عقائد میں شک و شبہ کے شکار ہونے کی وجہ

خلاصہ: اعتقادی مسائل میں آدمی کے پاس دلائل ہونے چاہئیں ورنہ شکوک و شبہات کی زد میں آکر انسان باطل راستہ اختیار کرلے گا۔

عقائد میں شک و شبہ کے شکار ہونے کی وجہ

آدمی اپنے مذہب اور عقیدے میں شک و شبہ کا شکار کیوں ہوتا ہے؟
اگر آدمی کسی بات پر دلیل اور منطقی استدلال کے ساتھ یقین کرے تو کسی بھی شک و شبہ کے ذریعے اس کا ایمان کمزور نہیں ہوگا، لہذا جو آدمی کوئی اعتقادی مسئلہ چاہے صحیح اور برحق بات ہو، مگر دوسروں سے سن کر سوچے سمجھے بغیر اسے اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے اور خود دلیل قائم نہیں کرتا اور دوسروں کے دلائل کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بھی غور نہیں کرتا تو اس کا اس آدمی سے بہت فرق ہے جو ہر مسئلہ پر غور و خوض کرتا ہے اور دلیل کی بنیاد پر حق کی بات کو مانتا ہے اور اپنا عقیدہ بناتا ہے۔
یہ دوسرا آدمی اپنے صحیح عقیدے پر ثابت قدم رہے گا، کیونکہ اس نے لوگوں کے کہنے پر عقیدہ نہیں بنایا اور نہ ہی جذباتی ہوکر کسی بات کو مان لیا، اور نہ ہی کسی گروہ کا جانبدار بن کر ان کے نظریے کی حمایت کرلی، بلکہ دلائل کی بنیاد پر اس کا عقیدہ قائم ہے، اگر بات دلیل کے ذریعے ثابت نہ ہو تو وہ اس بات کو نہیں مانتا اور اگر غلط نظریہ ہو تو وہ اس کے غلط ہونے پر دلائل پیش کرتا ہوا اپنے آپ کو اس سے بری اور پاک رکھتا ہے۔
مگر پہلے شخص کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جو اسے اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رکھ سکے، اسی لیے اگر اس نے اس نظریے کے خلاف نظریہ سن لیا تو پہلے عقیدے کو چھوڑ کر دوسرے نظریے کے مطابق عقیدہ بنا لے گا۔ اس کا عقیدہ اتنا ہلکا ہے کہ کوئی بھی نیا نظریہ اس کی کمزور سوچ کو بدل سکتا ہے۔
لہذا اگر عقیدہ دلیل و برہان اور سند و ثبوت کی بنیاد پر قائم ہو تو سخت سے سخت نظریات کی آندھیاں اسے اپنے برحق عقیدے سے ہلا نہیں سکتیں، کیونکہ وہ نظریات کے دلائل کو دیکھے گا نہ کہ بولنے والے کو۔

تبصرے
Loading...