قاضی القضاة اور مجلس شیوخ كے صدر كا تقرر

قاضی القضاة اور مجلس شیوخ كے صدر كا تقرر

7 ذی الحجہ 1334ھ میں شریف حسین كی طرف سے دو حكم جاری كئے گئے جن كی وجہ سے لوگوں نے اس كی حكومت كو مستقل هونے كا پیش خیمہ تصور كیا اس وقت یہ تصور كیا جارھا تھا كہ 8 یا 11ذی الحجہ كو جب اس كی خدمت میں مبارك باد پیش كرنے جائیں گے تو وہ لوگوں سے اپنی خلافت كے بارے میں بیعت لے گا۔

ان دو فرمان كی عبارت سید رشید رضا (مدیر مجلہ المنار) كے سفر نامہ میں موجود ھے : شریف حسین نے اپنے پھلے فرمان میں شیخ عبد اللہ سراج (مفتی حنفی) كو قاضی القضاة كے عہدہ پر فائز كیا اوراس كو وكیل الوكلاء بھی بنایا (شریف حسین كا بیٹا امیر علی رئیس الوزراء تھا یعنی عبد اللہ سراج كو نائب رئیس الوزراء بنایا) اور اسی فرمان میں امیر عبد اللہ (شریف حسین كا دوسرا بیٹا) كو وزیر خارجہ اور نائب وزیر داخلہ معین كیا، اور عبد العزیز بن علی كو وزیر دفاع بنایا، شیخ علی مالكی كو معارف كا وزیربنایا اسی طرح شیخ یوسف بن سالم (سابق شھردار) كو وزیر منافع عمومی بنایا نیز شیخ محمد بن امین (حرم شریف كے سابق مدیر) كو اوقاف كی وزارت دی۔

گویا شریف حسین نے اپنے اس فرمان میں وزیروں كی كابینہ بنالی۔

شریف حسین نے دوسرے فرمان میں جو شیخ عبد اللہ سے خطاب تھا شیخ محمد صالح شَیبی(خانہٴ كعبہ كے كلید دار)كو تقریباً پارلیمنٹ جیسی مجلس تشكیل دینے كا حكم دیتے هوئے ان كو اس كا صدر بنایا۔

سید رشید رضا صاحب جن سے یہ بات نقل هوئی ھے ان لوگوں میں سے ھیں جنھوں نے شریف حسین كی حكومت كے مستقل هونے میں بھت كوشش كی ھے، اور اس سلسلہ میں خود شریف كے سامنے ایك زبردست تقریر بھی كی، ان تمام چیزوں كے باوجود شریف حسین نے حكومت اور خلافت كے لئے اعلان نھیں كیا اور لوگوں نے دیكھا كہ خطیب جمعہ نے حسب معمول سلطان عثمانی كے لئے دعا كرائی۔

شریف حسین كی حكومت نے چند سال كے بعد كافی حد تك استحكام پیدا كرلیالیكن جیسا كہ بعد میں تفصیل سے بیان هوگا زیادہ دنوں تك نہ چل سكی۔

عثمانی بادشاهوں كی داستان خلافت

عصر حاضر كے بعض موٴلفین نے یورپی موٴلفین سے نقل كرتے هوئے لكھا ھے كہ جب عثمانی سلطان سلیم كے ھاتھوں مصر فتح هوا تو922ء میں مصر كے عباسی خلیفہ نے خلافت كو محمد المتوكل علی اللہ كے سپرد كردیا او رخلافت كی باگ ڈور اس كے حوالے كردی۔

لیكن اس زمانہ كی لكھی گئی تاریخ مصر وشام اور ان لوگوں كی كتابوں سے جو ان واقعات كے شاہد تھے مذكورہ بات كی تصدیق نھیں هوتی، مثلاً ابن ایاس مصر میں اور ابن طولون شام میںتھے اور ھر روز اپنی آنكھوں دیكھے واقعات یا مورد اعتماد لوگوں سے سنے واقعات كولكھتے رھتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے ان باتوںكو نھیں بیان كیا، اور عباسی خلیفہ سے سلطان سلیم پر حكومت كو منتقل هونے كے بارے میں نھیں لكھا ھے، بلكہ ابن ایاس كی تحریر سے یہ بات معلوم هوتی ھے كہ سلطان سلیم قبل اس كے كہ مصر كو فتح كرے اپنے كو خلیفہ تصور كرتا تھا (لیكن اس كے القاب میں خلافت كا ذكر نھیں هوتا تھا اور خطبوں میں اس كا نام خلیفہ كے عنوان سے نھیں لیاجاتا تھا)۔

سلطان سلیم نے، امیر طومان بائی مصر كے حاكم كے نام ایك خط میں اس طرح لكھا :

”مصر كا خراج (مالیات اور ٹیكس) جس طرح بغداد كے خلفاء كے پاس بھیجا جاتا تھا وہ میرے پاس بھیجا جائے كیونكہ میںروئے زمین پر خدا كا خلیفہ هوں، اور میں حرمین شریفین كی خدمت كرنے میں تجھ سے بھتر هوں۔

حقیقت یہ ھے كہ اس زمانہ میں خلافت كو كھیل بنا ركھا تھا وہ اس طرح كہ سلطان سلیم اپنے كو مصر كے خلیفہ عباسی كا جانشین هونے میں كوئی فخر اور عظمت نھیں سمجھ رھا تھا، اسی طرح بغداد میں خلافت عباسی كے ختم هوجانے كے چند سال بعد ایك شخص نے یہ دعویٰ كیا :

میں خلفائے عباسی كی اولاد میں هوں، اس وقت كے مصر پر حكومت كرنے والے بادشاهوں كا لوگوں میں كوئی معنوی اثر نہ تھا تو انھوں نے اس شخص كو پاكر یہ طے كیا كہ مصر میں خلافت عباسی تشكیل دی جائے چنانچہ اس شخص كو خلیفہ عباسی كے عنوان سے خلیفہ بنادیاگیا۔ جس كے نتیجہ میں ایك طرح كی خلافت عباسی مصر میں وجود میں آگئی جو كئی صدی تك جاری رھی، جبكہ یہ خلافت اس وقت كے بادشاهوں كے كھیل كے علاوہ كچھ نھیں تھا۔

اور جس وقت سلطان سلیم نے922ء میں مصر اور شام پر حملہ كیا تو خلیفہ محمد المتوكل علی اللہ سلطان سلیم كے سامنے تسلیم هوگیا اورسلطان سلیم نے اس كومع ساتھیوں كے اسلامبول روانہ كردیا، چنانچہ وہ چند سال تك وھاں رھا شروع میں تواس پر سلطان كا لطف وكرم هوتا رھا، لیكن بعد میں اس سے دستبردار هوگیا۔

سلطان نے اس سے خلافت چاھی هو، یہ بات معتبر مدارك اور كتابوں میں نھیں ملتی (البتہ جھاں تك موٴلف كی نظر ھے)۔

اگرچہ عصرحاضر كے بعض موٴلفین كی كتابوں میں یہ بات دیكھنے كو ملتی ھے، منجملہ محمد كردعلی كی كتاب خطط الشام میں” نامق كمال“ كے حوالہ سے نقل كیا گیا ھے كہ خلیفہ عباسی نے جامع ”ایاصوفیہ“ (اسلامبول) میں سب كے سامنے واضح طور پر خلافت كو اپنے سے آل عثمان پر منتقل كردی ھے۔

ہ بات مسلم ھے كہ سلطان سلیم كواس كی آخری عمر تك (926ھ) خلیفہ كا عنوان نھیں دیا جاتا تھا اور نہ ھی اس كا نام خطبوں میں خلیفہ كے عنوان سے ذكر هوتا تھا، بلكہ محمد المتوكل علی اللہ خلیفہ تھا۔

قارئین كرام! اس سلسلہ میں ابن طولون926 ھ كے بارے میں كھتا ھے:

”محرم كا چاند نمودار هوا درحالیكہ محمد متوكل علی اللہ عباسی خلیفہ تھا۔

ہ بات طے ھے كہ اگر مصر یا اسلامبول میں خلافت كی تفویض عمل میں آتی تو اس تاریخ سے پھلے هوتی ۔

سلطان سلیم كے چند صدی بعد یعنی بارهویں صدی ہجری سے اور سلطان عبد الحمید كے زمانہ سے عثمانی سلاطین بعض وجوھات كی بنا پر اپنے كو خلیفہ، امام المومنین وغیرہ جیسے القابوںسے نوازنے لگے، اور ان كے خاتمہ تك یہ القاب كم وبیش ان كے لئے استعمال هوتے رھے، لیكن عرب ان كو خلافت كا غاصب كھتے رھے ۔

خلافت كی امانتیں اور دوسرے آثار جو ”توپ قاپی“ میوزیم میں موجود ھیں

دوسری مشهور بات یہ ھے كہ مصر كے عباسی خلیفہ نے خلافت كی امانتیں اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی كچھ چیزیں (یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب چیزیں) سلطان سلیم كے سپرد كردیں یا سلطان سلیم نے اس سے لے لیں، مذكورہ چیزوں كے بارے میں یہ وضاحت كردینا ضروری ھے كہ شام میں خلافت بنی امیہ اور بغداد میں بنی العباس اور مصر میں خلافت عباسی كے تمام خلفاء اس بات كا دعویٰ كرتے آئے ھیں كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفاء اربعہ سے متعلق كچھ چیزیں ان كے پاس ھیں ،اور اس وقت خلافت كی یھی پہچان تھی جو شخص بھی خلیفہ بنے یہ مذكورہ چیزیں اس كے پاس هونی چاہئیں۔

موٴلف كی نظر میں سب سے پھلی دلیل مسعودی كی وہ تحریر ھے جس میں بنی امیہ سے بنی عباس كی طرف خلافت جانے كے بارے میں بیان كیا گیا ھے اور وہ یہ كہ جب مروان (بنی امیہ كا آخری خلیفہ) قتل هوا، عامر بن اسماعیل جو مروان كا قاتل تھا، وھاں پهونچا جھاں مروان كی لڑكیاں اور عورتیں تھیں كیا دیكھا كہ وھاں پر ایك خادم تلوار لئے كھڑا ھے۔

اسماعیل كے ساتھیوں نے اس (خادم) كو گرفتار كرلیا، اور جب اس سے اس بات كی وجہ پوچھی گئی تو اس نے كھا كہ مجھے مروان نے حكم دے ركھا ھے كہ اگركبھی میرا قتل هوجائے تو اس كی بیویوں اور لڑكیوں كو قتل كردوں، اس كے بعد اس خادم نے كھا كہ اگر تم مجھے قتل كردو گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی میراث سے محروم هوجاؤ گے، اس كے بعدوہ خادم ان كو ایك جگہ لے كر آیا او روھاں سے مٹی (ریت) ہٹا كر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كا ”بُردَہ“ (ایك خط دار عبا) اور عصا نكالا جس كو مروان نے دفن كر ركھا تھا،

عامر بن اسماعیل نے ان كو عبد اللہ بن علی كے سپرد كیا او راس نے سفاح كو دیدیا۔

ان كے علاوہ كچھ دوسری چیزیں بھی تھیں جن كو عباسی خلفاء محفوظ ركھتے تھے منجملہ پیغمبر اكرمكی ریش مبارك كے بال، عثمان كا قرآن ،جن كے بارے میں مصر كے خلفائے عباسی یہ ادعا كرتے تھے كہ یہ چیزیں مغلوں كے حملوں سے محفوظ ر ھیں، اور انھیں چیزوںاور دیگر قیمتی اشیاء كو سلطان سلیم مصر سے اسلامبول لے گیا یا ایك قول كے مطابق المتوكل علی اللہ نے ”بُردہ“ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ریش مبارك كے چند بال اور عمر كی تلوار سلطان سلیم كو دئے، اس سامان میں ایك شمشیر بھی تھی جس كو خلفاء حضرت رسول اللہ كی تلوار بتاتے تھے، چنانچہ اسی قول كے مطابق قاضی رشید بن الزبیر كھتے ھیں كہ خلیفة الراضی كے پاس مذكورہ سامان میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی شمشیر بھی تھی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بعض منسوب چیزیں غیر خلفاء كے پاس بھی پائی گئی ھیں، منجملہ یہ كہ (ابن طولون كی تحریر كے مطابق) 16 ربیع الآخر921ھ میں چند لوگ بیت المقدس سے دمشق میں داخل هوئے جن كے پاس رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب كچھ چیزیں تھی منجملہ ایك كاسہٴ آب، اور عصاء كا كچھ حصہ اور یہ دونوں چیزیں ٹوٹی هوئی تھیں، اور ایك شخص ان كو اپنے سر پر ركھے هوئے تھا، اور ان كے سامنے علم اٹھائے هوئے تھے اور طبل بجارھے تھے، ملك الامراء، قضات، صوفی لوگ اور دوسرے لوگ ان كے پیچھے پیچھے چل رھے تھے، اور بھت سے لوگ ان چیزوں كو دیكھنے كے لئے جمع هوجاتے تھے۔

میں (ابن طولون) نے ان چیزوں كے بارے میں سوال كیا تو انھوں نے جواب دیا كہ یہ پانی كا ظرف اور عصا كا ایك حصہ ابن ابی اللطف كے باپ كے پاس تھے اور یہ چیزیں قلقشندی خاندان سے ان كے پاس پهونچی تھیں، چنانچہ ملك الامراء نے ان چیزوں كوبطور عاریہ مانگا تاكہ ان كے ذریعہ متبرك هوسكے، لیكن بعد میں معلوم هوا كہ یہ سب چیزیں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی نھیں تھی بلكہ لیث بن سعد كی تھیں۔

اسی طرح ابن ایاس كی تحریر كے مطابق جس وقت سلطان مصر ”حلب“ سے سلطان سلیم كا مقابلہ كرنے كے لئے نكلاتو خلیفہ اس كے داھنی طرف كھڑا تھا، اور اس كے چاروں طرف چالیس اھم شخصیات كھڑی تھیں جن كے پاس حریر كے كپڑے سے بنے غلاف میں ایك ایك قرآن مجید تھا، جس كو وہ اپنے سر پر ركھے هوئے تھے جن میں ایك قرآن مجید عثمان كے ھاتھ كا لكھا هوا بھی تھا۔

اسی طرح ا بن طولون صاحب كھتے ھیں كہ سلطان سلیم جس وقت دمشق پهونچے اور ”جامع اموی“ میں اور ” مقصورہ“ (مسجد كی وہ جگہ جھاں پر سلطان یا امام نماز پڑھا كرتے تھے) میں جاكر نماز پڑھی توانھوں نے عثمان كے (ھاتھوں كے لكھے هوئے) قرآن كی بھی تلاوت كی۔

خلاصہ یہ ھے كہ سلطان سلیم نے مذكورہ چیزوں كو جمع كیا چاھے وہ خلفاء كے پاس هوں یا دوسرے افراد كے پاس، اور اس كے بعد یہ چیزیں عثمانی سلاطین كے پاس موجود رھیں، اور جب عثمانی حكومت كا خاتمہ هوا اور ”تركی جمهوریت“ كا آغاز هواتو یہ تمام چیزیں شھر اسلامبول میں (بسفور كے كنارے جامع یاصوفیہ كے نزدیك) ” توپ قاپی قلعہ “ میں ركھ دی گئیں، جو شخص بھی ان كو دیكھناچاھے وہ دیكھ سكتا ھے۔

تبصرے
Loading...