دستور اسلام ہے کہ ہم سب ”معتصم بہ حبل اللہ”

رہبر کبير انقلاب حضرت امام خميني فرماتے ہيں :
اسلام نے تمام مذاہب اسلاميہ کو حبل الہي سے متمسک رہنے کي دعوت دي ہے اور اس دستور الہي سے سر پيچي جرم ہے ،گناہ ہے دستور اسلام ہے کہ ہم سب ”معتصم بہ حبل اللہ” رہيں
نيز آپ فرماتے ہيں :تمام ملت و حکومت اسلامي اگر وہ يہ چاہتے ہيں اپنے اسلامي اہداف و مقاصد ميں کامياب و کامران ہو جا ئيں تو ان کے لئے ضروري ہے کہ وہ حبل الہي سے متمسک رہيں اور اختلافات اور تفرقہ سے پرہيز کريں اور حکم و دستور حق تعالي کي اطاعت کريں يہ خدا کي عطا کردہ ايک عظيم نعمت و برکت ہے اور تمام برداران اہل تسنن و تشيع کو يکجا جمع کرديا لہذا سب ملکر اسلام کي کاميابي و کامراني کے لئے کوشش کريں کيونکہ اسلام مغلوب ہونے کے لئے نہيں بلکہ تمام اديان و جہان پر غالب ہو نے کے لئے آيا ہے
حزب اللہ :(26جمادي الاول 1405ھ مطابق 16فروري1985ء کوراغب حرب کي شہادت کي پہلي برسي کے موقع پر صادر کردہ پيغام ميں پوري دنيا کے مسلمانوں کو مخاطب کيا کہ)اے امت مسلمہ !استعمار کے فتنوں کو سمجھو ، اور تمہارے درميان اختلاف ڈالنے کي اس سازشوں کو سمجھو،تم اپنے درميان شيعہ و سني تعصبات کو ہوا دينے کے استعماري طريقوں کو پہچانو!ياد رکھو جب بھي استعمار کو موقع ملے گا وہ تمہارے اتحاد کي صفوں ميں رخنہ ڈالنے کي ہر ممکن کوشش کرے گا اور شيعہ سني کو ايک دوسرے کے خلاف بھڑکائے گاوہ يا تو براہ راست اس کام کو انجام دے گا يا اپنے زرخريد غلاموں اور درباري ملاؤں کو اس کام پر مامور کرے گا اور خود مسلمانوں کي دولت کو برباد کرے گااس لئے آپ سب اتحاد بين المسلمين کے فرمانِ الہي پر عمل کريں اور اسے اپنے عمل کا معيار قرار ديں اس لئے کہ يہ اتحاد بين المسلمين ہي وہ چيز ہے کہ مستکبروں کي سازشيں جس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئي ہيں اور ظالموں کي ساري تدبيريں اس کے آگے بيکار ہيںاللہ کي رسي کو مضبوطي سے تھامے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ کرو!اجازت نہ دو کہ تمہارے ملک ميں ”تفرقہ پھيلاؤاور حکومت کرو”والي سياست رائج ہواور ہميشہ ان آيات کو ياد رکھو:
”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ ا جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ، وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ ا عَلَيْکُمْ ِذْ کُنْتُمْ َعْدَائً فََلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِکُمْ فََصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ ِخْوَانًا”اور اللہ کي رسي کو مضبوطي سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ پيدا نہ کرو اور اللہ کي نعمت کو ياد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردي تو تم اس کي نعمت سے بھا ئي بھا ئي بن گئے (19)
” ِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَہُمْ وَکَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْہُمْ”جن لوگوں نے اپنے دين ميں تفرقہ پيدا کيا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ان سے آپ کا کو ئي تعلق نہيں ہے (20)
اے علمائے اسلام !آپ امت مسلمہ کي رہبري کے سب سے زيادہ حقدار ہيں ،آپ کي ذمہ داري اتني سنگين ہے جتني مسلمانوں کے سروں پر پڑنے والي مصيبتيں ،آپ کا فريضہ ہے کہ مسلمانوں کو دشمنوں کي طرف سے ان کي دولت کے لے اور ان کے غلام بناے جانے کي سازشوں سے آگاہ کريں بيشک آپ جانتے ہيں کہ مسلمان آپ کو امانت دار ،رسول اللہ اور پيغمبروں کے وارثوں کے طور پر ديکھتے ہيں اسي لئے حق کو عياں کرنے اور طاغوت ميں اور مستکبروں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کر کے ان کے ان کے لئے نمونہ عمل بنيں …ياد رکھيں! استعمار آپ کي اپني امت ميں اہميت کو جانتا ہے اس لئے اس نے ہميشہ سب سے کاري ضرب عالم مجاہد پر لگا نے کي سعي پہم کي ہے . . . . . اس لئے آپ کي سب سے اہم ذمہ داري مسلمانوں کي تربيت اور ان کو دين کے احکام کا پابند بنانا ہے
ڈاکٹر عبد المتعال سعيدي (دانشگاہ الزہرا مصر کا ستاد )کہتا ہے :
”علي بن ابي طاب عليہ السلام تقريب مذاہب کے وہ پہلے بنيان گزار ہيں جو يہ جانتے تھے کہ وہ ديگر تمام لوگوں سے مسئلہ خلافت ميں سب سے زيادہ سزاوار و حقدار ہيں ، ليکن اس کے باوجود کبھي بھي ابوبکر ،عمر و عثمان سے بد رفتاري نہيں کي اور نہ ہي کبھي ان کے تعاون سے دست بردار ہو ئے اور ہر جگہ ان کي رہنما ئي فرمائي (21)
آپ فرماتے ہيں :
”ايھا الناس ،شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، و عرّجوا عن طريق المنافرة ،و ضعوا تيجان المفاخرة افلح من نھض بجناح …..”اے لوگو!فتنوں کي موجوں کو نجات کي کشتيوں سے چير کر نکل جاؤ اور منافرات کے راستوں سے الگ رہو ،باہمي فخرو مباہات کے تاج اتاردو کہ کاميابي اسي کا حصہ ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے …..(22)
اپني ايک وصيت ميں آپ نے بالظاہر (اپنے دونوں فرزند )حضرت امام حسن و امام حسين عليہم السلام کو مخاطب کر کے امت مسلمہ کو متوجہ کرنا چاہا کہ ديکھو!اپنے درميان تعلقات کو سدھارے رکھنا کہ ميں نے اللہ کے رسول حضرت ختمي مرتبت سے سنا ہے کہ آپس کے معاملات کو سلجھا کر رکھنا عام نماز اور روزہ سے بھي بہتر ہے (23)
يہ اس بات کي علامت ہے کہ اسلام کا بنيادي مقصد معاشرہ کي اصلاح سماج کي تنظيم اور امت کے معاملات کي تر تيب ہے اور نماز روزہ کو بھي در حقيقت اس کا ايک ذريعہ بناياگيا ہے ورنہ پروردگار کسي کي عبادت و بندگي کا محتاج نہيں ہے اور اس کا تمام تر مقصد يہ ہے کہ انسان پيش پروردگار اپنے کو حقير و فقير سمجھے اس ميں يہ احساس پيدا ہو کہ ميں بھي تمام بندگان خدا ميں سے ايک بندہ ہوں اور جب سب ايک ہي خدا کے بندے ہيں اور اس کي بارگاہ ميں جانے والے ہيں تو آپس کے تفرقہ کا جواز کيا ہے اور يہ تفرقہ کب تک برقرار رہے گا؟! بالآخر سب کو ايک دن اس کي بارگاہ ميں ايک دوسريے کا سامانا کرنا ہے
اس کے بعد اگر کو ئي شخص اس جذبہ سے محروم ہو جا ئے اور شيطان اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جا ئے تو دوسرے افراد کو فرض ہے کہ اصلاحي قدم اٹھا ئيں اور معاشرہ ميں اتحاد و اتفاق کي فضاء قائم کريںکہ يہ مقصد الہي کي تکميل اور ارتقاء بشريت کي بہترين علامت ہے نماز روزہ انساني کے ذاتي اعمال ہيں اور سماج کے فساد سے آنکھيں بند کر کے ذاتي اعمال کي کو ئي حيثيت نہيں رہ جا تي ہےورنہ اللہ کے معصوم بندے کبھي گھر سے باہر ہي نہ نکلتے اور ہميشہ سجدہ پروردگار ہي ميں پڑے رہتے (24)
اجتماع سے ہٹ کر جو زندگي بسر کرنا چاہے گا وہ بہت جلد خوارک دشمن بن جا ئے گا جيسے گوسفند اپنے گلہ سے صحرا ميں جب بھي تنہا ہوا اسے بھيڑيہ کے منھ کا نوالہ بننا پڑا ہے لہذا متحد رہنے کي تاکيد و سفارش کي گئي ہے
خاتم الانبياء صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامي ہے :
”با ايمان معاشرے کے افراد مہر و محبت کے لحاظ سے ايک بدن کي طرح ہيں …..لہذا اگر کو ئي مسلمان رنج و الم ميں مبتلا ہو جا ئے تو معاشرے کے تمام افراد پر لازم ہے کہ اس کي مدد کريں اور اس کے غم ميں برابر کے شريک ہوجائيں (25)
حضرت امير اپنے خطبہ ميں ارشادفر ماتے ہيں: ”خبردار!تفرقہ کي کوشش نہ کرنا جو ايماني جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسي طرح شيطان کا شکار ہو جا تا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہو جانے والي بھيڑ بھڑيہ کي نظر ہو جا تي ہے (26)
نيز آپ نے فرمايا: ”بندگان خدا !ميں تمہيں تقوي الہي کي وصيت کرتا ہوں اور تمہيں منافقين سے ہوشيار کرتا ہوں کہ يہ گمراہ اور گمراہ کن بھي ، منحرف بھي ہيں اور منحرف ساز بھي ہيں مسلسل رنگ بد لتے رہتے ہيں اور طرح طرح کے فتنے اٹھاتے رہتے ہيں …ان کے دل بيمار ہيں اور ان کے چہرے پاک و صاف ، اند ر ہي اندر چال چلتے ہيں مصيبتوں ميں مبتلا کر دينے والے اور اميدوں کو نااميد بنا دينے والے ہيں ،تہذيب کے نام پر فساد ، مواصلات کے نام پر تباہ کاري ،امن عالم کے نام پر اسلحوں کي دوڑ ،تعليم کے نام پر بد اخلاقي اور مذہب کے نام لامذہبيت.(27)
سيد العلماء سيد علي نقي نقوي طاب ثراہ ”کا بيان ہے کہ :کيوں نہ ہم مشترک امور پر مجتمع ہوں کيوں نہ ہم ميںاتني روا داري پيدا ہو اور ہمارے دل ميں اتني وسعت ہو کہ ہم اختلاف رائے کو برداشت کرسکيں اتحاد عمل سے کام ليں
اس وقت(دنيا جس مرحلہ سے گزررہي ہے ،بالخصوص ہمارا) ہندوستان جس دور سے گزررہاہے ،مسلمانوں کے جتنے عظيم مشکلات کا سامنا ہے ،ان عظيم مشکلات ميں ہمارا طرز عمل اگر يہ رہا ،اگر ہم آپس ميں لڑتے رہے تو نتيجہ يہ ہوگا کہ ہمارا وجود صفحہ ہندوستان سے اسي طرح محو ہو جائے گاجس طرح اسپين سے ہماراوجود فنا کرديا گيا،جس طرح فلسطين سے مسلمانوں کو نکالا جارہا اور آج يہ کوشش پوري دنيا ميں جاري ہے کہ ہمارے وجود کو فنا کرديا جائے….(28)
علامہ اقبال نے بھي اپنے درددل کو يوں بيان کيا ہے کہ :

منفعت ايک ہے اس قوم کي،نقصان بھي ايک ايک ہي سب کا نبي دين بھي ايمان بھي ايک
حرم پاک بھي اللہ بھي قرآن بھي ايک کچھ بڑي بات تھي ہوتے جو مسلمان بھي ايک
فرقہ بندي ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں کيا زمانے ميں پنپنے کي يہي باتيں ہيں
حوالہ جات

1ملکوت اخلاق صفحہ 317و پيامبر اسلام از نظر دانشمندان شرق و غرب صفحہ 156
2کليات ولٹر ج24ص534و555
3ملکوت اخلاق صفحہ 318و پيامبر اسلام از نظر دانشمندان شرق و غرب صفحہ 156
4 وسائل الشيعہ ج8ص541
5سنن ابي دواد،5121
6مغربي تمدن کي ايک جھلک صفحہ39
7 سورہ انبيائ92
8کنز العمال ج1ص206
9 الف سورہ بقرہ 11و12
10کنز العمال جلد1 صفحہ 163
11سورہ توبہ:68
12سفينة البحار جلد 4 صفحہ 380
13کنز العمال جلد15صفحہ 163،صفحہ 37 سنن ابي داؤد جلد2 صفحہ 79،صحيح مسلم جلد5 صفحہ 186
14سورہ انعام 151،نساء 93
15طبراني و بيہقي ،بہ سوي تفاہم صفحہ 257
16صحيح مسلم،کتاب الامارہ حديث 1852
17جاويد نامہ ص491
18آواي بيداري صفحہ 73تا 76ماخوذاز کاشف الغطاء صفحہ 77تا79
19سورہ آل عمران 103
20سورہ انعام 159
21شيعہ سني غوغہ ساختگي
22خطبہ5 نہج البلاغہ
23نامہ 47نہج البلاغہ
24نہج البلاغہ صفحہ 565
25سفينة البحار ج1ص13
26127خطبہ صفحہ 246
27 نہج البلاغہ خطبہ 194صفحہ 404
28سيد مصطفي حسين نقوي اسيف جائسي ،بنگال ميں شيعوں کے ملي و مذہبي خدمات
تحریر:سيد تقي عباس رضوي قمي(کلکتہ)
بشکریہ اہلبیت فاونڈیشن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...