خدا کی راہ میں خرچ کرنا

قرآن مجید میں جن Topics  پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ان میں سے ایک “انفاق” یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ قرآن نے الگ الگ انداز میں لوگوں سے انفاق کرنے کے لئے کہا ہے۔ کبھی خدا نے جو کچھ انسان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تو کہیں پر قرآن نے ان لوگوں کا بہانہ بیان کیا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں، کہیں پر قرآن نے صرف مال جمع کرتے رہنے اور خرچ نہ کرنے کے انجام سے ڈرایا ہے تو کہیں پر یہ بتایا ہے کہ کس چیز کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ کیسے خرچ کرنا ہے اور آخر میں خرچ کرنے کے بعد کون سے کام نہیں کرنا چاہئے جن سے ہمارا نیک کام نیک ہی رہے برا نہ بننے پائے۔ 

خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں سے “انفاق کرو”

انفقوا مما رزقکم اللہ

قرآن میں ہمیں اس طرح کے جملے بہت سی جگہوں پر مل جائیں گے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن کی نظر میں “رزق” کا مطلب صرف پیسہ، دولت اور کھانے پینے کا سامان نہیں ہے۔ بلکہ خدا نے اپنے بندے کو جو کچھ بھی دیا ہے وہ رزق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دولت ہو،education  ہو یا کوئی فن اور ہنر یا پھر کوئی اور اچھی کوالٹی اور صلاحیت۔ یہ سب خدا کے ہی رزق ہیں اس لئے خدا ہمیں حکم دے رہا ہے کہ ان میں سے جو کچھ بھی تمہیں دے گیا ہے تم اسے خدا کی خاطر دوسروں کو بھی دو۔ کیونکہ تم یہ سمجھتے ہو یہ دولت، شہرت، عزت اور علم تم ہی نے حاصل کیا ہے اور یہ صرف تمہارا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ میرا دیا ہوا ہے اس لئے اسے میری راہ میں خرچ کرو۔ 

انفاق نہ کرنے کا ایک بہانہ

وَ إِذا قيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قالَ الَّذينَ كَفَرُوا لِلَّذينَ آمَنُوا أَ نُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلاَّ في ضَلالٍ مُبينٍ (47) یس

(جب کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے دیا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو تو یہ کفّار ایمان والوں سے طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں جنہیں خدا چاہتا تو خود ہی کھلادیتا تم لوگ تو کِھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو)

ان کا ایک بہانہ یہ ہے کہ اگر خدا چاہتا تو خود انہیں دے دیتا اگر ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی ان کو کچھ نہیں دینا چاہتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ خدا نے یہ دنیا اسی طرح بنائی ہے کہ اگر کسی کے پاس کچھ نہیں ہے تو دوسرا اس کی مدد کرے خود تمہارے پاس بھی بہت کچھ نہیں ہے اور تم دوسروں سے مدد لیتے ہو اس لئے اگر تمہارے پاس خدا کا رزق ہے تو اسی نے تم کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ ان کو اس رزق میں سے دو۔  

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطيعُوا وَ أَنْفِقُوا خَيْراً لِأَنْفُسِكُمْ وَ مَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (16 تغابن}ُ

{جہاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرو اور اس کی بات سنو اور مانو اور خدا کی راہ میں خرچ کرو کہ اس میں تمہارے لئےبھلائی ہے اور جو اپنی کنجوسی سے بچ جائے وہی کامیابی اور نجات پانے والا ہے}

اس لئے یہ مت سمجھو کہ تم جسے خدا کا رزق دے رہو ہے اس کے ساتھ بھلائی کررہے ہو بلکہ اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے۔ 

یہاں پر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمزور اور غریب لوگوں یا کسی بھی ضرورتمند انسان کی مدد کرنا حکومت کا کام ہے ہر آدمی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے لیکن خدا کہہ رہا ہے کہ یہ تمہاری بھی ذمہ داری ہے  “خیرا لانفسکم” اس میں تمہارے ہی لئے بھلائی ہے۔ کیونکہ انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے جب تک انہیں خود سے نہیں خرچ کرے گا تب تک اس کے اندر بہت سی کوالٹیز پیدا نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کے دئے ہوئے رزق میں سے دوسروں کو دے تاکہ اس کی پرسنالٹی میں نکھار آئے۔ 

موت اور قیامت کو یاد کرو

قرآن ، خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کو موت کا وقت اور  قیامت کا دن یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے۔

وَ أَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْ لا أَخَّرْتَني إِلى أَجَلٍ قَريبٍ فَأَصَّدَّقَ وَ أَكُنْ مِنَ الصَّالِحينَ (10 منفاقون

اور جو رزق ہم نے دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے اور وہ یہ کہے کہ خدایا ہمیں تھوڑے دنوں کی مہلت کیوں نہیں دے دیتا ہے کہ ہم خیرات نکالیں اور نیک بندوں میں شامل ہوجائیں

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فيهِ وَ لا خُلَّةٌ وَ لا شَفاعَةٌ (254 بقرہ }

اے ایمان والو جو تمہیں رزق دیا گیا ہے اس میں سے  خدا کی راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی { کہ تم اپنے لئے کوئی فائدہ کی چیز خرید سکو} نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش۔

موت کے وقت اور قیامت کے دن ہر آدمی کے دل میں یہ تمنا ہوگی کہ کاش ہم واپس چلے جائیں اور نیک کام کرسکیِں لیکن نہ تو اس وقت واپسی ہوگی اور نہ ہی وہاں پر وہ اپنی دولت سے اپنی کامیابی اور نجات خرید سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوستی کے ذریعہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ڈگری خرید لے یا نوکری خرید لے یا پھر دوستی اور سورس سے ان کو پالے لیکن قیامت میں ایسا نہیں ہوسکے گا۔ 

کیا خرچ کریں؟

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ وَ مِمَّا أَخْرَجْنا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَ لا تَيَمَّمُوا الْخَبيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَ لَسْتُمْ بِآخِذيهِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فيهِ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَميدٌ (267  بقرہ}

{اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے پیدا کیا ہے سب میں سےِ خدا کی راہ میں خرچ کرو اور خبردار کسی ایسی خراب چیز کو دینے کا ارادہ بھی نہ کرنا کہ اگر وہ خود تم کو دیا جائے تو آنکھ بند کئے بغیر چھوؤ گے بھی نہیں یاد رکھو کہ خدا سب سے بے نیاز ہے اور سزاوار حمد و ثنا بھی ہے}

یہ آیت کہہ رہی ہے کہ اگر تمہیں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔ یہ نہ سمجھو کہ black money   نیک کام میں خرچ کرنے سے white  ہو جائے گی کیونکہ ہم ناجائز کمائی سے خرچ کیا ہوا مال قبول ہی نہیں کریں گے۔ 

أَنْفِقُوا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْماً فاسِقينَ (53) توبہ 

تم اپنی خوشی سے خرچ کرو یا مجبوری اور دباو میں {وہ سوسائٹی کا دباو ہو یا اپنی پوزیشن کا یا کسی اور چیز کا} تمہارا عمل قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ تم فاسق {بہت زیادہ اور کھلم کھلا گناہ کرنے والے} ہو۔ 

کہاں اور کیسے خرچ کریں؟

اس کا جواب ہے:

وَ أَنْفِقُوا في سَبيلِ اللَّهِ (195 بقرہ 

خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ 

خدا کی راہ کا مطلب صرف کسی بھوکے کا پیٹ بھر دینا یا ان کاموں میں خرچ کرنا جنہیں ہم  خدا کا اور مذہبی کام کہتے ہیں نہیں ہیں بلکہ ہر وہ راستہ خدا کا ہے جو انسانوں کی کسی بھی ضرورت  {وہ ان کے جسم کی ضرورت ہو یا ان کی روح کی دونوں } کو پورا کررہا ہو۔ یا یہ کہا جائے کہ ان کی دنیا اور آخرت دونوں کی ضرورت کو پورا کررہا ہو۔ 

کسی اسکالر نے اچھی بات کہی ہے کہ “مردہ قومیں صرف مردہ چیزوں پر خرچ کرتی ہیں اور زندہ قومیں زندہ چیزوں پر”۔ 

انفاق کے بعد کی ذمہ داری

یَأَیُّهَا الَّذِینَ ءَامَنُواْ لَا تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنّ‌ِ وَ الْأَذَی‌  (264- بقره)

اے ایمان والو! اپنے انفاق کو احسان جتا کر اور (جس کے ساتھ نیکی کی ہے اسے) تکلیف دے کر برباد نہ کرو۔ 

کچھ لوگ جذبات میں آکر یا کسی دوسری وجہ سے انفاق تو کردیتے ہیں لیکن بعد میں احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے تمہارے اوپر احسان کیا ہے یا اس سے کام لے کر اسے جسمانی یا ذہنی تکلیف دیتے ہیں۔ اس لئے قرآن کہہ رہا ہے کہ صرف انفاق کردینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انفاق کرنے کے بعد اسے بچانا بھی ضروری ہے۔ اس لئِے انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اس کی محنت پر پانی پھر جائے اور اس کے نیک کام برباد ہوجائے۔ اگر کوئی یہ شرطیں پوری نہیں کرتا ہے تو قرآن اس کے بارے میں کہہ رہا ہے:

يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى كَالَّذي يُنْفِقُ مالَهُ رِئاءَ النَّاسِ وَ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْداً لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْ ءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرينَ (264 بقرہ }

ایمان والو اپنی خیرات کو  احسان جتا کر اور تکلیف دے کر  اس آدمی کی طرح  برباد نہ کرو جو اپنے مال کو دنیا کو دکھانے کے لئے خرچ کرتاہے اور اس کا ایمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہو کہ تیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہوجائے یہ لوگ اپنی کمائی پر بھی اختیار نہیں رکھتے اور اللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا۔ 

انفاق کا نتیجہ

اگر کوئی انفاق کرنے میں ان ساری شرطوں کا خیال رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ 

وَ مَثَلُ الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ تَثْبيتاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصابَها وابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَها ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْها وابِلٌ فَطَلٌّ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير

جو لوگ اپنے مال کو خدا کی مرضی پانے اور اپنے نفس کو مضبوط بنانے کی غرض سے خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی بلندی پر ہو اور تیز بارش آکر اس کی فصل دوگنا بنا دے اور اگر تیز بارش نہ آئے تو معمولی بارش ہی اس کے لئے کافی ہوجائے اور اللہ تمہارے اعمال کی نیتوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ 

اس آیت میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اس کی مثال اس ہری بھری کھیتی پر ہے جو اونچائی پر ہو اور وہ بہت زیادہ پھلے پھولے۔ دوسری آیت میں خدا نے ہمیِں سمجھانے کے لئے ایک  مثال دی ہے کہ انفاق کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ 

مَثَلُ الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ في سَبيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ في كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضاعِفُ لِمَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ

جو لوگ  خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔ اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی )زیادہ کردیتا ہے کہ وہ بڑھانے والا بھی ہے اور سب کچھ جانتا بھی ہے۔ 

لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ ایسے انفاق ہوتے ہیں کہ خدا ان کے لئے کوئی مثال نہیں دیتا ہے بلکہ کہتا ہے:

آمِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفينَ فيهِ فَالَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ أَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبيرٌ (7)

تم لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب بنایا ہے  تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر و ثواب اور بدلہ ہے۔

اس آیت میں خدا نے صرف یہ کہا ہے کہ خدا اس کا بدلہ بہت بڑا دے گا “اجر کبیر” یہ کیسا ہوگا نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور ہے کہ خود خدا جسے بڑا اور عظیم کہہ رہا ہے ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں

 

تبصرے
Loading...