مشیت الٰہی اور رضائے اہل بیت علیہم السلام

قُلُوبُنٰا اٴَوعِیَةٌ لِمَشِیَّةِ اللهُ، فاِذَا شَاءَ اللهُ شِئنَا، وَاللهُ یَقُولُ: ( وَ مٰا تْشٰاوٴُونَ إِلّا اٴَنْ یَشٰاءَ اللهُ )؛”ہمارے دل مشیت الٰہی کے لئے ظرف ہیں، اگر خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے اور اس کو چاہے تو ہم بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں اور اسی کو چاہتے ہیں۔ کیونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے: ”تم نہیں چاہتے مگر وھی چیز جس کا خدا ارادہ کرے“۔[کمال الدین، ج 2، ص 511، ح 42]امام زمانہ علیہ السلام اس کلام میں ”مقصِّرہ“ و ”مفوِّضہ“ کی تردیدکرتے ہوئے کامل بن ابراھیم سے خطاب فرماتے ہیں:”وہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، بلکہ ہمارے دل رضائے الٰہی کے ظرف ہیں، جو وہ چاہتا ہے ہم بھی وھی چاہتے ہیں، اور ہم رضائے الٰہی کے مقابل مستقل طور پر کوئی ارادہ نہیں کرتے“۔

مشیت الٰہی اور رضائے اہل بیت علیہم السلام

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ہے:”بے شک خداوندعالم نے ائمہ (علیہم السلام) کے دلوں کو اپنے ارادہ کا راستہ قرار دیا ہے؛ پس جب بھی خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ کرے، ائمہ بھی اسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں، اور یہ خداوندعالم کا فرمان ہے : ”تم نہیں چاہتے مگر وھی جس کا خداوندعالم ارادہ کرے“۔[تفسیر علی بن ابراھیم، ج2، ص 409]امام مھدی علیہ السلام کی اس حدیث سے متعدد نکات معلوم ہوتے ہیں جن میں سے چند نکات کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:۱۔ دل، خداوندعالم یا شیطان کے ارادوں کا ظرف ہوتا ہے۔۲۔ ائمہ علیہم السلام معصوم ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کا ارادہ وھی خداوندعالم کا ارادہ ہوتا ہے، اور جن کی ذات ایسی ہو تو ایسی ذات ھی صاحب عصمت ہوتی ہے۔۳۔ اہل بیت علیہم السلام کا ارادہ خداوندعالم کے ارادہ پر مقدم نہیں ہوتا، نیز خدا کے ارادہ سے موخر بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اہل بیت علیہم السلام کی بنسبت ہمارا رویہ بھی اسی طرح ہونا چاہئے۔۴۔ جب تک خداوندعالم کسی چیز کا ارادہ نہ کرلے اہل بیت علیہم السلام بھی اس چیز کا ارادہ نہیں کرتے۔
ماخذ:کمال الدین، ج 2، ص 511، ح 42،تفسیر علی بن ابراھیم، ج2، ص 409، بصائر الدرجات، ص537، ح47، بحار الانوار، ج5، ص114، ح 44۔

تبصرے
Loading...