عالم برزخ، روایات كی روشنی میں

عالم برزخ اوراس كے احكام واحوال سے متعلق متعدد روایات وارد ھوئی ھیں۔ اس سلسلے میں جامع ترین وہ طویل روایت ھے جو متعدد سندوں كے ساتھ مختلف معتبر كتب احادیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ھے: ”اس وقت جب انسان كی دنیوی زندگی كا آخری دن او رعالم آخرت كا پھلا دن آپھونچتا ھے تو اس كی بیوی، بچے، مال و دولت اور اس كے اعمال اس كے سامنے مجسم ھو كر آجاتے ھیں۔ اس حالت میں وہ (وہ شخص جس كا ابھی انتقال ھوا ھے) مال و دولت كی طرف رخ كرتا ھے او ركھتا ھے: خداكی قسم! میں تیرے لئے بھت لالچی اور حریص تھا۔ اب بتا

عالم برزخ اوراس كے احكام واحوال سے متعلق متعدد روایات وارد ھوئی ھیں۔ اس سلسلے میں جامع ترین وہ طویل روایت ھے جو متعدد سندوں كے ساتھ مختلف معتبر كتب احادیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ھے:

”اس وقت جب انسان كی دنیوی زندگی كا آخری دن او رعالم آخرت كا پھلا دن آپھونچتا ھے تو اس كی بیوی، بچے، مال و دولت اور اس كے اعمال اس كے سامنے مجسم ھو كر آجاتے ھیں۔ اس حالت میں وہ (وہ شخص جس كا ابھی انتقال ھوا ھے) مال و دولت كی طرف رخ كرتا ھے او ركھتا ھے: خداكی قسم! میں تیرے لئے بھت لالچی اور حریص تھا۔ اب بتا میرے لئے تیرے پاس كیا ھے؟ دولت جواب دیتی ھے: مجھ سے كفن لے لو اور جاؤ۔ وہ پلٹتا ھے اور اپنی اولاد كی طرف متوجھ ھوتا ھے اور ان سے كھتا ھے: خدا كی قسم! میں تمھاراچاھنے والا اور تم سے محبت كرنے والا تھا۔ میرے لئے تمھارے پاس كیا ھے؟ وہ جواب دیتے ھیں: ھم تمھیں قبر تك پھونچا دیں گے اور دفنا دیں گے۔

بالآخر اپنے اعمال سے مخاطب ھو كر كھتا ھے: خدا كی قسم! میں تمھاری طرف سے غافل تھا، تم سے پھلو تھی كرتا رھتا تھا۔ تم بتاؤ میرے لئے تمھارے پاس كیا ھے؟ اس كے اعمال اس سے كھتے ھیں كہ ھم تمھاری قبر میں اور بروز محشر تمھارے ساتھ ھوں گے یھاں تك كہ بارگاہ خداوند عالم میں حاضر ھو جائیں۔ اب اگر مرنے والا اولیائے خدا اور نیك بندوں میں سے ھوتا ھے تو نھایت جمیل اور عمدہ لباس وخوشبو كے ساتھ ایك شخص اس كے پاس آتا ھے اور اس سے كھتا ھے: تیرے لئے بشارت اور خوش خبری ھے كہ تجھے تمام سختیوں اور مصائب سے نجات حاصل ھوگئی ھے، جنت كا لذیذ رزق تیرے لئے آمادہ ھے اور سرائے ابدی، بھترین منزل گاہ، میں تجھے داخلہ مل رھا ھے وہ ولی خدا (جس كا ابھی ابھی انتقال ھوا ھے) اس سے سوال كرتا ھے كہ تم كون ھو، وہ جواب دیتا ھے كہ میں تیرا نیك عمل ھوں۔ پھر اس سے كھتا ھے: پس اب تو دنیا سے بھشت كی طرف كوچ كر۔ اس كے ساتھ ھی غسل دینے والے اور میت كو كاندھا دینے والے اپنے امور كو جلدی جلدی انجام دینا شروع كردیتے ھیں۔

جب میت كو قبر میں اتارا جاتا ھے تو دو فرشتے اس كے نزدیك آتے ھیں یہ قبر كے نگھبان ھوتے ھیں ۔ ان كے بال اتنے لمبے لمبے ھوتے ھیں كہ زمین پر كھنچتے چلے جاتے ھیں اور یہ اپنے پیروں سے زمین كو كھود تے چلتے ھیں ۔ان كی آنكھیں برق كی طرح چمكتی ھوئی اور آواز بجلی كی طرح كڑكڑاتی ھوئی ھوتی ھے۔ مرنے والے سے سوال كرتے ھیں كہ تیرا پروردگار كون ھے؟ تیرا نبی كون ھے؟ تیرا دین كیا ھے؟

وہ جواب دیتا ھے كہ الله، میرا پروردگار، محمد میرے نبی اور اسلام میرا دین ھے۔ پس وہ دونوں فرشتے اس كے لئے دعا كرتے ھیں كہ خدایا! اس كو جس چیز میں تو دوست ركھتا ھے، ثابت قدم ركھ اور یہ وھی قول خدا ھے:

اللہ صاحبان ایمان كو قول ثابت كے ذریعہ دنیاوآخرت میں ثابت قدم ركھتا ھے۔

سپس فضائے قبر كو تا حد نگاہ وسیع كردیا جاتا ہےاور اس كے لئے بھشت كا دروازہ كھول دیا جاتا ھے اور وہ اس سے كھتے ھیں: مطمئن ھو كر آرام سے سوجاؤ جس طرح نعمتوں میں غرق ایك جوان سوتا ھے اور یہ وھی قول خدا ھے:

اس دن صرف جنت والے ھونگے جن كے لئے بھترین ٹھكانہ ھوگا اور بھترین آرام كرنے كی جگہ ھوگی ۔

اور اگر مرنے والا دشمن خدا ھوتا ھے تو ایك شخص اس كے پاس آتا ھے جس كے چھرے سے وحشت اور ھیبت ٹپك رھی ھوتی ھے۔ وہ اس سے كھتا ھے: تجھے جھنم اور اس كی آگ كی بشارت ھو۔ اس كے ساتھ ھی مرنے والا اپنے غسل دینے والوں اور اپنی میت كو كاندھا دینے والوں سے گذارش كرتا ہے كہ اس كو دفن كرنے كی تیاریاں نہ كریں اور دفن ہونے سے روك لیں۔ جس وقت وہ قبر میں اتارا جاتا ھے تو منكر و نكیر اس كے پاس پھونچ جاتے ھیں: اس كے كفن كو اس كے جسم سے جدا كركے اس سے سوال كرتے ھیں: تیرا پروردگار كون ھے؟ تیرا نبی كون ھے؟ اور تیرا دین كونسا ھے؟ وہ جواب دیتا ھے: میں نھیں جانتا۔ پھر منكر و نكیر اس سے كھتے ھیں، نہ تو جانتا ھے اور نہ تونے ھدایت حاصل كی ھے۔ اس كے ساتھ ھی اتنی زور سے آھنی گرز سے اس پر حملہ كرتے ھیں كہ جن وانس كے علاوہ تمام جنبد گان وحشت زدہ ھو جاتے ھیں۔ سپس اس كے اوپر دوزخ كا ایك دروازہ كھول دیا جاتا ھے اور وہ فرشتے اس سے كھتے ھیں: اپنی سخت ترین حالت میں سو جا۔ اس كی قبر اس حد تك تنگ ھو جاتی ھے كہ وہ ایك نیزے بلكہ نیزے كی انی كی طرح ھوجاتا ھے اور اس كے ناخنوں اور گوشت سے اس كا مغز باھر نكلنے لگتا ھے۔ سانپ، بچھو اور دوسرے حشرات الارض اس پر حملہ كردیتے ھیں اور اس كے بدن كو ڈسنا شروع كردیتے ھیں۔

یہ زمانہ اس پر اتنا سخت اور دشوار گزرتا ھے كہ وہ قیامت كے جلد از جلد رونما ھونے كی تمنا اور دعا كرتا رھتا ھے۔

بشکریہ : صادقین ڈاٹ کام

تبصرے
Loading...