دل کی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس راہ میں تازہ قدم رکھے ھوئے انسان کو کہاں سے شروع کرنا چاہئے؟

دل کی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس راہ میں تازہ قدم رکھے ھوئے انسان کو کہاں سے شروع کرنا چاہئے؟ تاکہ اس کی مٹھاس کو تھوڑا سا چکھ سکے؟
ایک مختصر
خداوند متعال کی تجلیات کو دل کی آنکھوں سے دیکھنا وہی خدا کو دیکھنے کے صحیح معنی ہیں- اس کے مختلف درجات ھوتے ہیں-اگر چہ اصلی درجہ صرف سالک کے ذات الہی میں فنا ھونے سے حاصل ھوتا ہے، لیکن اس کے نچلے درجہ کے مراتب سالک کو دل کی آنکھوں سے حاصل ھوسکتے ہیں-

تفصیلی جوابات
ہم یہ جانتے ہیں کہ اسلامی اور شیعہ اعتقادات کے مطابق خداوند متعال کی قابل قبول رویت وہی دل کی آنکھوں سے اور ایمانی حقائق سے خدا کو دیکھنا ہے- لیکن علم کلام، فلسفہ اور عرفان میں مذکورہ صورت میں خدا کی رویت کے بارے میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں- قدرتی بات ہے کہ جب خداوند متعال کے شہود کے سلسلہ میں اس مقام تک پہنچنے کی بات ھوتی ہے، تو ہمیں عرفان عملی میں اس کی جستجو اور کوشش کرنی چاہئے- بالاخر جس چیز کو ہم اس سلسلہ میں علم کلام، فلسفہ یا عرفان نظری میں پاسکتے ہیں،، یا جو اس قسم کے اعتقاد کے جائز یا نا جائز ھونے سے متعلق ہے، یا اس قسم کی چیز کے بارے میں کلی اور عقلی مباحث ہیں، وہ ہمیں عرفان عملی میں ہی مل سکتے ہیں-
جو کچھ اس سلسلہ میں قرآن مجید اور روایتوں سے ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ مومنین، کافروں کے برعکس، ہمیشہ لقاء اللہ اور خدا کے دیدار کی امید رکھتے ہیں، اور بعض مومنین اسی دنیا میں لقاء اللہ تک پہنچتے ہیں اور بعض قیامت کے دن عرفات میں ،بنیادی چیز یہی ہے کہ محمدی (ص) مومن کو اسی دنیا میں سلوک کے بلند مقامات طے کرکے خدا کے دیدار تک پہنچنا چاہئے، جیسے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس مقام تک پہنچے ہیں- اسی لئے نقل کیا گیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ معراج کا مقصد لقاءاللہ ھوتا ہے-
اب یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ، جو سالک سلوک کے ابتدائی مرحلہ میں ھوتا ہے، کیا اس کے لئے اس مقام تک پہنچنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ یا اس مرتبہ کا کوئی درجہ ہے جو اس کے لئے تجلی الہی کے مزہ کو چکھنے کا سبب بنے تاکہ خدا تک پہنچنے کی راہ کو طے کرسکے؟
اس سلسلہ میں شیخ صدوق کی توحید میں ایک روایت نقل کی گئی ہے جو قابل غور ہے اور اس کے بارے میں مختلف تفسیر یں کی گئی ہیں، ہم اس روایت کو ذیل میں من و عن درج کرتے ہیں:
ابوبصیر کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کہ، ہمیں بتائیے کہ کیا مومنین قیامت کے دن خدائے عز و جل کو دیکھ سکیں گے؟ امام (ع)نے جواب میں فرمایا: جی ہاں،قیامت سے پہلے بھی انھوں نے خدا کو دیکھا ہے- میں نے عرض کی: کب اور کس وقت؟ فرمایا: جب اس نے ان سے خطاب کرکے فرمایا:” الست بربکم” ” کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ھوں؟” ” قالو بلی” انھوں نے جواب میں کہا:” جی ہاں تو ہمارا پروردگار ہے”- اس کے بعد امام نے چند لمحات تک خاموشی اختیار کی اور پھر فرمایا: :” مومنین قیامت سے پہلے بھی اسے دیکھتے ہیں- – – کیا تم اس وقت اسے نہیں دیکھ رہے ھو؟!
ابو بصیر کہتے ہیں میں نے حضرت (ع) کی خدمت میں عرض کی: میں آپ (ع)پر قربان ھوجاوں، کیا میں آپ(ع) کے اس کلام کو نقل کرسکتا ھوں؟ امام نے جواب میں فرمایا: نہیں! کیونکہ اگر تم اس کلام کو نقل کروگے، تو جوشخص ہمارے کئے جانے والے معنی کا منکر ھو، اس کا انکار کرکے یہ خیال کرے گا کہ یہ تشبیہ اور کفر ہے- البتہ دل سے دیکھنا آنکھوں سے دیکھنے کے متفاوت ہے خداوند متعال اس سے برتر ہے جو کچھ فرقہ مشبہہ اور ملحدین اس کی توصیف کرتے ہیں-[1]
اس روایت کی بعض عرفا، من جملہ فیض کاشانی نے تجلی کے مقام پر خدا کی رویت سے تفسیر کی ہے-
اس روایت اور اس قسم کی دوسری روایتوں کے اسرار آسانی کے ساتھ قابل فہم و بیان نہیں ہیں- اس کے باوجود عرفان عملی میں خدا کی قلبی رویت کی بحث کا سراغ مل سکتا ہے اور باور کرکے اس کے لئے کوشش کی جاسکتی ہے-
خدا کی تجلیات کی قلبی رویت، وہی صحیح معنوں میں خدا کو دیکھنا ہے، جس کے مختلف درجات ھوتے ہیں، اگر چہ اس کا اصلی مرتبہ خدا کی ذات میں سالک کے فنا ھونے سے ہی حاصل ھوسکتا ہے کہ حضرت موسی (ع) جس کے طالب ھوئے تھے، لیکن اس کے مراتب و درجات تنزل یافتہ میں ، دل کی آنکھوں سے سالک کے لئے یہ رویت حاصل ھوتی ہے، من جملہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے :” جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھا ہے-[2] یعنی بیداری کی حالت میں پیغمبر اکرم (ص) کے جمال مبارک کو حقیقت محمدیہ کے جلوے کے عنوان سے دیکھنا آیات الہی کی روشنی میں خداوند متعال کا دیدار شمار ھوتا ہے- یہ جمال ائمہ اطہار (ع) کے جمال میں بھی قابل رویت ہے، جو لقاء اللہ کی طرف پرواز کرنے کا چبوترہ ہے اور اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ:” علی (ع) کے چہرے پر نظر ڈالنا عبادت ہے-“[3]
اسلامی عرفان میں مکتب عشق، وہی خداکی تجلیات دیکھنے کا مکتب ہے اور حافظ، مولانا روم اور عطار وغیرہ کے دیوان اسی مکتب کے راز و رموز سے بھرے ہوئے ہیں جن کی ایرانی ثقافت و تمدن میں بہت شہرت ہے-
ابوبصیر کی روایت کی تفسیر میں فیض کاشانی کا قول ہے کہ خدا کی تجلی کو سب دیکھتے ہیں، لیکن اس کی شناخت اور یقین کرنے میں انسان مختلف ہیں- ذیل میں ہم فیض کاشانی کے کلام کے ایک اقتباس کو ان کی کتاب ” کلمات مکنون” سے نقل کرتے ہیں:
” اگر چہ اصلی حقیقت کو سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ وہ تمام چیزوں پر احاطہ کئے ھوئے ہے اور کسی چیز میں محاط نہیں ھوسکتا ہے- لیکن اسماء کے مظاہر میں تجلی کے اعتبار سے ہر ایک مخلوق میں ایک وجہ پائی جاتی ہے اور ہر آئینہ میں ایک جلوہ پیدا ھوسکتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: ” تم جس جگہ بھی قبلہ کا رخ کر لوگے سمجھو وہیں خدا موجود ہے-“[4] اور روایت میں فرمایا ہے:” حتی کہ اگر زمین کے سب سے نچلے طبقہ میں بھی اترو گے خدا کے پاس پہنچو گے-” اس بنا پر رویت و معرفت ممکن ہے- بلکہ یہ تجلی سب کو حاصل ہے، لیکن خاص افراد جانتے ہیں کہ وہ کیا دیکھتے ہیں! لہذا کہتے ہیں کہ: ہم نے جس چیز کو دیکھا اس کے قبل بعد اور اس کے ساتھ خدا کو دیکھا، لیکن عام لوگ نہیں جانتے ہیں کہ وہ کیا دیکھتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھواہے:” آگاہ ھوجاو کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں اور آگاہ ھو جاو اللہ ہر شے پر احاطہ کئے ھوئے ہے-“[5]
گفتم بہ کام وصلت خواہم رسید روزی؟
گفتا کہ خوب بنگر شاید رسیدہ باشی![6]
( میں نے کہا کیا کسی دن میں تجھ سے ملاقات کروں گا؟ اس نے جواب میں کہا کہ ذرا غور کر کہ شاید یہ ملاقات تجھے حاصل ہوئی ھو)
تجلیات الہی کو حاصل کرنے کے لئے عرفان میں کلی ضابطہ عمل سے، خدا کے بارے میں دل کی کدورتوں ، کفر، نفاق اور شرک کو پاک کرنا ہے- اسی طرح قلب سلیم وہ قلب ہے جس میں خدا کے سوا کوئی چیز نہ ھو- خدا کا یہ حضور، دل میں خدا کی تجلی کا شہود اور اس پر یقین کے معنی میں ہے- ایسا مقام حاصل ھوسکتا ہے اور اس مقام تک پہنچنے کا طریقہ اپنے آپ کو اور اپنی عزیز ترین چیزوں کو چھوڑ نا ہے اور عرفان عملی کے حقیقی معنی بھی اس مقصد کے علاوہ کچھ نہیں ہیں-
روزمرہ زندگی میں عملی طور پر صرف انسانوں کی ایک مختصر تعداد اس قسم کے کام کا عزم و ارادہ رکھتی ہے- اس کے باوجود یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو تمام انسانوں کے سامنے موجود ہے اور وہ قیامت کے دن اس کے بارے میں متوجہ ھوں گے-
«قَدْ خَسِرَ الَّذينَ كَذَّبُوا بِلِقاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذا جاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قالُوا يا حَسْرَتَنا عَلى ما فَرَّطْنا فيها»؛[7] ” بیشک وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنھوں نے اللہ کی ملاقات کا انکار کیا یہاں تک کہ جب اچانک قیامت آگئی تو کہنے لگے ہائے افسوس ہم نے قیامت کے بارے میں بہت کوتاہی کی ہے-“
اس موضوع کے متعلق عنوان:
قلب سلیم، سوال: 14780( سائٹ: 14505)

[1] – صدوق، التوحید، ص 117، باب ما جاء فی الرؤیة، ح 20، انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1357.
[2] -« و صاحب هذا المقام هو الموسوم بالخليفة الأعظم و قطب الاقطاب و الإنسان الكبير و آدم الحقيقىّ، المعبّر عنه بالقلم الأعلى، و العقل الاوّل، و الروح الأعظم، و أمثال ذلك.و اليه أشار النبىّ- صلّى الله عليه و آله و سلّم «خلق الله آدم على صورته». و كذلك «من رآني فقد رأى الحقّ». آملی، سید حیدر، جامع الاسرار، ص 380. انتشارات علمی و فرهنگی.
[3] – شیخ طوسی، الامالی، ص 350، دار الثقافة، قم.
[4] – بقره، 115.
[5] – فصلت، 54.
[6] – فيض كاشانی، محسن، الكلمات المكنونه في علوم اهل الحكمة و المعرفة، ص 4و5، بی تا، بی جا (تلخیص ).
[7] انعام، 31.

تبصرے
Loading...