)۔ اصل طبعیت انسان ایک با عظمت گو ھر کی حیثیت رکھتی ہے جو لامتنا ھی صعو د اور تنز ل کو تحمل کر نیکی صلا حیت رکھتا ہے۔

 (5)۔ انسا ن اپنے مادی پیکر اور حب ذات کی بنیاد پر خو د غرض اور منا فع پر ست وا قع ہو اہے ۔ اگر ایمان ایک خارجی ما نع کی حیثیت سے اسکے رو برونہ ہو تو وہ ایک ایسا خود خواہ اور منا فع پر ست مو جو د ہے جسکے مقا بلے میں دنیا کی تمام مخلو قا ت ھیچ ھیں ۔

 (6) ۔ اگر ان طبیعی عو ارض سے جو اس کو فساد کی جا نب لے جاتے ھیں، قطع نظر کر تے ہو ئے فیصلہ کیا جائے تو اس مو جو د کی حیثیت اور قیمت دیگر تمام حیثیتو ں اور قیمتو ں کے مقا بلہ کھیں زیادہ بلکہ ما فو ق حیثیت وا ھمیت ہے ۔

  کسی بھی اجتما عی ،سیاسی یا فلسفی مکتب نے انسان کی اس فطر ت کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنے نظر یات بیان نھیںکئے ھیں کیو نکہ ابھی تک مختلف مکا تب فکر انسا ن کے بارے میں اس کی تمام جھات کو مد نظر رکھتے ہو ئے اظھار نظر نھیں کر سکے ھیں اور اگر اتفاقاً کو ئی ایسا مکتب فکرجس نے انسا ن کے سلسلے میں اسکی تمام جھات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے نظر یات بیان کئے ہو ں ، معر ض وجو د میں آیا بھی ہے تو اسلام کا مو افق ومدا فع ھی رھا ہے اور اپنے ان ھمہ جھات نظر یات کی بنیاد پر اپنی ابدیت کا ضا من بن گیا ہے ۔ اسلام نے دو با رہ انسان کی انسا نیت سے قطع نظر کر تے ہو ئے زندگی اور رو ح کو مو رد تحقیق قرا ر دیا ہے ۔ اسلام وسیع پیما نے اور غیر محدود طور پر حیوا نات کو ذی رو ح ہو نے کی بنیا د پر مورد تحقیق قرار دیتا ہے اور انکے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتاہے:

 ”کسی بھی ز ندہ مو جو د سے بغیر کسی علت کے اسکی زندگی کو سلب نھیں کیا جا سکتا خوا ہ وہ حیوا ن قا بل استفا دہ بھی نہ ہو ۔“

 یھا ں پر حیوا ن کے حقو ق کے سلسلے میں اجمالی طور پر بعض اسلامی نظر یات کو بیا ن کیا جا رھا ہے :

 (1)۔ھر شخص جس کے پاس کوئی حیوان ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حیوان کے لئے اسکے حسب حال تمام وسائل زندگی فراھم کرے ۔اگر اسکے امکان میں نہ ہویا نہ چا ھتا ہو کہ ان وسا ئل کو مھیا کر ے تو اگر اس حیو ان کا گو شت قا بل استفادہ ہو تو اسکو ذبح کر کے اسکے گو شت سے استفادہ کر سکتا ہے اور اگر یہ بھی اسکے امکان میں نہ ہو یا حیوا ن کا گو شت قا بل استفادہ نہ ہو تو اسکو چاھئے کہ اس حیوان کو فر و خت کر دے یا کر ائے پر دیدے تا کہ اسکی ز ندگی کے  و سائل فرا ھم ہو سکیں اور اگران تمام را ہو ں میں سے کو ئی بھی اسکے اختیا ر میں نہ ہو یا ان پر عمل در آمد کر نا نہ چا ھتا ہو تو اسے چاھئے کہ اس حیوان کو آزاد کردے تا کہ وہ اپنی ز ندگی کے لئے وسائل فرا ھم کر سکے ۔

 (2)۔اگر اس شخص نے جسکے زیر نظر کو ئی حیوان ہے ، مذ کو رہ امو ر میں سے کسی کو انجام نہ دیا ہو تو حاکم شرع کو حق حاصل ہے کہ وہ اس حیوان اور اسکے ما لک کے حسب حال ، ما لک کو مذکو رہ امور میں سے کسی ایک پر مجبو ر کر ے ۔

 (3) ۔ اگر مالک ان تمام امور کی انجام دھی سے اجتناب کر ے تو اس صورت میں اس حیوان کے تمام اختیا ر ا ت حاکم شرع کی جانب منتقل ہو جا ئیں گے ۔ حاکم اسکے اموال منقو لہ کو فر و خت کر کے حیوان کی ز ندگی کے و سا ئل مھیا کر سکتا ہے حتی اگر مالک کے اموال غیر منقو لہ پر تصرف کے علا وہ دوسر ا کو ئی چارہ باقی نہ رہ جا ئے تو بھی حاکم شرع اسکے اموال غیر منقو لہ پر تصر ف کرکے حیوان کے لئے وسائل زندگی مھیا کر سکتا ہے ۔

(4)۔ بچہ دار حیوان کے دودہ سے استفا دہ کر نے کی اجا زت دی گئی ہے لیکن اگر دودہ حاصل کر نے کی بنا پر اس جا نور کے بچہ کو کو ئی گز ند پہونچ جا ئے تو     ما لک کو مجرم سمجھا جا ئیگا ۔

 اگر دو جا نور تشنگی کی بنیاد پر مو ت کے قر یب ہو ں اور انمیں سے ایک ما کو ل اللحم اور دوسر ا غیر ماکو ل اللحم حیوان ہو اور پا نی کی مو جو دہ مقدا را ن دونو ں میں سے کسی ایک کو موت سے نجا ت دے سکتی ہو تو بعض فقھا ء کے فتاوی کے مطا بق پا نی کے ذریعے غیر ما کو ل اللحم حیوان (ما نندسگ ) کو ز ندگی بخشی جا ئیگی کیونکہ ما کو ل اللحم کو ذبح کر کے اسکے گو شت سے استفادہ قا نونی حیثیت رکھتا ہے لیکن کتے کا تشنگی کی بنیا د پر مر جا نا غیر قا نونی ہے ۔

 مذ کو رہ حقو قی قوا عدکی علت فقھا ئے اسلامی یہ بیان فرماتے ھیں کہ یہ تمام حقوق اس بنا پر ھیں کہ حیوان ایک ذی روح مو جود ہے اور ذی روح مو جود کی ز ندگی کو بے ارزش قرار نھیں دیا جاسکتا ۔

 اگر حکو مت اسلامی کے عا دلانہ قو انین کی ذی روح بالخصوص نوع انسا نی کو مد نظر رکھتے ہو ئے آخر ی حد تک شنا خت حاصل کر لی جا ئے تو اسکے باقی قوا نین    وا حکام کی حقیقت کی شناخت وتحقیق سے بے نیا ز ی حاصل ہو سکتی ۔

تبصرے
Loading...