مامون اور تشیع

مامون ایک ایسا حکمران ہے کہ جس کو ہم خلفاء سے بڑھ کر بلکہ پوری دنیا کے حکمرانوں سے بڑھ کر عالم، دانشور مانتے ہیں۔ وہ اپنے دور کا نابغہ انسان تھا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وہ فکری و نظریاتی لحاظ سے مذہب شیعہ سے زیادہ متاثر تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ امام علیہ السلام کے علمی لیکچرز میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔ وہ سنی علماء کے دروس میں بھی جاتا تھا۔ اہل سنت کے ایک معروف عالم ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مامون نے چالیس سنی علماء کو ناشتے پربلایا اور ان کو بحث و مباحثہ کی بھی دعوت دی… آقائے محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب خلافت و ولایت میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس خوبصورتی کے ساتھ مامون نے مسئلہ خلافت پر دلائل دیئے ہیں اتنے کسی اور عالم نے نہیں دئیے ہوں گے۔ ماموں نے علماء کے ساتھ خلافت امیر المومنین پر بحث مباحثہ کیا اور سب کو مغلوب کر دیا۔

شیعہ روایات میں آیا ہے اور جناب شیخ عباس قمی نے بھی اپنی کتاب منتھی الآمال میں لکھا ہے کہ کسی نے مامون سے پوچھا کہ آپ نے شیعہ تعلیمات کس سے حاصل کی ہیں؟ کہنے لگا اپنے والد ہارون سے …… وہ کہنا چاہتا تھا کہ ہارون بھی مذہب شیعہ کو اچھا اور بر حق مذہب سمجھتا تھا۔ وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک خاص قسم کی عقیدت رکھتا ہے…… میں اپنے بابا سے کہا کرتا تھا کہ ایک طرف آپ امام علیہ السلام سے محبت کا دم بھرتے ہیں اوردوسری طرف ان کو روحانی و جسمانی اذیتیں بھی دیتے ہیں؟ تو وہ کہا کرتا تھا ”الملک عقیم“ عرب میں ایک ضرب المثل ہے کہ اقتدار بیٹے کو نہیں پہچانتا ‘تو اگر چہ میرا بیٹا ہے لیکن میں یہ ہر گز برداشت نہ کروں گا کہ تو میری حکومت کے خلاف ذرا بھر اقدام کرے۔ حکومت، کرسی اور اقتدار کی خاطر میں تیرا سر قلم کر سکتا ہوں۔ مامون آئمہ کا دشمن تھا اس لیے اس کو شیعہ کہنا زیادتی ہو گی‘ یا پھر وہ کوفہ والوں کی مانند بے وفا تھا جو امام حسین علیہ السلام کو دعوت دے کر اپنا عہد توڑ بیٹھے اور یزیدی قوتوں کے ساتھ مل گئے۔

اس میں کوئی شک نہیں مامون ظالم تھا لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو اسے استاد کی تعظیم کا درس بھی نہ دے۔ کچھ مئورخین کا کہنا ہے کہ مامون نے خلوص نیت سے امام رضا علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور امام علیہ السلام کی موت طبعی تھی ۔ لیکن ہم شیعہ اس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے مصلحت وقت کے مطابق آپ نے ولی عہدی کو قبول فرمایا تھا ۔اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ امام علیہ السلام مامون کی حکومت کو حق مانتے اور جانتے ہوں امام علیہ السلام ایک روز بھی مسند حکومت پر نہیں بیٹھے۔ یونہی وقت ملا آپ علوم اسلامی کی ترویج کرتے‘ غریبوں اور بے نواؤں کی خدمت کرتے ۔ رہی بات مامون کی تو حکومت اور اقتدار کے بھوکے یہ خلیفے کسی سے مخلص نہ تھے۔ انہوں نے سیاسی مفادات کی خاطر بڑے بڑے مخلص دوستوں کو قتل کروا دیا تھا یہاں تک کہ اپنی اولاد پر بھی اعتبار نہ کیا۔

شیخ مفید و شیخ صدوق کی آراء

ایک اور مفروضہ کہ جسے جناب شیخ مفید اور جناب شیخ صدوق نے تسلیم کیا ہے کہ مامون شروع میں امام رضا علیہ السلام کو اپنا نائب بنانے میں مخلص تھا لیکن بعد میں اس کی نیت بدل گئی۔ ابوالفرج ، جناب صدوق ،شیخ مفید نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مامون کہتا ہے کہ ایک روز مجھے اپنے بھائی امین نے بلوایا (مامون اس وقت امین کا ولی عہد تھا) لیکن میں نہ گیا۔ کچھ لمحوں کے بعد اس کے سپاہی آئے کہ میرے باتھ باندھ کر مجھے خلیفہ امین کے پاس لے جائیں۔ خراسان کے نواحی علاقوں میں بہت سی انقلابی تحریکیں سر اٹھارہیں تھیں۔ میں نے اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ ان کے ساتھ مقابلہ کریں لیکن ہمیں اس لڑائی میں شکست ہوئی۔اس وقت میں نے تسلیم کر لیا کہ اپنے بھائی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک دن میں نے خدا سے توبہ کی مامون نے جس شخص کو یہ بات بتائی وہ اس کو اس کمرے میں لے گیا کہ میں نے اس کمرے کو دھلوایا پاک و پاکیزہ لباس پہنا۔ اور اللہ تعالیٰ سے منت مانی کہ اگر میں تندرست ہو گیا تو خلافت اس شخص کو دے دوں گا جس کا وہ حقدار ہے ۔

اسی جگہ پرجتنا مجھے قرآن مجید یاد تھا میں نے پڑھا اور چار رکعتیں ادا کیں۔ یہ کام میں نے انتہائی خلوص کے ساتھ کیا۔ اس عمل کے بعد میں نے اپنے اندر انہونی سی طاقت محسوس کی۔ اس کے بعد میں نے کبھی بھی کسی محاذ پر شکست نہیں کھائی۔ سیستان کے محاذ پر میں نے اپنی فوج بھیجی وہاں سے فتح و کامیابی کی خبر ملی پھر طاہربن حسین کو اپنے بھائی کے مقابلہ میں بھیجا وہ بھی کامیاب ہوا۔ مسلسل کامیابیوں کے بعد میں اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہتا تھا۔ شیخ صدوق اور دیگر شیعہ مورخین و محدثین نے اس امر کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ مامون نے نذر مانی تھی اسلئے اس نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا اس کی اور وجہ کوئی نہیں ہے ایک احتمال تو یہ تھا۔۔۔

دوسرا احتمال

دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ اقدام یا یہ سوچ مامون کی طرف سے نہ تھی بلکہ یہ منصوبہ فضل بن سہل نے بنایا تھا۔ اس کے پاس دور عہدوں کا اختیار تھا‘ اور مامون کا قابل اعتماد وزیر تھا(مامون کے ایک وزیر کا نام فضل بن سہل تھا یہ دو بھائی تھے دوسرے کا نام حسن بن سہل تھا۔ یہ دونوں خالصتاًایرانی اور مجوسی الاصل تھے )۔ برمکیوں کے دور میں فضل تعلیم یافتہ اور تجربہ کار سیاستدان کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ علم نجوم میں خاصی دسترس رکھتا تھا۔برمکیوں کے پاس آکر مسلمان ہو گیا۔ بعض مئورخین نے لکھا ہے کہ اس کا باپ مسلمان تھا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ یہ سب مجوسی تھے۔ اور انہوں نے اکٹھے ہی اسلام قبول کیا ۔اس کے بعد فضل نے ترقی کی اور چند دنوں کے اندر اندر اسے بہت بڑی وزارت کا قلمدان مل گیا ۔ گویا وزیراعظم نامز د ہو گیا۔ اس وقت دوسرے شعبوں میں وزیر نہ ہوا کرتے تھے‘ سب کچھ فضل ہی کے پاس تھا۔ مامون کی فوج اکثریت ایرانی تھے ۔عرب فوج نہ ہونے کے برابر تھے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ مامون خراسان میں تھا اور امین عرب میں تھا اور ان دونوں کے درمیان جنگ جاری رہتی تھی۔ عرب امین کو پسند کرتے تھے اور مامون خراسان میں رہنے کی وجہ سے ایرانیوں کو پسند تھا۔ مسعودی نے مروج الذہب ، التنبیہ والا شراف میں لکھا ہے کہ مامون کی ماں ایرانی تھی۔ اس لیے ایرانی قوم اس کو پسند کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ حکومت کے تمام تر اختیارات فضل کے پاس منتقل ہو گئے اور ماموں کے آلہ کار کے طور پر رہ گیا) فضل نے مامون سے کہا کہ آپ نے اب تک آل علی علیہ السلام پر بے تحاشا مظالم کیے ہیں اب بہتر یہ ہے کہ اولاد علی علیہ السلام میں اس وقت سب سے افضل شخص امام رضاعلیہ السلام موجود ہیں ان کو لے آئیں اور اپنے ولی عہد کے طور پر ان کو متعارف کروائیں۔مامون دلی طور پر اس پر راضی نہ تھا چونکہ فضل نے بات کی تھی اس لیے وہ اس کو ٹال نہ سکتا تھا اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کا ولی عہدی نامزد کرنا فضل بن سہل کے پروگراموں میں سے ایک پروگرام تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ فضل شیعہ تھا اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے عقیدت رکھتا تھا؟ یا وہ پرانے مجوسانہ عقائد پر باقی تھا وہ چاہتا تھا کہ خلافت بنو عباس سے لے کر کسی اور کے حوالے کر دے یا وہ خلافت کو کھلونا بنانا چاہتا تھا کیا وہ حضرت امام رضا کیلئے مخلص تھا یا کہ نہیں؟ اگر یہ فضل کا منصوبہ تھا وہ مامون سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ مامون جیسا بھی تھا کم از کم مسلمان تو تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایران کو دنیائے اسلام کی فہرست سے نکال کر مجو سیت میں لے جانا چاہتا ہو۔ بہر کیف یہ تھے وہ سوالات جو مختلف جہتوں سے مختلف افراد کی طرف سے اٹھائے گئے ۔میں یہ کبھی نہیں کہوں گا کہ تاریخ کے پاس ان سوالات کا کوئی حتمی جواب بھی ہو۔

جرجی زیدان کا اظہار خیال

ممتازمورخ جرجی زیدان فضل بن سہل کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنانا فضل ہی کا کارنامہ ہے‘ چونکہ فضل ایک شیعہ تھا اس لیے امام رضا علیہ السلام سے محبت ایک فطری امر تھا۔ لیکن ہم جرجی کے اس نظرئیے کی اس لیے تردید کرتے ہیں کہ یہ بات تواریخ کی کتب میں ثابت نہیں ہو سکی۔ روایات میں ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام فضل کے سخت مخالف تھے۔ آپ مامون سے بڑھ کر فضل کی مخالفت کیا کرتے تھے بلکہ اس کو مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتے تھے کبھی کبھار آپ مامون کو فضل سے خبردار کیا کرتے تھے فضل اور اس کا بھائی در پردہ امام رضا علیہ السلام کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہاں پر دو احتمال ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ولی عہدی کا پروگرام مامون کا ایجاد کردہ تھا اور مامون منت کو پورا کرتے ہوئے مولا رضا علیہ السلام کو خلافت دینا چاہتا تھا اس کے بعد اس نے یہ ارادہ ترک ولی عہدی بنانے کا پروگرام بنا لیا۔

شیخ صدوق اور ہمارے دوسرے علماء نے اس نظریہ کو تسلیم کیا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ سارا منصوبہ فضل بن سہل کاتیار کردہ تھا۔ بعض مئورخین کہتے ہیں کہ فضل ایک مخلص ترین شیعہ تھا اور بعض کا کہنا ہے کہ نہیں وہ ایک بد باطن شخص تھا اور اس کے عزائم انتہائی خطرناک تھے۔

تیسرا احتمال

(الف) شاید ایرانیوں کو خوش کرنا مقصود ہو

ایک احتمال اور ہے کہ ولی عہدی کا پروگرام درحقیقت ، ماموں ہی کا تھا۔ مامون شروع ہی سے مخلص نہ تھا وہ سب کچھ سیاست اور سازش کے طور پر کر رہا تھا۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ چونکہ ایرانی قوم شیعہ تھی اور امام علیہ السلام اور آل محمد (ع) سے دلی عقیدت رکھتے تھے‘ اس لیے مامون نے ایرانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا۔ جس روز مامون نے حضرت رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اس دن اس نے اعلان کیا کہ امام کو رضا کے لقب سے یاد کیا جائے تاکہ ایرانیوں نے نوے سال قبل” الرضا من آل محمد (ع) “ کے نام سے انقلابی تحریک شروع کی تھی اس کی یاد تازہ ہو جائے۔

اپنے آپ سے کہنے لگا کہ پہلے تو ایرانیوں کو راضی کر لوں اس کے بعد امام رضا(ع) کے بارے بھی سوچ لوں گا۔ ایک وجہ اور بھی ہے مامون اٹھائیسں(۲۸) سالہ نوجوان تھا اور حضرت کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ شیخ صدوق کے مطابق حضرت کاسن مبارک ۴۷ سال تھا شاید یہی قول معتبر ہو۔ مامون نے سوچا ہو گا کہ ظاہری طور پر امام کی ولی عہدی میرے لئے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ امام (ع) بیس سال مجھ سے بڑے ہیں یہ چند سال اور زندہ رہیں گے اور مجھ سے پہلے انتقال کر جائیں گے۔ چنانچہ مامون کی سیاسی چال تھی کہ امام علیہ السلام کو ولی عہد مقرر کر کے ایرانیوں کی ہمدردیاں حاصل کرے۔

(ب) علویوں کی انقلابی تحریک کو خاموش کرنا

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ مامون نے یہ اقدام علویوں کو خاموش کرنے کیلئے کیا ہے۔ علوی اس وقت بہت زیادہ انقلابی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور اس حوالے سے ان کو ملک بھر میں ایک خاص شہرت حاصل تھی۔ سال میں چند مرتبہ ملک کے کسی کونے یا گوشے میں وہ حکومت کے خلاف تحریک شروع کرتے تھے۔ مامون کو علویوں کو راضی کرنے کیلئے یہ اقدام کرنا پڑا۔ اس کو یقین تھا جب وہ آل محمد (ع) میں سے کسی محترم فرد کو اپنی حکومت میں شامل کر لے گا ایک تو عوامی ردعمل میں کمی واقع ہو جائے گی دوسرا وہ اس سے علویوں کو راضی کر لے گا یا وہ اس سے علوی سادات سے اسلحہ لے لے گا۔

جب وہ امام رضا علیہ السلام کو اپنے قریب لے آیا تو بہت سے انقلابیوں کو اس نے معاف کر دیا۔ امام رضا علیہ السلام کے بھائی کو بھی بخش دیا ۔ایک لحاظ سے فضا خوشگوار ہو گئی دراصل یہ اس کی شاطرانہ چال تھی کہ خلافت یا دوستی کا حوالہ دے کر تمام انقلابی تحریکوں اور مسلح تنظیموں کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پھر موقع پر ایک ایک کر کے انقلابیوں کو ٹھکانے لگا دے گا۔ اب علوی سادات بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے اگر کسی قسم کا قدم اٹھاتے تو لوگوں نے کہنا تھا کہ اب وہ اپنے بزرگ اور آقا امام رضا علیہ السلام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

(ج) امام رضا (ع) کو نہتا کرنا

ایک احتمال یہ بھی ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کا منصوبہ مامون ہی نے تیار کیا تھا اس سے وہ سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا ‘وہ امام رضا علیہ السلام کو نہتا کرنا چاہتا تھا۔ہماری روایت میں ہے کہ ایک روز حضرت امام رضا علیہ السلام نے مامون سے فرمایا کہ تمہارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب کوئی فرد منفی سوچ رکھتا ہو اور حکومت وقت پر تنقید کرتا ہو تو وہ خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے یہی حال اقوام عالم کا ہے سب سے پہلے تو حکومتیں قوم کو نہتا کرتی ہیں ‘ جب ان سے ہر قسم کا اسلحہ واپس لے لیا جاتا ہے وہ ناکارہ ہو جاتی ہےں تو پھر ظلم کا بازار کھل جاتا ہے اور اپنے مخالفوں کو ہر طرح سے کچل دیتی ہےں۔اس وقت عوام کا رخ آل علی علیہ السلام کی طرف تھا۔ لوگوں کی دلی خواہش تھی کہ امام رضا علیہ السلام مضب خلافت پر بیٹھیں اور اس غیر آباد دنیا کو آباد کر دیں۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہو اور عدل و انصاف کی حکمرانی ہو۔ظلم کی اندھیری رات چھٹ جائے اور عدل کاسویراہو۔

لیکن مامون نے امام علیہ السلام کو ولی عہد بنا کر لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حکومت کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ امام علیہ السلام بھی حکومت کے ساتھ ہیں وہ ہر لحاظ سے امام۱(ع) کو نہتا کرنا چاہتا تھا ‘اس کی کوشش تھی کہ امام (ع) حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنا ذاتی اثر رسوخ کھو بیٹھیں گے۔ اب تاریخ کے لیے یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اس نتیجہ تک پہنچ سکے کہ ولی عہدی کا مسئلہ مامون کا ایجاد کردہ ہے یا فضل کا کوئی منصوبہ تھا؟ پھر اگر فضل کا منصوبہ تھا تو اس کی وجہ کیا ہو سکتی تھی؟ اگر اس کی نیت صحیح تھی تو کیا اپنے موقف پر قائم رہا ہے؟ اگر وہ حسن نیت رکھتا تھا تو اس کی سیاست کیا تھی؟ تاریخ ان سوالات کا جواب دینے سے قاصرہے۔ شیخ صدوق کاموقف تو یہ ہے مامون کی نیت شروع میں تو ٹھیک تھی لیکن بعد میں اس کا ارادہ بدل گیا اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ لوگ جب پریسانی و مشکل سے دو چار ہوتے ہیں تو وہ حق کی طرف لوٹ آتے ہیں اور اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن جب وہ مشکل سے نجات حاصل کر لیتے ہیں تو اپنے کیے ہوئے وعدوں کو بھول جاتے ہیں جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے۔

”فاذارکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجینھم الیٰ البر اذا ہم یشرکون“ (عنکبوت /۶۵)

” پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے اس کی عبادت کرنے والے بن کر خدا سے دعا کرتے ہیں پھر جب انہیں خشکی میں (پہنچا کر) نجات دیتا ہے تو فوراً شرک کرنے لگتے ہیں۔ ،،

مامون کو جب مشکلات نے گھیرا تو اس نے یہ منت مان لی تھی لیکن جب وہ مشکلات سے نکل آیا تو سب کچھ بھول گیا ۔بہتر یہ ہے کہ ہم حضرت امام رضا علیہ السلام کے بارے میں تحقیق کریں اور تاریخ کے مسلمہ نکات پر نظر دوڑائیں تو حقیقت کھل کر عیاں ہو جائے گی۔ میرے خیال میں اس تحقیق سے مامون کی نیتوں اور منصوبوں کا بھی پتہ لگانا مشکل نہ ہو

تبصرے
Loading...