عدم تحریف پر عقلی اور نقلی دلیلیں

ہمارے عقیدہ کے مطابق بہت سے عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں جو قرآن مجید کی عدم تحریف پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ ایک تو خود قرآن مجید فرماتا ہے : ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا اور اس کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ ہے ایک اور مقام پریوں ارشاد ہوتا ہے:
”یہ کتاب شکست ناپذیر ہے ۔اس میں باطل اصلا سرایت نہیں کر سکتا ہے نہ سامنے سے ا ور نہ پیچھے کی طرف سے کیونکہ یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے ”
کیا اس قسم کی کتاب جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی ہو اس میں کوئی تحریف کرسکتا ہے ؟
اور ویسے بھی قرآن مجید کوئی متروک اور بھلائی گئی کتاب نہیں تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کرسکے ۔
کاتبان وحی کی تعداد چودہ سے لیکر تقریبا چار سو (400) تک نقل کی گئی ہے ۔جیسے ہی کوئی آیت نازل ہوتی یہ افراد فورا اسے لکھ لیتے تھے ۔ علاوہ بر این سینکڑوں حافظ قرآن پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں تھے جو آیت کے نازل ہوتے ہی اس کو حفظکر لیتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا اس زمانے میں انکی سب سے اہم عبادت شمار ہوتی تھی ۔ اور دن رات قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی تھی ۔
اس سے بڑھ کر قرآن مجید، اسلام کا بنیادی قانون اور مسلمانوں کی زندگی کا آئین و اصول تھا اور زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید حاضر و موجود تھا ۔
عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ ایسی کتاب میں تحریف اور کسی کمی اور زیادتی کا امکان نہیں ہے۔
آئمہ معصومین سے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی قرآن مجید کی عدم تحریف اور تمامیت پر تاکید کرتی ہیں ۔
امیر المومنین علی (ع) ،نہج البلاغہ میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں :
(اللہ تعالی نے ایسا قرآن مجید نازل کیا جو ہر شے کو بیان کرتا ہے پھراس نے اپنے پیغمبر (ص) کو اتنی عمر عطا فرمائی کہ وہ اپنے دین کوتمہارے لیے قرآن مجید کے وسیلہ سے کامل کردیں ۔
نہج البلاغہ کے خطبوں میں بہت سے مقامات پر قرآن مجید کا تذکرہ ہوا ہے لیکن کہیں بھی قرآن مجید کی تحریف سے متعلق زرہ برابر اشارہ نہیں ملتا بلکہ قرآن مجید کے کامل ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
نویں امام حضرت امام محمد تقی ۔ اپنے ایک صحابی کو لوگوں کے حق سے منحرف ہو جانے کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
(و کان من نبذهم الکتاب ان ا قامو حروفه و حرفو حدوده )
بعض لوگوں نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے ،وہ اس طرح کہ اس کے الفاظ کو انہوں نے حفظ کرلیا ہے اور اس کے مفاہیم میں تحریف کی ہے۔
یہ اور اسکی مانند دیگر احادیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ اس کے معانی میں تحریف ہوئی ہے ۔ بعض لوگ اپنی خواہشات اور ذاتی منافع کی خاطر آیات کی خلاف واقع تفسیر و تو جیہ کرتے ہیں ۔یہاں سے ایک اہم نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر بعض روایات میں تحریف کی بات ہوئی بھی ہے تو اس سے تحریف معنوی اور تفسیر بالرائی مراد ہے نہ الفاظ و عبارات کی تحریف۔
دوسری طرف سے بہت سی معتبر روایات جو ائمہ معصومینسے ہم تک پہنچی ہیں میں بیان کیا گیا ہے کہ روایات کے صحیح و ناصحیح ہونے کی تشخیص کے لئے بالخصوص جب انکے در میان ظاہراً تضاد و اختلاف پایا جا رہا ہو تو معیار، قرآن مجید کے ساتھ تطبیق دینا ہے ۔ جو حدیث قرآن مجید کے مطابق ہو وہ صحیح ہے اس پر عمل کیا جائے اور جو حدیث قرآن مجید کے خلاف ہو اسے چھوڑ دیا جائے ۔
(اعرضوا هما علی کتاب الله فما وافق کتاب الله فخذوه و ما خالف کتاب الله فردّوه)
یہ بالکل واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ اگر تحریف ہوجاتی تو قرآن مجید حق و باطل کی تشخیص کا معیار قرار نہیں پا سکتا تھا۔
ان تمام ادلہ سے بڑھ کر مشہور حدیث ”حدیث ثقلین” شیعہ و اہل سنت کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل ہوئی ہے
جس میں پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
(انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلو)
میں تمہارے در میان دو یادگارگرانبہا چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ہے اگر ان دونوں سے تمسک رکھا تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔
یہ پر مغز حدیث شریف بالکل واضح کررہی ہے کہ قرآن مجید ،عترت پیغمبر(ص) کے ساتھ قیامت تک لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک انتہائی مطمئن پناہ گاہ ہے ۔ اب اگر قرآن مجید خود تحریف کا شکار ہو جا تا تو وہ کس طرح لوگوں کے لئے ایک مطمئن پناہ گاہ بن سکتا تھا اور انہیں ہر قسم کی گمراہی سے نجات دلا سکتا تھا۔

تبصرے
Loading...