قیامت کے بارے میں خدا کا وعدہ

قرآن مجید ایک طرف تو خدا وند عالم کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے بھیجے گئے پیغام کے عنوان سے قیامت کے وقوع پر تاکید کررہا ہے اور اس کو ایک حتمی اور خدا کا سچا وعدہ شمار کرتا ہے، جس میں وعدہ خلافی کا امکان نہیں ہے،اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کررہا ہے،اور دوسری طرف قیامت کی ضرورت پر عقلی دلائل کی طرف اشارہ کررہا ہے، تاکہ لوگوں کی عقلی لحاظ سے قیامت کو پہچاننے کی خواہش پوری کرے اور اپنی حجت کو دو گنا کردے،اس لئے ہم قیامت کے متعلق قرآنی بیانات کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔

خدا کا سچا(حتمی)وعدہ:

قرآن کریم نے قیامت کے آنے اور عالم آخرت میں تمام انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو ایک یقینی اور غیر قابل شک و تردید امر جانا ہے،اور ارشاد فرماتاہے:

(اِنَّ الساعَةَ آتِےَة لَا رَیبَ فِیھَا)١)

…………………………

١۔ غا فر  ٥٩  اور رجوع کریں آل عمران ٩،٢٥ ،نسائ ٨٧ ، نعام  ١٢ کہف  ٢١ حج  ٧ شوریٰ ٧ ،جا ثیہ  ٢٦ ،٣٢ ،

ا ور اس کو ایسا سچا وعدہ شمار کیا ہے جس میں خلاف کا تصور نہیں ہو سکتا،اور فرمایا:

(بَلَی وعداً عَلَیہِ حَقاً) (١)

اے رسول کہہ دو کہ وہ ضر ور ایسا کرے گا اس پر اپنے وعدہ کی وفا لا زمی اور ضر وری ہے :

اور متعدد مر تبہ اس کے وا قع ہو نے کے سلسلے میں قسمیں کھا چکا ہے جیسا کہ ارشا د ہے

(قُل بَلیٰ وَ رَبّیِ لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بٍما عَمِلتُم وَ ذالِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیر)(٢)

اے رسول!  ۖ تم کہہ دو کہ ہا ں اپنے پر ور دگا ر کی قسم تم ضرور اٹھا ئے جائو گے جو کا م تم  کر تے ہو اس کے با رے میں تم کو ضرو ر بتایا جا ئے گا اور یہ کام خدا پر آسان ہے ۔

لو گوں کو اس سے ہو شیا ر اور آگا ہ کر نا انبیا ء کا مہم ترین وظیفہ اور ان کی اہم ذمہ داری جا نتے ہو ئے ارشا د فر ما تا ہے:

(یُلقِی الرَّوحَ  مِن أَ مرِہِ عَلیٰ مَن یَشَا ئُ مِن عِبَا دِہِ لِیُنذِرَ یَو مَ التَّلاقِ )(٣)

اپنے حکم سے رو ح نا زل کر تا ہے تا کہ وہ بند وں کو قیامت کے دن سے ڈرا ئے جس دن وہ لو گ قبر وں سے نکل پڑیں گے ۔

اور اس کے منکرین کے لئے ابدی بد بختی اور جہنم کا عذا ب معین کیا ہے اور فر مایا:

(وَاَعتَد نَا لِمَن کَذَّبَ بِا لْسَّا عَةِ سَعِیْراً)(٤)

جس شخص نے قیا مت کو جھو ٹ سمجھا اس لئے ہم نے جہنم کو تیا ر کر رکھا ہے ۔

اس بنا پر جو اس کتا ب ( قر آن ) کی حقا نیت تک پہنچُ گیاہے وہ قیا مت کے انکا ر یا اُس میں شک

کر نے کا کو ئی بہا نہ نہیں کر سکتا ،پہلے حصہ میںیہ با ت واضح ہو چکی ہے کہ قرآن مجید کی حقا نیت ہر حق

…………………………

١۔نحل  ٣٨ ،آل عمران  ٩،١٩١ ، نساء  ١٢٢، یو نس  ٤،٥٥، کہف  ٢١ ، انبیا ء ١٠٣ ، فر قان  ١٦ ، لقمان  ٩، ٣٣،فا طر  ٥ زمر  ٢٠ نجم ٤٧ ،جا ثیہ  ٣٢ احقاف ١٧ ،

٢۔ تغا بن  ٧، یو نس  ٥٣ ،سبا ٣ ،۔    ٣۔غا فر  ١٥ ، انعام ١٣٠ ، ١٥٤، رعد ٢ شوریٰ ٧، زخرف ٦١ زمر ٧١

٤۔فر قان  ١١ ، اسراء  ١٠ ، سباء ٨، مو منون ٧٤،

طلب اور انصا ف پسند انسان کے لئے قا بل در ک و فہم ہے اس وجہ سے کو ئی بھی شخص اس کو قبول نہ کر نے کا کو ئی عذر پیش نہیں کر سکتا ،مگر وہ شخص جس کی عقل میں کو ئی قصور پا یا جا تا ہو یا کسی اور سبب سے اس کی حقا نیت کو درک نہ کر سکے ۔

عقلی دلا ئل کی طر ف اشا رہ

قیا مت کی ضرو رت پر قر آن مجید کی بہت سی آیتوں میں عقلی استد لال کا لب و لہجہ پا یا جا تا ہے کہ جس کو بر ہا ن حکمت اور بر ہان عدا لت بر نا ظر مانا جا سکتاہے جیسا کہ استفہامِ انکا ری کی صو رت میں ارشاد ہو رہا ہے :

(اَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عبثاً  وَأَنَّکُمْ اِلَیْنَا  لَاتُرجَعُوْنْ )(١)

کیا تم نے یہ گما ن کر لیا ہے کہ ہم نے تمھیں بیکا ر پید ا کیا ہے اور تم ہما ری طر ف پلٹا ئے نہیں جا ئوگے ؟یہ آیہ شر یفہ کھلے انداز میں اس با ت پر دلا لت کر تی ہے کہ اگر قیامت اور خدا کی طرف     باز گشت نہ ہو تی، تو اس دنیا میں انسان کا پیدا ہو نا بیکا ر اور بے مقصد ہو تا چو نکہ پر ور دگا ر بیکا ر اور بے مقصد کا م انجام نہیں دیتا، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اس دنیا کے علاوہ کوئی دوسری جگہ ہے ،جہان ،اپنی طرف باز گشت کے لئے قائم کرے گا ۔

یہ بر ہا ن ایک استثنا ئی قیاس ہے جس کا پہلا مقد مہ ایک قضیہ شر طیہ ہے جو اس با ت پر     دلا لت کرتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے پیدا ہو نے کا حکیما نہ مقصد اس وقت پو را ہو گا، جب اِس دنیا کی زندگی کے بعد انسان اپنے پر ور دگا رکی با ر گا ہ میں پلٹ کر جا ئے اور آخر ت میں اپنے اعما ل کے نتیجے کو حا صل کرے اور ہم نے اس ملا زمہ کو بر ہان حکمت کے ذیل میں بیان کیا تھا لہذا دو با رہ بیان  کر نے کی ضر ورت نہیںہے ۔

……………………………

١۔مو منون  ١١٥،

لیکن دوسرا مقدمہ ( خدا بیکا ر اور بے مقصد کام انجام نہیں دیتا )یہ وہی حکمت الٰہی اور اس کے کام کے عبث و بیہو دہ نہ ہونے کا مسئلہ ہے جو خدا شناسی کے باب میں ثا بت ہو چکا ہے اور بر ہان حکمت کے بیان میں جس کی وضا حت کی جا چکی ہے، لہٰذا مذکو رہ آیہ شر یفہ مذکو رہ بر ہا ن پر پو ری طر ح قا بل انطباق ہے ۔

اب ہم مزید اس بات اضا فہ کرتے ہیں کہ انسان کی پیدا ئش ،اس دنیا کی پید ائش کے لئے ہد ف غا ئی اور اصلی مقصد کی حیثیت رکھتی ہے اگر اس دنیا میں انسان کی زندگی بیکا ر اور بے ہد ف ہو اور ایسی ہو جس میں کو ئی حکیما نہ مقصد نہ پا یا  جا ئے تو اس دنیا کی پیدا ئش بھی بیکا ر ہے ،بے مقصد ہے ، اور وہ با طل ہو جا ئے گی اس نکتہ کا استفا دہ ان آیتو ں سے کیا جا سکتا ہے جو عالمِ آخر ت کے و جو د کو دنیا کی پیدا ئش کے حکیما نہ ہو نے کا تقا ضہ جا نتی ہیں اور جیسا کہ عقلمندوں ( اولو الا لباب) کی صفتوں کے متعلق

ارشا د  ہو تا ہے ۔

(وَ یَتَفَکَّرُونَ فِ خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَ رضِ رَ بَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَاْ بَا طِلاً  سُبحا نَکَ فَقِنْا عَذَاْ بَ النّا رِ)(١)

اور وہ لو گ آسما نو ں اور زمینوں کی خلقت کے  با رے میں غور و فکر کرتے ہیں (اور پھر کہتے ہیں ) پر ور دگا ر ! تو نے ان چیزو ں کو بیکا ر نہیں پید ا کیا تو پا ک و پا کیز ہ ہے ( اس چیز سے کہ بیہو دہ و بے مقصدکا م کرے )پس مجھے آتش جہنم سے محفو ظ رکھ ۔

اس آیت سے یہ استفا دہ ہو تا ہے دنیا کی خلقت کے با رے میں غور و فکر کر نا، انسا ن کو پر وردگا ر کی حکمت کی طرف متوجہ کر دیتا ہے یعنی اس عظیم کائنات کی خلقت کے وقت خدا کی نگا ہ میں ایک حکیما نہ مقصد تھا اور ا س نے اس کو بیکا ر و بے مقصد پیدا نہیں کیا لہذا اگر کوئی دوسرا عالم مو جود نہ ہو جو اس  دنیا کی خلقت کا آخری مقصد اور ہدف قرا ر پا ئے تو خدا کی خلقت کا بیکا ر بے مقصد ہو نا لارم آئے گا

………………

١۔ آل عمران  ١٩١

قرآن حکیم کی آ یات کا دوسر ا گر وہ جو قیا مت کی ضر ورت پر بر ہان ِعقلی کی طر ف ایک اشا رہ ہے اور جو بر ہان عدا لت پر قابل تطبیق ہے (١)

یعنی عدا لتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ نیک اعما ل انجام دینے وا لے کو اس کی جزا اور گنہگا رو ں کو ان کے کئے کا بد لہ دیا جائے اور ان دونوں کی عا قبت اور انجام کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جائے نیز دونوں کے در میان فر ق کا قائل ہو جائے ،اور چو نکہ اس دنیا میں ایسا کوئی فر ق نہیں پا یا جا تا لہٰذا ایک دوسرے عالم کو برپا کرنے کی ضرورت ہو گی، تاکہ خدا وند عالم اپنی عدا لت کو عینی صورت میں پیش کر سکے جیسا کہ سورئہ جا ثیہ میں ارشا د فر ماتا ہے ۔

(اَمْ حَسِبَ الّذِیْنَ اجْتَرحُوا السَّیِّئَاٰتِ اَن نَّجْعَلَہُمْ کَا لّذِیْنَ آمَنُوْ ا وَعَمِلُو ا الصَّا لِحَا تِ سَوَآئً مَّحْیَا ہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سا ئَ مَا یَحْکُمُو نَ٭ وَخَلَقَ اللَّہُ السَمٰوَاتِ وَاْلََارْضَ باِ لْحَقِّ لِتُجْزَیٰ کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَت وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ )(٢)

کیا برا ئی اختیا ر کر نے والوںنے یہ خیا ل کر لیا ہے کہ ہم انھیں ایما ن لا نے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرا ر دیں گے کہ سب کی مو ت وحیا ت ایک جیسی ہو یہ ان لو گو ں نے    نہا یت بد ترین فیصلہ کیا ہے، اور اللہ نے آسما ن اور زمین کو حق کے سا تھ پید ا کیا ہے اوراس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بد لہ دیا جا سکے اور یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جا ئیگا ۔

یاد دہا نی کے لئے ضر وری ہے کہ جملہ(وَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمٰوَاْتِ وَالْارَضََ باِ لْحَقِّ)                   سے بر ہان حکمت کی طر ف اشا رہ ہے جیسا کہ بنیا دی طور سے بر ہانِ عدالت کو بھی بر ہان ِحکمت کی   طر ف پلٹا یا جا سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ ہم نے عدل الٰہی کی بحث کے ذیل میں وضاحت کی تھی کہ عدل حکمت کے مصا دیق میں سے ہے ۔

………………………………

١۔ ص  ٢٨ ،غا فر ٥٨ قلم  ٣٥ ، یو نس  ٤

٢۔جا ثیہ  ٢١۔٢٢

 

تبصرے
Loading...