ازدواج يا شادي: ناموسِ فطرت اور قانونِ شريعت

 

زندگي ايک طولاني سفر ہے کہ جس ميں مختلف منزليں ہيں ليکن اس کا ايک بلند بالا ہدف بھي ہے ۔ زندگي ميں انسان کا ہدف يہ ہونا چاہيے کہ وہ اپنے اور ديگر موجوداتِ عالم کے وجود کو اپنے معنوي کمال کے لئے استعمال کرے ۔

اب آسماني ملاپ کا وہ پُر شکوہ لمحہ نزديک آ پہنچا ہے ۔

دو ہمسفر نوجوان، خداوند عالم کي مرضي اور رضا کے مطابق چاہتے ہيں کہ ايک دوسرے کے ہاتھ ميں ہاتھ دے کر زندگي کے راستے پر قدم اٹھائيں اور اپنے بلند و بالا اہداف کي طرف حرکت کريں ۔

يہ کيسا مضبوط اور اہم عہد و پيمان ہے !

انسان کي طبع اور جبلّت اپنے ’’جوڑے‘‘ کي متلاشي ہے جب کہ جان و دل ميں موجزن يہ دريائے پُر تلاطم صرف ’’ہمسر‘‘ اور ’’ہم رتبہ اور ہم پلہ‘‘ ہي سے ساکن ہو سکتا ہے، بے قرار روح ’’اُس‘‘ کے بغير پھيکے پن اور خلا کا احساس کرتي ہے ۔

خدا بھي ان ميں سے ہر ايک کو دوسرے کے بغير پسنديدہ نگاہوں سے نہيں ديکھتا ہے جب کہ پيغمبر اکرم ۰ نے ’’شادي‘‘ کو اپني سنت، رضائے الٰہي تک پہنچنے کي راہ اور نصف دين کو محفوظ کرنے کا وسيلہ قرار ديا ہے ۔ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والے يہ دونوں نوجوان، زندگي کے اس ’’معاہدے‘‘ کے متعلق زيادہ جاننا چاہتے ہيں کہ تا کہ وہ علم اور آگاہي کے ساتھ ’’قبول ہے‘‘ کہہ سکيں ۔

لہٰذا اس ’’سيد‘‘ کي باتوں کو سننا کس قدر شيريں ہے !

زندگي کا ہدف

زندگي ايک طولاني سفر ہے کہ جس ميں مختلف منزليں ہيں ليکن اس کا ايک بلند بالا ہدف بھي ہے ۔ زندگي ميں انسان کا ہدف يہ ہونا چاہيے کہ وہ اپنے اور ديگر موجوداتِ عالم کے وجود کو اپنے معنوي کمال کے لئے استعمال کرے ۔

حقيقت تو يہ ہے کہ ہم اس دنيا کے لئے خلق نہيں ہوئے ہيں ۔ ہم نے دنيا ميں اس حالت ميں قدم رکھا ہے کہ ہميں اس ميں آنے کا کوئي اختيار نہيں تھا ۔ ہم اس دنيا ميں ايک ايسے بچے کي مانند ہيں جو دوسروں سے اثر ليتا ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ہماري عقل رُشد پيدا کرتي ہے اور ہم اختيار اور انتخاب کي قدرت کے مالک بن جاتے ہيں ۔ يہ وہ جگہ ہے کہ جہاں لازمي ہے کہ انسان صحيح انداز سے سوچے، صحيح چيز کا انتخاب کرے اور اپنے اُس انتخاب کے مطابق قدم اٹھائے اور آگے بڑھے!

اگر انسان اس فرصت کو غنيمت جانے اور اس دنيا کے چند دنوں سے کہ جب تک وہ يہاں ہے، بہترين استفادہ کرے تو وہ اپنے آپ کو کمال تک پہنچا سکتا ہے اور جس دن اِس دنيا سے رخصت ہو گا تو وہ اُس شخص کي مانند ہو گا کہ جو زندان سے رہائي پاتا ہے اور يہيں سے حقيقي زندگي کا آغاز ہوتا ہے ۔

شادي، اسلامي اقدار کا جلوہ

سب سے پہلي اور بنيادي بات يہ ہے کہ يہ شادي کہ جسے خداوند عالم نے (انساني رشد و کمال کے لئے بہترين) روش و طريقہ قرار ديا ہے اور انساني خلقت بھي اسي کا تقاضا کرتي ہے، خداوند عالم کے اسرار ميں سے ايک سِرّ، اس کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور حيات بشري کے مظاہر ميں سے ايک ناقابلِ اجتناب مظہر ہے ۔ ايسا ہو سکتا تھا کہ خداوند عالم آسماني قوانين ميں شادي کو لازم اور واجب يا جائز قرار ديتا اور لوگوں کو چھوڑ ديتا کہ وہ (ازروئے ناچاري يا ازروئے اختيار) شادي کريں ۔ ليکن اس نے يہ کام نہيں کيا بلکہ ’’ازدواج‘‘ کو ايک ’’قدر‘‘ (VALUE) قرار ديا ہے يعني جو بھي رشتہ ازدواج ميں منسلک نہيں ہو گا وہ خود کو اس فضيلت سے محروم کر دے گا ۔

خداوند عالم کا اصرار

اسلام کي رُو سے گھر بسانا ايک فريضہ ہے اور يہ ايسا عملي فريضہ ہے کہ مرد و عورت مل کر اس کام کو ايک ’’خدائي امر‘‘ اور ايک ’’وظيفے‘‘ کے تحت انجام ديں ۔ اگرچہ کہ ’’شادي‘‘ کو شرعاً زمرہ واجبات ميں (براہ راست) ذکر نہيں کيا گيا ہے ليکن اسلامي تعليمات ميں اس امر کے لئے اتني توجہ اور ترغيب دلائي گئي ہے کہ انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس امر کے لئے کتنا اصرار کرتا ہے ۔ يہ اصرار صرف ايک کام کو معمولي طور سے انجام دينے کے لئے نہيں ہے بلکہ ايک يادگار واقعے اور انساني زندگي اور معاشرے پر تاثير گزار امر کي حيثيت سے اس پر توجہ دي گئي ہے، لہٰذا اسي لئے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے بندھن پر اتني زيادہ ترغيب دلائي گئي ہے اور ’’جدائي‘‘ اور ’’دوري‘‘ کو مذمت کي نگاہ سے ديکھا گيا ہے ۔

خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہائي کو پسند نہيں کرتا !

خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہا زندگي کو پسنديدہ نگاہ سے نہيں ديکھتا ہے ۔ خاص طور پر وہ جو نوجوان ہوں اور شادي اور گھر بسانے کي دہليز پر کھڑے ہو کر بھي تنہائي کو ترجيح ديں ۔ ليکن يہ صرف نوجوان لڑکے لڑکيوں سے مخصوص نہيں ہے ۔ خداوند عالم مشترک ازدواجي زندگي سے خوش ہوتا ہے ۔ ايک مرد اور عورت کا تمام زندگي اکيلے زندگي گذارنا، اسلام کي نگاہ ميں کوئي مطلوب چيز نہيں ہے ۔ ايسا انسان، معاشرے ميں ايک بيگانے موجود کي مانند ہے ۔ اسلام کي خواہش يہ ہے کہ ايک گھرانہ، انساني معاشرے کي ايک حقيقي اکائي ہو نہ کہ ايک اکيلا انسان۔

وقت پر شادي = سنّت نبوي

ايک مشہور و معروف روايت ميں رسول اکرم ۰ نے ارشاد فرمايا کہ ’’نکاح ميري سنت ہے‘‘۔ البتہ، تخليق انساني کي ايک خاص روش ہے اور تمام انسانوں اور تمام اقوام و اديان ميں يہ روش رہي ہے ۔ پس حضرت ۰ نے کيوں فرمايا کہ يہ ميري سنت ہے؟ آخر اس کو اپني سنت قرار دينے اور اپنے رفتار و عمل سے مخصوص کرنے کے کيا اسباب ہيں؟ شايد يہ سب اس جہت سے ہو کہ اسلام نے گھر بسانے کے لئے بہت زيادہ تاکيد کي ہے جب کہ دوسري شريعتوں اور اديان ميں شادي پر کم تاکيد کي گئي ہے ۔ آپ ملاحظہ کيجئے کہ اسلام نے ’’شادي‘‘اور ’’گھر بسانے‘‘ پر جو تاکيد کي ہے کہ وہ دنيا کے کسي بھي مکتبِ فکر اور دنيا ميں رائج کسي بھي فلسفے اور سياست ميں موجود نہيں ہے ۔ اسلام اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکياں اس سن و سال ميں شادي کريں کہ جس ميں وہ (جسماني و عقلي طور پر) شادي کے قابل ہوجائيں ۔

نکاح، فطري تقاضے کو پورا کرنے کے علاوہ ايک ديني اور اسلامي سنت بھي ہے ۔ اس بنا پر يہ بہت آسان ہے کہ جو بھي اس عمل کے لئے کہ فطرت و ضرورت جس کا تقاضا کرتي ہے اقدامات کرے گا وہ ثواب بھي حاصل کرے گا ۔ لہٰذا وہ سنت نبوي ۰ کي ادائيگي اور رسول اکرم ۰ کے حکم کي اطاعت کي غرض سے شادي کے لئے اقدامات کرے گا ۔ شادي ايک فطري آئين اور خداوند عالم کي طرف سے دکھائي گئي ايک راہ ہے جب کہ رسول اکرم ۰ نے اسے اپني سنت قرار ديا ہے ۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اسلام نے اس مسئلے پر بہت زيادہ اور خاص تاکيد کي ہے، کيوں ؟ کيونکہ يہ مسئلہ بہت اہميت کا حامل ہے اور انساني تربيت ميں خاندان کي تشکيل کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہيں ۔ اسي طرح فضائل و کمالات کے ارتقا اور تربيتي، روحي، عملي اور ہمدردي و محبت کے لحاظ سے ايک صحيح و سالم انسان کي (مکمل) ظاہري و باطني تعمير ميں يہ عنصر بنيادي کردار کا حامل ہے ۔

جواني کے عشق و شوق ميں شادي

حضرت ختمي مرتبت ۰ اس بات پر بہت زيادہ تاکيد فرماتے تھے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکياں جلدي شادي کريں ۔ البتہ اپنے ميل و رغبت اور اختيار سے، نہ يہ کہ دوسرے ان کي جگہ فيصلہ کريں ۔ ہميں چاہيے کہ اپنے معاشرے ميں اس بات کو رواج ديں ۔ نوجوانوں کو مناسب سن و سال ميں کہ جب ان کي نوجواني کي بہار اپنے عروج پر ہو، عشق و شوق کي اس جوش و گرمي کے ساتھ شادي کرني چاہيے ۔ يہ بات بہت سے افراد کے نظريات اور خيالات کے بر خلاف ہے کہ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ جواني کے زمانے کي شادي دراصل ’’وقت سے پہلے کِھلنے والا پھول‘‘ ہے کہ جو جلد ہي مرجھا جاتا ہے ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اگر شادي اور اس کے فلسفے کو صحيح طور پر درک کيا جائے اور يہ صحيح طور پر انجام پائے تو جو اني کي شادياں اچھي اور بہت پائيدار ثابت ہوں گي اور ايسے خاندان ميں مياں بيوي مکمل طور پر ايک دوسرے کے سچے دوست اور اچھے جيون ساتھي ثابت ہوں گے ۔

 

وقت ِ ضرورت، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونا

 

اسلام کي يہي خواہش ہے کہ يہ مقدس امر اپنے صحيح وقت پر کہ جب اِس کي ضرورت محسوس کي جائے جتنا جلدي ممکن ہو، انجام پائے ۔ يہ وہ امور ہيں جو صرف اسلام ہي سے مخصوص ہيں ۔ يعني جتني جلدي ہو بہتر ہے ۔ جلدي اس لئے کہ وہ وقت کہ جب لڑکا و لڑکي اپنے جيون ساتھي کي ضرورت محسوس کريں تو يہ کام جتنا جلدي ممکن ہو انجام پائے، بہتر ہے ۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اوّلاً، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے دامن ميں چھپي ہوئي خير و برکات اپنے صحيح وقت پر انسان کو حاصل ہوں گي قبل اس کے کہ زمانہ گزرے يا اس کي زندگي کا بہترين حصہ گزرجائے ۔ دوسري بات يہ کہ وقت پر شادي جنسي انحرافات اور بے راہ روي کا راستہ روکتي ہے ۔ لہٰذا حديث ميں ارشاد ہوا ہے کہ ’’مَنْ تَزَوَّجَ اَحرَزَ نَصْفَ دِيْنِہِ‘‘ ١ (جس نے وقت پر شادي کي اس نے اپنا نصف دين محفوظ کر ليا)۔ اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے دين و ايمان کو متزلزل کرنے والے آدھے حملے اور ان کو لاحق خطرات صرف جنسي انحرافات اور بے راہ روي کي وجہ سے ہيں ۔

شادي کي برکتيں اور فوائد

رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر ايک دوسرے کا شريک حيات اور جيون ساتھي بننا اور ’’خوشحال گھرانے‘‘ کي ٹھنڈي فضا ميں سانس لينا دراصل زندگي کے اہم ترين امور سے تعلق رکھتا ہے ۔ شادي، مرد اور عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون اور مل جل کر زندگي کي گاڑي کو دلگرمي کے ساتھ چلانے کا ايک وسيلہ ہے ۔ يعني ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے، اطمينان قلب اور ايک ’’غمخوار‘‘ و ’’مونس‘‘ کي تلاش کا وسيلہ ہے کہ جس کا وجود مياں بيوي کي مشترکہ زندگي کا جزوِلا ينفک ہے ۔

شادي، انسان کي جنسي، شہوتي اور جبلّتي جيسي فطري ضرورتوں کا مثبت جواب دينے کے علاوہ توليد نسل اور صاحب اولاد ہونے جيسي زندگي کي بڑي خوشيوں کو بھي اپنے ہمراہ لاتي ہے ۔

———

١ بحار الانوار، جلد، ١٠٠ صفحہ ٢١٩

پس آپ شادي کے مادّي اور معنوي پہلووں پر توجہ کيجئے کہ جب ايک انسان شادي کو اس نظر سے ديکھتا ہے تو وہ شادي کو مبارک و مسعود امر اور مفيد حکم پاتاہے ۔ البتہ شادي کا سب سے اہم فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے جب کہ ديگر مسائل دوسرے درجے کے ہيں يا اس ’’گھر بسانے‘‘ والے امر کي مدد کرنے والے ہيں مثلاً توليد نسل يا بشري غرائز اور جبلّتوں کي سيرابي کا انتظام کرنا ۔ نسلِ بشر کي ابتدا و بنياد، شادي ہے، عَالَم کي بقا شادي سے وابستہ ہے، تہذيب و تمدّن اور ثقافتيں شادي ہي کے ذريعے آنے والي نسلوں تک منتقل ہوتي ہيں اور سياسي اور ديگر جہات سے معاشروں کا استقلال و آزادي، شادي سے ہي منسلک ہے ۔ غرضيکہ شادي اپنے دامن ميں بے شمار فوائد رکھتي ہے ۔

شادي کي شرائط کمال

شريعت ميں حکم ديا گيا ہے کہ رشتہ ازدواج کو مضبوطي سے قائم رکھا جائے ليکن اس کے ساتھ ساتھ مياں بيوي کي مشترکہ زندگي سے متعلق بہت سي شرائط کو بھي بيان کيا گيا ہے ۔ مثلاً ازدواجي زندگي کے اخلاق و عمل کے بارے ميں کہ جب آپ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو جائيں تو اپني بيوي يا شوہر کے لئے اپنے اخلاق کو اچھا بنائيے، مشترکہ زندگي ميں اس کي مدد کيجئے، عفو و درگذر سے کام ليں، ايک دوسرے سے محبت کريں، اس کے سچے اور مخلص دوست بنيں اور اس سے وفا داري کريں ۔ يہ سب شريعت کے احکام اور دستور ہيں ۔

البتہ شادي ميں ’’مادّي شرائط‘‘ کو بہت آسان رکھا گيا ہے ۔ جو چيز شادي ميں اہم ہے وہ اپنے شريک حيات کے بشري پہلو اور اس کے انساني احساسات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہے ۔ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والے لڑکے لڑکيوں کو چاہيے کہ اپني زندگي کي آخري سانسوں تک ايک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق سے پيش آئيں کيونکہ يہ سب امور اس بندھن اور اس رشتے کي حفاظت کرتے ہيں ۔

شريعتِ مقدسہ نے انسان کے اجتماعي روابط اور تعلقات ميں ’’شادي‘‘ جيسے اس انساني امر پر دستخط تو کئے ہيں ليکن ساتھ ہي بہت سي شرائط بھي رکھي ہيں ۔ ان جملہ شرائط ميں سے ايک شرط يہ ہے کہ يہ انساني امر ايک انسان کے دوسرے انسان سے رابطے کے دائرے سے خارج ہو کر ايک تجارتي لين دين کے معاملے ميں تبديل نہ ہو جائے ۔ اس چيز کو شريعت ہرگز پسند نہيں کرتي ہے ۔ البتہ يہ شرائط، شادي کي شرائط کمال ميں شمار کي جاتي ہيں نہ کہ اس کے صحيح ہونے کي ١ ، ليکن بہر حال يہ شرائط ہيں ۔

اسلام کي نظر ميں کفو اور ہم پلّہ ہونے کا تصور

شريعت ِ مقدسہ ميں شادي کے لئے جس چيز کو متعين کيا گيا ہے وہ لڑکے اور لڑکي کا ايک دوسرے کا کفو اور ہم پلہ ہونا ہے ۔ کفو اور ہم پلہ ہونے کے سلسلے ميں جو چيز قابل اہميت ہے وہ ايمان ہے يعني دونوں کو مومن، متقي اور پرہيزگار ہونا چاہيے اور يہ کہ دونوں اسلامي تعليمات پر اعتقاد رکھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں ۔ جب يہ چيز حاصل ہو جائے تو بقيہ دوسري (مادّي) چيزوں کي کوئي اہميت نہيں رہتي۔ جب شادي کرنے والے لڑکے لڑکي کي پاکدامني، تقويٰ اور طہارت و پاکيزگي معلوم ہو اور دونوں ايک دوسرے کے کفو اور ہم پلہ ہوں تو بقيہ دوسري چيزيں خدا خود فراہم کر دے گا ۔

اسلام ميں اس مشترکہ جدوجہد اور زندگي کا معيار کہ جس کا نام ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا ہے، دين و تقويٰ سے عبارت ہے ۔ المومن کفو المومنۃ والمسلمُ کفو المسلمۃ ٢ يعني مومن مرد، مومن عورت کا کفو ہے جب کہ مسلمان مرد مسلمان عورت کا ہم پلہ ہے ۔ يہ ہے دين کا بتايا ہوا معيار۔

البتہ جو بھي راہِ خدا ميں آگے آگے، پيشقدم، دوسروں سے زيادہ فدا کاري کرنے والا، دوسروں کي نسبت زيادہ آگاہ اور بندگانِ خدا کے لئے زيادہ ہمدرد اور انہيں نفع پہنچانے والا ہو گا وہ سب سے بہتر اور بلند مقام کا حامل ہے ۔ ممکن ہے کہ عورت اس مقام کي مالک نہ ہو تو اس ميں کوئي قباحت نہيں، ليکن عورت کو چاہيے کہ خود کو اس بلند مقام کي طرف حرکت دے يا ممکن ہے کہ عورت کا مقام مردسے زيادہ بلند ہو اور مرد اس رتبے کا حامل نہ ہو ۔ پس مرد کو چاہيے کہ اس بلند مقام و منزل کي جانب قدم اُٹھائے ۔

———–

١ ہرچيز کي کچھ شرائط ہوتي ہيں ۔ کچھ شرائط اس عمل کے صحيح ہونے اور کچھ اس کے کمال سے متعلق ہوتي ہيں ۔ مثلاً نمازکي شرائط صحت يا صحيح ہونے کي جملہ شرائط ميں سے چند شرط يہ ہيں کہ نمازي کا بدن ،لباس اور نماز کي جگہ پاک ہو اور غصبي نہ ہو کہ اگر ان کا خيال نہ رکھا جائے تو نماز باطل ہے ۔ ليکن کچھ شرائط نماز کے کمال سے متعلق ہيں مثلاً حضور قلب اور توجہ سے نماز کي ادائيگي ہو، خوف ِ خدا سے گريہ کرنا اور اپني ہر نماز کو آخري نماز ِ سمجھ کر ادا کرنا وغيرہ۔يعني اگر ان شرائط نماز کا خيال نہ رکھا جائے تو بھي يہ نماز فقہي طور پر صحيح ہے ۔ ليکن دين مقدس اسلام نے شرائط کمال پر بہت زور ديا ہے کہ جو نمازکو کمال کي طرف لے جاتي ہيں ۔ اسي طرح شادي کي شرط کمال يہ ہے کہ شادي ايک تجاري معاملے ميں تبديل نہ ہونے پائے ليکن اگر کہيںايسا ہو کہ مہر اور جہيز زيادہ رکھا جائے تو ان کي وجہ سے خود شادي کے فقہي طور پر صحيح ہونے پر کوئي اثر نہيں پڑے گا اور شادي اپني جگہ مکمل صحيح ہوگي ليکن اسلام کو يہ بات ہرگز پسند نہيں ۔ (مترجم)

٢ وسائل الشيعہ، جلد٠ ٢، صفحہ ٦٧.

عاقل اور غافل انسان کا فرق

ايک وقت انسان شادي کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’پروردگارا! ميں شادي کر رہا ہوں اور اپني ايک فطري ضرورت کو پورا کر رہا ہوں‘‘۔ ممکن ہے کہ اس کي طبيعت و مزاج ہي اسي طرح کا ہو کہ وہ خدا کا شکر کرے اگر چہ کہ وہ اپني زبان سے يہ جملے ادا نہ کرے يا ذہن ميں بھي نہ لے کر آئے ۔ ليکن توجہ رہے کہ انسان کي فطري ضرورت صرف اُس کي جنسي خواہش کو ہي پورا نہيں کرتي بلکہ مرد و عورت دونوں رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر اپني مشترک زندگي کا آغاز کرتے ہيں، اپنا گھر بساتے اور اپنے چھوٹے سے خاندان کو وجود ميں لے کر آتے ہيں ۔ يہ بھي انسان کي ضرورتيں ہيں اور ديگر ضروريات کي مانند اس کا وجود انساني حيات کے لئے اشد ضروري ہے ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ’’خداوندا ! ميں اپني اس فطري ضرورت کو پورا کر رہا ہوں، ميں تيرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے موقع فراہم کيا، مجھے اجازت دي، مجھے يہ وسيلہ عطا کيا اور مجھے اچھي شريکہ حيات نصيب ہوئي۔ ميں شادي کے بعد بھي اپني نئي زندگي ميں پوري کوشش کروں گا کہ تيري رضا اور خوشنودي کے مطابق عمل کروں‘‘۔ يہ ايک طرح سے شادي کرنا اور اپني نئي زندگي کا آغاز کرنا ہے ۔ ايک اور انسان ہے جو شادي تو کرتا ہے ليکن نہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے، نہ اپني شريکہ حيات کي قدر و قيمت جانتا ہے اور نہ ہي اس فرصت کو غنيمت شمار کرتا ہے کہ جو اُسے حاصل ہوئي ہے ۔ يہ آدمي مست اور غافل انسان کي مانند ہے ۔ اگر ايسي زندگي کو دوام بھي حاصل ہوجائے تو بھي يہ کبھي شيريں نہيں ہو سکے گي اور نہ ہي اس ميں ايک دوسرے کي نسبت اپني ذمہ داريوں کا خيال رکھا جائے گا ۔

شادي کي نعمت کا شکرانہ

آپ کو چاہيے کہ زندگي کے اس مرحلے کو کہ جب آپ اپني ازدواجي زندگي کا آغاز کرتے ہيں اور اپنے گھرانے کي بنياديں مضبوطي سے رکھتے ہيں، خداوند عالم کي عظيم نعمتوں ميں سے ايک نعمت تصور کريں اور اس کا شکرانہ بجا لائيں ۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کا ديا ہوا ہے ’’مابنامن نعمۃ فمن اللّٰہ‘‘ ١ ۔ ليکن اس نعمت کي طرف توجہ اورنعمت دينے والي ذات کي ياد آوري بہت اہميت کي حامل ہے ۔ بہت سي ايسي نعمتيں ہيں کہ جن کي طرف انسان توجہ بھي نہيں کرتا ۔ بہت سے لوگ ہيں کہ جو شادي کرتے ہيں اور بہت سي خوبيوں کے مالک بن جاتے ہيں، اچھي اور شيريں زندگي انہيں نصيب ہوتي ہے اور وہ بہترين زندگي گزارتے ہيں ليکن اس بات کي طرف بالکل متوجہ نہيں ہوتے کہ يہ کتني عظيم نعمت ہے کہ اُنہيں اپني قسمت اور مستقبل کو اچھا بنانے والا کتنا اہم موقع نصيب ہوا ہے ۔ جب انسان يہ نہ سمجھ سکے تو وہ نعمت کا شکريہ بھي ادا نہيں کرسکتا اور نتيجے کے طور پر رحمت الٰہي سے محروم ہو جاتا ہے جو انسان کے شکر کي وجہ سے اس پر نازل ہوتي ہے ۔

لہٰذا انسان کو چاہيے کہ اس بات کي طرف توجہ کرے کہ يہ کتني بڑي نعمت ہے اور اس نعمت کا شکرانہ کيسے ادا کيا جا سکتاہے؟ ايک وقت انسان شکريے کو فقط اپني زبان سے ادا کرتا ہے کہ ’’خدايا تيرا شکر ہے‘‘، ليکن يہ شکر اس کے دل کي گہرائيوں تک سرايت نہيں کرتا ہے ايسا شکر صرف لقلقہ زباني ہے اور اس کي کوئي قيمت نہيں ۔ ليکن ايک وقت انسان اپنے دل کي گہرائيوں سے خدائے متعال کا شکر گزار ہوتا ہے اور ايسا شکر بہت اہميت کا حامل ہوتا ہے ۔ ايسا انسان سمجھتا ہے کہ خداوند متعال نے اسے ايک نعمت دي ہے اور وہ حقيقت ميں اپنے شکر کا اظہار کرتا ہے ۔ يہ شکر کا بہترين درجہ ہے ۔ جب بھي ہم خداوند عالم کا شکريہ ادا کرتے ہيں تو اس شکرانے کي وجہ سے ہم پر ايک عمل کي انجام دہي لازم ہو جاتي ہے ۔ بہت خوب، اب جب کہ خداوند کريم نے آپ کو يہ نعمت دي ہے تو اس کے بدلے ميں آپ کو کيا کام انجام دينا چاہيے؟ اس نعمت کے جواب ميں ہم سے ہماري قدرت سے زيادہ عمل کي توقع نہيں کي گئي ہے نعمت کے مقابلے ميں جو چيز ہم سے مطلوب ہے وہ يہ ہے کہ ہم اس نعمت سے اچھا برتاو کريں اور اس اچھے برتاو کو اسلام ميں معيّن کيا گيا ہے کہ جسے خانداني اخلاق و حکمت سے تعبير کيا جاتا ہے ۔ يعني زندگي ميں ہميں کيا عمل اختيار کرنا چاہيے تا کہ ہماري زندگي ايک اچھي زندگي ہو ۔

شادي کس لئے، مال و جمال کے لئے يا کمال کے لئے؟

اگر کوئي مال و جمال کے لئے شادي کرے تو روايت کے مطابق ممکن ہے کہ خداوند عالم اسے مال و دولت اور خوبصورتي دے اور يہ بھي ممکن ہے کہ اسے ان چيزوں سے محروم رکھے ۔ ليکن اگر کوئي تقويٰ اور عفت و پاکيزگي کے حصول کے لئے شادي کرے تو خداوند عالم اسے مال و دولت بھي دے گا اور حسن و خوبصورتي بھي عطا کرے گا ۔ ممکن ہے کہ کوئي يہ کہے کہ حسن و خوبصورتي تو عطا کرنے والي کوئي چيز نہيں ہے يعني کسي کے پاس خوبصورتي ہے يا نہيں ہے ! (دينے يا نہ دينے سے اس کا کيا تعلق؟) اس کے معني يہ ہيں کہ خوبصورتي آپ کے دل اور نگاہوں ميں ہے ۔ اگر انسان کسي کو کہ جو بہت خوبصورت نہ ہو، پسند کرے تو وہ اسے اچھا لگے گا يا وہ کسي کو پسند نہيں کرتا ہرچند کہ وہ بہت خوبصورت ہي کيوں نہ ہو، تو وہ اسے اچھا نہيں لگے گا ۔

—————

١ بحار الانوار، جلد ٤٩، صفحہ ٢٦٩ (ہمارے پاس جو بھي نعمت ہے وہ خدا ہي کي عطا کردہ ہے)۔

اسلامي روش ہي بہتر ہے

عيسائيت اور يہوديت سميت ديگر اديان ميں يہ رشتہ (شاد ي) مختلف صورتوں ميں موجود ہے ۔ اسلام نے اِن اديان کي شادي کے طريقے کو معتبر جانتے ہوئے مرد و عورت کو مياں بيوي قرار ديا ہے اور ان کي اولاد کو بھي حلال زادہ سمجھا ہے ۔

اسلام ميں شادي کا تصور، طريقہ اور روش بقيہ تمام اديان اور اقوام کے طريقہ ازدواج سے زيادہ بہتر ہے ۔ شادي کے مقدمات، اس کي اصل و بنياد نيز اس کا دوام و بقا انسان کي مصلحت کے عين مطابق رکھا گيا ہے ۔ البتہ دوسرے اديان ميں ہونے والي شادياں بھي ہمارے نزديک معتبر اور قابل احترام ہيں يعني وہ نکاح جو ايک عيسائي کے لئے اُس کے گرجا گھر يا ايک يہودي کے لئے اُس کے مَعْبَد (کنيسہ) ميں يا ہر قوم کے اپنے اپنے خاص طريقے سے انجام ديا جاتا ہے وہ ہمارے نزديک صحيح ہے اور ہم اسے باطل نہيں کہتے ہيں ۔ ليکن جو طريقہ اسلام نے معين کيا ہے وہ دوسروں سے بہتر ہے کہ جس ميں شوہر اور بيوي دونوں کے لئے الگ الگ حقوق، مشترکہ ازدواجي زندگي کے آداب اور ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننے کي روش بھي بيان کي گئي ہے ۔ ’’اسلامي بنياد‘‘ يہي ہے کہ ايک گھرانہ تشکيل پائے اور وہ خوش بخت اور خوشحال بھي ہو ۔

نکاح کے چند بول کے ذريعے ؟

يہ نکاح جو ہم پڑھتے ہيں، در حقيقت اس کے چند بول (صيغوں ) کے ذريعے ہم دو اجنبيوں اور مختلف ماحول و خاندان کے لڑکے لڑکي کو ايک دوسرے سے ملا ديتے ہيں ۔ يوں يہ آپس ميں اس طرح شير و شکر ہو جاتے ہيں کہ يہ پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے لئے محرم، ايک دوسرے کے سب سے نزديک اور مہربان و غمخوار بن جاتے ہيں ۔ دوسري بات يہ کہ ہم اس نکاح کے ذريعے انساني معاشرے ميں ايک نئي اکائي ايجاد کرتے ہيں اور يوں معاشرے کا يہ انساني اجتماع ’’گھرانے‘‘ کي اکائي سے تشکيل پاتا ہے ۔ تيسري بات يہ کہ آپ دونوں انسان ہيں، ايک بيوي ہے اور ايک شوہر کہ آپ ميں سے ہر ايک کو دوسرے کي ضرورت ہے اور ہم اس نکاح کے چند جملے پڑھ کر آپ کي ان ضرورتوں کے مثبت حل کا سامان کرتے ہيں ۔

ہم يہ تين کام انجام ديتے ہيں ۔ يہ آپ کي زندگي کي ابتدا بھي ہے اور بنياد بھي اب اس کے بعد آگے خود آپ کي ذمہ داري ہے ۔

سب سے اہم ترين فائدہ

رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے اور اپنا گھر بسانے کو اسلام ميں بہت زيادہ اہميت دي گئي ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہيں ليکن اس کا سب سے اہم ہدف اور فائدہ اپنا گھر بسانا ہے ۔ مياں بيوي کے درميان محبت و خلوص اور ايثار و فدا کاري کا يہ رشتہ اور معاشرے ميں گھرانے کي ’’اکائي‘‘ کي تشکيل دراصل مرد و عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون، کمال اور اُن کي شخصيت کے رشد اور پختگي ميں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان سب کے بغير مرد کا وجود بھي ناقص ہے اور عورت کا وجود بھي نا مکمل رہتا ہے ۔ دوسرے تمام مسائل کا درجہ اس کے بعد آتا ہے ۔ اگر يہ گھرانہ، صحيح و سالم اور محبت و خلوص کي فضا ميں تشکيل پائے تو يہ معاشرے کے موجودہ اور آئندہ حالات پر اثر انداز ہو گا ۔

ازدواجي زندگي کا آغاز دراصل گھرانے کي تشکيل کے لئے اقدام کرنا ہے جب کہ گھر کو بسانا درحقيقت تمام اجتماعي روابط کي اصلاح اور انساني تربيت کي بنياد ہے ۔

درحقيقت شادي عبارت ہے لڑکے اور لڑکي کي اپني مشترکہ ازدواجي زندگي شروع کرنے اور گھر بسانے سے ۔ لڑکا اور لڑکي ايک دوسرے کو ديکھيں (اور پسند کريں)، شرعي عقد (نکاح) پڑھا جائے اور يہ ايک دوسرے کے مياں بيوي بن جائيں اور يوں محبت و خلوص کي فضا ميں ايک گھرانے کي بنياد رکھي جاتي ہے ۔ خداوند عالم ہر لحاظ سے صحيح و سالم اور مسلمان گھرانے کو پسند کرتا ہے ۔ جب ايک گھرانہ تشکيل پاتا ہے تو اس پر بہت سي برکتيں بھي نازل ہوتي ہيں، مياں بيوي کو اپني بہت سي ضرورتوں کا مثبت حل مل جاتا ہے اور انساني نسل اپنا سفر جاري رکھتي ہے ۔ ان تمام مراحل ميں اصل چيز اولاد، خوبصورتي و زيبائي اور مال و دولت نہيں ہے بلکہ اصل جوہر يہ ہے کہ دو انسان مل کر اپني مشترکہ ازدواجي زندگي کا آغاز کرتے ہيں چنانچہ اس مشترکہ زندگي کي فضا اور ماحول کو صحيح و سالم ہونا چاہيے ۔

اس گھرانے کي بنياد رکھنا بذات خود سب سے اہم عنصر ہے ۔ خلقت بشر کي اساس اس پر رکھي گئي ہے کہ ايک مرد و عورت مل کر باہمي شراکت و رضا مندي سے اس اکائي کي بنياد رکھيں تا کہ زندگي آساني سے، بغير کسي مشکل و تشويش خاطر کے انساني حاجت و ضرورت کي جواب دہي کے لئے آگے بڑھے ۔ اگر يہ سب چيزيں نہ ہوں تو جان ليں کہ زندگي اپني ايک ٹانگ کے سہارے چل رہي ہے ۔

 

 

 

تبصرے
Loading...