نبوت عظمیٰ

نبوت       

[1]

”اور ھم تورسولوں کو صرف اس غرض سے بھیجتے ھیں کہ( نیکوں کو جنت کی)خوشخبری دیں او (بدوں کو عذاب جہنم سے) ڈرائیں، پھر جس نے اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں پر قیامت میں کوئی خوف نہ هوگا اور نہ ھی وہ غمگین هوں گے۔“

[2]

”اے ایمان والو ! خدا اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (محمد ) پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے پھلے نازل کی ایمان لاؤ، اور (یہ بھی یاد رھے کہ ) جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت کا منکر هوا تو وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑا۔“

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”وواتر الیھم انبیاء ہ، لیستاٴدوھم میثاق فطرتہ، ویذکروھم منسي نعمتہ، ویحتجوا علیھم بالتبلیغ، ویثیروا لہ دفائن العقول“

(خدا نے انسانیت کی خاطر مسلسل انبیاء بھیجے تاکہ ان کی فطرت کو بیدار کریں اور اور ان کو خدا کی فراموش شدہ نعمتوں کے بارے میں یاد دلائیں، اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حجت قائم کریں، اور ان کے لئے عقل کے چھپے خزانوں کو ظاھر کریں)

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

قارئین کرام ! جب یہ بات طے ھے کہ زمین وآسمان اور جو کچھ ان کے درمیان موجو ھے ان پر بغیر کسی شریک اور مخالف کے خدا کا حکم جاری ھے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ھے:

[3]

وھی خدا جس کے سوا کوئی قابل عبادت نھیں (حقیقی) بادشاہ پاک ذات (ھر عیب سے) بری، امن دینے والا، نگھبان، غالب زبردست بڑائی ولا ھے۔“

نیز ارشاد هوتا ھے:

[4]

”وھی خدا (تمام چیزوں کا) خالق ، موجد صورتوں کا بنانے والا اس کے اچھے اچھے نام ھیں“

ایضاً :

[5]

”وھی خدا ھے جس کے سوا کوئی معبود نھیں پوشیدہ اور ظاھر کا جاننے والا ،وھی بڑا مھربان نھایت رحم کرنے والا ھے“

اور جب ان آیات کی روشنی میں یہ طے هوگیا ھے کہ تمام چیزوں پر خداوندعالم کا ھی حکم جاری ھے جس کی گواھی مستحکم دلائل اورفطرت انسانی دیتی ھےں تو اس خدا کے لئے سب سے پھلے یہ ضروری ھے (اس کے لطف وکرم اور فضل کی بنا پر) کہ وہ نوع بشریت کی ہدایت کا انتظام کرے تاکہ اس ہدایت کے ذریعہ نوع بشریت کمال وعروج تک پهونچے ان کی رفتار وگفتار کی اصلاح کرے، جیسا کہ خدا کے لئے یہ بھی ضروری ھے (لطف وکرم اور فضل کی تکمیل کے لئے) کہ ھر زمانہ کے انسانوں کے لئے حلال وحرام کی تفصیل بیان کرے تاکہ ان پر اتمام حجت هوجائے اور عام طور پر سبھی مستفید هوسکیں

قارئین کرام ! یہ تھے مختصر طور پر نبوت عام کے معنی۔

اور جبکہ عقلِ انسانی زمانہ کے ساتھ ترقی کررھی ھے اور تیزی سے جدید نتائج اور گھرائیوں کا پتہ لگارھی ھے تو اس لحاظ سے آسمانی ادیان بھی جو کہ انسانی عقل کے اعتبار سے نازل کئے گئے ھیں تاکہ ھر قوم وملت اور ھر زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرسکے، اور ان کی ضروریات کا مکمل طور پر جواب دے سکے نیز اس زمانے کے فکری مسائل کا حل پیش کرسکے، یھاں تک کہ اسلام اس درجہ پر پهونچا کہ خداوندعالم نے اس کو منتخب کیا تاکہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے ان کی عقلی پیشرفت اور ترقی کا جواب گو هوسکے۔

یہ تھے معنی نبوت بمعنی خاص۔

ھم اس حصہ میں عنقریب نبوت پر عام معنی میں روشنی ڈالیں گے جو گذشتہ انبیاء علیھم السلام سے متعلق ھے، نیز ھم نبوت بمعنی خاص کی بھی وضاحت کریں گے جو دین اسلام سے مربوط ھے اور دین اسلام کے مبلغ اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی زندگی پر بھی روشنی ڈالیں گے۔

البتہ کتاب کی ضخامت کو مد نظر رکھتے هوئے واضح عبارت اور دلیلوں کے ذریعہ گفتگو کریں گے۔

لیکن توجہ رھے کہ ھم آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت پاک کو تفصیل کے ساتھ بیان نھیں کرسکتے کیونکہ اس کے لئے خود ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے البتہ اس سلسلہ میں ھم نے ”فی رحاب الرسول (ص)“ نامی کتاب کا کام شروع کررکھا ھے امید ھے کہ خداوندمنان توفیق اور فرصت عطا کرے تاکہ اس کو پایہ تکمیل تک پهونچادیں۔

اسی وجہ سے ھمارے قارئین محترم اس باب میں ”نبوت“ اور اس سے مربوط مسائل کے علاوہ دوسری گفتگو نھیں پائیں گے، خداوندعالم ھماری مدد کرے اور استحکام عطا فرمائے۔

[6]

”اے ھمارے پالنے والے (جب) ھم نے ایک آواز لگانے والے (پیغمبر) کو سنا کہ وہ ایمان کے لئے پکارتا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ھم ایمان لائے، پس اے ھمارے پالنے والے ھمارے گناہ بخش دے اور ھماری برائیوں کو ھم سے دور کردے، اور ھمیں نیکیوں کے ساتھ اٹھا، اور اے پالنے والے اپنے رسولوں کی معرفت ھم سے جو کچھ وعدہ کیا ھمیں دے، اور ھمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، تو تووعدہ خلافی کرتا ھی نھیں۔“

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔

نبوت بمعنی عام

ھم نے پھلے بیان کیا اور اس نتیجہ کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا کہ اس کائنات کے خالق پر ایمان رکھنا بالکل واضح ھے جس پرعقل، منطق، فطرت اور وجدان سبھی دلالت کرتے ھیں، اور اسی وضاحت کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نھیں رہتی کیونکہ اگر ”مادہ“ کا وجود معلول ھے تواس کے لئے ایک ایسی قدرت کا هونا ضروری ھے جو معلول نہ هو، اسی ذات کو ”واجب الوجود“ اور ”ضروری الوجود“ کہتے ھیں، نیزاسی ذات اور مصدر اول کاعاقل ا ور توانا اور حکیم هونا ضروری ھے، اور یہ چیزیں مادہ میں نھیں پائی جاتیں۔

ھم نے اس سے قبل اس بات کو بھی ثابت کیا کہ تمام چیزوں پر خداوندعالم کی ھی حاکمیت ھے کیونکہ:

[7]

”اور وہ ھر چیز پر قادر وتوانا ھے“

[8]

”بے شک تمھارا پرودگار جو چاہتا ھے کرھی کے رہتا ھے“

[9]

”تو وہ خدا (ھر نقض سے) پاک وصاف ھے جس کے قبضہ قدرت میں ھر چیز کی حکومت ھے“

[10]

”جو کچھ وہ کرتا ھے اس کی پوچھ گچھ نھیں هوسکتی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس هوگی۔“

وہ سهو ونسیان سے پاک وپاکیزہ ھے وھی غنی وحمید ھے اور ھم کسی ایسی ذات کی حاکمیت پر تسلیم نھیں کرتے جس میں یہ صفات نہ پائی جائیں، اور عقل اس بات کی طرف واضح ثبوت دیتی ھے کہ یہ تمام صفات اللہ رب العزت کے علاوہ کسی میں نھیں پائی جاتے۔ [11]

قارئین کرام ! ھماری مذکورہ باتوں سے درج ذیل مسلم نتائج برآمد هوتے ھیں:

ھمارا خدا وہ ھے جو قادر، عاقل اور حکیم ھے ، در حقیقت سارے جھان پر اس کی مکمل طور پر حاکمیت ھے اور نظام بشریت کا اسی حاکمیت کے زیر سایہ رہنا ضروری ھے تاکہ اس کی حاکمیت مزید روشن هو، ایسی حاکمیت جس میں وہ جو چاھے کرے جو چاھے نہ کرے، کیونکہ خداوندعالم کی ذات عالم ھے اور اس کے علم کی طرح کسی کاعلم نھیں انسان خدا کے علم کی طرف ہزاروں سال بعد متوجہ هورھا ھے جبکہ سب لوگوں کے ذوق اور سلیقے الگ الگ ھیں جن کے مصالح اور خواہشات جدا ھیں، افکار ونظریات مختلف ھیں اور اس شدید اختلاف کی صورت میں کوئی بھی حکومت نھیں کرسکتا مگر یہ کہ جس کی سب پر حکومت هو اور تمام افراد اسی کے سامنے سر جھکائیں، ایسی حکومت جس میں ھر انسان کے لئے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کو بیان کیا گیا هو، جس کے زیر سایہ نوع بشریت کی تمام مشکلات حل هوجائیں۔

اس بات کو علماء کلام کی زبان میں ”ہدف بعثت انبیاء (ع) “ کھا جاتا ھے جس کو ”نبوت کے اغراض ومقاصد“ بھی کھا جاسکتا ھے۔

هوسکتا ھے کسی ذہن میں یہ سوال پیدا هو کہ: خداوندعالم نے نوع انسانی کی زندگی کے لئے ایک خاص نظام کیوں معین کیا؟! اور کیوں نہ اس کو مکمل طور پر آزاد چھوڑدیا تاکہ اپنے نظریات وخیالات کی بنا پر قواعد وضوابط بنائے اور اپنے تجربہ سے فائدہ حاصل کرے، چاھے وہ صحیح هوں یا غلط، چاھے کسی چیز میں ترمیم کرے یاکسی چیز کو حذف کردے ،کسی چیز کو معتدل بنائے یا اس کو بالکل ھی بدل کر رکھ دے، یھاں تک کہ اپنی آخری منزل پر ایک بہترین اور کامل ترین نظام معین کرلے؟!

قارئین کرام ! ھم اس سوال کے تین جواب پیش کرتے ھیں:

پھلا جواب:

نظام اورقوانین بنانا صرف اسی کاحق ھے جو ”مصدر سلطنت“ (مالک الملک) هو اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہ هو، اور اسی بات پر آج کے تمام قانون گذار اور سیاست مدار اتفاق رکھتے ھیں۔

اور جیسا کہ ھمارا اعتقاد ھے کہ اللہ رب العزت مالک الملک ھے وھی قانونی اور واقعی طور پر حاکم ھے کسی دوسرے کو ذرہ برابر بھی دخالت کرنے کا حق نھیں ھے، تو پھر نظام انسانی وغیر انسانی کے قوانین وضوابط بنانے کا حق اسی کا ھے:

[12]

”(اے رسول ) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ھی کی ہدایت تو ہدایت ھے(باقی سب ڈھکوسلا ھے) “

دوسرا جواب:

کیونکہ ھم معتقد ھیں کہ عقل انسانی اگرچہ اس کو خلاقیت کی قوت دی گئی ھے لیکن پھر بھی بعد والی مصلحتوں کا ادراک کرنے سے قاصر ھے، اور انسان اپنے اوپر آنے والی مشکلات کو دور نھیں کرسکتااگرچہ کچھ مشکلات کو تجربات کی بنا پر حل کرسکتا ھے اور بعض میں غلطی اور خطا کا بھی امکان ھے، اور بعض مشکلات تو ایسی هوتی ھیں کہ انسانی عقل کی رسائی تک نھیں اور منزل مقصود تک نھیں پهونچا جاسکتا:

[13]

”اور ھم نے تم پر کتاب (قرآن) تو اسی وجہ سے نازل کی تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ باھم جھگڑا کئے ھیں ان کو صاف صاف بیان کردو“

تیسرا جواب:

اس نظام بشریت سے پھلے بھی خاص نظریات کی حکومت تھی اور بعض امتیازات کو فوقیت دی جاتی تھی، نظام کے بنانے والے چاھے جس قبیلہ سے هوں یا کسی رنگ کے هوں،ان میں ذات پات کا انعکاس پایا جاتا تھا۔

اسی لئے ضروری تھا کہ نوع انسانی ان تمام جھل ونادانی اور غلط تجربوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک ایسا عام نظام بنائیں جو انسان کی ضرورتوں کو جانتا هو، اور ان کی روز مرہ کی مشکلات کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا هو، اور اس کے نفع ونقصان کی چیزوں کو بیان کرتا هو، اور نوع انسانی کے تمام افراد کے ساتھ مساوات کے قائل هو ، اور یہ نہ دیکھے کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتاھے کس طبقہ سے مرتبط ھے، اور کس شھر کا رہنے والا ھے۔

اس کائنات میں ان صفات کا حامل خداوندعالم کے علاوہ کوئی نھیں ھے۔ اور یہ نظام اورقوانین خدا کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء (ع) کی رسالت کے علاوہ کچھ نھیں ھے، خدا نے اپنے انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا تاکہ انسانیت کو کامیاب وکامران بنائیں اور اس کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرےں۔

اور ”لطف“ کے یھی معنی علماء علم کلام کی بھی مراد ھیں، لہٰذا اسی (لطف) کی طرف مستند کرتے ھیں کہ قاعدہ لطف کی بنا پر خداوندعالم کے لئے ضروری ھے کہ تاقیام قیامت نبوت کاانتظام کرے تاکہ نبوت کے ذریعہ نوع انسانی ہدایت یافتہ هوکر اپنے نفع ونقصان کی باتوں کا پتہ لگاسکے اور ان پر عمل پیرا هوکر سعادت اخروی حاصل کرلے۔

براھمہ [14]کا نظریہ یہ ھے کہ انسان کو انبیاء ومرسلین کی کوئی ضرورت نھیں ان کی دلیل اور گمان یہ ھے کہ چونکہ انبیاء (ع) وھی سب کچھ بیان کرتے ھیں جس بات کاعقل حکم کرتی ھے تو جب ھمارے پاس عقل ھے تو پھر انبیاء ومرسلین کی کیا ضرورت ھے؟! اور اگر انبیاء وہ چیزیں بیان کریں جو عقل کے مخالف هوں تو ان کو فرض کے خلاف سمجھ کر چھوڑدیا جاتا ھے اوران پر عمل نھیں کیا جاتا۔

لیکن ان کی یہ دلیل اور گمان بالکل واضح البطلان ھے کیونکہ دلیل و برھان ان کے نظریہ کے برخلاف ھے، کیونکہ جو شخص بھی آسمانی ادیان سے واقف ھے اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ھے کہ ھمیشہ شریعت ایسی چیزوں پر مشتمل هوتی ھے جن میں سے کچھ چیزیں عقل پر واضح هوتی ھیں جبکہ کچھ چیزیں واضح نھیں هوتیں اور جو چیزیں عقل پر واضح هوتی ھیں ان پر شریعت زور دیتی ھے اور ان پر عمل کرنے کاحکم دیتی ھے اور اس میں عقل کی اھمیت واضح ھے۔

لیکن وہ چیزیں جو عقل پر واضح اور معلوم نھیں هوتیں (جبکہ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے) تو ان چیزوں میں مقصد یہ هوتا ھے کہ لوگوں کو ان بہترین کاموں کی طرف ہدایت کرے جن میں انسان اپنی زندگی کے مشکل ، مجهول اور جدید مسائل میں سرگرداں رہتا ھے۔

 

یہ وہ چیزیں ھیں جن کو عقل نھیں پہچانتی اور جن کو براھمہ نے ”مخالف عقل“ سے تعبیر کیا ھے جبکہ ان کی یہ تعبیر بعید از عقل ھے، کیونکہ رسالت ونبوت جو کچھ بھی بیان کرتی ھیں وہ کبھی بھی عقل کے مخالف نھیں هوا کرتی،لیکن چونکہ انھوںنے ھر اس چیز کو مخالف عقل قرار دیدیا جو عقل پرواضح نہ هو، اور یھیں سے رسالت ونبوت مجهول چیزوں سے پردہ برداری کرتی ھیں، اور عقل کو متوجہ کرتی ھے۔

ارشاد رب العز ت ھے:

[15]

”خدا نے توایمانداروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے واسطے انھیں کی قوم سے ایک رسول بھیجا جو انھیں خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ھے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ھے اور انھیںکتاب (خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ھے“

نیز ارشاد هوتا ھے:

[16]

”(سر تا پا) ہدایت اور رحمت اورخوشخبری ھے“

کیونکہ خداوندعالم نے ان عظیم سُفراء (انبیاء (ع)) کو امام کی صفت سے متصف کیا ھے :

[17]

”ھم تم کو لوگوں کا امام بنانے والے ھیں“

اسی طرح انبیاء (ع) کو خلافت کے نام سے نوازا:

[18]

”اے داوود ھم نے تم کو زمین پر (اپنا) نائب قرار دیا“

اور کبھی ان حضرات کو رسالت کے لقب سے سرفراز کیا:

[19]

”اور پیغمبروں پر (درود) وسلام هو“

[20]

”وہ لوگ جو خدا کے پیغاموں کو (لوگوں تک جوں کا توں) پہنچاتے ھیں“

اور کبھی ان کو نبوت کا نام دیا:

[21]

”تب خدا نے (نجات سے) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا“

اور کبھی بھی ان حضرات کو حاکم کی صفت سے توصیف نھیں فرمایا، چاھے قانونی معنی کے لحاظ سے هو یا سیاسی لحاظ سے، کیونکہ نبی ورسول حاکم اعلی نھیں هوتے ھیں بلکہ حاکم اعلی (خدا) کے نائب هوتے ھیں۔

قرآن کریم مذکورہ صفات (جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ھے) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے خطاب کے لئے فقط نبی اور رسول کہہ کر خطاب فرماتا ھے:

[22]

”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے اس کو پہنچادو“

[23]

”اے رسول تم کو بس خدا کافی ھے“

اور یھی دوصفات قرآن مجید میں اکثر مقامات پر تکرار هوئی ھیں، اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ کیا یہ ان دونوں صفات کے ایک ھی معنی ھیں یا ان صفات میں فرق ھے؟!

اس سوال کے جواب میں صرف اتنا عرض کرنا ھے کہ صاحب علم وبصیرت کے نزدیک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بارے میں ان دونوں صفات میں کوئی فرق نھیں ھے کیونکہ آپ کی ذات گرامی میں یہ دونوں صفات جمع ھیں اور آپ کی ذات والا صفات ان دونوں الفاظ کی مصداق ھے، اور اگر ان دونوں صفات میں فرق پایا جاتا ھے تو گذشتہ انبیاء ومرسلین میں ملتا ھے کہ ان میں سے بعض رسول تھے اور باقی تمام نبی۔

اگرچہ اس سلسلہ میں بہت سی تاویلات بیان کی گئی ھیں اور ان دونوں صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ھے:

نبی وہ هوتا ھے جو خدا کی باتوں کو بغیر واسطہ کے انسانوں تک پهونچائے چاھے وہ صاحب شریعت هو یا نہ هو، صاحب شریعت هو جیسے ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمیا صاحب شریعت نہ هو جیسے حضرت یحيٰ علیہ السلام کیونکہ ان کو اس وجہ سے نبی کھا گیاکہ ”انھوں نے خدا کی طرف سے خبر دی ھے۔“ نبی بروزن فعیل بمعنی مفعل ھے[24]

اور رسول وہ هوتا ھے جو بغیر واسطہ کے خدا کی طرف سے خبر دے اور وہ صاحب شریعت بھی هو۔ [25]

یھاں سے یہ بات ظاھر هوتی ھے کہ خدا کی طرف سے خبر دینے میں نبی ورسول دونوں برابر ھیں لیکن رسول کا امتیاز یہ ھے کہ وہ صاحب شریعت بھی هوتا ھے جبکہ نبی عام هوتا ھے چاھے وہ صاحب شریعت هو یا پھلے نبی کی شریعت کی تبلیغ کرے۔

اور یھی فرق اس سلسلہ میں بیان شدہ فرقوں میں بہتر ھے، جس کی وجہ سے علماء اھل کلام نے کھا ھے کہ :

”ان کل رسول نبی ولا عکس“

(یعنی ھر رسول نبی هوتا ھے لیکن ھر نبی رسول نھیں هوتا)

بھر حال ھماری گذشتہ گفتگو سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ خدا پر نبوت کا انتظام کرنا واجب ھے اور اس ”وجوب نبوت“ پر عقل اور قاعدہ لطف دونوں حکم کرتے ھیں۔

اسی طرح خدا اور بندوں کے درمیان ایسے سفیروںکا موجود هونا ضروری ھے جو بندوں تک احکام پهونچائیں۔

نیز یہ بھی ضروری ھے کہ انبیاء (ع) کے پاس کوئی ایسی نشانی موجود هو جو نبوت کے دعوے کو سچ کردکھائے، کیونکہ الٰھی سفارت کا یہ منصب اتنا عظیم هوتاھے جس کا بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا ھے لہٰذا اس منصب کے ادعا کرنے و الے بعض جھوٹے هوتے ھیں اور بعض سچے، لہٰذا نبی کے پاس وہ عظیم نشانی هو جو طبیعی افعال سے بلندوبالا هو اور ایسا کام کوئی جھوٹا دعویٰ کرنے والا انجام نہ دے سکتا هو، اور یہ عظیم نشانی صرف ”معجزہ“میں منحصر ھے جو طبیعی قوانین کا پابند نھیں هوتا بلکہ ان قوانین کو توڑ دیتا ھے اور ان سے بالاتر کی اشیاء کو پیش کرتا ھے۔

اب سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ ”معجزہ“ کیا ھے؟ تو معجزہ اور اعجاز کے لغت میں معنی ھیں: عجز کا ایجاد کرنا جیسے ”عجزت زیداً ای جعلتہ عاجزاً“ (میںنے زید کو عاجز کردیا)

اصطلاحی معنی: خدا کی طرف سے نبوت کا دعویٰ کرنے والا کوئی ایسا کام انجام دے جو طبیعی قوانین سے بالاتر هو، اور (اس زمانہ کے)لوگ ایسا کام کرنے سے عاجز هوں، اور یہ معجزہ نبی کے دعویٰ کی صداقت اور سچائی پر گواہ بن جائے۔

قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ھے کہ بعض وہ چیزیں جو جادوگر یا بعض علوم کے ماھرین انجام دیتے ھیں اس کو اصطلاح میں معجزہ نھیں کھا جاتا، اگرچہ جادوگروں کے کام کو کو ئی دوسرا نھیں کرسکتا (لیکن کیا کوئی دوسرا جادوگر بھی اس کام کو انجام نھیں دے سکتا؟ بالکل دے سکتا ھے) کیونکہ جادوگروں کا کام خاص قواعد کے تحت هوتا ھے او ران قواعد وقوانین کے جاننے والے ان نتائج تک پهونچ ھی جاتے ھیں اگرچہ ضروری ھے کہ وہ ان قواعد میں ماھر هونا اورمھارت رکھنا ضروری ھے۔

هوسکتا ھے کوئی شخص منصب الٰھی کا دعویٰ کرے او رکوئی ایسا کام بھی انجام دے جس کو دوسرے افراد انجام دینے سے عاجز هوں، لیکن پھر بھی اس کا یہ کام اس کے جھوٹ کی دلیل بن جاتا ھے، جیسا کہ مسیلمہ کذاب کی طرف نسبت دی گئی ھے کہ جب اس نے ایک کم پانی والے کنویں میں پانی زیادہ کرنے کے لئے تھوکا تو اس میں موجود تمام پانی خشک هوگیا، اسی طرح جب اس کے موالیوں نے بچوں کے سروں پر ھاتھ پھیرنے کو کھا تو جب اس نے ھاتھ پھیرا تو سب بچے گنجے هوگئے۔

خلاصہ یہ کہ نبوت کے لئے معجزہ کا هونا ضروری ھے۔

اور یہ معجزہ دعویٰ کے مطابق هو۔[26]

چنانچہ اسی طریقہ (مطابق دعویٰ) کا معجزہ دکھانے والا خدا کی طرف سے سچا نبی هوتا ھے:

[27]

”اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ کوئی معجزہ خدا کے اذن کے بغیر دکھائے“

پس یہ بات صحیح ھے کہ معجزہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور دعویٰ کی صداقت پر واضح دلیل هوتا ھے کیونکہ صاحب اعجاز ایسا کام انجام دیتا ھے جو قوانین طبیعت کو توڑدیتا ھے اور مشهور ومعروف نتائج کا خاتمہ کردیتا ھے اور یہ کام خداوندعالم کی عطا کردہ قدرت کے کے بغیر ممکن نھیں ھے:

[28]

”(یہ قرآن) کوئی ایسی بات نھیں ھے جو (خواہ مخواہ) گڑھ لی جائے بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اس کے پھلے موجود ھیں ان کی تصدیق ھے“

اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ھاتھوں پر ظاھر هونے والا یہ معجزہ اس کی صداقت پر دلیل بن جاتا ھے اور یہ بات کشف کرتا ھے کہ خداوندعالم اس کی نبوت سے راضی ھے اور اس وجہ سے اس کو معجزہ دکھانے کی طاقت عطا کی ھے، چنانچہ اسی چیز کی طرف خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ھے:

[29]

”اگر رسول ھماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ان کا داہنا ھاتھ پکڑ لیتے، پھر ھم ضرور ان کی گردن اڑادیتے“

یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ>[30]

”یہ قرآن ایسا نھیں ھے کہ خدا کے سوا کوئی او راپنی طرف سے جھوٹ موٹ بنا ڈالے، بلکہ (یہ تو) جو (کتابیں پھلے کی) اس کے سامنے موجود ھیں اس کی تصدیق اور (ان) کتابوں کی تفصیل ھے اس میں کچھ شک نھیں کہ یہ سارے جھان کے پروردگار کی طرف سے ھے ،کیا یہ لوگ کہتے ھیں کہ اس رسول نے خود جھوٹ موٹ بنالیا ھے ، (اے رسول) تم کهو کہ (اچھا) اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے هو تو ایک ھی سورہ اس کے مقابلہ میںبنالاؤ، اور خدا کے سوا جس کو تمھیں (مدد کے واسطے) بلاتے بن پڑے بلالو)

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

گذشتہ بحث کا خلاصہ یہ تھا کہ ”نبوت“ کا هونا ضروری ھے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے شخص کی عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتی ھے، نیز نوع بشریت بھی اس چیز کی ضرورت کا احساس کرتی ھے اور (خدا کے لطف وکرم اور رحمت کا تقاضا بھی یھی ھے کہ خدا کی طرف سے ھر زمانہ کے لئے نبی، رسول ،شریعت اور کتاب کا هونا ضروری ھے، یھاں تک کہ یہ سلسلہ ھمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتک پهونچا، آپ کی ذات گرامی سید المرسلین وخاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمھے اور آپ کی شریعت دوسری شریعتوں کی خاتم ھے اور تاقیام قیامت باقی رہنے والی ھے۔

اور شاید یھی ھمارے نبی خاتم کا یہ پھلا امتیاز هو کہ خداوندعالم نے ھمارے نبی کو دوسرے تمام انبیاء (ع) پر فضیلت دی ”رسول اللہ وخاتم النبیین“ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور آنحضرت کی رسالت کبریٰ، زمان ومکان کے لحاظ سے عالمی ھے اور کسی قوم سے مخصوص نھیں اور ایسا نھیں ھے کہ زمین کے کسی ایک حصہ میں مخصوص هو اور کوئی دوسرا حصہ اس میں شامل نہ هو اور نہ ھی کسی خاص امت سے مخصوص ھے، نیز کسی خاص زمانہ سے بھی مخصوص نھیں ھے، چنانچہ اس سلسلہ میں خداوندعالم کا ارشاد ھے:

[31]

”اے رسول ھم نے تم کوتمام لوگوں کا رسول بناکر بھیجا“

[32]

”(اے رسول) ھم نے تم کو سارے جھاں کے لوگوں کے لئے از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا“

[33]

”(اے رسول ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کے پاس خداکا بھیجا هوا (پیغمبر)هوں“

[34]

 

”تاکہ میں تمھیں اور جس کے پاس اس کی خبر پهونچے، ڈراوٴں“

[35]

”(اے رسول) کہہ دو کہ لوگو! میں تو صرف تم کو کھلم کھلا (عذاب سے) ڈرانے والا هوں“

قارئین کرام ! یہ تمام آیات متفقہ طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتمام لوگوں کے نبی ھیں، چاھے وہ آپ کی بعثت کے وقت موجود هوں یا آپ کے بعد پیدا هوںگے، چاھے وہ جزیرة العرب میں هوں یا دوسرے ممالک میں۔

اور یہ ایک ایسا امتیاز ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پھلے کسی نبی یا رسول کو نھیں دیا گیا کیونکہ آپ سے پھلے انبیاء (ع) کسی خاص گروہ یا خاص طائفہ کے نبی هوتے تھے وہ بھی خاص زمانہ میں جیسا کہ قرآن مجید نے واضح طور پر اشارہ کیا ھے:

[36]

”ھم نے جناب نوح کو ان کی قوم کے پاس (رسول ) بناکر بھیجا“

[37]

”اور ھم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (رسول بنا کر بھیجا“

[38]

”اور ھم ھی نے یقیناً موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (پیغمبر بناکر ) بھیجا“

 

[39]

” اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کھا اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس خدا کا بھیجا هوا (آیا) هوں“

چنانچہ ان آیات سے یہ بھی واضح هوجاتا ھے کہ جناب نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کا اور جناب صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کا، جناب موسی علیہ السلام کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کا نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی وہ واحد ذات ھے جن کو تمام لوگوں کا نبی بنا کر بھیجا گیا۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ گذشتہ انبیاء (ع) کی رسالت وقتی اور خاص زمانہ کے لئے محدود هونے کی کیا دلیل ھے؟ تو اس سلسلہ میں بھی عرض ھے کہ یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ پھلی والی شریعت بعد والی شریعت کے ذریعہ منسوخ هوجاتی ھے، پھلے والے احکام ختم هوجاتے ھیں اور ان کی جگہ جدید احکام نافذ کئے جاتے ھیں کیونکہ انسان دونوں شریعتوں کے احکام پر عمل نھیں کرسکتا جو اکثر احکام میں مختلف اور مخالف هوتی ھیں۔

نیز کسی ایک چیز پر دونوں شریعتیں الگ الگ حکم کرتی ھیں اور اس بات پر عقلی دلیل اور فطرت انسان دلالت کرتی ھے اور اس کا حکم واضح ھے۔

لیکن اس سلسلہ میں یهودی کہتے ھیں کہ ھماری شریعت اور ھمارے نبی کی نبوت باقی ھے کیونکہ یہ لوگ ”نسخ“ کے نظریہ اور نسخ واقع هونے کی نفی کرتے ھیں[40]ان کا گمان یہ ھے کہ اگر نسخ شریعت کو مان بھی لیا جائے تو خداوندعالم کا جاھل اور غیر حکیم هونا لازم آتا ھے !۔

ان کے اعتراض کی دلیل یہ ھے کہ خداوندعالم کے احکام اس زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے هوتے ھیں کیونکہ بغیر مصلحت کے احکام عبث وبے هودہ هوتے ھیں او راس حکیم مطلق کی حکمت کے منافی ھیں۔

لہٰذا مصلحت کے مطابق احکام کو ختم کرنا حکمتِ خداوندی کے خلاف ھے کیونکہ اس حکم کے ختم کرنے سے بندوں کی مصلحت کا نابود هونا لازم آتا ھے مگر یہ کہ تشریع کنندہ ( خدا ورسول )کے لئے تشریع کے بعد واضح هوجائے کہ اس حکم میں مصلحت نہ تھی، تو اس کو ختم کردیتا ھے اور اگر ھم اس معنی میں نسخ کو مانیں تو اس کے معنی یہ ھیں کہ خدا جاھل ھے، لہٰذا جب نظریہ نسخ کا نتیجہ نسخ کرنے والے کا جھل اور غیر حکیم هونالازم آتا ھے، تو پھر خدا وندعالم کے بارے میں ان دونوں چیزوں (جھل اور غیرحکیم هونا)کا هونا جائز نھیں ھے تو پھر نسخ کے بارے میں نظریہ رکھنا بھی محال ھے۔!

قارئین کرام ! اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ھے کہ شریعت کے احکام ومسائل مصلحتوں کے تحت هوتے ھیں اور یہ بھی طے ھے کہ زمانہ کے بدلنے سے مصلحتیں بھی بدلتی رہتی ھیں کیونکہ کبھی کبھی کوئی خاص کام کسی قوم اور کسی زمانہ کے لئے صاحب مصلحت هوتا ھے تو اس کام کے لئے حکم کیا جاتا ھے لیکن وھی کام دوسری قوم یا دوسرے زمانہ کے لئے صاحب مصلحت نھیں هوتا تو اس کام سے روک دیا جاتا ھے۔

دوسرے یہ کہ عقلِ بشری کے ساتھ ساتھ آسمانی ادیان نے بھی رشد وترقی کی ھے، (جیسا کہ ھم جانتے ھیں) جس طرح ایک بچے کی معلومات میں اضافہ هوتا ھے اور اس کی عمر میں اضافہ هوتا ھے روز بروز اس کے علم وعقل اور قابلیت میں اضافہ هوتا رہتا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے نظریات اور افکار پراعتقاد کرلیتا ھے، (مثلاً پھلے بچہ ایک کھیل کو اپنے لئے صحیح اور ضروری سمجھتا ھے لیکن جب وہ باشعور هوجاتا ھے تو اس کھیل کو عبث اور بے هودہ سمجھتاھے۔)

بالکل یھی حال آسمانی ادیان کا بھی ھے جو ھر زمانہ اور ھر قوم کے لئے نازل هوئے ھیں اور ھر قوم کی مصلحتوں کے لحاظ سے احکام جاری کرتا ھے اور اس زمانہ کے فکری او رپختہ نظریات کے ساتھ ساتھ چلتا ھے، یھاں تک کہ شریعت اسلام میں اس بلندی پر پهونچا جس کو خداوندعالم نے اختیار اور پسند کرلیا، اور زمانہ اور عقلی رشد کی بلندی پر پہنچے هوئے تمام انسانوں کے لئے یہ شریعت مشعل راہ بن گئی۔

اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ خداوندعالم مصلحتوں سے جاھل تھا یا اس کے لئے کوئی ایسی چیز کشف هوئی ھے جو پھلے کبھی معلوم نہ تھی۔

ان باتوں کے علاوہ خود توریت میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ھیں جو وقوع نسخ پر دلالت کرتی ھیں مثلاً حضرت آدم کی شریعت میں ایک شخص کا دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز تھا لیکن یھی کام شریعت جناب موسیٰ علیہ السلام میں حرام قرار دیدیا گیا، جس طرح جناب نوح (ع) کی شریعت میں ختنہ کرنے میں بڑے هونے تک تاخیر کرنا جائز تھا لیکن حضرت موسی (ع)کی شریعت میںاس تاخیر کو حرام کردیا گیا، اسی طرح دوسرے واقعات بھی موجود ھیں۔

ان تمام باتو ںکے پیش نظر نسخ کو محال قراردینا صحیح نھیں ھے اور نہ ھی ان کے پاس کوئی مستحکم دلیل ھے جس پر اعتماد کیا جاسکے، لہٰذا یهودیوں کا یہ گمان خود ان کی کتاب توریت اور حکم عقل کے ذریعہ باطل ومردود ھے:

[41]

”اور (اے رسول) نہ تو یهودی کبھی تم سے رضامند هونگے نہ نصاریٰ یھاں تک کہ تم ان کے مذھب کی پیروی کرو، (اے رسول) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ھی کی ہدایت تو ہدایت ھے“

 

[42]

”اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے تو اس کا وہ دین ھرگز قبول ھی نہ کیا جائے گا“

قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ کسی بھی نبی کا دعویٰ نبوت اس وقت صادق هوسکتا ھے جب وہ کوئی معجزہ پیش کرے ایسا معجزہ جس کی مثال پیش کرنے سے بشر قاصر هو۔

ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدو طرح کے معجزات لے کر آئے۔

پھلا معجزہ: قرآن مجید ۔

دوسرے معجزات: جن کا اس وقت کے مسلمانوں نے مشاہدہ کیا ھے اور ان کی تعدا دبھی بہت زیادہ ھے، اوروہ متواتر طریقوں سے نقل بھی هوئے ھیںنیز ان کے بارے میںبہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ھےں،اور علماء حدیث نے بھی ان کو جمع کیا ھے او ریہ نقل وروایت کا سلسلہ آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ میں جاری رھے گا۔ (انشاء اللہ)

اگرچہ بعض جاھل اور متعصب مولفین نے ان معجزات میں شک وتردید کی ھے اور بعض نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ خود قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ھیں جو قرآن کے علاوہ دوسرے تمام معجزات کی نفی کرتی ھیں اور یہ کہ صرف قرآن مجید ھی آپ کا واحد معجزہ ھے اور یہ وہ معجزہ ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا تاکہ اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرسکیں۔

چنانچہ ان لوگوں نے اپنی دلیل کے طور پر درج ذیل آیت پیش کی جس میں ارشاد قدرت هوتا ھے:

[43]

”اور ھمیں معجزات بھیجنے سے تو اس کے علاوہ اور کوئی وجہ مانع نھیں هوئی کہ اگلوں نے انھیں جھٹلایا“

کیونکہ انھوں نے گمان کیا کہ اس آیت سے یہ ظاھر هوتا ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری نشانی (معجزہ) لے کر نھیں آئے کیونکہ وہ نشانیاں جو گذشتہ امتوں پر نازل کی گئیںان لوگوں نے ان کو جھٹلایا (لہٰذا ھمارے پیغمبر کو وہ نشانیاں دے کر نھیں بھیجا گیا)

اس اعتراض کے جواب میں ھمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی ۺنے تفصیل کے ساتھ دندان شکن جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ھے۔[44]

”مذکورہ آیہٴ کریمہ میں جن آیات (نشانیوں) کا ذکر ھے او رجن کی نفی کی گئی ھے اور جن کو گذشتہ امتوں نے جھٹلایا ان سے مراد وہ نشانیاں ھیں جن کوگذشتہ انبیاء (ع) کے امتی اپنے نبی کے لئے

پیش کرتے تھے ، پس مذکورہ آیہٴ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اے نبی تم پر واجب نھیں ھے کہ مشرکین کی تراشیدہ شدہ نشانیوں کا جواب دو، اور یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مطلق طور پر دوسرے معجزات کی نفی نھیں کرتی، اور اگر یہ طے هو کہ کسی آیت (نشانی) کو جھٹلانے کی وجہ سے نشانیاں نہ بھیجی جائےں تو پھر تو قرآن کو بھی نھیں بھیجنا چاہئے تھا، کیونکہ بعض لوگوں نے تو اس کو بھی جھٹلایا اور یہ وجہ دوسری نشانیوں سے مخصوص کرنا صحیح نھیں ھے بالخصوص جبکہ قرآن مجید آنحضرت کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ ھے، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ جن نشانیوں کی نفی کی ھے وہ ایک خاص قسم کی نشانیاں ھیں مطلق نشانیاں نھیں ھےں۔

اگر گذشتہ امتوں کا جھٹلانا اس بات کی صلاحیت رکھتا هو کہ حکمتِ الٰھی اور نشانیاں نہ بھیجنے میں اثرانداز هوتا تو پھر اس بات کی بھی صلاحیت رکھتا هوگا کہ خدا ،رسولوں کونہ بھیجے (کیونکہ دنیا والوں نے نہ معلوم کن کن انبیاء کو جھٹلایا) اور جب یہ بات باطل او رمردود ھے توگذشتہ بات بھی باطل ھے۔

لہٰذا طے یہ هوا کہ خداوندعالم نے جو اپنی نشانیاں نازل فرمائیں وہ طلب کرنے والوں کی طلب کے مطابق تھیں، اور یہ بات واضح ھے کہ وہ لوگ اتمام حجت کرنے والی نشانیوں کے علاوہ بھی دوسری نشانیاں طلب کرتے تھے،(گویا ان کا مقصد ایمان لانانھیں تھا بلکہ اس طرح کی نشانیوں کے مطالبہ کے بعد نبی کو عاجز کرنا هوتا تھایھی وجہ تھی کہ طلب شدہ نشانیوں کے بعد بھی ایمان نھیں لاتے تھے) اور جب یہ بات طے هوگئی کہ معجزات دیکھنے کے باوجود بھی وہ ایمان نھیں لاتے تھے تو اب خدا پر لازم نھیں هوتا کہ ان لوگوں کے معجزات طلب کرنے پر معجزات ظاھر کردےتا، اور اگر خداوندعالم ان میں مصلحت دیکھتا کہ یہ لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں گے تو حتماً ان کی طلب شدہ نشانیوں کو بھی نازل کردیتا۔

لہٰذا معلوم یہ هوتا ھے کہ ان لوگوں کے مطالبات اتمام حجت کے بعد تھے اور سابقہ امتو ں کا جھٹلانا ھی سبب تھا کہ خداوندعالم اپنی نشانیوں کو نہ بھیجے کیونکہ ان نشانیوں کا جھٹلانا ان پر عذاب نازل هونے کا سبب تھا لیکن امت محمدی پر خداوندعالم نے اپنے نبی کی خاطر لطف وکرم رکھا کہ اس امت سے اس طرح کی نشانیوں کا انکار کرنے والوں سے عذاب کو دور کیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

[45]

”حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود هو تو خدا ان پر عذاب نھیں کرےگا“

لیکن ان نشانیوں کو جھٹلانے والوں پر عذاب اخروی کیا جائے گا کیونکہ اگر خدا کی کوئی نشانی صرف کسی نبی کی نبوت کے صرف اثبات کے لئے تواس کی تکذیب پر کوئی اخروی عذاب نھیں هوگا اور اگر عذاب هوگا تو اس نبی کے جھٹلانے پر عذاب هوگا۔

لیکن وہ آیات ونشانیاں جن پر لوگوں نے اصرار کیا اور ہٹ دھرمی کی اور ان کا مطالبہ کیا تو اگر وہ اس وجہ سے هو کہ خدا کی پھلی نشانی کی تصدیق هوسکے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر حق واضح هوجائے اور جب ان کی طلب شدہ چیز کو نبی انجام کرکے دکھادے تو پھر ان پر اس نبی کی تصدیق کرنا ضروری هوجاتا ھے او راگر اپنی طلب شدہ چیز کو دیکھ کر بھی اس نبی پر ایمان نہ لائے تویہ نبی اور حق کا مذاق اڑانا ھے۔

خلاصہٴ کلام یہ ھے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نھیں ھے جو قرآن کے علاوہ دوسرے معجزات کی نفی کرتی هو اگرچہ یہ بھی طے ھے کہ قرآن مجید ھمارے لئے عظیم دائمی اعجازھے، لیکن

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے دوسرے بھی بہت سے معجزات ھیں۔

قارئین کرام ! معجزہ ایک ایسی حقیقت ھے جس کے اصلی اور نقلی هونے کو کوئی آسانی سے نھیں سمجھ سکتا جیسا کہ گذشتہ اعتراض سے ظاھر هوتا ھے، بلکہ اس سلسلہ میں معلومات رکھنے والے علماء ھی سمجھ سکتے ھیں اور اس کی خصوصیات سے یھی افراد آگاہ هوتے ھیں اور یھی لوگ تشخیص دے سکتے ھیں کہ نوع انسانی اس طریقہ کا کام انجام دینے سے قاصر ھے یا وہ اس طرح کا کام انجام دے سکتے ھیں اسی وجہ سے علماء ھی سب سے پھلے معجزات پر ایمان لاتے ھیں:

[46]

”اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء (ھی) ھیں“

کیونکہ جاھل انسان صدق وکذب میں امتیاز نھیں کرسکتا او رجو لوگ جاھل ھیں اور جب تک اس علم کے مقدمات سے جاھل ھیںان پر باب شک کھلا رہتا ھے کیونکہ یہ لوگ احتمال دیتے رھیں گے کہ اس کام کے کرنے والے نے اس علم کے مقدمات کے ذریعہ یہ کام کردکھایا ھے اور یہ صاحبان علم کے لئے ایسا کام کرنا کوئی مشکل نھیں ھے، چنانچہ ان تمام احتمالات کی بنا پر اس معجزہ کی جلدی تصدیق نھیں کرتے۔ اسی وجہ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ ھر نبی کا معجزہ اس کے زمانہ میں شایع شدہ علم کے مشابہ هو، جس پر اس زمانہ کے علماء نے ممارست اور تمرین کی هو اور اس جیسا عمل انجام دینے کی کوشش کی هو تاکہ جلد ھی تصدیق کرسکےں اور حجت تمام هوجائے۔

اسی بنا پر ھم دیکھتے ھیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرنے میں جلدی کی کیونکہ جناب موسیٰ (ع) کے معجزہ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگالیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ (ع) نے انجام دیا وہ جادو گری نھیں ھے۔

اسی طرح نزول قرآن کے وقت چونکہ عربوں کی فصاحت وبلاغت اپنے عروج پر تھی، تواس وقت کے لحاظ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا معجزہ فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ممتاز هو، چنانچہ پیغمبر اسلام نے قرآن کو معجزہ کے طور پر پیش کیا جو فصیح وبلیغ تھا تاکہ عرب کے زبان داں اور ممتاز ادیبوں پر یہ بات واضح هوجائے کہ یہ کلام الٰھی ھے جو انسانی فصاحت وبلاغت اور ان کی فکر سے اوپر ھے۔

قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن مجید کے علاوہ بھی دوسرے معجزات رکھتے تھے جن کو اس کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا، لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کریم وہ عظیم معجزہ ھے جس کی شان نرالی ھے اور جس کی حجت بھی کامل ترین ھے کیونکہ ایک جاھل عرب جو علوم طبیعت سے واقف نھیں ھے وہ ان معجزات میں شک کرسکتا ھے اور وہ ان اسباب کی طرف نسبت دے سکتا ھے جن سے وہ جاھل ھے او راپنے ذہن میں یہ سوچ سکتا ھے کہ شاید یہ سب سحر اور جادو هو، جیسا کہ سب سے پھلا گمان بھی یھی تھا لیکن جب فنون بلاغت اور کلام فصیح کے اسرار ان پر کشف هوجائیں گے تو ان کو قرآن کے معجزہ هونے میں کوئی شک نھیں رھے گا، ان پر یہ بھی واضح هوجائے گا کہ اس طرح کا کلام کوئی بشرپیش نھیں کرسکتا، جبکہ دوسرے معجزات کم مدت والے هوتے ھیں اورجب وہ ختم هوجاتے ھیں تو راوی اس کو نقل کرتے ھیں یا اس بات کے چرچے عوام الناس کی زبان پر هوتے ھیں اس صورت میں باب شک کھل جاتا ھے جس میں بعض لوگ تصدیق کرتے ھیں اور بعض لوگ جھٹلاتے ھیں، لیکن قرآن کریم ایسا معجزہ ھے جو زمین وآسمان کے باقی رہنے تک باقی رھے گا، اور اس کا اعجاز بھی ھر زمانے کے تمام لوگوں کے سامنے باقی رھے گا۔

بتحقیق ھر وہ شخص جس تک اسلام کی دعوت پهونچی ھے یہ بات اچھی طرح جانتا ھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے تمام لوگوں اور تمام امتوں کو اسلام کی دعوت دی ھے اور قرآن کریم کے ذریعہ ان لوگوںپر حجت تمام کی ھے اور وہ قرآن کا جواب دینے سے قاصر ھیں کیونکہ ان سب سے قرآن کا مثل لانے کا مطالبہ کیا ھے لیکن کوئی بھی جواب پیش نھیں کرسکتا ، چاھے وہ اپنے وقت کا کتناھی بڑا سورماکیوں نہ هو۔

اس کے بعد تنزل کرتے هوئے اس جیسے دس سوروں کا مطالبہ کیا اس کے بعد ایک ھی سورے کا جواب طلب کیاگیا اور اگر عرب کے فصیح وبلیغ افراد میں کوئی بھی اس کا جواب لانے کی قدرت رکھتا تو قرآن کے اس چیلنج کا جواب دیتا اور قرآن کے چیلنج کوختم کردیتا ھے لیکن جب قرآن سنا تو حقیقت امر کا اقرار کیااور قرآن کے اعجاز کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے، اور یہ یقین کرلیا کہ ھم قرآن سے مقابلہ کی طاقت نھیں رکھتے،چنانچہ ان میں سے بعض نے قرآن کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرلیا، لیکن بعض لوگ اپنے بغض وعناد پر قائم رھے اور جنگ وجدل کرنا شروع کردیا۔

چنانچہ بعض مورخین نے اس بات کو نقل کیا ھے کہ ولیدبن مغیرہ مخزومی کا ایک روز خانہ کعبہ سے گذر هوا او رنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی زبان سے تلاوت کلام پاک کو دور ھی سے کان لگاکر سنا، اس کے بعد اپنی قوم کے مشرکین سے جاکر کھا:

”میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کلام کو سنا، جو نہ کسی انسان کاکلام ھے اور نہ ھی کسی جن کا، یہ وہ کلام ھے جس میں حلاوت اور خوبصورتی ھے اس کے اوپر کا( حصہ )ثمر دینے والے درخت کی مانند اور نیچے کاحصہ گورا ھے، یہ قرآن کی ترقی کی حالت میں ھے اور ھمیشہ سربلند رھے گا۔ [47]

اسی طرح ہشام بن حکم راوی ھیں کہ ایک سال خانہ کعبہ میں اپنے زمانہ کے چار بڑے بڑے مفکر اور ادیب جمع هوئے جن کے نام اسی طرح ھیں:

۱۔ ابن ابی العوجاء۔

۲۔ ابو شاکر دیصانی۔

۳۔عبد الملک البصری۔

۴۔ ابن مقفع۔

اور یہ چاروں خدا کا انکارکرنے والے دھریے تھے ، جو آپس میں نبی اسلام اور حج کے بارے میں گفتگو کررھے تھے، چنانچہ گفتگو کے دوران طے یہ پایا کہ اس قرآن کا مقابلہ کیا جائے جو اس دین کی بنیاد ھے تاکہ اس کے مقابلہ اور تعارض سے قرآن کے اعجاز کو ختم کردیا جائے چنانچہ آپس میں یہ طے کیا کہ ان میں سے ھر شخص ایک چھارم (on quarter)قرآن کا جواب لائے، چنانچہ اس پروگرام کے تحت آئندہ سال کا موسمِ حج طے کیا گیا۔

اور جب سال گذرنے کے بعد یہ لوگ تاریخ معینہ پر خانہ کعبہ میں جائے معین پر جمع هوئے اور ایک دوسرے سے محوِ گفتگو هوئے کہ تم نے کیا کیا او رتم نے کیاکام انجام دیا، چنانچہ ابن ابی العوجاء کہتا ھے کہ میرا پورا سال پریشانی واضطراب کی حالت میں گذر گیا اور قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوچتا رھا:

[48]

”پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس هوگئے تو باھم مشورہ کرنے کے لئے کھڑے هوئے“

اور میں اس جیسی کوئی آیت نھیں بنا سکا۔

اس کے بعد عبد الملک نے بھی اسی طرح کھا کہ میں پورے سال قرآن مجید کی اس آیت سے مقابلہ کے بارے میں سوچتا رھا:

[49]

”اے لوگو ! ایک مثل بیان کی جاتی ھے تم اسے کان لگاکر سنو کہ خدا کو چھوڑ کرتم جن کو پکارتے هو اور وہ لوگ اگرچہ سب کے سب اس کا م کے لئے اکٹھے هوجائیں تو بھی ایک مکھی تک پیدا نھیں کرسکتے، اور اگر کھیں مکھی کچھ ان سے چھین لے جائے تو اس سے اس کو چھڑا نھیں سکتے، (عجب لطف ھے) کہ مانگنے والا اور جس سے مانگا گیا ھے دونوں ضعیف ھیں۔“

لیکن میں اس جیسی آیت بنانے سے قاصر رھا۔

اسی طرح ابی شاکر کا بھی خیال تھا کہ میں درج ذیل آیت کی طرح سوچنے سے قاصر رھا۔

[50]

”بفرض محال زمین وآسمان میں خدا کے سوا چند معبود هوتے تو دونوں کب کے برباد هوگئے هوتے۔“

اور یھی حال ابن مقفع کا بھی تھا کہ پورا سال گذر گیا اور میں اس آیت سے مقابلہ نہ کرسکا:

[51]

”اور جب خدا کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے، اور اے آسمان (برسنے سے) تھم جا اور پانی گھٹ گیا اور (لوگوں کا) کام تمام کردیا گیا اور کشتی جودی (نامی پھاڑ) پر جا ٹھھری اور (ھر چھار طرف) پکار دیا کہ ظالم لوگوں کو خدا (کی رحمت سے) دوری هو۔“

ہشام کہتے ھیں کہ اسی موقع پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام وھاں سے گذرے، ان لوگوں کو دیکھا تو آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

[52]

”(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر ساری دنیا کے آدمی اور جن اس بات پر اکھٹا هوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو (غیرممکن)، اس کے برابر نھیں لاسکتے اگرچہ اس کوشش میں ایک ایک کا مددگار بھی بنے۔“

قارئین کرام ! ھمیشہ دشمنان دین چاھے وہ کسی بھی عقیدہ، نظریات اور فلسفہ کے ماننے والے هوں ؛ ان کا یہ وطیرہ رھا ھے کہ اس معجزہ (قرآن کریم) کے اعجاز میں شک وتردید ایجاد کریں اور ھمیشہ اسلام دشمن طاقتوں نے سازش کرکے حملہ کئے ھیں اور اپنی پوری طاقت صرف کردی تاکہ اپنے شوم اہداف میں کامیاب هوجائیں، جیسا کہ تاریخ کے اوراق پر ان حملوں کی تعدادبے شمار ملتی ھے۔

اس سلسلہ میں ایک اور اعتراض کیا جاتا ھے کہ قرآن مجید کی آیات میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ھے جو اعجاز قرآن کے منافی ھے اور ان کے گمان کے مطابق یہ قرآن انسان کی صفت ھے اور کلام الٰھی نھیں ھے، چنانچہ اپنے اعتراض کی دلیل میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش کی ھے کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

[53]

”تمھاری نشانی یہ ھے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارہ سے۔“

کہ یہ آیہ کریمہ دوسری آیت کے مخالف ھے جس میں خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

[54]

”تمھاری پہچان یہ ھے کہ تم تین رات برابر لوگوں سے بات نھیں کرسکوگے۔“

پس پھلی آیت میں تین دن کا ذکرھے جبکہ دوسری آیت میں یہ مدت تین رات بیان کی گئی ھے۔

اس اعتراض کے جواب میں کافی ھے کہ ھم اشارہ کریں کہ لغت عرب میں ”یوم“ کے معنی کیا ھیں چنانچہ عربی زبان میں ”یوم“ کہہ کر دن مراد لیا جاتا ھے جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:

[55]

”خدا نے اسے (تیز آندھی کو )سات رات اور آٹھ دن لگاتا ران پر چلایا“

اور کبھی یوم کہہ کرشب وروز (۲۴گھنٹے) مراد لئے جاتے ھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:

[56]

”تب جناب صالح نے کھا اچھا تین دن تک (اور)اپنے گھر میںچین سے بیٹھ جاؤ“

جبکہ ”لیل“ سے مراد رات لی جاتی ھے:مثلاً:

[57]

”رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے“

ایضاً:

[58]

اور کبھی کبھی ”لیل“ سے مراد شب و روز هوتے ھیں:

[59]

”اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ جب ھم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا“

 

قارئین کرام ! جب لغت میں لیل ونھار کا استعمال ان دونوں معنی میں جائز اور صحیح ھے تو مذکورہ دونوںآیات میں کسی طرح کا کوئی تناقض نھیں ھے کیونکہ یوم اور لیل کبھی دن اور رات کے معنی میں استعمال هوتے ھیں اور کبھی یوم اور لیل کا اطلاق ۲۴گھنٹے پر هوتا ھے، اور اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نھیں ھے اگر خود غرضی نہ هو:

[60]

” تو کیا یہ لوگ قرآن میںغور نھیں کرتے اور (یہ خیال نھیں کرتے) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا هوتا تو (ضرور) بڑا اختلاف پاتے“

اب جبکہ یہ طے هوگیا کہ قرآن کریم اپنی تمام روش میں بے انتھا فصیح وبلیغ معجزہ ھے اور اس کی فصاحت وبلاغت کا حال یہ ھے کہ نوع بشر اس کی مثال نھیں لاسکتی، اور ایسی منظم کتاب ھے جس میں ذرہ برابر بھی تضاد اور اختلاف نھیں پایا جاتا،پس قرآن کریم کے اعجاز کے دوسرے بھی پھلو ھیں جن کی تعداد بہت ھے اور قرآن میں غور وفکر کرنے والے پر بہت سی چیزیں کشف هوتی ھیں کیونکہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں بہت سے معارف، اسرارِ علوم اور عالم کائنات کے حقائق بیان کئے ھےں جن کے بارے میں کوئی شخص یہ احتمال نھیں دے سکتا کہ یہ اس زمانہ میں زندگی بسر کرنے والے انسان کے بیان شدہ ھیں کیونکہ اس زمانے میں زندگی بسر کرنے والا شخص ان چیزوں کو درک نھیں کرتا تھا۔

اور جیسا کہ ھمارا عقیدہ ھے کہ قرآن کریم دین، عقیدہ اور تشریع کی کتاب ھے علم فلکیات، علم کیمیا اور علم فیزیک کی کتاب نھیں ھے ، لیکن پھر بھی ھم اس قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر کائنات اور طبیعت کے بارے میں بہت دقیق باتیں دیکھتے ھیں کیونکہ اس زمانہ میں ایسی چیزوں کا علم هونا ناممکن ھے مگر یہ کہ خداوندعالم ان چیزوں کے بارے میں وحی کرے اور اپنے رسول کو بتائے۔

بتحقیق قرآن کریم نے ان اسرار کو بیان کرنے میں بہترین انداز اپنایا ھے بعض چیزوں کے بارے میں صاف صاف وضاحت کی ھے جبکہ بعض چیزوں کی طرف صرف ایک اشارہ کیا ھے کیونکہ اس زمانہ میں بعض حقائق کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔

چنانچہ اس وقت کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ان چیزوں کی طرف ایک اشارہ کیا جائے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے جس وقت علم کی پیشرفت هو اور حقائق ظاھر هوں ؛یہ چیزیں واضح اور کشف هوجائیں، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

[61]

”جس نے زمین کو تمھارے لئے فرش بنایا“

یہ آیہ کریمہ اشارہ کرتی ھے کہ زمین گھومتی ھے لیکن اس چیز کو چند صدی گذرنے کے بعد سمجھا گیا کیونکہ لفظ ”المہد“ زمین کی حرکت کی طرف اشارہ کررھا ھے لیکن قرآن مجید کا یہ ایک ھلکا سا اشارہ تھا اور اس کو وضاحت کے ساتھ بیان نھیں کیا گیا، کیونکہ اس وقت زمین کو حالت سکون میں سمجھنا ایک عام بات تھی اور اس کے بارے میں گفت وشنید بے کار تھی، اور اگر اس وقت زمین کی حرکت کی باتیں کی جاتیں تو ان کو خرافات اور محال کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ۔

قارئین کرام ! ھم یھاں پر قرآن کریم کے ذکر شدہ چند حقائق کو بیان کرتے ھیں چاھے ان کو قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا هو یا ان کی طرف صرف اشارہ کیا هو اگرچہ اس سلسلہ میں تفصیلی طور پر معلومات حاصل کرنے کے لئے الگ کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ھے کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ھیں اور ان تمام کو اس کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا لیکن ھمارا مقصد صرف چند مثالوں کو پیش کرنا ھے تاکہ بحث مکمل هوجائے۔

قرآن مجید کے ان علمی اور دقیق اشاروں میں سے ایک یہ ھے جس کا ذکر قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں موجود ھے:

[62]

”اس کے سینہ کو تنگ دشوارگزار کردیتا ھے گویا(قبول ایمان) اس کے لئے آسمان پر چڑھنا ھے“

جیسا کہ سائنس نے یہ بات ثابت کی ھے کہ جب انسان بلندی کی طرف آسمانوں میں پرواز کرتا ھے او راوپر کی طرف بڑھتا ھے تو اس کے سینہ میں دباؤ پیدا هوتا ھے یھاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ھے کیونکہ اس وقت اس کو ”آکسیجن“ “Oxygen”نھیں ملتا۔[63]

اسی طرح قرآن مجید کا علمی مسائل کی طرف ایک اشارہ درج ذیل آیت میں هوتا ھے:

[64]

”اور ھم ھی نے وہ هوا بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے هوئے ھیں“

آج کا سائنس یہ کہتا ھے کہ تلقیح [65]دوقسم کی ھیں:

۱۔ذاتی؛

جیسے درخت اور گھاس بطور مستقیم تلقیح کرتے ھیں۔

۲۔خلطی؛

جس میں تلقیح کے لئے تخم ایک پودے سے دوسرے پودے میں منتقل هوجاتا ھے۔ اسی صورت میں ایسے وسائل موجود هونا ضروری ھیں جن کے ذریعہ سے تخم تلقیح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکے اگر چہ ان کے درمیان کافی دوری ھی کیوں نہ هو، تو ان منتقل کرنے والے وسائل میں سے هوا ایک اھم وسیلہ ھے کیونکہ اس زمین پر ایسے بہت سے درخت وغیرہ ھیں جن کی تلقیح هوا کے علاوہ ممکن ھی نھیں ھے۔ [66]

انھیں اشاروں میں سے قرآن مجید کا ایک اشارہ یہ بھی ھے جس کو ماھرین فلکیات نے بھی قبول کیا کہ سورج بھی دوسرے ستاروں کی طرح اپنی حرارت کی زیادتی اور اپنی شعاعوں کو کم کرے کیونکہ اس میں اتنی شدت پائی جاتی ھے جس کو عقلِ انسانی قبول نھیں کرسکتی۔یھاں تک کہ اگر زمین سے اس کی دوری کو ختم کردیا جائے تو زمین سے شعلہ نکلنے لگےں، اور چاروں طرف سے دھواں اٹھنے لگے، اور یہ دھواں چاند تک پہنچ جائے گا او رپھر تمام نظام شمسی درھم وبرھم هوجائےگا۔

اورآسمان پر موجود تمام ستاروں کا اسی اپنی حالت پر گامزن رہنا ضروری ھے قبل اس کے کہ اپنی دائمی محور کو حاصل کرے، چنانچہ ھمارا یہ سورج کبھی دائرہ سے خارج نھیں هوتا۔

اسی چیز کو مد نظر رکھتے هوئے خداوندعالم کے فرمان کے معنی سمجھ میں آتے ھیں کہ خداوندعالم نے روز قیامت سے کس طرح ھم لوگوں کو ڈرایا ھے اور دنیاکی نابودی کی کس طرح تصویر کشی کی ھے:

[67]

(جب آنکھیں چکاچوند هوجائیں گی اور چاند میں گہن لگ جائے گا اور سورج اور چاند اکھٹا کردئے جائیں گے تو انسان کھے گا: آج کھاں بھاگ کر جاؤں)

قرآن مجید کے انھی علمی اشاروں میں سے ایک یہ ھے جس کو قرآن مجیدنے بیان کیا ھے:

[68]

”اور (اے رسول) تمھارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پھاڑ وںاور درختوں اوروہ لوگ جو اونچے اونچے مکان بناتے ھیں ان میں اپنے چھتے بنا۔“

جیسا کہ ماھرین علم کاکہنا ھے کہ شہد کی مکھی نے سب سے پھلے پھاڑوںمیں اپنا گھر بنانا شروع کیا اور یہ زیادہ تر وھیں پر اپنا گھر بنا کر زندگی کرتی ھیں اور اسی میں زاد ولد کرتی ہیں لیکن وھاں پر موجود بعض پریشانیوں کی بنا پر وھاں سے منتقل هوکر درختوں میں اپنا گھر بنایا درختوں کو اس وجہ سے انتخاب کیا کیونکہ اس میں سوراخ اور کھوکھلی جگہ هوتی ھیں تاکہ ان میں آرام سے زندگی گذار سکیں۔

اور جب انسان نے (دوسرے جانوروں کے گھروں کو دیکھ کر ) اپنے لئے گھر بنانا چاھا تو پھلے گھر بالکل اسی طرح هوتے تھے جیسے جانوروں کے، شروع میں تو یہ گھر مٹی کے بنائے گئے اورپھر ان کو خوبصورت بنانا چاھا تو لکڑی سے بنائے جانے لگے اسی طریقہ سے ان میں ترقی هونے لگی اور آج یھاں تک پهونچ گئے ھیں (کہ بڑے بڑے شھروںمیں بڑی بڑی عمارتوں کی بھر مار ھے)۔

پس شہد کی مکھیوں کا پھاڑ میں گھر بنانااور پھر ان کا درختوں کا انتخاب کرنا اور ان کو دیکھ کر انسانوں کا گھر بنانا ان تمام چیزوں کے بارے میں قرآن کریم نے گفتگو کی ھے [69]

ان ھی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ھے زمین سے متعلق ھے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ھے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ هوا داخل هوتی ان ھی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ھے زمین سے متعلق ھے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ھے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ هوا داخل هوتی بلکہ زمین کے یھی سوراخ اور ان کا اندازہ بھی سب سے اھم سبب ھے جس کی وجہ سے زمین مختلف هوتی ھیں کہ بعض زمین سخت هوتی ھیں اور بعض بھوڑ (ریتیلی زمین )، اور یہ بات ابھی کچھ دن پھلے ھی کشف هوئی ھے کہ زمین میں سوراخ هوتے ھیں اور ان میں هوا هوتی ھے اور جب زمین پر بارش هوتی ھے تو اس هوا کی جگہ وہ پانی بھر جاتا ھے اور جیسا کہ علم کیمیا نے کشف کیا ھے کہ مٹی پانی کے ذریعہ پھیل جاتی ھے اور خشک هونے سے سمٹ جاتی ھے اور جب زمین کے سوراخ میں پانی بھر جاتا ھے تو مٹی کے اجزا ء پانی بھرنے سے متحرک هوجاتے ھیں چنانچہ جب زمین پر بارش هوتی ھے تو زمین حرکت میں آجاتی ھے اور اپنے اندازہ سے زیادہ هوجاتی ھے زمین کی اس حرکت کو اس وقت دیکھا جاسکتا ھے جب اس میں پانی بھر جائے اسی طرح اس کے اندازہ کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ھے ۔

قارئین کرام ! یہ وہ حقائق ھیں جن کو آج کا سائنس کشف کررھا ھے لیکن قرآن کریم نے اس کے بارے میں چودہ سو سال پھلے ھی خبر دی ھے جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:

[70]

”اورزمین کو مردہ دیکھ رھا ھے پھر جب اس پرپانی برسادیتے ھیں تو لھلھانے اور ابھرنے لگتی ھے اور ھر طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ھے “

یھاں پر” اہتزاز“ کے معنی حرکت کے ھیں اور ربت کے معنی جسم میں زیادتی کے ھیں، چنانچہ ان حقائق سے اس وقت پردہ برداری هوئی جب آج کا علم کہتا هوا نظر آرھا ھے کہ جب بارش هوتی ھے تو زمین میں شگاف پیدا هوتے ھیں یا پانی کے ذریعہ اس میں سوراخ کھل جاتے ھیں۔ [71]

قرآن کریم کے بتائے هوے انھیں حقائق میں سے ایک یہ بھی ھے جس کو آج کا سائنس بھی قبول کرتا ھے کہ بدن سے خارج هونے والی چیزوں کی دو قسمیں ھیں :

۱۔جن سے جسم کا فائدہ هوتا ھے جیسے افرازات (خارج شدہ ) چیزیں ہضم هونے والی چیزیں و مادہ تناسل یا بعض وہ چیزیں جو جسم کے اندر هوتی ھیں اور جسم کے لئے ضروری ھموتے ھیں اور یہ قسم انسان کے بدن کے لئے ضروری ھے اور ان میں کوئی ضررو نقصان بھی نھیں ھے

۲۔ دوسری قسم وہ ھے جن میںجسم کے لئے کوئی فائدہ نھیں ھے بلکہ جسم سے ان کا نکلنا ضروری ھے کیونکہ ان میں ایک قسم کا زھر پایا جاتا ھے کہ اگر وہ جسم میں باقی رھیں تو جسم کے لئے خطرہ لاحق هوجائےگا جیسے پیشاب پاخانہ ۔پسینہ اور خون حیض۔

چنانچہ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

[72]

”اے رسول تم سے لوگ حیض کے بارے میں پوچھتے ھیں تم ان سے کہدو کہ یہ گندگی اور گھن کی بیماری ھے لہٰذا تم ایام حیض میںعورتوں سے الگ رهو “

خداوند عالم نے آج کے علم کواس نتیجہ پر پہنچے سے پھلے ھمیں بتا دیا کہ خون حیض اذیت کنندہ ھے اور اس کا بدن میں باقی رہنا جسم کے لئے خطرناک ھے اور اس چیز کے پیش نظر مخصوص ایام میں عورت سے مباشرت کرنے سے منع فرمایا کیونکہ اس دوران عورت کا رحم شدید درد کی حالت میں هوتا ھے اور اس کا بدن اضطراب و پریشانی کے عالم میں هوتا ھے ۔

کیونکہ اس کے اندرونی غددوں سے یہ خون باھر نکلتا رہتا ھے اور اس حالت میں جنسی تعلقات، نقصان دہ هوتے ھیں بلکہ کبھی کبھی تو حیض آنا بند هوجاتا ھے نیز دوسرے غلط اثراث مترتب هوتے ھیں اور کبھی کبھی اعضاء وتناسل میں سوزش هونے لگتی ھے۔[73]

انھی حقائق میں سے ایک یہ بھی ھے جس کے متعلق خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

[74]

”تو میں تاروں کی بنائی کی قسم کھاتا هوں اور اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ھے“

ماھرین فلکیات کا کہنا ھے کہ ستاروں کے درمیان تاحد خیال فاصلہ ھے اور یہ وہ چیز ھے جس کے بارے میں خداوندعالم نے قسم کھائی ھے کیونکہ تمام ستارو ں کی دوری ۷۰۰ /نوری سال کے برابر ھے اور ایک نوری سال میں کروڑوں کلومیٹر کا فاصلہ هوتا ھے۔ [75

انھی حقائق میں سے ایک یہ ھے کہ جس کی طرف خداوندعالم نے اشارہ فرمایا ھے:

[76]

”اور ھم نے اس میں ھر قسم کی مناسب چیز اگائی۔“

کیونکہ یہ آیہٴ کریمہ دلالت کرتی ھے کہ تمام نباتات میں ایک خاص وزن هوتا ھے جیسا کہ سائنس نے بھی اس بات کو ثابت کیا ھے کہ نباتات خاص اجزاء سے مرکب هوتی ھےں اور ان کا ایک خاص وزن هوتا ھے اس حیثیت سے کہ اگر کسی جز میں اس کی مقدار معین میں کمی یا زیادتی آجائے تو اس کی حقیقت بدل جاتی ھے اور تعجب کی بات یہ ھے کہ ان اجزاء میں سے بعض اجزاء کا بہت دقیق وزن هوتا ھے مثلاً میلی گرام یا اس سے بھی دقیق جس طرح سے آج کل سونا تولا جاتا ھے۔ [77]

قرآن مجید کتاب خداھے اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نھیں ھے اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ھے:

[78]

”اس میں شک نھیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ھے جو سب سے زیادہ سیدھی ھے او رجو ایماندار اچھے اچھے کام کرتے ھیں ان کو یہ خوشخبری دیتا ھے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر (وثواب موجود) ھے۔“

[79]

”(یہ بھی) خدا کی کاریگری ھے کہ جس نے ھر چیز کو خوب مضبوط بنایا اور بے شک جو کچھ تم کرتے هو وہ اس سے خوب واقف ھے۔“

شبھات واعتراضات

ھم نے شروع ھی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھاکہ کتاب کے ان صفحات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی سیرت طیبہ اور تاریخ منور کو بیان نھیں کریں گے اور حوالہ دیا تھا کہ ھم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی سیرت طیبہ کو ”فی رحاب رسول (ص) “ نامی کتاب میں تحریر کریں گے۔

لیکن اس کے باوجود بھی نبوت عامہ، مخصوصاً ھمارے نبی اعظم کی نبوت کی گفتگو کے دوران دو اھم نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے او راس سلسلہ میں تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ھے کہ وہ ان نکات سے چشم پوشی نہ کرے، کیونکہ وہ بہت عمیق ھیں اور ان میں خطا وغلطی کا امکان ھے، خصوصاً چونکہ یہ دونوں مسائل مقام نبوت سے بہت زیادہ ارتباط رکھتے ھیں کیونکہ مقام نبوت ایک الٰھی منصب ھے جو شهوات اور لذاتِ دنیا نیز گناهوں اور خطاؤں سے پاک وپاکیزہ هوتا ھے۔

اور وہ دو مسئلے در ج ذیل ھیں:

۱۔ کثرتِ ازواج۔

۲۔ عصمت۔

اور ھمارے خیال کے مطابق اس بات میں ھمارے قارئین کرام بھی متفق هوں گے کہ یہ دونوں مسئلے مقامِ رسالت سے بہت زیادہ ارتباط رکھتے ھیں لہٰذا یہ دونوں سیرت رسول بیان کرنے سے زیادہ اھم ھیں۔

قارئین کرام ! ھم آئندہ صفحات میں ان دونوں مسئلوں پر گفتگو کریں گے البتہ کتاب کی ضخامت کے پیش نظر مختصر طور پر بیان کریں گے، خداوندمنان ھمیں توفیق عنایت کرے۔ (آمین)

کثرتِ ازواج

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی حیات طبیہ میں کثرتِ ازواج کا مسئلہ بہت اھم ھے یھاں تک کہ دشمنان دین اور انگریز رائٹروں نے اس پر بہت سے اعتراضات کئے ھیں اور اپنے گمان کے مطابق اس مسئلہ میں دین اسلام او رپیغمبر اسلام پر لعن وطعن قرار دیا ھے۔

اصل موضوع کو بیان کرنے سے پھلے یہ عرض کردینا ضروری سمجھتے ھیں کہ اگر کوئی عظیم ہستی اپنی بیوی سے محبت کرے یا وہ اس کے ساتھ اپنی مشترکہ زندگی گذارے تو یہ کوئی عیب نھیں ھے بلکہ یہ تو فطری تقاضا ھے اور بقاء انسانیت کا وسیلہ ھے، اور چونکہ نبی بھی بشروانسان ھیں لہٰذا ان میں ایک انسان کے تمام صفات کا پایا جانا ضروری ھے، ارشاد قدرت هوتا ھے :

[80]

”اور ان لوگوں نے (یہ بھی)کھا کہ یہ کیسا رسول ھے جو کھانا کھاتا ھے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ھے“

[81]

”اے رسول تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی هوں خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا هوں“

چنانچہ یہ عیب نھیں ھے بلکہ عیب یہ ھے کہ انسان اس محبت میں اس قدر آگے بڑھ جائے کہ اپنے واجبات کو ترک کرنے پر مجبور هوجائے اور اپنے حدود سے باھر نکل جائے اور اس کی تمام طاقت وتوانائی اسی میں صرف هوجائے۔

تو کیا کوئی دشمن حضرت محمد (انگریز هو یا غیر انگریز) یہ بات کہہ سکتا ھے کہ آپ نے کسی زوجہ کی وجہ سے کسی بھی واجب کو ترک کیا ھے، بلکہ اس سلسلہ میں تحقیق کرنے والوں کا نظریہ یہ ھے کہ حضرت محمد کی ذات گرامی ایسی ذات تھی جس نے نبوت کا بھی مکمل حق ادا کیا اور ازواج کو بھی ان کا کامل حق دیا، اور یہ چیز ھمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عظمت پر بہترین دلیل ھے۔

اگر قلب نبی میں ذرہ برابر بھی شهوت پرستی اور هواپرستی پائی جاتی تو پھر آپ کی ذات سر زمین مکہ پر عفت وحیا سے مشهور نہ هوتی ، اور اگر شهوت پرستی کا ذرا بھی وجود پایا جاتا تو آپ اپنے شباب کے عالم میں اپنی قوم وقبیلہ کی باکرہ اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرتے، اوران بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں سے شادی نہ کرتے، جن میں اکثر بوڑھی یا سن رسیدہ تھیں۔

بلکہ آنخضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شادیوں کا مقصد بعض حالات میں یہ هوتا تھا کہ سسرالی رشتہ کی تعداد زیادہ هو، تاکہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافہ هو جبکہ بعض حالات میں آپ کامقصد یہ هوتا تھا کہ جو عورتیں اسلامی جنگوں میں یا اسلام کی خاطر مصیبت زدہ هوتی تھیں یا ان کے شوھر شھید هوجاتے تھے ان پر لطف ومھربانی کریں، چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ کی بیویوں کی تعداد میں اضافہ هوتا رھا لیکن اس کو اسلام دشمن عناصر نے دلیل کے طور پر پیش کیا کہ (حضرت) محمد (ص) نے شهوت پرستی کی خاطر اتنی شادیاں کی ھیں۔!

لہٰذا ھم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بیویوں کے اسماء گرامی او رمختصر حالات بیان کرتے ھیں تاکہ اس سلسلہ میں هوئے اعتراضات کا خاتمہ هوجائے۔

۱۔ خدیجہ بنت خویلد:

چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان کے ساتھ مل کر تجارت کاکام کیا کرتے تھے اسی اثنا میں آپ سے آشنائی اور واقفیت هوگئی، جناب خدیجہ (ع) کی اس سے پھلے دو مرتبہ شادی هوچکی تھی اور اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر ۲۵/ سال تھی، اس وقت آپ نے جناب خدیجہ سے شادی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اس زوجہ کا امتیاز یہ ھے کہ انھوں نے آنحضرت کے ساتھ اس وقت زندگی گذاری جب آپ نے ظاھری طور پر اعلان رسالت نھیں کیا تھا اور آپ ھی کو یہ فخر حاصل ھے کہ آپ سب سے پھلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت پر ایمان لائیں، اور راہِ اسلام میں اپنا سارا مال ودولت خرچ کردیا۔

اسی طرح دشمنان اسلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکویہ بھی طعنہ دیا کہ جناب خدیجہ کی عمر چونکہ حضرت محمد (ص) سے ۱۵/ سال زیادہ تھی لیکن ان کے پاس چونکہ بہت زیادہ مال ودولت تھی اورآنحضرت کے پاس کچھ نھیں تھا لہٰذا آپ نے مال کے لالچ میں جناب خدیجہ سے شادی کی ۔

لیکن یہ اعتراض خود بخود ختم هوجاتا ھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمخود جناب خدیجہ کی ذات کو اس قدر چاہتے تھے کہ آپ ان کی زندگی میں بھی ان کو بہت زیادہ اھمیت دیتے تھے او ران کی وفات کے بعد بھی ان کا بہت زیادہ احترام اور محبت کا اظھار کیا کرتے تھے اور اس بات کا مشاہدہ دوسری ازواج نے بھی کیا ھے۔ [82]

کیا کسی انسان کو اتنی محبت واحترام بیوی کے مال کی وجہ سے هوسکتا ھے۔!

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ازواج میں صرف یھی پھلی مومنہ کا امتیاز ھے کہ خداوندعالم نے اسی بیوی کے ذریعہ نسلِ نبوت کوباقی رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اکلوتی بیٹی [83] جناب فاطمہ زھرا = کے ذریعہ آپ کی نسل کو بڑھایا۔

۲۔ سودة بنت زمعة:

یہ بی بی جوانی کے آخری حصے میں بیوہ هوگئیںتھیں کیونکہ ان کا مسلمان شوھر ہجرت سے قبل مکہ میں ھی وفات پاگیاتھا اور جب ان کی زندگی بیوہ هونے کی وجہ سے تنھائی میں بسر هونے لگی تو اس وقت رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم کرتے هوئے اور ان کی مشکلات کو دیکھتے هوئے ان سے نکاح کیا تاکہ ان کی مشکلات دور هوجائیں، اور ان کے پڑھاپہ کا سھارا بن جائیں، لہٰذا ان کے شوھر محمد رسول اللہ ھیں نہ صرف ”محمد“ (ص)جن کے بارے میں شهوت پرستی کا ڈھول بجایا جار ھا ھے۔

۳۔عائشہ بنت ابی بکر:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی سب سے کم عمر تھی اور ازواج نبی میں صرف یھی باکرہ تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ہجرت کے بعد ان سے شادی کی ھے۔

۴۔ حفصہ بنت عمر بن الخطاب:

ان کے پھلے شوھر جنگ بدر میں زخمی هوئے او رانتقال کرگئے، جس وقت حفصہ بیوہ هوئیں تو حضرت عمر نے جناب عثمان سے ملاقات کی اور رودادِ غم سنائی تب جناب عثمان نے کھا: مجھے عورتوں کے مسئلہ میں کوئی دلچسپی نھیں ھے، اس کے بعد ابوبکر سے ملاقات هوئی اور ان سے بھی کچھ کھا تو وہ بھی چُپ رھے تو یہ دیکھ کر حضرت عمر جناب ابوبکر پر غصہ هوئے (لیکن جب کسی سے کوئی بات نہ بنی تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان سے نکاح کرلیا۔ [84] گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماسلامی جنگ میں شھیدهونے والے اُن کے شوھر کی جگہ لے لینا چاہتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ ان کے پدر بزرگوار (جناب عمر) بھی یھی چاہتے تھے۔

۵۔زینب بنت خزیمہ:

انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے قبل دو دفعہ شادی کی تھی ان کا دوسرا شوھر جنگ بدر میں شھید هوگیا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کے اور ان کے شوھر کے اکرام میں ان سے نکاح کیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی صرف آٹھ ماہ زندہ رھیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں۔

۶۔ ام سلمہ:

آپ کے پھلے شوھر جنگ احد میں زخمی هوئے اور جب زخم کچھ مندمل هوگئے تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے سرائے (مھمان خانہ) میں رکھا گیا لیکن وھاں بھی ان کے زخم ٹھیک نہ هوئے اور جب زخم بڑھتے گئے تو ان کی حالت خراب هوگئی اور اسی عالم میں دار فانی سے رخصت هوگئے، چنانچہ انھوں نے ام سلمہ اور چند اولاد چھوڑیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی اور ان کے بچوں کی حالت پر رحم کرتے هوئے ان سے نکاح کرلیا، اور ،چونکہ جناب ام سلمہ کے شوھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا زاد بھائی بھی تھے، چنانچہ جب رسول اللہ نے جناب ام سلمہ سے اپنا پیغام بھجوایا تو انھوں نے اپنے بڑھاپے اور بچوں کی وجہ سے معذرت چاھی لیکن حضرت رسول خدا نے ان کے عذر پر توجہ نہ دی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا مقصد ان پراور ان کی اولاد کی حالت پر رحم کرنا مقصودتھا۔

۷۔ زینب بنت جحش:

یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا کی لڑکی تھی چنانچہ انھوں نے پھلی مرتبہ زید بن حارثہ سے شادی کی اور یہ زید جناب خدیجہ بنت خویلد کے غلام تھے لیکن جناب خدیجہ نے ان کو رسول اللہ کو ھبہ کردیا تھا، رسول اللہ نے ان کو آزاد کردیا او راپنا بیٹا بنالیا او ران کو ”زید بن محمد “ کے نام سے مشهور کردیا گیا، اور یہ اس شھرت پر باقی رھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

[85]

”گود لئے بچوں کو ان کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو“

چنانچہ اس کے بعد ان کو اپنے حقیقی باپ حارثہ کی طرف نسبت دینے لگے اور ان کو زید بن حارثہ کھا جانے لگا۔

جناب زید نے رسول اللہ کی محبت اور رغبت میں زینب سے شادی کی تھی، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس شادی میں حصہ لیا ، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمعملی طور پر ذات پات اور آقا وغلام کے فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام میں مساوات کو فروغ ملے، آپ نے زینب کو اس شادی کے لئے راضی کیا اور وہ راضی بھی هوگئیں ، اس وقت قرآن مجید کی یہ آیت نازل هوئی:

[86]

”اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ھے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے یا نہ کرنے) کا اختیار هو۔)

چنانچہ جناب زینب نے اس شادی کو قبول تو کرلیا لیکن مکمل طورپر دل سے راضی نہ تھیں، اور یہ شادی هوگئی لیکن چونکہ جناب زینب مکمل طریقہ سے راضی نہ تھیںلہٰذا یہ شادی زیادہ دن پابرجا نہ رہ سکی، کیونکہ جناب زینب اس شادی سے خوش نہ تھی اور زید بھی جناب زینب کی عظمت اور بزرگی کی گفتگو کیا کرتے تھے، چنانچہ ان تمام باتوں کے پیش نظر جناب زید اس مشترکہ زندگی کو

چلانہ سکے اور طلاق کا ارادہ کرلیا تاکہ ان مشکلات سے نجات مل جائے لیکن جناب زید آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے مشورے کے بغیر طلاق بھی نھیں دے سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مشورہ کیا تو رسول اسلام نے ان کو اس کام سے منع کیا اور فرمایا جیسا کہ قرآن مجید بھی اس چیز کی حکایت کررھا ھے:

[87]

”(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو“

لیکن رسول اسلام جانتے تھے کہ یہ شادی آخر تک قائم نھیں رہ پائے گی اگرچہ آپ نے طلاق کو وقتی طور پر رکوادیا ،اس کے بعد آپ نے ارادہ کرلیا کہ اگر زید ان کو طلاق دے بھی دیں تو میں ان سے نکاح کرلوں گا، کیونکہ زید اس شادی کو اچھا نھیں سمجھتے تھے ادھر رسول اسلام بھی لوگوں کی قیل وقال سے خائف تھے کیونکہ عرب کے دستور کے مطابق اگر کسی شخص نے کسی کو اپنا لڑکا بنا رکھا هو تو اس کی بیوی سے(طلاق کی صورت میں) نکاح کرنا بُرا سمجھا جاتا ھے۔

ادھر ایک مدت کے بعد جناب زید نے جناب زینب کو طلاق دیدی، اور جب طلاق هوگئی تو خداوندعالم نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ جناب زینب سے نکاح کرلیں، تاکہ عرب میں مشهور غلط رواج کو ختم کردیا جائے کہ منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا حرام یا بُرا ھے۔

چنانچہ خداوندعالم نے اس بات کی حکایت کی ھے:

[88]

”غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (اورزینب کوطلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا تاکہ عام مومنین کو اپنے منھ بولے لڑکوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں کسی طرح کی تنگی نہ رھے“

اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ یہ نکاح خداوندعالم کے حکم سے تھا تاکہ حکمِ شریعت واضح هوجائے اور عملی طور پر مساوات کا بہترین ثبوت پیش کیا جاسکے۔

بعض دشمنان دین (خصوصا انگریزوں) نے اس سلسلہ میں بہت سے قصے اور افسانہ گڑھ ڈالے او ریہ کھا کہ جب حضرت محمد زید کے گھر جاتے تھے تو ان کی بیوی کو تعجب سے دیکھتے تھے چنانچہ انھوں نے زید کو طلاق کے لئے ابھارا تاکہ خود زینب سے شادی کرلیں۔

لیکن ان کا یہ گمانِ ناقص، صاحبان غور وفکر کے نزدیک بالکل باطل ومردود ھے کیونکہ جناب زینب آپ کے چچا کی لڑکی تھیں اور آپ نے شادی سے پھلے بھی ان کو دیکھا تھا او ران کوپہچانتے تھے او راگر آپ کے دل میں ان سے شادی کرنے کی ذرا بھی رغبت هوتی تو پھلے ھی ان سے شادی کرسکتے تھے اور زید کو ان سے شادی کرنے کے لئے نہ کہتے۔

۸۔ جویریة بنت الحارث:

یہ قبیلہ بنی مصطلق سے تعلق رکھتیں تھیں اور اپنے قبیلہ والے سے ھی شادی کی، لیکن جب وہ اسیر کرکے مدینہ لائی گئیں اور وہ مسلمانوں کے حصے میںآ گئیں ، چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنے کو ایک مبلغ معین میں خرید لیں اور نبی اکرم کے پاس آئیں او راپنا حسب ونسب اور حالِ حاضر کی حالت بتائی اور درخواست کی کہ آپ اس مبلغ کی ادائیگی میں مدد کریں، چنانچہ رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم اور مھربانی واکرام کرنے کا ارادہ کیا گویا ان کی قوم والوں کو اس کام سے اسلام کی طرف رغبت دلائی اور آپ نے ان کو وہ مبلغ دیدیا تاکہ وہ مبلغ دیدیں او رآنحضرت سے نکاح کرلیں، چنانچہ اس واقعہ سے سب لوگوں کو خوشی هوئی۔

چنانچہ اس شادی کا سب سے پھلا اثر یہ هوا کہ اس قبیلہ کے جو اسیر مسلمانوں کے پاس تھے وہ سب نے آزاد کردئے کیونکہ یہ سب رسول اسلام کے سسرالی رشتہ دار هوگئے تھے۔

۹۔ صفیہ بنت حي:

یہ قوم یهود سے تعلق رکھتی تھیں اور انھوں نے اپنے ھی قبیلہ والوں سے دو مرتبہ شادی کی تھی، لیکن جب جنگ خیبر هوئی تو ان کو اسیر کرلیا گیا تب رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا تاکہ اسیروں کے حال پر رحم وکرم کامکمل ثبوت دیا جاسکے۔

۱۰۔ ام حبیبة بنت ابی سفیان:

ان کی بھی پھلے شادی هوچکی تھی اور انھوں نے اپنے شوھر اور مسلمان مھاجرین کے ساتھ حبشہ ہجرت کی، لیکن وھاں جاکر ان کا شوھر مرتد هوگیا لیکن یہ اپنے اسلام پر باقی رھیں،عالمِ غربت میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کرتی رھیںاور ایک مدت تک حبشہ میں مشکلات کی زندگی گذارتی رھیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا شوھر بھی نھیں تھا او رنہ ھی مکہ واپس پلٹ سکتی تھیں چونکہ ان کے باپ اور ان کے بھائی او ردیگر قبیلہ والے دشمنان اسلام کی اسیری میں تھے۔

چنانچہ جب رسول اسلام نے اس واقعہ کی تفصیل سنی تو ایک شخص کو حبشہ بھیجا تاکہ ان سے جاکر نکاح کی بات کرے، چنانچہ انھوں نے بھی موافقت کی، اور جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مدینہ واپس آگئیں اور رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا اور یہ ام المومنین کے دائرے میں شامل هوگئیں، گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی حبشہ کی مشکلوں پر صبر وتحمل کرنے اور راہ اسلام میں استقامت کرنے کی وجہ سے ان سے نکاح کیا۔

۱۱۔ میمونہ بنت الحارث:

یہ بھی بیوہ تھیں اور ان کی عمر ۴۹ سال تھی انھوں نے اپنے نفس کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو ھبہ کردیا تاکہ آپ بھی ازواج نبی میں شامل هوجائیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:

[89]

” ایماندار عورت اگر وہ اپنے کو (پیغمبر )بنی کو دیدے اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہتے هوں۔“

چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان پر لطف وکرم کیا او ران کو بھی امھات المومنین میں شامل کرلیا۔

قارئین کرام ! کیا کوئی شخص ازواج نبی کی مذکورہ تفصیل پڑھنے کے بعد بھی یہ کہہ سکتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک شهوت پرست تھے؟! کیا ایسے شخص کو جس نے بیواوٴں اور بوڑھی عورتوں سے نکاح کیا هو اس کے بارے میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ غرائز جنسی اور شهوت پرستی کے جال میں پھنسے هوئے تھے، نھیں ھرگز نھیں۔

بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک معمولی انسان نہ تھے بلکہ خدا کی طرف سے بھیجے هوئے رسول تھے او رایسے انسان تھے جو ھر قسم کی شهوت پرستی سے پاک وپاکیزہ تھے اور شعور کے اس بلند درجہ پر فائز تھے کہ جھاں پر انسانیت سے بے پناہ محبت والفت اور ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ھے۔

عصمت

ھر صاحب عقل پر یہ بات واضح ھے کہ نبی چونکہ پیغامات الٰھی کولوگوں تک پهونچاتا ھے اور ان کے سامنے دینی احکامات پیش کرتا ھے لہٰذا اس کی باتوں پراس وقت یقین کیا جاسکتا ھے جب وہ صادق هو اور بھول چوک اور خطا وغلطی سے پاک هو، اور ھر طرح کی معصیت وگناہ سے دور هو ،نیز خدا کی مکمل طریقہ سے اطاعت کرتا هو،تاکہ (یقینی اور قطعی طور پر ) ان تمام چیزوں سے پاک ومنزہ هو جو اس کے اقوال، اعمال اور دیگر امور میں باعثِ شک بنتے هوں۔

چنانچہ اسی چیز کو علماء علم کلام”عصمت “ کہتے ھیں۔

اس بنا پر عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ھے جو نبی کو ترکِ طاعت، فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ھے۔

انبیاء (ع) کی عمومی زندگی کی معرفت کے بعد انسان اس نتیجہ پر پهونچ جاتا ھے کہ نبی کے لئے صاحب عصمت هونا ضروری ھے اور ھمارے لئے انبیاء کی عصمت پر یقین رکھنا واجب ھے، چنانچہ شیعہ حضرات انبیاء (ع) کی عصمت کی ضرورت پر زیادہ اصرار کرتے ھیں اور اسلامی فرقوں میں صرف ھمارا واحد مذھب ھے جو انبیاء (ع) کی عصمت کا قائل ھے چونکہ دوسرے اسلامی فرقے انبیاء (ع) کی عصمت مطلقہ کو ضروری نھیں سمجھتے، جبکہ فرقہٴ معتزلہ اگرچہ انبیاء (ع) کو گناہِ کبیرہ سے معصوم مانتاھے لیکن ان کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز جانتا ھے البتہ ایسے گناہِ صغیرہ جو فقط ثواب کو کم کرتے ھیں لیکن باعث عذاب نھیں هوتے۔[90]

اور چونکہ مسئلہ واضح ھے لہٰذا اس میں زیادہ گفتگو اور دلیل کی کوئی ضرورت نھیں کیونکہ خود انسان کا وجدان اور دل اس بات کی گواھی دیتا ھے کہ وہ نبی جو خطا وغلطی کرتا هو اور معصیت وگناہ کا مرتکب هوتا هو اس صورت میں کوئی بھی انسان اس کی اطاعت وپیروی نھیںکرے گا اور نہ ھی اس کے قول وفعل او رامر ونھی کو قبول کرے گا۔

قارئین کرام ! اس سلسلہ میں بہت سی کلامی کتابوں میں بغیر سوچے سمجھے لکھ دیا گیا ھے اور اس سلسلہ میں ان لوگوںکے وھم کی وجہ سے قرآن مجید کی وہ آیات ھیں جن کے ظاھر سے اس بات کااشارہ هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمگناہ اور معصیت کے مرتکب هوئے۔

لیکن جب ھم بحثِ نبوت اور نبی کی عظمت کا صحیح طریقہ سے جائزہ لینا چاھیں تو ھمیں اس طرح کی آیات کے ظاھر سے پرھیز کرتے هوئے ان کے اصل مقصد تک پهونچنا چاہئے یھاں تک کہ ھم پر حقیقت امر واضح هوجائے اور ھم شکوک وشبھات کا سدّ باب، مستحکم دلیل وبرھان اور فھم صحیح سے کردیں۔ (لہٰذا مناسب ھے کہ پھلے ھم ان آیات کو بیان کریں جن کے ذریعہ سے مخالفین عصمت نے استدلال کیا ھے اور پھر ان کا مکمل جواب پیش کریں۔)

پھلی آیت:

ارشاد خداوندعالم هوتا ھے:

[91]

جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ھے کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ کرنے پر واضح طور پر دلالت کرتی ھے (اگرچہ ان کی بخشش کا وعدہ کیا گیا ھے)

جواب :

قارئین کرام ! اس سلسلہ میں لفظ ”ذنب“ کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت سی وجوھات بیان کی ھیں ان میں سب سے بہتر وجہ وہ ھے جس کو سید مرتضیٰ ۺ نے اختیار کیا ھے ، (سید مرتضیٰ ۺ کا علم وادب اور لغت میں منفرد مقام ھے) چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:

”آیہ کریمہ میں لفظ ”ذنبک“ سے مراد امت محمدی کے گناہ ھیں کیونکہ ذنب مصدر ھے اور مصدر کبھی کبھی فاعل کی طرف مضاف هوتا ھے مثلاً ”اعجبنی شعرک اٴو ادبک اٴو نثرک“ (مجھے تمھارے اشعار یا نثر اور ادب پر تعجب ھے) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف هوا ھے، لیکن کبھی کبھی مصدر اپنے مفعول کی طرف بھی مضاف هوتا ھے مثلاً: ”ساء نی سجنک اٴ و مرضک“ ( میں آپ کے قید هونے یا مرض میں مبتلاهونے کی وجہ سے پریشان هوا) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف هوا ھے اور جس کو قید هوئی یا بیمارهو وہ مفعول ھے۔

اب آئیے قرآن مجید کی اس آیت میں دیکھتے ھیں کہ لفظ ”ذنب“ مفعول کی طرف اضافہ هوا ھے اور ذنب سے مراد امت کے ذریعہ نبی کے اوپر واقع هونے والے سبّ و شتم ا ورمذاق اڑانے کے گناہ ھیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تکذیب اور جنگ میں آپ کو اذیت دینے والے کے گناہ مراد ھیں۔

اور اگر قرآن کی آیت کے اس طرح معنی نہ کریں تو آیت کی تفسیر نھیں هوسکتی، آیت کو ملاحظہ فرمائیں ارشاد هوتا ھے:

[92]

”اے رسول یہ حدیبیہ کی صلح نھیں (بلکہ) ھم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی ھے تاکہ خدا تمھاری امت کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے۔“

کیونکہ اس آیہٴ کریمہ میں فتح کے بعد غفران وبخشش کا ذکر ھے اور جس روز فتح حاصل هوئی اس روز غفران نھیں تھی کیونکہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بعد نازل هوئی، خداوندعالم نے اس صلح کانام فتح رکھا، اور اسی صلح کے ذریعہ سے فتح مکہ کے اسباب فراھم هوئے، چنانچہ اس طرح سے آیت کے معنی واضح هوجاتے ھیں :

” اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً لِیَغْفِرَلِاَجَلِکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ قومکَ نَحْوِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَمنہ بعد ہذا الصلح والی ان َیُتِمَّ الفتح ولیتم نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ بالفتح الکبیر والنصر العظیم“

یعنی اے میرے حبیب ھم نے تم کو واضح طور پر فتح وکامیابی عنایت کی اور اس صلح کے بعد سے مکمل کامیابی تک آپ کی وجہ سے آپ کی قوم کے گذشتہ وآئندہ کے گناہ بخش دئے تاکہ خدا اس عظیم فتح کے ذریعہ تم پر اپنی نعمتیں نازل کرے۔

قارئین کرام ! اگر مذکورہ آیہ مبارکہ کے معنی بعض کج فکر لوگوں کی طرح کریں کہ ذنب سے مراد بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ ھیں تو پھر اس فتح کے بعد غفران وبخشش کوئی معنی نھیں رکھتے، کیونکہ اس بخشش کے سوا اس کے اور کوئی معنی نھیں هوتے کہ فتح کے بعد ان لوگوں کے گناہ بخش دئے جائیں جنھوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شان میں بے ادبی کی، ان لوگوں کے وطن کو لشکر نبوی کے ذریعہ فتح کرائے او ران کے جاھلیت کے زمانہ کو ختم کردے۔

دوسری آیت:

[93]

”اے رسول اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص (زید) سے کہہ رھے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ)کیا اور تم نے اس پر (الگ)احسان کیا ،(جناب زید کو حکم هوتا ھے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو، غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (طلاق دیدی) تو ھم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا“

جیسا کہ بعض لوگوںنے دعویٰ کیا ھے کہ اس آیہ کریمہ میں رسول اسلام کی سرزنش اور ملامت کی گئی ھے کیونکہ وہ لوگوں کی قیل وقال سے خوف زدہ تھے۔

جواب:

جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیںکہ یہ آیہ کریمہ زید بن حارثہ اور ان کی زوجہ جناب زینب بنت جحش کے بارے میں ھے او رھم نے چند صفحے قبل اس بارے میں تفصیل بیان کی ھے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کرام آیت کے سیاق وسباق سے اچھی طرح آگاہ ھیں چنانچہ آپ حضرات اس آیت کے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں پاتے۔

تیسری آیت:

[94]

بعض لوگوں کا گمان یہ ھے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ پر دلالت کرتا ھے کیونکہ بخشش اور معاف کرنا گناہ او رخطا کے بعد ھی تصور کیا جاسکتا ھے۔

جواب:

حقیقت یہ ھے کہ اس آیہ کریمہ کے معنی اس وقت تک سمجھ میں نھیں آسکتے جب تک اس کے سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھیں کیونکہ ماقبل ومابعد کو سامنے رکھ کر ھی آیت کے اصلی معنی سمجھے جاسکتے ھےں۔

ارشاد خداوندی هوتا ھے:

[95]

”(اے رسول ) اگر سردست فائدہ اور سفر آسان هوتا تو یقیناً یہ لوگ تمھارا ساتھ دیتے مگر ان پر مسافت کی مشقت طولانی هوگئی، اور (اگر پیچھے رہ جانے کی پوچھو گے تو )یہ لوگ فوراً خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ھم میں سکت هوتی تو ھم بھی ضرور تم لوگوں کے ساتھ ھی چل کھڑے هوتے (یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھاکر ) اپنی جان آپ ھلاک کئے ڈالتے ھیں او رخدا تو جانتا ھے کہ یہ لوگ بیشک جھوٹے ھیں ۔(اے رسول ) خدا تم سے درگزر فرمائے تم نے انھیں (پیچھے رہ جانے کی)اجازت ھی کیوں دی تاکہ (تم ایسا نہ کرتے تو) سچ بولنے والے (الگ )ظاھر هوجاتے اور تم جھوٹوں کو (الگ) معلوم کرلیتے۔ (اے رسول ) جو لوگ (دل سے) خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جھاد (نہ) کرنے کی اجازت مانگنے کے نھیں (بلکہ وہ خود جائیں گے)

اور خدا پرھیزگاروں سے خوب واقف ھے (پیچھے رہ جانے کی) اجازت تو بس وھی لوگ مانگیں گے جو خدا او رروز آخرت پر ایمان نھیں رکھتے اور ان کے دل (طرح طرح کے) شک کررھے ھیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواںڈول هورھے ھیں (کہ کیاکریں او رکیا نہ کریں)اور اگر یہ لوگ (گھر سے) نکلنے کی ٹھان لیتے تو (کچھ نہ کچھ) سامان تو کرتے مگر (بات یہ ھے ) خد ا نے ان کے ساتھ بھیجنے کو ناپسند کیا تو ان کو کاھل بنادیا اور (گویا) ان سے کہہ دیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے (مکھی) مارتے) رهو۔“

جواب:

قارئین کرام ! ان آیات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ میں گناہ شرعی نھیں ھے یعنی حکم خدا کی مخالفت نھیں کی بلکہ ان آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس بات کی ہدایت کی گئی ھے کہ آپ جنگ میں شرکت نہ کرنے والوں کے جھوٹ وسچ کو کن طریقوں سے پہچانےں تاکہ آپ کو اپنے اصحاب میں صادقین وکاذبین کی شناخت هوجائے، کیونکہ اگر آپ ان لوگوں کی تاخیر میں اجازت نہ دیتے تو جھوٹے اور سچوں کی پہچان هوجاتی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان لوگوں کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دیدی جو یہ کہہ رھے تھے کہ ھم جنگ میں جانے سے معذور ھیں لہٰذا ان کی سچائی کا ثبوت نہ مل سکا کیونکہ ان میں سے بعض لوگ سچے تھے اور بعض لوگ صرف بھانہ کررھے تھے لیکن ان کے درمیان کوئی پہچان نہ هوسکی۔

چوتھی آیت:

[96]

اور چونکہ ضلال عصمت کے مخالف ھے اور گمان کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا کہ جس میں ضلالت وگمراھی پائی جائے گی وہ ذات معصوم نھیں هوسکتی۔

جواب:

حقیقت یہ ھے کہ ضلال کے معنی ذھاب اور انصراف کے ھیں جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپھلے یہ نھیں جانتے تھے کہ کس طرح خدا کی عبادت کی جائے اور اپنے واجبات کی ادائیگی کرکے کس طرح تقرب الٰھی حاصل کیا جائے تو اس وقت تک خاص معنی میں عبادت نھیں کرتے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے آپ کی ہدایت کی اور رسالت اسلام سے سرفراز کیا اور مذکورہ آیت انھیں آیات میں سے ھے جن میں خداوندعالم نے اپنے نبی پر نازل کردہ نعمتوں کو شمار کیا اور اپنی خاص عنایات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے شامل حال رکھیں۔

ارشاد هوتا ھے:

[97]

”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر (ابوطالب) کی پناہ نھیں دی (ضرور دی) او رتم کواحکام سے ناواقف پایا تو تمھیں منزل مقصود تک پهونچادیا او رتم کو تنگدست پاکر غنی کردیا“

چنانچہ یہ آیات واضح طور پر ھمارے مطلوب ومقصور پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ خداوندعالم نے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یتیم پایا تو آپ کو پناہ دی اور پرورش کی اور جب آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی کردیا اس کے بعد جب خاص معنی میں عبادت کا طریقہ نھیں آتا تھاتو خداوندعالم نے عبادت خاص کی طرف ہدایت کی۔

پانچویں آیت:

[98]

”اور تم سے وہ بوجھ اتاردیا“

جبکہ عرف عام میں”وزر“ کے معنی گناہ کے ھیں۔

جواب:

حقیقت یہ ھے کہ لغت میں ”وزر“ کے معنی ثقل (بوجھ) کے ھیں اور گناهوں کو اسی وجہ سے ”وزر“ کھا جاتا ھے کیونکہ گناهوں کا انجام دینے والا سنگین هوجاتا ھے، چنانچہ اس بناپر ھر وہ چیز جو انسان کو بوجھل کردے تو اس کو ”وزر“ کھا جاتا ھے حقیقی ثقل سے شباہت کی وجہ ھے جیسا کہ یہ ذنب سے بھی مشابہ ھے اور ذنب کو بھی ”وزر“کھا جاتا ھے۔

لیکن وہ چیز جو رسول اسلام کو سنگین اور بوجھل کرتی تھی،وہ آپ کی قوم کا شرک وکفر اور آپ کی رسالت کا انکار نیز آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنا تھا لیکن جس دین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلملے کر نازل هوئے آپ اس کی مسلسل دعوت دیتے رھے جبکہ آپ دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور اور ضعیف تھے او رنہ ھی آپ کے ساتھ بہت زیادہ افراد تھے جو اذیت اور شرارت کے وقت ان کا مقابلہ کرتے۔

اور یھی معنی ھیں ”وزر“ کے یعنی ایسی سنگینی جس کے غم والم کی وجہ سے آپ کی کمر ٹوٹی هوئی تھی،اور شاید اسی معنی میں آیات کاا دامہ بہترین شاہد هو کہ ارشاد هوتا ھے:

[99]

کیونکہ رفع ذکر اور مشکلات کے بعد آسانیوں کا تذکرہ اس صورت میں صحیح ھے جب وزرسے مراد رسول اسلام کی وہ سنگینی مراد لی جائے جو آپ کی قوم میں ہدایت اور اسلام سے بے توجھی کی وجہ سے آپ کے دل میں موجود تھی۔

قارئین کرام ! یہ تھی نبوت بمعنی عام کی گفتگو جو ہدایت بشر اور بہترین نظام زندگی کو سازوسامان بخشنے والی ھے اور یہ تھی بحث ”خاتم النبین“ (ص) کی جو تمام لوگوں کے رسول بناکر بھیجے گئے جو ”شاہد بھی ھےں اور مبشر ونذیر بھی جو خدا کے حکم سے خدا کی طرف دعوت دینے والے سراج منیر بھی ھیں۔ آپ کی ذات گرامی، وہ ھے جن کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:

[100]

” وہ تو اپنی خواہش سے کچھ بولتے ھی نھیں یہ تو بس وحی ھے جو بولی جاتی ھے“

آخر کلام میں اس گفتگو کا اختتام اس طرح کرتے ھیں:

[101]و[102]

”اے ھمارے پالنے والے جو کچھ تو نے نازل کیا ھم اس پر ایمان لائے اور ھم نے تیرے رسول (عیسیٰ (ع)) کی پیروی اختیار کی“ ”شکر ھے اس خدا کا حس نے ھمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ھمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ھم کسی طرح یھاں تک نھیں پهونچ سکتے تھے“۔

———————————————–

حوالہ

[1] سورہ انعام آیت ۴۸۔

[2] سورہ نساء آیت ۱۳۶۔

[3] سورہ حشر آیت ۲۳

[4] سورہ حشر آیت ۲۴۔

[5] سورہ حشر آیت ۲۲)

[6] سورہ آل عمران آیت ۱۹۳،۱۹۴۔

[7] سورہ مائدہ آیت ۱۲۰۔

[8] سورہ هود آیت ۱۰۷۔

[9] سورہ یٰس آیت ۸۳۔

[10] سورہ انبیاء آیت ۲۳ ۔

[11] رجوع فرمائیں باب” عدل الٰھی بین جبر واختیار “ پر۔

[12] سورہ بقرہ آیت ۱۲۰۔

[13] سورہ نحل آیت ۶۴۔

[14] براھمہ کے سلسلہ میں امام غزالی نے اپنی کتاب ”المنخول“ ص ۱۳ میں وضاحت کی ھے اس سلسلہ میں ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کی کتاب ”مذاھب الاسلامیین“ جلد اول ص ۷۴۶ پر بھی توجہ کرسکتے ھیں۔

[15] سورہ آل عمران آیت ۱۶۴۔

[16] سورہ نحل آیت ۸۹۔

[17] سوره بقره آیت 124

[18] سورہ ص آیت۲۶۔

[19] سورہ صافات آیت۱۸۱۔

[20] سورہ احزاب آیت۳۹۔

[21] سورہ بقرہ آیت ۲۱۳۔

[22] سورہ مائدہ آیت ۶۷۔

[23] سورہ انفال آیت ۶۴۔

[24] مجمع البحرین ، علامہ طریحی جلد اول ص ۴۰۵ ،مطبوعہ نجف اشرف ۱۳۷۸ھ۔

[25] مجمع البحرین ، علامہ طریحی جلد اول ص ۴۰۵ ،مطبوعہ نجف اشرف ۱۳۷۸ھ۔

[26] یعنی اگر مریض کو شفا دینے کا دعویٰ کرے تو مریض شفایاب هوجائے ایسا نہ هو کہ شفا دینے کا دعویٰ کرے اور وہ مرض زیادہ هوجائے یا مریض کا جنازہ نکل جائے، مترجم)

[27] سورہ رعد آیت ۳۸، وسورہ غافر آیت ۷۸ ۔

[28] سورہ یوسف آیت ۱۱۱۔

[29] سورہ حاقہ آیت ۴۴ تا ۴۶۔

[30] سورہ یونس آیات ۳۷ تا ۳۸۔

[31] سورہ سباء آیت ۲۸۔

[32] سورہ انبیاء آیت ۱۰۷۔

[33] سورہ اعراف آیت ۱۵۸۔

[34] سورہ انعام آیت ۱۹۔

[35] سورہ حج آیت ۴۹۔

[36] سورہ اعراف آیت ۵۹۔

[37] سورہ اعراف آیت ۷۳۔

[38] سورہ زخرف آیت ۴۶۔

[39] سورہ صف آیت ۶۔

[40] المنخول غزالی ص ۲۸۸۔

[41] سورہ بقرہ آیت ۱۲۰۔

[42] سورہ آل عمران آیت ۸۵۔

[43] سورہ اسراء آیت۵۹۔

[44] البیان فی تفسیر القرآن جلد اول ص ۷۶تا۷۹۔

[45] سورہ انفال آیت ۳۳۔

[46] سورہ فاطر آیت ۲۸۔

[47] المعجزة الخالدة ص ۲۱۔

[48] سورہ یوسف آیت۸۰۔

[49] سورہ حج آیت ۷۳۔

[50] سورہ انبیاء آیت ۲۲۔

[51] سورہ هود آیت۴۴۔

[52] سورہ اسراء آیت۸۸۔

[53] سورہ آل عمران آیت ۴۱۔

[54] سورہ مریم آیت ۱۰۔

[55] سورہ حاقہ آیت ۷۔

[56] سورہ هود آیت۶۵۔

[57] سورہ لیل آیت۱۔

[58] سورہ حاقہ آیت ۷۔

[59] سورہ بقرہ آیت ۵۱۔

[60] سورہ نساء آیت ۸۲۔

[61] سورہ طٰہ آیت ۵۳۔

[62] سورہ انعام آیت ۱۲۵۔

[63] اللہ یتجلی فی عصر العلم ص ۱۶۶۔

[64] سورہ حجر آیت ۲۲۔

[65] طریقہ زاد ولد درخت۔

[66] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ۸۱۔۸۵۔

[67] سورہ قیامت آیت ۷تا ۱۰۔

[68] سورہ نحل آیت ۶۸۔

[69] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ص ۱۹تا ۲۱۔

[70] سورہ حج آیت ۵۔

[71] القرآن الکریم والعلوم الحدیثہ ص ۸۲تا ۸۳۔

[72] سورہ بقرہ آیت ۲۲۲۔

[73] الاسلام والطب والحدیث ص ۴۰۔

[74] سورہ واقعہ آیت ۷۵تا ۷۶۔

[75] اللہ یتجلی فی عصر العلم ص ۱۶۶۔

[76] سورہ حجر آیت ۱۹۔

[77] البیان جلد اول ص ۵۴۔

[78] سورہ اسراء آیت ۹۔

[79] سورہ نمل آیت ۸۸۔

[80] سورہ فرقان آیت ۷۔

[81] سورہ اسراء آیت ۹۳۔

[82] ام المومنین جناب عائشہ راوی ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب خدیجہ سے جس قدر محبت کیا کرتے تھے کسی بھی بیوی سے اس قدر محبت نھیں کرتے تھے اگرچہ میں نے ان کو نھیں دیکھا، لیکن اس بات کا اندازہ میں نے اس بات سے کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجناب خدیجہ کا کثرت سے ذکرکیا کرتے تھے، اور جب کبھی آپ گوسفند ذبح کرتے تھے توجناب خدیجہ کی چاہنے والیوں کو بھیج دیتے تھے۔

اسی طرح جناب عائشہ کا بیان ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمگھر سے باھر نکلتے تھے تو جناب خدیجہ کا تذکرہ اور ان کی مدح وثنا کیا کرتے تھے ، جب ایک روز آپ نے اسی طرح جناب خدیجہ کا ذکر کیا تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا:

”آپ کیوں اس قدر خدیجہ کا ذکر کرتے ھیں درحالیکہ وہ تو ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خداوندعالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی عطا کردی ھے“ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبہت غضبناک هوئے، غضب کی وجہ سے آپ کے رونگٹے کھڑے هوگئے ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: ”خدا کی قسم اللہ نے مجھے ان سے اچھی زوجہ نھیں دی !!کیونکہ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگوں نے میرا انکار کیا اور انھوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اپنے مال میں مجھ سے اس وقت مساوات کی جب لوگوں نے میری ناکہ بندی کررکھی تھی، خداوندعالم نے ان سے مجھے اولاد عطا کی جب مجھے ”لاولد“کہہ کر طعنہ دیا جاتا تھا“

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ باتیں سن کر میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کبھی جناب خدیجہ کو اس طرح برا نہ کهوں گی۔ (مزید تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں: نھایة الارب ج۱۸ ص۱۷۲)

[83] مورخین کے درمیان مشهور یہ ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی چار بیٹی تھیں: ۱۔زینب۔ ۲۔ رقیہ۔ ۳۔ام کلثوم۔ ۴۔ فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

لیکن اگر کوئی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھے تو اپنے کو اس شھر ت کا مخالف پائے گا، اور اس بات کا یقین کرے گا کہ جناب فاطمہ زھرا = کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی کوئی بیٹی نہ تھی، چنانچہ ھم یھاں پر مختصر طور پر ایک اشارہ کرتے ھیں:

الف: جناب زینب:

بعض مورخین کا بیان ھے کہ جب جناب زینب کی ولادت هوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر ۳۰/ سال تھی (استیعاب ج۴ص ۲۹۲، اسد الغابہ ج۵ص۴۶۷، نھایة الارب ج۸ص ۲۱۱)

زینب کی شادی ابو العاص بن ربیع بن عبد العزی بن عبد شمس سے هوئی، اور یہ اس کی خالہ کا لڑکا تھا چنانچہ زینب کے دو بچے تھے ایک علی جو بچپن میں مرگیا دوسرے امامة۔

زینب نے اپنی ماں کے ساتھ اسلام قبول کیا لیکن چونکہ ان کے شوھر نے اسلام قبول نہ کیا لہٰذا ان دونوں میں جدائی هوگئی، (کیونکہ میاں بیوی میں سے اگر کوئی ایک کافر هو تو اسلام ان دونوں میں جدائی کا حکم صادر کردیتا ھے) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدونوں کی جدائی کو عملی نھیں بناسکے، لہٰذا وہ رسول اسلام کے گھر میں اسلام پر باقی رھی اور ان کا شوھر اپنے شرک پر باقی رھا (ملاحظہ فرمائیں گذشتہ حوالے نیز تاریخ طبری ج ۲ ص۶۶۷، طبقات ابن سعد ج۸ص ۲۴، اسد الغابہ ج ۵ ص ۴۶۷، نھایة الارب ج۱۸ص ۲۱۱)

ھمارا نظریہ یہ ھے جیسا کہ روایات بھی اس بات کی طرف اشارہ کررھی ھے کہ جناب زینب کی عمر بعثت پیغمبر کے وقت دس سال تھی تو کیا یہ ممکن ھے کہ دس سال کی عمر میں شادی بھی هوجائے اور دوبچوں کی ولادت بھی؟! اور اگر یہ مان لیں کہ شادی سات یا آٹھ سال کی عمر میں هوئی تو پھر زینب جناب خدیجہ کے پھلے شوھر ابوھالہ کی لڑکی تھی (نہ کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی) (رجوع کریں نھایة الارب ج۱۸ ص۱۷۱)

ب: رقیہ:

ج: ام کلثوم:

جیسا کہ بعض مورخین نے نقل کیا ھے کہ رقیہ کی جب ولادت هوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر شریف ۳۳سال تھی اور ام کلثوم اس سے چھوٹی تھی۔ (الاستیعاب ج۴ ص ۲۹۲، نھایة الارب ج۱۸ص ۲۱۲) اور اس بات پر مورخین کا اتفاق ھے کہ ان دونوں کی شادی بعثت سے قبل عتبہ اور عتیبہ (فرزندان ابی لھب بن عبد المطلب) سے هوئی، اور یہ دونوں اپنے ماں کے ساتھ اول بعثت میں اسلام لائیں(طبقات ابن سعد ج۸ ص ۲۴،۲۵)

اور جب رسول اسلام نے اعلان رسالت کیا تو ابولھب نے اپنے دونوں لڑکوں کو طلاق کا حکم دیدیا، چنانچہ انھوں نے دونوں کو طلاق دیدی، اس کے بعد جناب رقیہ سے جناب عثمان نے شادی کی اور جب کفار ومشرکین نے مسلمانو ںکو پریشان کرنا شروع کیا تو جناب رقیہ نے دیگر مھاجرین کے ساتھ ہجرت کی۔

(تاریخ طبری ج۲ ص ۳۳۰، ۳۳۱، وص ۳۴۰، نھایة الارب ج۱۸ ص ۲۱۲، الاصابہ ج۴ص۲۹۷)

ھم کہتے ھیں کہ جناب رقیہ کے لئے کیسے ممکن ھے کہ سات سال هونے سے پھلے ھی شادی کرلیں اور طلاق بھی هوجائے اور ان کی بہن ام کلثوم بھی جو اُن سے ایک سال چھوٹی تھی شادی بھی کرلیں اور طلاق بھی هوجائے۔

[84] طبقات ابن سعد ج۸ ص ۵۶تا ۵۷۔

[85] سورہ احزاب آیت ۵۶۔

[86] سورہ احزاب آیت ۳۶۔

[87] سورہ احزاب آیت ۳۷۔

[88] سورہ احزاب آیت۳۷۔

[89] سورہ احزاب آیت ۵۰۔

[90] ”مذاھب الاسلامین “ تالیف ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی جلد اول ص ۴۷۸، اسی طرح امام غزالی کی کتاب ”المنخول“ پر رجوع فرمائیں، جیسا کہ مولف کہتے ھیں: ”انبیاء (ع) کے لئے عصمت کا قائل هونا ضروری نھیں ھے“ اس کے بعد اضافہ کرتے هوئے کہتے ھیں: ھم تو یہ بات بھی جائز جانتے ھیں کہ خدا کسی کافر کو نبی بنائے اور اس کو معجزہ عطا کرے“ اسی طرح مذکورہ کتاب کے محقق نے اس بات پر حاشیہ لگایا اور کھا: اس سلسلہ میں رافضی مخالف ھیں کیونکہ وہ انبیاء (ع) کو معصیت اور گناہ سے پاک وپاکیزہ مانتے ھیں اسی طرح معتزلہ کا بھی عقیدہ ھے مگر یہ لوگ انبیاء (ع) کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز مانتے ھیں۔“

[91] سورہ فتح آیت۲۔

[92] سورہ فتح آیت۱،۲۔

[93] سورہ احزاب آیت ۳۷۔

[94] سورہ توبہ آیت ۴۳۔

[95] سورہ توبہ آیات ۴۲ تا ۴۶۔

[96] سورہ والضحیٰ آیت ۷۔

[97] سورہ والضحیٰ آیت ۶ تا ۸۔

[98] سورہ شرح آیت۲۔

[99] سورہ انشراح آیت ۵،۶۔

[100] سورہ نجم آیت ۳تا ۴۔

[101] سورہ آل عمران آیت۵۳۔

[102] سورہ اعراف آیت ۴۳۔

 

 

تبصرے
Loading...