شیعہ اقلیت کی سنی اکثریت سے جدائی کی وجہ اور اختلافا ت کا پیدا ھونا

رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صحابۂ کرام اور تمام مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی قدرو منزلت کے باعث آپ کے پیروکاروں کو یقین تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت اور رھبری حضرت علی علیہ السلام کا مسلمہ حق ھے ۔ اس کے علاوہ تمام شواھد و حالات بھی اس عقیدے کی تصریح کرتے تھے ، سوائے ان واقعات کے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں رونما ھوئے(1) لیکن ان لوگوں کی توقعات کے بالکل بر خلاف ٹھیک اس وقت جبکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائی اور ابھی آپ کی تجھیز و تکفین بھی نھیں ھوئی تھی اور اھلبیت علیھم السلام اور بعض اصحاب کفن ودفن کے انتظامات کررھے تھے ،خبر ملی کہ ایک جماعت نے جو بعد میں اکثریت کی حامل ھوئی ،نھایت جلد بازی میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل و عیال ، رشتہ داروں اور پیروکاروں سے مشورہ کئے بغیر حتی ان کو اطلاع دیئے بغیر ، ظاھری خیر خواھی اور مسلمانوں کی بھبودی کی خاطر مسلمانوں کے لئے خلیفہ کا انتخاب کرلیاھے۔ اس کی خبر حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیرروکاروں کوخلیفہ کے انتخاب کے بعد دی گئی تھی ۔(2)حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کفن ودفن کے بعد جب حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں عباس ، زبیر ، سلمان ، ابوذر ،مقداد اور عماروغیرہ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو انھوں نے انتخابی خلافت اورخلیفہ کو انتخاب کرنے والوں پر سخت اعتراضات کئے اور اس ضمن میں احتجاجی جلسے بھی ھوئے مگر جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی اسی میں بھتری ھے ۔
یھی اعتراضات تھے جنھوں نے اقلیت کو اکثریت سے جدا کردیا تھا اورحضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو معاشرے میں ”شیعۂ علی(ع) “ کے نام سے پھچنوایا تھا البتہ حکومت اور خلافت کے مامو رین بھی سیاسی لحاظ سے کڑی نظر رکھے ھوئے تھے کہ مذکورہ اقلیت اس نام سے مشھور نہ ھو اوراسلامی معاشرہ اکثریتی اور اقلیتی گروھوں میں تقسیم نہ ھونے پائے کیونکہ وہ خلافت کو اجماع امت جانتے تھے۔
البتہ شیعہ شروع سے ھی وقتی سیاست کے محکوم ھوگئے تھے لیکن صرف اعتراضات کے ذریعے کوئی کام انجام نھیں دے سکتے تھے ۔ادھر حضرت علی علیہ السلام بھی مسلمانوں اور اسلام کی خاطر اور کافی طاقت و قوت نہ رکھنے کی وجہ سے ایک خونی انقلاب برپا نہ کرسکے لیکن یہ اعتراض کرنے والے اپنے عقیدے اورنظریے کے لحاظ سے اکثریت کے تابع نہ ھوئے اور پیغمبر اکرم کی جانشینی اورعلمی رھبری کو حضرت علی(ع) کاحق سمجھتے نیز علمی ومعنوی مرکز صرف حضرت علی(ع) کوھی مانتے رھے اورساتھ ھی دوسروں کو بھی حضرت علی(ع) کی طرف دعوت دیتے رھے ۔

حوالہ

۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرض الموت کی حالت میں اسامہ بن زید کی سر کردگی میں ایک لشکر تیار کیا اور تاکید کی کہ سب لوگ اس جنگ میں شرکت کریں اور مدینے سے باہر نکل جائیں ۔ ایک جماعت نے آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی اس میں ابو بکر اور عمر بھی تھے ۔ اس واقعہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت زیادہ صدمہ پہنچایا ۔ (شرح ابن ابی الحدید طبع مصر ج/ ۱ ص / ۵۳ )
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت کے وقت فرمایا کہ قلم اور دوات لاؤ تاکہ میں تمہارے لئے ایک چٹھی لکھوں کہ تمہاری ہدایت اور راہنمائی کا باعث بنے اور تم گمراہ ہونے سے بچ جاؤ ۔ حضرت عمر نے اس کام سے منع کر دیا اور کہا کہ آپ کا مرض بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور شدید بخار کی حالت میں آپ کو ہذیان ہے ۔( تاریخ طبری ج / ۲ ص / ۴۳۶ ، صحیح بخاری ج / ۳ ، صحیح مسلم ج/ ۵ ، البدایہ و النہایہ ج / ۵ ص / ۲۲۷ ، تاریخ ابن ابی الحدید ج / ۱ ص ۱۳۳ )
۲۔ شرح ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص/ ۵۸ ۔۱۲۳ تا ۱۳۵ ، تاریخ یعقوبی ج/ ۲ ص / ۱۰۲ ، تاریخ طبری ج/ ۲ ص / ۴۴۵ تا

تبصرے
Loading...