اسلامي نظام کے بنیادي اصول

اسلامي نظام چند چیزوں پر مشتمل ہے ، اول یہ کہ اسلامي عدل و انصاف اور اسلامي احکام معاشرے ميں نافذ ہوں ۔۔۔

دوم یہ کہ صالح و شائستہ انسان ان کاموں کا اجرا کریں۔ صالح اورلائق انسانوں کے بغیر یہ کام ممکن نہيں ہے کہ اسلامي احکام اور اسلامي عدالت معاشرے ميں نافذ ہوسکے، سوم یہ کہ عوام کا اعتماد اور یقین ان پر بحال رہے اور ان دونوں طبقات کے درمیان مضبوط اور مستحکم رابطہ رہنا چاہيے۔ ان تین ستونوں ميں سے ایک بھي کم ہو تو اسلامي حکومت کا فلسفہ تکمیل نہيں پا سکتا۔۔ ۔اگر ہم اپنا ہدف اسلامي احکام اور عدل و انصاف کا نفاذ نہ بنائیں اور اپنے یقین و ایمان کو دوسرے اہداف کي جانب مبذول رکھیں تو یہ اسلامي نظام محفوظ نہ رہ سکے گا بلکہ حقیقت ميں یہ اسلامي نظام نہ ہوگا۔ ميں نے کئي بار تاکید کي ہے کہ ہم کو چاہئے کہ ہم اسلامي نظام کي شکل وروح اور اس کے قوانین کو اسلام سے اخذ کریں نہ کہ دوسرے نظاموں سے ۔۔۔ایسي ثقافتیں جو یہ چاہتي ہيں کہ ان کي باتیں، فکر اور ان کا دکھایا ہوا راستہ دنیا ميں رائج ہو یعني جو کچھ وہ دوسرے ممالک اور ملتوں کیلئے پسند کریں وہ انھیں من وعن قبول کرلیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دوسروں کي تدبیروں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں بلکہ وہ چیز جو ہماري مصلحت و ضرورت اور ہمارے اعتقاد و ایمان کے مطابق حق ہے ، اس کي پیروي کریں اور يہ، اسلامي احکام و عدالت اور اسلام کي بتائي ہوئي راہ کے علاوہ کوئي اور چیز نہيں ہے ، یہ و ہي چیز ہے کہ جس کے مطابق ہم نے اسلامي حکومت کا نظام تشکیل دے کراسے دیني جمہوریت کا نام دیا ہے ۔ دیني جمہوریت یعني اسلامي اقدار کو عملي جامہ پہنانا۔۔۔اسلامي احکام اور قوانین کو نافذ کرنا ۔۔۔ اگر یہ قوانین نافذ ہو جائيں تو اسلامي عدل و انصاف صحیح معنوں ميں معاشرے ميں قائم ہو جائے گا البتہ ان کاموں کو نافذ کرنے والے افرادکا صالح اور لائق ہونا ضروري ہے ۔ تما م اعليٰ حکّام خصوصاً ان تین اداروں (عدلیہ،مجریہ،مقننہ)یا وہ شخصیات جن پرکوئي حکومتي ذمہ داري نہيں ہے کیونکہ بعض افراد اور شخصیتیں مثلاً علماء ، دانشور، مفکرین اور محترم آئمہ جمعہ کہ جن کا صالح اورلائق ہونا اولین شرط ہے، کو چاہئے کہ اپني حفاظت کریں اور تقوي اختیار کریں البتہ ہماري مسؤلیت اور ذمہ داري جتني بڑھتي جائے گي اتني ہي اپني مراقبت ہم پرضروري ہوتي جائیگي، ہماري مسؤلیت اور ہمارا کردار حکومت ميںجتنا مو ثر ہو گا، ہمارا بُرا کردارو اخلاق، اتنے ہي منفي اثرات مرتب کرے گا ۔ہميں چاہيے کہ آج ان ذمہ داریوں ميں برابر کے شريک ہوں، مختلف عہدوں کو قبول کريںاور تقوي کي صفت کو اپنے اندر تقویت دیں ۔

تبصرے
Loading...