پس یہ ان کی کھال کا تبدیل کرنا کس لئے ؟

پس یہ ان کی کھال کا تبدیل کرنا کس لئے ؟

اس کی وجہ کو آج کا علم طب بیان کرتا ھے کہ انسان کی کھال میں دردو الم کاشدید احساس پایا جاتا ھے لیکن گوشت اور اندرون اعضاء میں کم احساس هوتا ھے اسی وجہ سے ایک طبیب کا یہ ماننا ھے کہ اگر انسان کا جسم معمولی طورپر اس طرح جلے کہ فقط کھال تک اس کا اثر جائے تو اس کو بہت شدید درد هوتا ھے اس کے برخلاف اس کے جس کے بدن کا اندرونی حصہ بھی جل جائے اگر چہ اس میں خطرہ زیادہ ھے لیکن درد و تکلیف کا احساس زیادہ نھیں هوتا۔
قارئین کرام ! آپ نے خدا وندعالم کی حکمت کو ملاحظہ فرمایا،جب کہ آج کا انسان تر قی کر کے اس نتیجہ پر پهونچا ھے ”خداوندعالم عزیز و حکیم ھے“[52]

دوسری آیت :

جس میں قیامت کے منکرین کے اعتقاد کو بیان کیا گیا ھے اور اس کے بعد قیامت کے بارے میں تاکید و اصرار کیا ھے:

بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بِنَانَہ>[53]

انگلیوں کے سرے (پورے)کیا خاصیت رکھتے ھیں؟

آج کا سائنس کہتا ھے :

انگلیوں کے سرے گویا ایک عجیب شئی ھے جن میں لکیریںهوتی ھیں اور ان لکیروں کی شکل و صورت ایک دوسرے انسان سے مکمل طور پر مختلف هوتی ھیں اگر چہ حسب و نسب میں یا خونی رشتہ میں ایک دوسرے کے قریب هوں پس اس پورے عالم بشریت میں ایک جیسی انگلیوں کی لکیریں رکھنے والے نھیں پائے جاسکتے۔

سب سے پھلے جب ۱۸۸۴ء میں انسان کی انگلیوں کی لکیروں کے بارے میں تحقیق پیش کی گئی کیونکہ جس وقت بڑی بڑی دور بین بنائی گئی اور ان کے ذریعہ سے اس بات کو ثابت کیا گیا کہ ھر انسان کے لئے جدا جدااور دقیق لکیریں ھیں جو انسان کی انگلیوں کی کھال میں خوبصورتی بھی عطا کرتی ھیں جس کو خدا وند عالم نے اس کی انگلیوں میںقرار دیا ھے۔ اور جو انسا ن کی شخصیت کی نشاندھی کرتی ھیں۔

یہ تمام لکیریں ایسی بناوٹ اور شکل کی هوتی ھیں کہ ان کے تمام دقیق اجزاء اور تمام مختلف شکل کاغذ پر آجاتی ھیں ،مثلاًانگلیوں پر روشنائی لگاکر ایک کاغذ پر لگانے سے یہ ساری لکیریں واضح طور پر نمایاں هو جاتی ھیں ، اسی طریقہ سے انگلیوں کے یہ نشانات لوھے ،شیشے یا چکنی لکڑی وغیرہ پر ظاھر هو سکتے ھیں ،ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ۴۰۰ ملین “Million” لوگوں کی انگلیوں کے نشانات میں سے صرف ایک نشان معمولی طور پر ایک دوسرے سے مشابہ پایا گیا ھے ،لیکن وہ بھی دو افراد میں مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ھے ، کیو نکہ ان دونوں افراد میں جو شباہت پائی گئی ھے وہ مکمل طور پر ایک دوسرے پر منطبق نھیں هوتی ۔

آج کے زمانہ میں تو دنیا کی اعلیٰ درسگاهوں میں اس موضوع کے لئے خاص شعبہ جات کھل گئے ھیں ،تاکہ انگلیوں کی لکیروں کے بارے میں مکمل طور پر تحقیق کر سکیں اور بعض معاملات اور بعض حوادث اور چوری وغیرہ میں اشخاص کی پہچان کر سکیں ،کیونکہ کسی بھی چیز پر مثلاً اسلحہ کو پکڑنے یا دروازے یا تالے پر ھاتھ لگا نے سے ھاتھوں کے نشانات ان پر منتقل هو جاتے ھیں ،اور پھران نشانات کو مشینوں کے ذریعہ کاغذپر اتار لیا جاتا ھے اور ان کو بڑا کر کے مزید واضح کیا جاتا ھے تاکہ انھیں نشانیوں کے ذریعہ متھم اور ملزم کی شناخت هو سکے۔

واقعاً یہ بات بھی عجیب ھے کہ ھاتھوں کی نشانیوں کا یہ عجیب سسٹم ھے کہ یہ ولادت کے وقت سے آخر وقت تک ثابت رہتی ھیں اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نھیں آتی ،یھاں تک کہ انسان اپنی عمر کے مختلف حصوں سے گذرتا هوا رشد ونمو کرتا ھے لیکن ان میں کوئی بھی تحریف کوئی بھی تبدیلی نھیں آتی ،گویا یہ ایک بڑی دور بین کے مابین ھیں جو بچپن کی لکیروں کو دیکھ کر جوانی اور بڑھاپے کے عالم کی لکیروں کو اصل کے مطابق بناتی رہتی ھیں۔

در حقیقت یہ بات بھی تعجب آور ھے کہ جب انسان کے ھاتھوں کی لکیریں کسی حادثہ کی بناپر ختم هوجاتی ھیں یا جل جاتی ھیں تو نظام قدرت کے تحت یہ پھر دوبارہ اپنی اسی پرانی حالت کے مطابق نقشہ بناتی ھیں جو بالکل پرانی شکل سے ملتی ھیں، یعنی ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نھیں هوتی۔ چنانچہ اس علم کے ما ھرین نے ان خطوط اور لکیروں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ھے:

۱۔فصیلة الخطوط المتقوسة ،(قوس دار لکیریں )

۲۔فصیلة الخطوط المرادیة ۔(جالی ٹائپ کی)

۳۔ فصیلة الخطوط الدوامیة ۔(گول او ردائرہ والی) جو ایک دوسرے پر چڑھی رہتی ھیں جو آہستہ آہستہ اندر کی طرف باھر کی طرف کو پھیلتی بھی ھیں اور یہ وسط میں موجود مر کز میں پائی جاتی ھیں۔

۴۔فصائل المرکبات ،یہ گذشتہ تینوں قسموں سے مل کر بنتی ھے ،اورصرف یھی قسم دوسرے لوگوں سے ملتی جلتی هوتی ھے،لیکن ان کا پہچاننا مشکل هوتا ھے۔
المختصر آج کے دور میں جرائم کی دنیا میںان لکیروں کے ذرریعہ بہت سے جرائم کو کشف کرلیا جا تا ھے یھاں تک کہ ہزاروں انکشافات اس الٰھی راز سے هوتے رہتے ھیں جس کو خداوند عالم نے انسان کی ھاتھ کی انگلیوں کے سرے میں قرار دیا ھے۔
واقعاً اسلام نے پھلے ھی روز جسم میں پو شیدہ اس عظیم راز کی طرف نشاندھی کر دی تھی اور قرآن مجید نے لوگوں کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ ھر انسان کی انگلیوں کے سرے پرخاص لکیریں هوتی ھیں جو ایک دوسرے سے ذرہ برابر بھی نھیں ملتی ۔[54]

ھم نے اس بحث کے مقدمہ میں عر ض کیا تھا کہ ھم مسئلہ معاد پر مکمل طور پر عقیدہ رکھتے ھیں اور وھاں پر ھم نے یہ اشارہ بھی کیا کہ قیامت پر ایمان رکھنا خدا وند عالم کے ایمان کانتیجہ ھے کیونکہ وھی تمام مخلوقات کا خالق ھے اور تمام موجودات کی اصل وجہ ھے اور وھی مسبب الاسباب ھے،بغیر اس کے کہ اس کے وجود کے لئے کوئی سبب هو،یا اس کے وجود کے لئے کوئی مسبب هو۔ اور جب ھم نے خدا وند عالم کی ذات اقدس پر مکمل ایمان کر لیا اور یہ مان لیا کہ وھی تمام مخلوقات کی علت ھے،اور یہ کہ مادہ اس کی ایک مخلوقات میں سے ھے اگر چہ بعض نے مادہ کو ازلی اور ابدی تصور کیا ھے[55]

لہٰذا انسان حشر ونشر اور قیامت کے عقیدہ سے فرار نھیں کرسکتا ،کیونکہ قیامت کا امکان پایا جاتا ھے اور اس کا واقع هونا محال نھیں ھے۔

وہ عقل جو فاعل اول پر ایمان رکھتی ھے وہ ایسے راستے کھول دیتی ھے کہ اس فاعل کی ایسی قدرت پر ایمان رکھے جو اس فعل کو دوسری مرتبہ بلکہ ہزاروں مرتبہ انجام دے سکتا ھے اور یہ بات بالکل واضح ھے جس کے لئے مزید وضاحت و استدلال کی ضرورت نھیں ھے لیکن اس چیز کے لئے ھم ایک مثال پر اکتفاء کرتے ھیں کہ وہ شخص جو کوئی ایک چیز بنا سکتا ھے (مثلاً الکٹرونک عقل یا کوئی گاڑی)تو وہ انسان اس چیز کو دوبارہ بنانے کی بھی قدرت رکھتا ھے ،اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے ،جب کہ ھم یہ بھی عقیدہ رکھتے ھیں کہ صانع اول خدا وندعالم کی ذات ھے۔

اسی طرح ایک گاڑی بنانے والا انجینئر اگراس گاڑی کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں مختلف پرزوں کو الگ الگ بھی کردے ،تو وہ پھر بھی اس بات پر قادر ھے کہ اس گاڑی کو ویسی ھی بنادے جس طرح وہ پھلے تھی ،اور کوئی شخص بھی اس سے کوئی دلیل طلب نھیں کرے گا کہ وہ ایسی قدرت کس طرح رکھتا ھے ،کیونکہ جو شخص کسی چیز کو پھلی مرتبہ بنا سکتا ھے وہ اس کو دوبارہ کیا بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں بار بنا سکتا ھے۔
بالکل اسی طرح قیامت کے امکان پر بھی دلیل قائم هو سکتی ھے چنانچہ اس سلسلے میں قرآن مجید نے واضح طورپر حشر ونشر اور قیامت کے عقیدہ کو بیان کیا ھے،لہٰذاھم یھاں پر صاحبان ارباب کے لئے قرآن مجید کی وہ آیات بیان کرتے ھیں جن میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ھے۔ارشاد خدا وندی هوتا ھے:

وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَءِ نَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا۔ قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا ۔ اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ >[56]
اور یہ لوگ کہتے ھیں کہ جب ھم (مرنے کے بعد سڑ گل کر)ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ هوجائیں گے تو کیا از سر نو پیدا کرکے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟!! (اے رسول)تم کہہ دو کہ تم (مرنے کے بعد)چاھے پتھر بن جاوٴ یا لوھا یا کوئی اور چیز جو تمھارے خیال میں بڑی (سخت)هواور اس کا زندہ هونا دشوار بھی هو، وہ بھی ضرور زندہ هوگی، تو یہ لوگ عنقریب ھی تم سے پوچھیں گے بھلا ھمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا تم کہہ دو کہ وھی (خدا)جس نے تم کو پھلی مرتبہ پیدا کیا

وَیَقُوْلُ الاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا اَوَ لَایَذْکُرُ الاِنْسَانُ اَناَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلمَ ْیَکُ شَیْئًا >[57]

اور( بعض )آدمی (ابی بن خلف)تعجب سے کھا کرتے ھیں کہ کیا جب میں مرجاوٴں گا تو جلدی سے جیتا جاگتا (قبرسے)نکالا جاوٴں گاکیا وہ (آدمی)اس کو نھیں یادکرتا کہ اس کو اس سے پھلے جب وہ کچھ نھیں تھا پیدا کیا

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاٴْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ>[58]

”(یہ) وہ دن (هوگا)جب ھم آسمان کو اس طرح لپیٹیںگے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ھے جس طرح ھم نے (مخلوقات کو)پھلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) دوبارہ (پیدا)کر چھوڑیں گے (یہ وہ)وعدہ (ھے جس کا کرنا) ھم پر لازم ھے اور ھم اسے ضرور کر کے رھیں گے

اَللهُ یَبْدَوٴُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْ جَعُوْنَ >[59]

خدا ھی نے مخلوقات کو پھلی بار پیدا کیا وھی دوبارہ (پیدا) کرے گا پھر تم سب لوگ اس کی طرف لوٹائے جاوٴگے

وَقَالُوْا اٴَ ءِ ذَا کُنَّا عِظَاماً وَ رُفَاتاً اٴَءِ نَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلقاً جَدِیْداً>[60]

اور یہ لوگ کہتے ھیں کہ جب ھم (مرنے کے بعد سڑ گل کر )ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ هو جائیں گے، تو کیا از سر نو پیدا کرکے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ قَادِرٌعَلٰی اَن یَّخلُقَ مِثْلَھُمْ >[61]

کیا ان لوگوں نے اس پر بھی نھیں غور کیا کہ وہ خدا جس نے سارے آسمان اور زمین بنائے اس پر بھی (ضرور ) قادر ھے کہ ان ایسے آدمی دوبارہ پیدا کرے

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِنْ طِیْنٍ ۔ثُمَّ جَعَلْنَہُ نُطْفَةً فِی قَرارٍ مَکِیْنٍ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًفَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰاماً فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْماً ثُمَّ اَنْشَاٴْ نٰہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُون۔ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰاَمَةِ تُبْعَثُوْنَ۔>[62]
اور ھم نے آدمی کو گیلی مٹی کے جوھر سے پیدا کیا ،پھر ھم نے ا س کو ایک محفوظ جگہ (عورت کے رحم میں)نطفہ بنا کر رکھا پھر ھم نے نطفہ کو جما هوا خون بنا یا ،پھر ھم نے منجمد خون کو گو شت کا لوتھڑا بنایا، ھم ھی نے لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیںپھر ھم ھی نے ہڈیوں پر گو شت چڑھایا پھر ھم ھی نے اس کو (روح ڈال کر)ایک دوسری صورت میں پیدا کیا تو (سبحان الله)خدابا برکت ھے جو سب بنانے والوں سے بہتر ھے پھر اس کے بعد یقینا تم سب لوگوں کو (ایک نہ ایک دن)مرنا ھے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاوٴگے

نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ۔ اَفْرَءَ یْتُمْ مَا تُمْنُوْنَ۔ ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ ۔نَحْنُ قَدَّرْناَ بَیْنَکُمْ الْمَوْتَ وَ ماَ نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔عَلٰی اَنْ نُبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَ نُنْشِئَکُمْ فِی مَالَا تَعْلَمُوْنَ۔ لَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاَةَ اٴلاُولٰی فَلَوْلاَ تَذَکَّرُوْنَ۔>[63]

تم لوگوں کو(پھلی بار بھی) ھم ھی نے پیدا کیا ھے پھر تم لوگ (دوبارہ کی) کیوں نھیں تصدیق کرتے تو جس نطفہ کو تم (عورت کے)رحم میں ڈالتے هو کیا تم نے دیکھ بھال لیا، کیا تم اس سے آدمی بناتے هو؟ یا ھم بناتے ھیں ھم نے تم لوگوں میں موت کو مقرر کر دیا ھے اورھم اس سے عاجز نھیں ھیں کہ تمھارے ایسے او ر لوگ بدل ڈالیں اور تم لوگوں کو اس (صورت)میں پیدا کریں جسے تم مطلق نھیں جانتے اور تم نے پھلی پیدائش تو سمجھ ھی لی ھے (کہ ھم نے کی)پھر تم غور کیوں نھیں کرتے؟
اَیَحْسَبْ الْاِنْسَانُ اَنْ ُیتْرَکَ سُدًی اَلَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰی فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنَّ یُحِْیَ الْمَوْتٰی>[64]
کیا انسان یہ سمجھتا ھے کہ وہ یوں ھی چھوڑ دیا جائے گا کیا وہ (ابتداً)منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالی جاتی ھے پھر لوتھڑا هوا پھر خدا نے اسے بنایا پھر اسے درست کیا پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک)مرد اور(ایک) عورت ،کیا اس پر قادر نھیں کہ (قیامت میں)مردوں کو زندہ کر دے

اَوَلمَ ْیَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ وَ لَمْ یَعْیَ بِخَلْقِھِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰیٓ اَنْ یُّحْیَِ الْمَوْتٰی بَلٰی اِنَّہ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ>[65]

کیا ان لوگوں نے یہ نھیں غور کیا کہ جس خدا نے سارے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نھیں ،وہ اس بات پر قادر ھے کہ مردوں کو زندہ کرے ھاں(ضرور) و یقینا ھر چیز پر قادر ھے

اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِنْ مَّآءٍ مَھِیْنٍ ۔فَجَعَلْنٰہُ فِی قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ۔ وَیْلٌ یَّو مَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ>[66]

کیا ھم نے تم کو ذلیل پانی (منی) سے پیدا نھیں کیا؟! پھر ھم نے اس کوایک معین وقت تک ایک محفوظ مقام (رحم)میں رکھا، پھر(اس کا) ایک اندازہ مقرر کیا، تو ھم اچھا اندازہ مقرر کرنے والے ھیں، اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ھے

اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اِنَّا خَلَقْنٰہ ُ مِنْ نُطْفَةٍ فَاِذَا ھُوَخَصِیْمٌ مُبِیْنٌ ۔وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ اَنْشَاَھَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَھُوَ بُِکِّل خَلْقٍ عَلِیْمُ>[67]
کیا آدمی نے اس پر بھی غور نھیں کیا ھم ھی نے اس کو ایک ذلیل نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ یکا یک (ھمارا ھی)کھلم کھلامقابل (بنا)ھے اور ھماری نسبت باتیں بنانے لگا ھے اور اپنی خلقت (کی حالت)بھول گیا (اور)کہنے لگا کہ بھلا جب یہ ہڈیاں (سڑ گل کر)خاک هوجائیں گی تو (پھر) کون (دوبارہ)زندہ کر سکتا ھے (اے رسول) تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے)پھلی مرتبہ حیات دی، وہ ھر طرح کی پیدایش سے واقف ھے

اَوَ لَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ بَلٰی وَھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ>[68]

”(بھلا )جس (خدا)نے سارے آسمان اور زمین پیدا کئے کیا وہ اس پر قابو نھیں رکھتا کہ ان کے مثل (دوبارہ)پیدا کردے ھاں(ضرور قابو رکھتا ھے)اور وہ تو پیدا کرنے والاواقف کار ھے

اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الاَوَّلِ بَلْ ھُمْ فِی لَیْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ>[69]

تو کیا ھم پھلی بار پیدا کرکے تھک گئے ھیں؟(ھر گز نھیں)،مگر یہ لوگ ازسر نو(دوبارہ)پیداکرنے کی نسبت شک میں پڑے ھیں

لَخَلَقُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ>[70]

سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا،لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت یقینی بڑا(کام) ھے مگر اکثر لوگ (اتنابھی) نھیں جانتے

یٰاَ یُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآءُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یَّرِدُّ اِلٰیٓ اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا وَتَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَةً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْھَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَھِیْجٍ۔ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللهَھُوَالْحَقُّ وَاَنَّہ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ وَاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَارَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللهَیَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ>[71]

اے لوگو! اگر تم کو (مرنے کے بعد)دوبارہ جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ھے تو اس میں شک نھیں کہ ھم نے تمھیں (شروع شروع مٹی )سے اس کے بعد نطفہ سے اس کے بعد جمے هوئے خون سے پھر اس لوتھٹر ے سے جو پورا(سڈول)هو یا ادھوراهو؛ پیداکیا تاکہ تم پر(اپنی قدرت)ظاھر کر یں (پھر تمھارا دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ھے)؟! اور ھم عورتوںکے پیٹ میں جس (نطفہ)کو چاہتے ھیں ایک مدت معین تک ٹھھرا رکھتے ھیں ،پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ھیں پھر (تمھیںپالتے ھیں)تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ھیںجو (قبل بڑھاپے کے)مر جاتے ھیں اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ھیں جو ناکارہ زندگی (بڑھاپے )تک پھیر لائے جاتے ھیں تاکہ سمجھنے کے بعدسٹھیاکے کچھ بھی (خاک)نہ سمجھ سکے اور وہ تو زمین کو مردہ (بیکار افتادہ) دیکھ رھا ھے ،پھر جب ھم اس پر پانی برساتے ھیں تو لھلھانے اور ابھرنے لگتی ھے اور ھر طرح کی خو شنما چیزیں اگاتی ھے تو یہ (قدرت کے تماشے اس لئے دکھاتے ھیں تاکہ تم جانو)کہ بیشک خدا بر حق ھے اور (یہ بھی کہ)بیشک وھی مردوں کو جلاتا ھے اور وہ یقینا ھر چیز پر قادر ھے اور قیامت یقینا آنے والی ھے اس میں کوئی شک نھیں اور بیشک جو لوگ قبروں میں ھیں ان کو خدا دوبارہ زندہ کرے گا

لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ اٴَ لَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًا>[72]

اور (اس وقت ھم یاد دلائیں گے کہ جس طرح ھم نے تم کو پھلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح )تم لوگوں کو (آخر)ھمارے پاس آنا پڑا، مگر تم تو یہ خیال کرتے تھے کہ تمھارے (دوبارہ پیداکرنے کے) لئے کوئی وقت ھی نھیں ٹھھرائیں گے

اس طرح ھمارے بہترین طریقہ سے یہ واضح هو جا تا ھے :

اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرْضَ قٰادِرٌ عَلٰی اٴَنْ یَخْلُقَ مِثْلَھُمْ>[73]

وہ خدا جس نے سارے آسمان اور زمین بنائے اس پر بھی (ضرور )قادر ھے کہ ایسے آدمی دوبارہ پیدا کرے

کیونکہ دوسری مرتبہ کسی چیز کا پیدا کرنا یا اس کو دوبارہ بنانا پھلی پیدائش سے مختلف نھیں هو سکتا ،اور اس کو ھم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ھیں اور اس پر دلیل بھی قائم ھے۔

اور اس میںکوئی شک نھیں ھے کہ نطفہ میں اسی طرح کی صلاحیت ھے کہ وہ نطفہ سے علقہ بنے اور علقہ سے مضغہ بنے ،اور مضغہ سے جنین بنے اور جنین سے بچہ بنے اور پھر جوان هو جائے اور آخر میںبڑھاپے کی منز ل تک پهونچ جائے ،تو جو خدا ان تمام چیزوں پر قادر ھے، تووہ اس بات پر بھی قادر ھے کہ وہ تخلیق کے ان مراحل کو دوبارہ بھی انجام دے، انسان کے لئے حشر و نشر قرار دے اور ان کو دوبارہ زندہ کرے۔

یُحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ>[74]

وہ ہڈیوں کو راکھ هونے کے بعد بھی زندہ کر سکتا ھے

جیسا کہ اس نے انسان کو اس وقت بھی پیدا کیا جب کچھ نہ تھا۔

کیونکہ خدا وندا عالم کی ذات کے سامنے کوئی تعجب والی بات نھیں ھے کیونکہ اس کی ذات وہ ھے:

اَلَّذِیْ اَنْشَاھَا اَوَّلَ مَرَّةً> [75]

اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو(جب یہ کچھ نہ تھے پھلی مرتبہ زندہ کیا

اس کی ذات وہ ھے:

اَلَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰا تِ وَ الاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِھِنَّ>[76]

آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نھیں

اورخدا کی ذات ھی وہ ھے:

بَلٰی وَھُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ>[77]

اور وہ تو پیدا کرنے والا واقف کار ھے

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ>[78]

وہ خدا(ھر نفس سے)پاک صاف ھے جس کے قبضہٴ قدرت میںھر چیز کی حکومت ھے

سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ >[79]

اور وہ خدا جو سارے جھاں کا پالنے والا ھے

قارئین کرام ! یہ منطق و فطرت اور وجدان ھے ،جس میں کسی طرح کے شک و شبہ اور بے جا احتمال کی کوئی گنجائش نھیں ھے۔

لیکن اگر کوئی شخص اس ٹھوس حقیقت میں شک کرے بھی تو ھم اس کو قیامت میں شک کرنے والا نھیں کھیں گے ،کیونکہ ھم اس پر اعتراض کریں گے ،کہ اس کا یہ شک اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ وہ اپنے ایمان کے دعوے میں کہ” خدا ھی مبداء اول ھے“ سچا نھیںھے،اور اس کو اس وقت یہ بھی حق نھیں پهونچتا کہ وہ قیامت کے بارے میں استدلال طلب کرے یا قیامت کا انکار کرے یا قیامت پر یقین نہ کر ے بلکہ اس کے لئے ضروری ھے کہ وہ خلق اول اور خالق اول پر ایمان کے سلسلے میں بحث کرے،کیونکہ قیامت کا مسئلہ (جیسا کہ ھم پھلے بھی کہہ چکے ھیں) ایسے عمل کی تکرار ھے جو خدا وندا عالم نے پھلے انجام دیا ھے کیونکہ اگر کوئی شخص گذشتہ مسئلہ پر یقین و ایمان رکھتا ھے تو پھربعد والے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ھی باقی نھیں رہ جاتی۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ھے کہ قیامت کا انکا ر کرنا خدا وند عالم کے خالق هونے کا انکار نھیں ھے بلکہ یہ تو حکم عقل کی بنا پر ھے کہ کسی چیز کا واپس پلٹانا محال ھے، کیونکہ انسان مرنے کے بعد معدوم هو جاتا ھے ،اور یہ بات واضح ھے کہ معدوم کا اعادہ محال ھے، یعنی جو چیز بالکل ختم هوجائے اس کو دوبارہ اسی حالت پر پلٹانا غیر ممکن ھے اور ایک عقلمند انسان کے لئے محالات پر ایمان رکھنا معقول نھیں ھے۔!!

قارئین کرام ! یہ تھا بعض لوگوں کے اعتراض کا خلاصہ ،کیونکہ ان پر یہ بات مخفی رھی ھے اور موت و معاد کے حقیقی معنی کو صحیح طور پر سمجھ نھیں پائے۔
کیونکہ اگر معتر ض اپپے اعتراض پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس پر یہ بات واضح هو جائے گی کہ ان کی موت کامطلب اس کے اجزاء و اعضاء کا معدوم هونا نھیں ھے،بلکہ در حقیقت موت کے ذریعہ وہ اجزاء متفرق اور پرا کندہ هو جاتے ھیں ۔ (جیسا کہ مشهور شعر ھے: )


(”
موت کیا ھے انھیں اجزاء کا پریشاں هونا“)


جبکہ بعض لوگوں نے یہ گمان کر لیا ھے جسم کے اعضاء کا متفرق اور بکھرجانا ان کا معدوم هونا ھے یعنی اس کا کوئی وجود ھی باقی نھیں رہتا،جب کہ حقیقت میں یہ اجزاء موجود رہتے ھیں اگر چہ متفرق اور جدا جدا هوجائیں،اور جب خدا ان بکھرے هوئے اعضاء کو اپنی قدرت کاملہ سے جمع کرنا چاھے گا تو ان کو پرانی حالت پر پلٹادے گا اور جسم و روح ایک جگہ جمع هو جائیں گے اور اسی کا نام معاد ھے۔
چنانچہ اس معنی کی طرف قرآن کریم کی وہ آیت جس میں جناب ابراھیم علیہ السلام نے اپنے پر وردگار سے سوال کیا تھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ،بہترین دلیل ھے۔
ارشادخدا وندی ھے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی>[80]

(پالنے والے تو مجھے دکھا دے کہ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا)

تو اس وقت خدا وند عالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کے جواب میں فرمایا:

قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْک>[81]

(یعنی جناب ابراھیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ چار پرندوں کو لے کر ان کا قیمہ بنا لو ،اور اس کو آپس میں اس طرح ملالو کہ وہ ایک دوسرے سے الگ کر نے کے قابل نہ رھیں۔
ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء اً>[82]

یعنی پھر ا س مخلوط قیمہ کو الگ الگ پھاڑوں پر رکھ دو ۔

َ ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا >[83]

اس کے بعد تم ان کو پکارنا ،وہ دوڑے هوئے تمھارے پاس آجائیں گے۔

یعنی خدا وندعالم نے ان پرندوں کے اعضاء و اجزاء کو ان کے اصلی صاحب سے ملادیا جبکہ وہ مستقل طریقہ سے ایک دوسرے سے جدا جدا هوگئے ،اور جب ھر پرندہ کے سارے اجزاء اس سے مل گئے تو خدا وندعالم نے ان کو حیات عطا کر دی۔
قارئین کرام ! قرآن مجید کی یہ آیت ھمارے لئے بہترین دلیل ھے کہ موت نام ھے اجزاء و اعضاء کا متفرق هوجانا،اور موت کسی بھی صورت میں انعدام نھیں ھے جیسا کہ قیامت کے بعض منکرین کا گمان ھے۔

لہٰذاطے یہ هوا کہ اس کام (دوبارہ زندہ کرنے میں)استحالہ اور محال هونے کی کوئی بات نھیں ھے،اور عقلی طور پر شک شبہ کی ذرہ برابر بھی گنجائش نھیں ھے،جیسا کہ بعض گمان کرنے والوں کا گمان ھے۔

اور جب یہ طے هو گیا کہ معاد نام ھے انسان کو موت کے بعد حساب و کتاب کے لئے واپس پلٹانے کا،اور اسی محاکمہ کے نتیجہ میں ثواب وعقاب کیا جائے گا :

وَحَشَرَ نَا ھُمْ فَلَمْ نُغَادِرُ مِنْھُمْ اَحَدًا>[84]

اورھم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے

یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ >[85]

اور اس دن کو یا رکھو )جس دن ھر شخص جو اس نے (دنیا میں)نیکی کی ھے اور جو کچھ برائی کی ھے اس کو موجود پائے گا

تو پھر ضروری ھے کہ تمام عالم اور جو کچھ اس میں موجود ھے وہ فنا هوں اور ان کی حرکت حیات کی چکی بند هو ،اور تمام زندہ چیزوں کو موت آئے۔

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَاءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُب>[86]

جب ھم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ھے
یَوْمَ تُبَدِّلُ الاٴَرْضُ غَیْرَ الاٴَرْضِ وَالسَّمٰوٰاتِ>[87]

جس دن یہ زمین بدل کردوسری زمین کر دی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دئے جائیں گے

تو کیا یہ باتیں عقل میں آتی ھیں؟اور کیا آج کا سائنس اس سلسلہ میں ھماری راہنمائی کرتا ھے تاکہ ھمارے سامنے آفاق کی مجمل باتیں واضح و روشن هو جائیں؟

(چند دانشوروں کے نظریات)

قارئین کرام ! اس سلسلے میں چند دانشوروں کے نظریات ملاحظہ فرمائیں:


پرو فیسر”فرانک لین“کہتے ھیں:

ڈینا میکا حراری“ “Thermo Dynamics”کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ اس کائنات کی حرارت آہستہ آہستہ ختم هو جائے گی،اور ایک دن وہ آئے گا کہ تمام چیزوں کا درجہ حرارت گھٹ کر بالکل ”صفر“هوجائے گا ،اور اس وقت تمام طاقتیں ختم هو جائیں گی، اور پھر زندگی محال بن جائے گی، لہٰذاضروری ھے کہ ایک ایسی حالت پیدا هو جس میں تمام طاقتیں ختم هو جائیں کیونکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کا درجہ حرارت بالکل (صفر) هو جائےگا

تبصرے
Loading...