اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد

صبر و استقلال اور عزم و ہمت کي تاريخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ لشکر يزيدي کے بے حد و انتہا ظلم و جور کو آزمائش خداوندي تسليم کرتے ہوئے يہ کاروان حسيني، جو کہ اب کرب و بلا کي شير دل خاتون کي قيادت ميں آکر کاروان زينبي کي شکل اختيارکرچکا تھا ، شہر شام ميں داخل ہوا- کرب و بلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک اس قافلہ پر کيا کيا مصائب و آلام ڈھائے گئے ؟ اس کارواں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟ ظلم و بربريت کے پہاڑ کس قدر توڑے گئے؟ تشدد و حيوانيت کي کيا کيا مثاليں قائم کي گئيں ؟ اور اس بے يار

صبر و استقلال اور عزم و ہمت کي تاريخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ لشکر يزيدي کے بے حد و انتہا ظلم و جور کو آزمائش خداوندي تسليم کرتے ہوئے يہ کاروان حسيني، جو کہ اب کرب و بلا کي شير دل خاتون کي قيادت ميں آکر کاروان زينبي کي شکل اختيارکرچکا تھا ، شہر شام ميں داخل ہوا- کرب و بلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک اس قافلہ پر کيا کيا مصائب و آلام ڈھائے گئے ؟ اس کارواں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟ ظلم و بربريت کے پہاڑ کس قدر توڑے گئے؟ تشدد و حيوانيت کي کيا کيا مثاليں قائم کي گئيں ؟ اور اس بے يار و مددگار اور مظلوم و مقہور قافلہ کے افراد نے کس کمال پامردي اور حوصلہ کے ساتھ ان کا سامنا کيا ؟ يہ تمام واقعات و حالات روز روشن کي طرح عياں ہيں- کربلا سے لے کر کوفہ اور کوفہ سے لے کر شام تک کے راستہ ميں بہت سے چھوٹے چھوٹے مزارات شہداء، جن کي وجہ سے وہاں شہر آباد ہو چکے ہيں، ان سوالات کے واضح جواب لئے ہوئے ہيں اور ارباب سير و مقاتل نے نہايت صراحت و وضاحت کے ساتھ ان کا ذکر کيا ہے-

مختصراً شام کے لوگوں نے اسلامي دستور اور تعليمات کو خالد بن وليد، معاويہ، زياد اور ان جيسے افراد کي رفتار و کردار کے آئينے ميں ديکھا تھا- انہيں سيرت پيغمبر (ص)  اور مہاجرين و انصار کے طرز عمل کا کچھ پتہ نہ تھا- 61 ہجري ميں شام ميں چند افراد تھے جن کي عمريں ساٹھ سال سے اوپر تھيں- ان کي ترجيح يہي تھي کہ وہ ايک کونے ميں بيٹھ جائيں اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھيں بند کر ليں- شام کے لوگ يہ بات سننے پر آمادہ نہ تھے کہ حضرت محمد (ص)  کے رشتہ دار اور قريبي بني اميہ کے علاوہ کوئي اور بھي ہيں-

اکثر مقتل کي کتب ميں يہ لکھا ہے کہ اسيروں کے شہر دمشق ميں داخل ہونے کے موقع پر لوگوں نے شہر کو سجايا ہوا تھا- يزيد نے اپنے دربار ميں يہ اشعار پڑھے :

کاش ! آج ميرے جنگ بدر ميں مارے جانے والے بزرگ موجود ہوتے تو ديکھتے کہ ميں نے کس طرح محمد (ص) کي آل سے ان کا انتقام ليا ہے-

کيونکہ اس دن يزيد کي مجلس ميں اس کے اردگرد ايسے افراد بيٹھے تھے کہ جنہوں نے اسلام اور پيغمبر (ص) کو اقتدار و حکومت تک پہنچنے کا ذريعہ بنايا ہوا تھا نہ کہ قربتِ خدا کا ذريعہ-

آپ ملاحظہ فرمائيں کہ دونوں محفليں ايک طرح کي ہيں اور باتيں بھي ايک جيسي ہيں- کوفے ميں ابن زياد بھي خوشي سے پھولا نہيں سماتا تھا کہ اس نے اپنا فرض پورا کر ديا ہے اور عراقيوں کے ہاتھوں سے ان کي قوت چھين لي ہے- شام ميں يزيد افتخار کر رہا ہے کہ جنگ بدر ميں اس کے مقتول بزرگوں کا خون رائيگاں نہيں گيا- اگر يہ معاملہ يہيں پر ختم ہو جاتا ہو تو کامياب تھا، ليکن جناب زينب نے اسے اس کي کاميابي کا پھل کھانے نہ ديا-وہ جسے اپنے لئے شيريں سمجھ رہا تھا جنابِ زينب عاليہ نے اس کا مزہ حد سے زيادہ کڑوا کر ديا اور اس کے لئے تلخ بنا ديا-جناب زينب نے پابرہنہ اور بے مقنعہ و چادر اپني مختصر گفتگو ميں اہل مجلس کو سمجھا ديا کہ ان پر حکومت کرنے والا کون ہے اور کس کے نام پر حکومت کر رہا ہے- اور رسيوں ميں جکڑے اس کے سامنے کھڑے قيدي کون ہيں-

جب کبھي غيرتِ انساں کا سوال آتا ہے

بنت ِ زہرا تیرے پردے کا خيال آتا ہے

تبصرے
Loading...