آسمانی کتابوں کی روشنی میں صیہونیستوں کی سرنوشت

فاسق اور کینہ توز یہودی اپنی کئی ہزار سالہ تاریخ میں ہمیشہ دنیا میں جنگ، فساد اور تباہی کا باعث بنے ہیں۔ آج ان فاسق یہودیوں کا ایک واضح نمونہ “صیہونیست” ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صیہونیست کسی بھی قسم کے جرم سے دریغ نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ خود یہودی بھی ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ 

ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ صیہونیستوں کی سرنوشت کو آسمانی کتابوں کے تناظر میں بیان کریں۔ 

وہ افراد جو اسلامی تعلیمات سے آشنائی رکھتے ہیں ان کیلئے یہ بات واضح ہے کہ مسلمان تورات اور انجیل کو جو حضرت موسی ٰع اور حضرت عیسی ع جیسے عظیم پیغمبروں پر خدا کی طرف سے نازل ہوئیں کو دنیا والوں کیلئے سراسر نور، ہدایت اور مایہ رحمت جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عزیز، قرآن کی ابتدائی سورہ [بقرہ] میں حضرت محمد مصطفی ص سے پہلے آنے والے انبیاء پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں پر ایمان کو متقین اور مومنین کی حتمی خصوصیات میں سے ذکر کرتا ہے۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے الہی ادیان کے سچے پیروکاروں کیلئے اس حد تک احترام کے قائل ہونے کے باوجود کیوں یہودیوں کے ایک گروہ نے اسلام کے ساتھ دشمنی کا راستہ اختیار کیا ہے اور مختلف سیاسی، ثقافتی، میڈیا اور پروپیگنڈہ کے حربوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور عیسائیوں کو ساتھ ملا کر مجرم امریکہ کی سرکردگی میں نئی صلیبی جنگ کے آغاز کے درپے ہیں؟۔ 

اگرچہ ابھِی تک صیہونیستوں کی یہ حرکتیں حقیقت پسند یہودیوں اور نیک نیت عیسائیوں کی طرف سے حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور انہوں نے نہ صرف اس سیاست کا استقبال نہیں کیا بلکہ بعض اوقات اس کی شدید مذمت بھی کی ہے لیکن پھر بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ یہ گروہ کسی بھی وقت دنیا میں ایک وحشت ناک اور ویرانگر جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ 

آج جب سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہو چکا ہے، وہ قوتیں جو دنیا پر اپنے افکار زور اور دھونس کے ذریعے تھونپنے کے درپے ہیں، ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے مسلسل اسلام پر دہشت گردوں کا دین ہونے اور مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ اگر تورات اور انجیل کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ خود دہشت گرد ہیں اور ان کا دین اور مذہب جرم اور انسانوں کی قتل و غارت ہے اور وہ کئی نسلوں سے یہ کام انجام دیتے آئے ہیں۔ 

حضرت عیسی ع اس گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں: 

“وای ہو تم لوگوں پر۔ اے [نام نھاد] دینی عالمو اور منافق عابدو، تم لوگ یہ دعوی کرتے ہو کہ اگر اپنے باپ داد کی جگہ ہوتے تو خدا کے نبیوں کو قتل نہ کرتے۔ تم لوگ ان باتوں کے ذریعے اپنے باپ داد کے قاتلین انبیاء ہونے کا اعتراف کرتے ہو۔ تم لوگ قدم بہ قدم ان کی پیروی کرتے ہو۔ تم لوگ برے اعمال میں ان سے سبقت لے چکے ہو”۔۱ 

آج کی [تحریف شدہ] تورات میں بھی اس گروہ کے بارے میں خداوند تعالیٰ کی شکایت موجود ہے اور حضرت موسی ع، ھارون ع اور داود ع کی زبانی اس گروہ پر خدا کی طرف سے نفرین اور لعنت موجود ہے: “خداوند نے موسی ع سے فرمایا: یہ لوگ کب تک میرے احکام کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں؟”۔۲ 

اور “خداوند نے موسی ع سے فرمایا: جلدی کرو اور پہاڑ [کوہ طور] سے نیچے جاو کیونکہ تمہاری قوم جس کو تم نے مصر سے نجات دلائی ہے مفسد ہو گئی ہے”۔۳ 

ایک اور جگہ پر جناب ھارون ع حضرت موسی ع کے جواب میں، جب وہ پوچھتے ہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں کچھ یہودی[گائے] گوسالہ پرست اور منحرف کیوں ہو گئے ہیں، فرماتے ہیں: 

“مجھ سے ناراض نہ ہوں، آپ خود جانتے ہیں کہ یہ قوم کس قدر مفسد ہیں”۔۴ 

حضرت موسی ع فرماتے ہیں: “خدا کی لعنت ہو ان افراد پر جو اس کے احکامات اور فرامین کی پیروی نہیں کرتے”۔۵ 

شاید سب سے اہم بات حضرت موسی ع کی وہ پیش گوئی ہے جو آپ کے وحیانی علم اور قوم بنی اسرائیل کی گہری شناخت پر مبنی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: “اگر آج میرے ہوتے ہوئے آپ لوگ اس قدر خدا کے باغی ہیں تو کل میری غیر موجودگی میں آپ لوگ کیا کریں گے؟”۔۶ 

اسی طرح آپ نے ایک اور مقام پر مناجات کی صورت میں فرمایا: “خدایا، تو خود ان مغرور اور ملعون افراد کو جو تیری نافرمانی کرتے ہیں سزا دے گا”۔۷ 

ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ دور حاضر میں وہ کون سا گروہ ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہے؟۔ بے شک یہ وہ افراد ہیں جو دین، یہودیت اور سرزمین موعود کے الہی وعدے کے تحقق کی بنیاد پر اپنے گروہی اور پست مفادات کے حصول کیلئے کسی بھی جرم و جنایت اور قتل و غارت سے گریز نہیں کرتے۔ یہ افراد خدا کے احکام اور عدالت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ قوم یہود کے کچھ پاک سرشت افراد، جن کا ذکر تورات میں ہوا ہے، خدا کے حضور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: “خدایا، ہمارے اجداد خودخواہ اور مغرور تھے اور وہ تیرے احکام کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے 

تھے”۔۸   

تورات میں ایک اور جگہ ایسے ہی افراد یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: “خدایا، ہماری نافرمان قوم نے تجھ سے بغاوت کی ہے اور تیرے دستورات کی پرواہ نہیں کی ہے اور تیرے پیغمبروں کو جو ان کو تیری سمت ہدایت کرنا چاہتے تھے قتل کر دیا ہے اور ان برے اعمال کے ذریعے تیری بارگاہ میں توہین کے مرتکب ہوئے ہیں”۔۹ 

حضرت موسی ع، اولیای خدا اور دوسرے انبیای الہی کیا اس کے علاوہ کچھ اور کہتے تھے کہ قتل و غارت نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، جرم و جنایت انجام نہ دیں، دوسروں کی سرزمین کو غصب نہ کریں۔ وہ بہت ہی واضح انداز میں فرماتے تھے: “کسی کا مال غصب نہ کریں اور کسی پر ظلم نہ کریں”۔۱۰ 

کیا آج دنیا والے اس بات کے گواہ نہیں ہیں کہ یہودی قوم کا ایک باغی گروہ جن کا آبائی پیشہ قتل و غارت ہے، [برطانیہ]، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شہ پر ایک مظلوم ملت کی سرزمین کو غصب کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر روز فلسطین کے مرد و خواتین اور بوڑھوں و بچوں کو شہید اور اسیر کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جن کی نابودی کا وعدہ بت شکن زمان حضرت امام خمینی رہ نے کچھ عرصہ پہلے یہ کہتے ہوئے دیا کہ :”اسرائیل کو ختم ہو جانا چاہیئے”۔ 

خود تورات اور انجیل میں خدا نے ان کی نابودی کا عندیہ کچھ اس انداز میں دیا ہے: “بیواوں اور یتیموں سے کام نہ لو۔ اگر تم لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہوں نے مجھ سے تمہاری شکایت کی تو میں ان کی شکایت کی رسائی کروں گا اور تم پر غضب ناک ہوں گا اور تمہارے دشمنوں کے ذریعے تمہیں نابود کر دوں گا تاکہ تمہاری خواتین بیوہ ہو جائیں اور تمہارے بچے یتیم ہو جائیں”۔۱۱ 

خداوند عالم نے تورات کے مختلف حصوں میں نافرمان اور ناسپاس یہودی قوم کو عذاب کا وعدہ دیا ہے اور چونکہ اس قوم نے اپنی اصلاح نہیں کی لہذا خدا نے ان کو کئی عذاب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ موارد درج ذیل ہیں: 

۱- “میں تم لوگوں سے مقابلہ کروں گا اور تم لوگ اپنے حریفوں سے فرار کرو گے۔ تم لوگوں پر ایسے افراد حکومت کریں گے جن سے تمہیں نفرت ہو گی یہاں تک کہ تم اپنے سائے سے بھی ڈرو گے”۔ 

۲- “میں تم لوگوں کی طاقت کو جس پر تمہیں فخر ہے نابود کر دوں گا”۔ 

۳- “میں تم لوگوں کی طرف ایسے وحشی جانوروں کو بھیجوں گا جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو ہلاک کریں گے اور تمہاری تعداد کو کم کر دیں گے جس کے نتیجے میں تمہارے رستے ویران ہو جائیں گے”۔ 

۴- “میں تم لوگوں سے انتقام لوں گا اور تمہارے خلاف جنگ کروں گا۔ جب تم لوگ دشمن سے بھاگ کر اپنے شہروں کو جاو گے تو میں تمہارے اندر وباوں کو بھیجوں گا تاکہ تم دشمن سے مغلوب ہو جاو”۔ 

۵- “میں تم لوگوں پر جنگ کی بلا کو نازل کروں گا تاکہ تم لوگ [دنیا میں] مختلف اقوام کے اندر منتشر ہو جاو۔ تمہاری سرزمین اور راستے ویران ہو جائیں گے”۔ 

۶- “میں ایسا کام کروں گا کہ تم میں سے وہ افراد جو قیدی بنا کر لے جائے جاَئیں گے ہمیشہ خوف و وحشت میں رہیں۔ حتی کہ ہوا سے ہلنے والے پتے کی آواز سے بھی یہ سمجھ کر کہ دشمن ہے، ڈر کر فرار کرو گے اور ٹھوکر کھا کر گر جاو گے”۔۱۲ 

۷- “خداوند دور سے ایک قوم کو تمہارے پیچھے بھیجے گا۔ ایسی قوم جس کی زبان سے تم ناواقف ہو۔ وہ عقاب کی طرح تم پر لپکیں گے”۔۱۳ 

۸- “خداوند ہر قسم کی بیماری اور بلائیں تم پر نازل کرے گا تاکہ تمہیں نابود کرے۔ حتی وہ بیماریاں جن کا ذکر اس کتاب میں نہیں ہے”۔۱۴ 

ملعون یہودی قوم کی نابودی کی پیش گوئی نہ صرف تورات بلکہ موجودہ اناجیل میں بھی حضرت عیسی ع کی زبانی موجود ہے۔ حضرت عیسی ع ایسے پیغمبر ہیں جو بارہا اپنے زمانے کے یہودیوں کے ہاتھوں مورد اذیت و آزار قرار پائے ہیں۔ ذیل میں کچھ نمونے پیش کئے جاتے ہیں: 

۱- “اے خوبصورت نقش و نگار والے سانپو، کیا تم لوگ سوچتے ہو کہ حقیقی توبہ کئے بغیر خدا کے عذاب سے بچ جاو گے؟۔ تم لوگوں کا عمل یہ بتائے گا کہ کیا تم لوگوں نے واقعاً توبہ کی ہے یا نہ۔ اس چیز کو ذہن سے نکال دو کہ ابراہیم ع کی اولاد ہونے کی وجہ سے تم عذاب خداوندی کا شکار نہیں ہو گے کیونکہ خدا اگر چاہے تو صحرا کے ان پتھروں سے ابراہیم ع کیلئے اولاد خلق کر سکتا ہے”۔۱۵ 

۲- “جب بھی دیکھو کہ یروشلم دشمن کے محاصرے میں ہے تو سمجھ لو کہ تمہاری نابودی کا وقت آ پہنچا ہے۔ اس وقت تم لوگ پہاڑوں میں پناہ حاصل کرو، اور وہ افراد جو شہر سے باہر ہیں واپس مت لوٹیں کیونکہ وہ [تمہارے برے اعمال کی] سزا اور انبیاء کی تمام پیش گوئیوں کے تحقق کا وقت 

ہے”۔۱۶ 

البتہ اس مضمون میں ان جنایتوں اور ظلم و ستم کے ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے جو نافرمان یہودیوں نے حضرت عیسی ع اور آپ کے باوفا ساتھیوں سے روا رکھے لیکن وہ چیز جو انجیل میں موجود آیات سے سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہودی قوم کی نجات صرف اس میں ہے کہ خداوند کے احکام اور فرامین کی اطاعت کرے۔ ایسے افراد جو ظلم و ستم ، جرم و جنایت اور انبیاء ع و اولیاء الہی کے قتل کے مرتکب ہوئے اور ہر عصر میں دین کے نام پر دوسروں کے ساتھ دہشت گردی کرتے رہے اور ان میں خوف و وحشت پھیلاتے رہے، ان کی حتمی سرنوشت ہلاکت اور نابودی ہے۔ ان تمام مصادیق کا ایک واضح نمونہ فلسطین پر قبضہ کرنے والے صیہونیست ہیں۔ 

چونکہ انبیاء ع کی تعلیمات کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے کیلئے ہیں لہذا خدا کا یہ قانون یعنی مومنین پر برکتوں کا نزول اور نافرمان افراد پر عذاب کو نازل کرنا بھی ہر زمانے میں انجام پذیر ہے۔ اور صیہونیستوں کی عالمی اور علاقائی سطح پر نابودی ایک یقینی اور غیر قابل تردید حقیقت ہے۔ اسی طرح جیسے گذشتہ دور میں “بخت النصر” کی فوج کے ذریعے خدا نے انہیں سزا دی۔ 

قرآن بھی یہودی قوم کے بارے میں فرماتا ہے: “تورات میں ہم نے بنی اسرائیل کو یہ بتا دیا تھا کہ تم لوگ دو بار زمین میں سرکشی اور فساد کرو گے۔ جب تمہیں سزا دینے کے بارے میں ہمارے پہلے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم جنگجو افراد کو تمہاری طرف بھیجیں گے جو تمہارے گھروں پر حملہ کریں گے اور وہاں سے تمہیں ڈھونڈ باہر نکالیں گے۔ یہ وہ وعدہ ہے جس کا تحقق یقینی ہے۰۰۰۰۰اور جب تمہیں سزا دینے کے بارے میں ہمارے دوسرے وعدے کا وقت آ پہنچے گا تو تمہارے دشمن تم پر غالب آ جائیں گے اور تم اس قدر دباو کا شکار ہو جاو گے کہ ذلت اور غم و اندوہ کے اثرات تمہارے چہروں سے ظاہر ہو جائیں گے۔ وہ [تمہارے دشمن] اس بار تمہاری عبادت گاہوں میں بھی داخل ہو جائیں گے اور جو کچھ پائیں گے اس کو نابود کر دیں گے”۔۱۷ 

ان تمام توضیحات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صیہونیسم، جو نافرمان یہودیوں کا ایک آشکار نمونہ ہیں، آسمانی کتابوں کے مطابق مجرمانہ اور دہشت گردانہ خصوصیات کی وجہ سے ان پر عذاب الہی کا نازل ہونا یقینی اور حتمی ہے۔ لہذا انہیں چاہیئے کہ فلسطین میں قتل و غارت اور جرم و جنایت، اسلامی مقدسات کی توہین اور عالم اسلام کے خلاف سازشوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کرنے کی بجائے توبہ کا راستہ اختیار کریں اور خدا کے احکامات و فرامین کی اطاعت کریں۔ دوسری صورت میں اس دنیا میں جس کو خداوند عالم نے عدالت اور انصاف کے اصولوں پر خلق کیا ہے اور ان اصولوں کا تحقق یقینی ہے، ان کا نصیب سوائے ہلاکت کے کچھ نہیں ہو گا۔ خداوندتعالٰی اس روشن مستقبل کی خوش خبری آسمانی کتابوں میں دے چکا ہے: 

“ہم نے تورات کے بعد زبور میں یہ کہا ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے وارث ہوں گے”۔۱۸ 

“نیک افراد کو زمین ورثہ میں ملے گی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے”۔۱۹ 

مراجع: 

۱- انجیل متی، باب ۲۳، آیات ۲۹ کے بعد۔ 

۲- تورات، خروج، باب ۱۶، آیہ ۲۸- 

۳- تورات، خروج، باب ۳۲، آیہ ۷- 

۴- تورات، خروج، باب ۳۲، آیہ ۲۲- 

۵- تورات، تثنیہ، باب ۲۷، آیہ ۲۶- 

۶- تورات، تثنیہ، باب ۳۱، آیہ ۲۷- 

۷- تورات، زبور، باب ۹۴، آیہ ۸- 

۸- تورات، زبور، باب ۱۱۹، آیہ ۲۱- 

۹- تورات، نحمیا، باب ۹، آیہ ۱۶- 

۱۰- تورات، نحمیا، باب ۹، آیہ ۲۶- 

۱۱- تورات، لاویان، باب ۱۹، آیہ ۱۳- 

۱۲- تورات، خروج، باب ۲۶، آیات ۱۲ تا ۳۹- 

۱۳- تورات، تثنیہ، باب ۲۸، آیہ ۲۹- 

۱۴- تورات، تثنیہ، باب ۲۸، آیہ ۶۱- 

۱۵- انجیل لوقا، باب ۳، آیہ ۷ تا ۹- 

۱۶- انجیل لوقا، باب ۲۱، آیات ۲۰ اور بعد- 

۱۷- قرآن کریم، سورہ اسراء، آیات ۴ سے ۹- 

۱۸- تورات، زبور، باب ۳۷، آیہ ۲۹- 

۱۹- قرآن کریم، سورو انبیاء، آیہ ۱۰۵- 

تبصرے
Loading...