مذكورہ مطلب سے متعلق چند نكات

مذكورہ مطلب سے متعلق چند نكات

ہ بات تاریخی اعتبار سے مسلم ھے كہ نادر شاہ نے شیعہ اور سنی كے درمیان اتحاد اور دوستی قائم كرنے كے لئے بھت كوشش كی، لیكن سلاطین عثمانی كی دشمنی اور عناد اس قدر زیادہ تھی (جیسا كہ بعض نمونے بیان بھی هوئے ھیں) كہ نادر شاہ كی كوشش ثمر بخش نہ هوسكی۔

چنانچہ یھاں پر چند نكات كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے:

پھلا نكتہ یہ كہ تاریخ شیعہ میں چاھے صفویہ زمانہ هو یا دیگر زمانہ، كوئی بھی ایسا شیعہ عالم نھیں مل پائے گا جس نے اسلامی فرقہ سے جنگ كو جھاد كا نام دیا هو، یا كسی ایك اسلامی سر زمین كو دار الحرب كا نام دیا هو، یا اسلامی مذاھب كے پیروكاروں كو كافر كھا هو۔

دوسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی علماء جو بھی فتویٰ دیتے تھے وہ حكومت كے اشارہ اور اس كے حكم سے هوتا تھا جبكہ شیعہ تاریخ میںكبھی كوئی ایسا موقع نھیں آیا كہ كسی بادشاہ كے اشارے پر كسی عالم دین نے كوئی فتویٰ دیا هو، یا كسی شیعہ عالم دین نے بغیر سوچے سمجھے یا صرف تعصب اور اپنے احساسات یا قومی جذبات كی بناپر كوئی فتویٰ دیا هو۔

تیسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی حكومت كے علماء اور طلاب، شیعوں كی معتبر كتابوں، تفسیر، فقہ وحدیث، اور كلام وغیرہ سے بھت كم آشنائی ركھتے تھے، اور شاید ان میں سے بھت سے لوگ یہ بھی نہ جانتے هوں كہ شیعوں كی فقہ كتنی وسیع اور اصیل (خالص) ھے،جب كہ اس كے برعكس قضیہ صادق ھے یعنی شیعہ علماء اور طلاب عمومی طور پر دیگر اسلامی مذاھب كی كتابوں سے بخوبی اطلاع ركھتے ھیں، ایران مذھب شیعہ كا مركز ھے،لیكن كبھی بھی دیگر مذاھب كی كتابوں كے مطالعہ پر كوئی پابندی نھیں ھے۔

آج یہ بات سب پر واضح اورآشكار ھے كہ ایران كی كتابفروشی (بك ایجنسی) اور كتب خانوں میں تمام اسلامی مذاھب كی كتابیں موجود ھیں اور كوئی بھی ان كا مطالعہ كرسكتا ھے، اس كے علاوہ تھران یونیورسٹی میں حنفی اور شافعی فقہ پڑھائی جاتی ھے كیونكہ ایران میں یہ دو مذھب موجود ھیں، مطلب یہ ھے كہ اگر عثمانیوں كے پاس شیعہ كتابیں هوتیں اورصرف حقیقت حال سے اطلاع كے لئے ان كی تحقیق كرتے تو پھر شیعہ مذھب كی حقیقت سے باخبر هوجاتے، نہ یہ كہ بعض اھل غرض كی تھمتوں اور گمان كی بنا پر شیعوں كے بارے میں كچھ كھتے۔

نتیجہ

مذكورہ مطلب كو بیان كرنے كا نھائی (آخری) مقصد یہ ھے كہ 1088ھ میں ایرانی حجاج كا قتل عام اور اسی طرح دوسرے واقعات كے پیش نظر، یہ بات مسلّم ھے كہ صفویہ سلطنت كے شروع میں حكومت عثمانی كے وسیع علاقوں میں خصوصاً حرمین شریفین میں ایرانیوں سے دشمنی كو هوا دی جاتی تھی اور طرح طرح كی ناروا اور جھوٹی تھمتیں لگاكر عثمانیوں كو دشمنی كے لئے ابھارا جاتا تھا، ان تھمتوں میں سے ایك نمونہ ابو طالب یزدی كا واقعہ تھا اور اس تھمت كی وجہ سے بھت سے ایرانی حجاج كا خون بھایاگیاھے۔

عبد العزیز كی موت

سلطان عبد العزیز اپنی عمر كے آخری دس سالوں میں بالكل اپاہج هوگیا تھا (یعنی چلنے پھرنے كی بھی طاقت نہ تھی)اور ویلچر كے ذریعہ ادھر ادھر جاتا تھا اور قلبی اور مغزی بیماری میں بھی مبتلا هوگیا تھا، 1953ء میں گرمی كا زمانہ طائف میں گذارنا چاھا، طائف كی آب وهوا معتدل اور بھت اچھی ھے لیكندریا سے اس كی اونچائی 1200 میٹر ھے اس وجہ سے یہ بات اس كے مزاج سے ھم آہنگ نھیں تھی اس كی حالت اور بگڑتی گئی اس كے مخصوص ڈاكٹر كے علاوہ جرمنی كے كئی ڈاكٹر بھی اس كے علاج میں لگے هوئے تھے لیكن كسی كا بھی علاج كارگر نہ هوا، اور دوم ربیع الثانی 1373ھ كواس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، اس كے جنازے كو هوائی جھاز كے ذریعہ ریاض لایا گیا اور وھیں پر دفن كر دیاگیا۔

ابن سعود كا اخلاق اور اس كی بعض عادتیں

”امین محمد سعید” جو ابن سعود سے آشنا افراد میںسے تھے اور اس كے اخلاق او رعادتوں سے بڑی حد تك آشنائی ركھتے تھے، انھوںنے ابن سعود كے اخلاق صفات اور روزانہ كے پروگرام كے بارے میں تفصیل سے بیان كیا ھے۔

ابن سعود ایك بلند قامت اور صحت مند انسان تھا منھ بھی بھت بڑا تھا اور جب غصے میں بولتے تھے تو ان كے منھ سے كف(جھاگ) نكلتا تھا، چھرہ كا رنگ گندمی اورتھوڑاكالا تھا، اس كی داڑھی كم اور ھلكی تھی اس كی ایك آنكھ میں تكلیف تھی اسی لئے خط یا كتاب پڑھتے وقت چشمہ كا استعمال كرتا تھا، یا اس خط كو آنكھوں سے بھت قریب كركے پڑھتا تھا، ابن سعود كے لئے خط پڑھنا بھت مشكل تھا، اس كے بدن میں بھت سے زخموں كے نشان پائے جاتے تھے، اور اس كی ایك انگلی فلج تھی۔

اپنے سر پر كوفیہ اور عقال باندھتا تھا اور سفید اور لمبا لباس پہنتا تھا، اور اس كے نیچے ایك پاجامہ بھی هوتا تھا اور ان كپڑوں كے اوپر ایك عبا بھی هوتی تھی۔

اسے اعتراف تھا كہ ھم نے علوم (دنیاوی تعلیم) نھیں حاصل كی ھے جو لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ ھیں ان كو چاہئے كہ اس سلسلہ میں ھماری راہنمائی كریں۔

اور كبھی بھی كوئی تقریر كرنا هوتی تھی توخطباء كی روش اور عربی كے قواعد كی رعایت نھیں كرتاتھا، نجدی لہجہ میں گفتگو كرتا تھا اور اكثر اس كی تقریریں مذھبی پھلو ركھتی تھیں اور اپنی تقریروں میں احادیث نبوی اور قرآنی آیات كو شاہد كے طور پر پڑھا كرتا تھا، بیٹھ كر تقریر كیا كرتا تھا، انگشت شھادت اور اس كے ھاتھ میں موجود چھوٹے سے عصا كے ذریعہ اپنے مفهوم كو سمجھانے كے لئے اشارہ كیا كرتا تھا۔

ابن سعود غصہ كے عالم میں بھی ملائم اور نرم مزاج تھا، اور ضرورت كے وقت سنگدل اور غصہ ور تھا، وہ جانتاتھا كہ كھاں پر تلوار كا كام ھے او ركھاں پر بخشش اور احسان كا۔

جس وقت دشمن پشیمانی كا اظھار كرتے تھے وہ ان كو بخش دیتا تھا اور پھر ان كو بھت سا مال دے كر اس كو بلند مقام عطا كرتا تھا، اس كی دور اندیشی اور شدت عمل كا نتیجہ یہ تھا كہ ملك میں بے مثل امن امان قائم هوگیا كہ ھر شخص اپنی جان ومال كو محفوظ سمجھتا ھے اور اطمینان سے رھتا ھے، اس كی سب سے بڑی وجہ اس كی بیداری اور مجرمین ،راہزنوں اور ظلم وستم كرنے والوں كے بارے میں بھت سخت مزاجی تھی اور ان پر كسی طرح كا كوئی رحم نھیں كرتا تھا اور ان كے بارے میں كسی كی كوئی سفارش بھی قبول نھیں كرتا تھا۔ (لہٰذا ان سب كا خاتمہ كركے امن وامان قائم كردیا)

ابن سعود عربی اخبار خصوصاً مصری اخبار پر بھت زیادہ توجہ ركھتا تھا اور جو كچھ مصری اخباروں میں اس كے ملك كے سلسلہ میں لكھا هوتا تھا اس كو غور سے پڑھا كرتا تھا، وہ اكثر عربی اخباروں اور مجلوں اور لندن سے منتشر ”ٹائمز“ اخبار كا ممبر تھا، اور اس كے پاس كئی ایسے مترجم تھے جو انگریزی اور ہندی اخباروں میں سے ان خبروں كا ترجمہ كركے پیش كرتے تھے جو ان كے عرب ممالك اور حجاز كے بارے میں هوتی تھی۔

ابن سعود كے زمانہ میں ھی نجد اور حجاز كے جوانوں كا سب سے پھلا گروہ دنیاوی تعلیم كے لئے مصر اور یورپ كے لئے گیا، 1927ء میں ان افراد كی تعداد 16 تھی۔

اسی طرح اس كے زمانہ میں لوگوں كو گاڑیوں (موٹرس) پر چلنے كی اجازت ملی جبكہ اس سے پھلے ممنوع تھی۔

ابن سعود كے بعد آل سعود كی حكومت

عبد العزیز كے مرنے كے بعد اس كے بیٹے جمع هوئے اور اس كے ولیعہد ملك سعود كی سعودیہ كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی، بیعت كے بعد ملك سعود نے اپنے بھائی امیر فیصل كو اپنا ولیعہد مقرر كیا۔

ملك سعود كی بیعت كا پروگرام مكہ معظمہ میں ركھا گیا اور اس نئے بادشاہ سے بیعت كرنے كے لئے مختلف علاقوں سے تقریباً ہزاروں لوگ جمع هوئے، چنانچہ اھل مكہ نے علماء اور قضات اور اھم شخصیات كے ساتھ ایك تاریخی عہد نامہ لكھا جس میں شرعی طور پر بیعت كی گئی تھی۔

مذكورہ عہد نامہ كی تحریر اس طرح ھے:

”یا امام المسلمین الملك سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمٰن الفیصل آل سعود المتوفی یوم الاثنین 2 ربیع الاول سنة1373۔

قد عہد الامانة من بعدہ الیكم واخذت لكم البیعة فی عام 1352 فان امامتكم بذالك منعقدة وثابتة شرعاً، واننا بمناسبة وفاة والدكم عبد العزیز وتولیكم امامة المسلمین من بعدہ نجدد ونوكد بیعتكم اللتی فی اعناقنا علی العمل بكتاب اللّٰہ وسنة رسولہ، واقامة العدل فی كل شئي وتحكیم الشریعة الاسلامیہ ولكم علینا السمع والطاعة فی العسر والیسر والمنشط والمكرہ، ونسال اللّٰہ لكم العون والتوفیقفیما حملتم من امور المسلیمن وان یحقق علی ایدیكم ما ترجوہ الامة الاسلامیة من مجد وتمكینٍ“۔

چنانچہ ان تمام باتوں كے بعد مفتی بزرگ كی ریاست میں ریاض اور دیگر شھر و دیھات كے علماء نے ابن سعود كے ھاتھوں پر بیعت كی اور اس كی اطاعت كرنے كے بارے میں اقرار كیا۔

5ربیع الاول 1373ھ پنجشنبہ كو غروب كے وقت ابن سعود مسجد الحرام گیا اور نماز مغرب كی نماز جماعت قائم كرنے كو اپنے ذمہ لیا، اور اس كے بعد خانہ كعبہ كا طواف بجالایا، او ردعا كی، نیز ایك تقریر كی جس میں اپنی حكومت كے منصوبوں كو چاھے وہ اندرونی هوں یا بیرونی سب لوگوں كے سامنے بیان كئے۔ ملك سعود نے اپنی سلطنت كے زمانہ میں اپنے ملك كی ترقی كے لئے بھت كوششیں كیں، بھت سے مدرسے اور ھاسپیٹل، بھت سی سڑكیں اور پل وغیرہ بنائے۔

ابن سعود كے اھم كاموں میں سے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں توسیع كرنا ھے جس میں ان دونوں مسجدوں كے قرب وجوار كی زمینیں خرید كر مسجدوں سے ملحق كردی، اور دونوں مساجد كے چاروں طرف بڑی بڑی سڑكیں بنوادیں، اس طرح سے كہ اب كوئی بھی عمارت مسجد كی دیوار سے ملی هوئینھیں ھے ۔

مسجد النبی كی توسیع شوال 1370ھ میں شروع هوئی اور ابن سعود كے زمانہ میں مكمل هوئی، چنانچہ اس توسیع اور مرمت كے بعد اس مسجد كی وسعت 16327 میٹر هوگئی ھے۔

اسی طریقہ سے ابن سعود كے زمانہ میں ڈرائیورنگ كے قوانین كا بنانا بھی ھے، او روہ بھی اس طرح كہ اگر كوئی ان قوانین كی خلاف ورزی كرے تو اس كو ایك سال قید كی سزا ھے، اور اگر كسی ڈرائیور كی غلطی كی وجہ سے كوئی شخص مرجائے تو اس كو پھانسی پر لٹكایا جاتا ھے، چنانچہ ان سخت قوانین نے تمام سیاسی لوگوں اور ڈپلومیٹ كو خوف ووحشت میں ڈال دیا تھا۔

1961ء مطابق1381ھ ملك فیصل جو ابن سعود كا ولیعہد اور رئیس الوزراء بھی تھا وہ بادشاہ كا قائم مقام هوگیا اور ایك مدت كے بعد شورائے مشایخ اور مختلف قبیلوں كے سردار اورعلماء كی پیشكش پر بادشاھت كے تمام اختیارات اس كو دیدئے گئے۔

نومبر 1964ء وزیروں كی كابینہ اور قبائل كے روٴسا اور شیوخ كی پیش كش اور علماء كے فتاویٰ كے مطابق سعودیہ كے بادشاہ كے عنوان سے اس كی بیعت كی گئی۔

تبصرے
Loading...