خدا پر ایمان لانے کا راستہ :-2

وواجباتِ زندگی عطا کرنے کے علاوہ ظاھری خوبصورتی جیسے مستحبات سے غفلت نھیں برتی اور اس کے پروں کو دل موہ لینے والے رنگوں سے رنگ دیا، جیسا کہ امام   (ع) نے فرمایا :((تنفلق عن مثل اٴلوان الطواویس))[14]

اور چونکہ چوزے کے تکامل کے لئے مرغی کے سینے کی مناسب حرارت کی ضرورت ھے، وہ مرغی جسے فقط رات کی تاریکی ھی سعی و کوشش اورحرکت سے روک سکتی ھے اچانک اس کی کیفیت یہ هوجاتی ھے کہ تلاش وجستجو کو چھوڑ کر جب تک حرارت کی ضرورت هو، اس انڈے پر بیٹھی رہتی ھے۔

 وہ کونسی حکمت ھے جس نے مرغی پر خمار جیسی کیفیت طاری کر دی ھے تاکہ وہ چوزے میں زندگی کی حرکت کو وجود میں لاسکے؟! اور وہ کونسا استاد ھے جس نے اسے دن رات انڈوں کے رخ تبدیل کرنا سکھایا ھے تاکہ چوزے کے اعضاء میں تعادل برقرار رھے،جو چوزے کی راھنمائی کرتا ھے کہ خلقت مکمل هونے کے بعد انڈے کے اس محکم حصار کو چونچ سے توڑدے اور اس میدانِ زندگی میں قدم رکھے جس کے لئے اسے یہ اعضاء وجوارح عطا کئے گئے ھیں۔اور وہ مرغی جو اپنی حیوانی جبلّت کے تحت، فقط اپنی زندگی سے نقصان دہ چیزوں کو دور اورفائدہ مند چیزوں کو انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا عمل انجام ھی نہ دیتی تھی، اچانک اس میں ایسا انقلاب برپا هوجاتا ھے کہ اس ناتوان اور کمزور چوزے کی حفاظت کی خاطر سینہ سپر هو جاتی ھے اور جب تک چوزے کے لئے محافظ کی ضرورت ھے، اس میں یہ محبت باقی رہتی ھے ؟!

کیا مرغی کے ایک انڈے کے متعلق غوروفکر، اس خالق کائنات کی رھنمائی کے لئے کافی نھیں ھے کہ ھَدیٰ>[15]

اسی لئے امام   (ع) نے فرمایا :((اٴترا لھا مدبر اً؟ قال: فاٴطرق ملیاً، ثم قال: اٴشھد اٴن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واٴشھد اٴن محمداً عبدہ ورسولہ، واٴنک إمام وحجة من اللّٰہ علی خلقہ واٴنا تائب ممّا کنت فیہ))[16]

ھاں، وھی علم و قدرت اور حکمت جو مٹی کے گھپ اندھیرے میں بیج اور انڈے کے چھلکے کی تاریکی میں چوزے کو کسی ھدف اور مقصد کے لئے پروان چڑھاتا ھے، ماں کے پیٹ اور اس کے رحم کی تاریکیوں میں انسانی نطفے کو، جو ابتداء میں خوردبین سے نظر آنے والے جاندار سے بڑھ کر نھیں هوتا اور اس میں انسانی اعضاء و جوارح کے آثار تک نھیں هوتے، رحمِ مادر سے باھرزندگی بسر کرنے کے لئے تمام ضروریات زندگی سے لیس کرتا ھے۔

مثال کے طور پر جنین میں، ہڈیوں کو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے مختلف شکل اور حجم میں بنایا، مختلف حرکات کے لئے عضلات کو قرار دیا،دماغ کی حیرت انگیز بناوٹ کے ذریعے مشعلِ ادراک کو روشن کیا اور دل کی فعالیت کے ذریعے جو ھرسال کروڑوں بار دھڑکتا ھے، حرارتِ حیات کو زندگی کے اس مرکز میں محفوظ فرمایا۔

انسانی جسم کی اس سادہ ترین ترکیب میں غوروفکر، عزیز و علیم خدا کی تقدیر پر ایمان لانے کے لئے کافی ھے۔ مثال کے طور پر انسان کے منہ میں تین قسم کے دانت بنائے، پھلے ثنایا اس کے بعد انیاب، پھر اس کے بعد چھوٹے طواحن اور آخر میں بڑے طواحن کو قرار دیا [17]۔اگر ثنایا، انیاب اور چھوٹے طواحن کو بڑے طواحن کی جگہ قرار دیا جاتا تو دانتوں کی ترتیب میں یہ بگاڑ، غذا توڑنے اور چبانے سے لے کر اس چھرے کی بد صورتی اور خوبصورتی میں کیا کردار ادا کرتا ؟!

اگر بھنویں جو آنکھوں کے اوپر ھیں، نیچے اور ناک کے سوراخ، نیچے کے بجائے اوپر کی سمت هوتے تو کیا هوتا؟!

زمین کی آبادی اور اس پر آبا د کاری، چاھے کاشتکاری هو یا مضبوط ترین عمارت یانازک و دقیق ترین صنعت ، سب کے سب، انگلی کی پوروں اور اس پر ناخنوں کے اگنے سے وابستہ ھیں۔

وہ کونسی حکمت ھے جس نے ناخن بنانے والا مادّہ، انسان کی غذا میں فراھم کیا، اسے حیرت انگیز طریقے سے ہضم کے مرحلے سے گزارا اورپھر رگوں میں داخل کر کے انگلیوں کی پوروں تک پھنچایا اور اس تخلیق کی غرض کو مکمل کرنے کے لئے گوشت اور ناخن میں پیوند کے ذریعے ان دونوں کے درمیان ایسا رابطہ بر قرار کیا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا نھایت طاقت فرسا کام ھے، لیکن غرض ومقصد حاصل هونے کے بعد ان کو اس طرح ایک دوسرے سے جدا کر دیا کہ ناخن آسانی کے ساتھ کاٹے جاسکیں؟!

تعجب آور تو یہ ھے کہ جس غذا سے ناخن کا مادّہ اس سختی کے ساتھ تیار هوا ھے، اسی غذا سے کمالِ لطافت کے ساتھ ایک صاف اورشفاف مادّہ، بینائی کے لئے بھی تیا رہوا ھے جو ہضم وجذب کے مراحل کو طے کرنے کے بعد آنکھ تک جا پھنچتا ھے۔

اگر ان دونوں کے طے شدہ تقسیمِ رزق میں کام الٹ جاتا اورناخن آنکھ سے نکل آتا، جب کہ وہ صاف شفاف مادّہ آنکھوں کی بجائے انگلیوں کی پوروں تک جا پھنچتا، تو انسانی نظامِ زندگی میں کتنا بڑا خلل واقع هوجاتا ؟!

یہ علم وحکمت کے آثار کا سادہ ترین نمونہ ھے جو کسی دقّت نظر کا محتاج نھیں [18]تو انسانی خلقت کے ان عمیق ترین اسرار کے بارے میں کیا کہئے گا کہ جن کی تہہ تک رسائی کے لئے انسان کو اپنے علم کو جدید ترین آلات کی مدد سے کام میں لاتے هوئے،سرجری اور اعضائے انسانی کی خصوصیات و کردار جیسے شعبوں میں اعلیٰ مھارت بھی حاصل کرنی پڑے۔ ہِمْ>[19]

جی ھاں، اتنی زیادہ علمی کاوشوں کے بعد اب تک جس موجود کی جلد کی حکمت ھی واضح نہ هوسکی هو، اس کے باطن اور مغز میں کیسے عظیم اسرار پنھاں ھیں، جیسے ملائمات کو جذب کرنے والی شہوت اور ان کی حفاظت ونا ملائمات کو دفع کرنے والے غضب سے لے کر، ان دو کے عملی تعادل کے لئے عقل اور نظری تعادل کے لئے حواس کی ھدایت سے سرفراز کیا گیا ھےِٕنْ تَعُدُّّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْہَا>[20]

حکمت کی ایسی کتاب کو علم وقدرت کے کون سے قلم سے پانی کے ایک قطرے پر لکھاگیاھے؟!ِٕنْسَانُ مِمَّ خُلِقَةخُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ>[21] ھَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ٍثَلاَثٍ>[22]

یہ کیسا علم اور کیسی قدرت وحکمت ھے کہ جس نے غلیظ وپست پانی میں تیرنے والے خوردبینی حیوان سے ایسا انسان خلق کیا ھے جس کی مشعلِ ادراک، اعماقِ آفاق وانفس کی جستجو کرے ِٕنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ[23]اور زمین وآسمان کو اپنی قدرت وجولان ِفکر کا میدان قرار دے؟ ہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ وَ اٴَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہ ظَاہِرَةً وَّبَاطِنَةً وَّمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلاَ ھُدًی وَّلاَ کِتَابٍ مُّنِیْرٍ>[24]

اس علم وقدرت اور رحمت وحکمت کے سامنے انسان، خود پروردگار عالم کے اس فرمان کے علاوہ کیا کہہ سکتا ھے کہ ہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[25] اور اس کے سوا کیا کر سکتا ھے کہ خاک پر گر کر اس کے آستانہٴِ جلال پر ماتھا رگڑ کر کھے:((سبحن ربی الاٴعلی وبحمدہ))

اس آیت کریمہ ھِمْ آیَاتِنَا فِی اْلآفَاقِ وَفِی اٴَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ>[26]کے مطابق، آفاقِ جھاں میں بھی دقّت ِ نظر ضروری ھے کہ لاکھوں سورج،چاند وستارے جن میں سے بعض کا نور ہزاروں نوری سالوںکے بعد زمین تک پھنچتا ھے، جب کہ نور ھر سیکنڈ میں تقریبا تین لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ھے، اور جن میں سے بعض کا حجم،زمین کے حجم سے کروڑوں گنا زیادہ ھے، ان سب کے درمیان اتنا گھرا انتظام اتنے دقیق حساب کے ساتھ بر قرار کیا گیا ھے، ان میں سے ھر ایک کو اس طرح اپنے معین مدار میںرکھا گیا  ھے اور قوتِ جاذبہ ودافعہ کے درمیان ایسا عمومی تعادل برقرار ھے کہ ان تمام سیاروں کے درمیان کسی قسم کے ٹکراؤ یاتصادم کا واقع هونا، ناممکن ھے ھَا اٴَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ>[27]

زمین کو،جو انسانی زندگی کا مرکز ھے، اس پر محیط ایک کروی فضاء کے ذریعے محفوظ کیا جس سے دن رات ہزاروں شھاب ٹکرا کر ختم هو جاتے ھیں۔

سورج اورزمین کے درمیان اتنا مناسب فاصلہ برقرار کیا کہ معادن، نباتات، حیوانات اور انسانی زندگی کی نشو نما کے اعتبار سے، روشنی وحرارت تما م شرائط کے مطابق موجود رھے۔

زمین کی اپنے مدار اور محور دونوں پر حرکت کو اس طرح منظّم کیا کہ زمین کے زیادہ تر حصے میں طلوع وغروب اور دن ورات ھر آن موجود رھیں، آفتاب طلوع هوتے ھی سورج کی روشنی وحرارت سے نظامِ زندگی کو روشنی اور گرمی ملے اور حصولِ رزق ومعاش کا بازار گرم هوجائے اور غروب آفتاب کے ساتھ ھی آرام وسکون کے لئے رات کا اندھیرا، جو بقاءِ زندگی اور تجدید نشاط کے لئے ضروری ھے، اپنے ڈیرے ڈال دے  تاکہ سورج کی مستقل حرارت یا اس کے مکمل انقطاع سے نظامِ حیات میں کوئی خلل واقع نہ هو ھُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یَّذَّکَّرَ>[28]ہ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہ>[29]ِٕنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاٴْتِیْکُمْ بِضِیَاءٍ اٴًفَلاََ تَسْمَعُوْنَ>[30]

نوروظلمت اور روز و شب دونوں، آپس کے انتھا درجے کے تضادّ و اختلاف کے باوجود، مل کر ایک ھی ھدف ومقصد پورا کرنے میں مصروفِ عمل ھیں اور دوسری جانب جو کچھ زمین میں ھے اسے دن اور جو کچھ آسمانوں میں ھے اسے رات کے وقت انسان کی نظروں کے سامنے رکھا گیا ھے تاکہ دن رات آسمانوں اور زمین کے ملک وملکوت انسان کی بصارت اور بصیرت کے سامنے موجود رھیں۔

انسان کے لئے کتابِ وجود کی دن رات ورق گردانی کی تاکہ وہ زمین وآسمان کے صفحے سے آیاتِ خدا کا مطالعہ کر سکے ہُ مِنَ شَیْءٍ>[31]ٓ إِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ وَ لِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوقِنِیْنَ>[32]

وہ انسان جو ذھنِ بشر میں قوانین واسرارِ کا ئنات کے انعکاس کو علم وحکمت کا معیار و ملاک سمجھتا هو،کس طرح ممکن ھے کہ وہ مغز،ذھن اوردانشوروں کے تفکر کو بنانے والے، کائنات پر حکم فرما قوانین کو نافذ کرنے والے اور اسرارِ نظام ھستی کو وجود عطا کرنے والی ھستی کو فاقدِ علم وحکمت سمجھے، حالانکہ تمام مفکرین کے اذھان میں منعکس هوجانے والے قوانین کا ئنات کی نسبت  ان قوانین کے مقابلے میں جو  اب تک مجھول ھیں، ایسی ھے جیسے قطرے کے مقابلے میں ایک سمندر ِٕلاَّ قَلِیْلاً>[33]

اس بات پر کیسے یقین کیا جا سکتا ھے کہ کتاب ھستی سے چند سطروں کی نقول تیار کرلینے والا تو علیم وحکیم هو لیکن خود کتابِ وجود کا مصنف، اس نقل تیار کرنے والے کا خالق اور نقل کے وسیلے کو فراھم کرنے والا ھی بے شعور و بے ادراک هو؟!یھی وجہ ھے کہ منکر کی فطرت بھی دانا وتوانا خالق کے وجود کی گواھی و شھادت دیتی ھے ھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاٴَنیّٰ یُوٴْفَکُوْنَ>[34] ھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَاْلاٴًرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُالْعَلِیْمُ>[35]

منکرین ِ خدا میں سے ایک شخص آٹھویں امام(ع) کے پاس آیا تو امام (ع) نے اس سے فرمایا:اگر تمھارا عقیدہ صحیح هو، جب کہ ایسا نھیں ھے، تب بھی ھمیں نماز،روزہ،زکات اور اقرار سے کوئی نقصان نھیں پھنچا۔ (کیونکہ دینی فرائض جو ایمان لانا،عمل صالح کرنا اور منکرات کو ترک کرنا ھے،روح کے اطمینا ن اور معاشرے کی اصلاح کا سبب ھیں اور اگر بالفرض عبث اور بے کار هوں تب بھی،مبدا ومعاد کے احتمالی وجود کے مقابلے میں ان اعمال کے مطابق عمل کی تکلیف اور نقصان نھایت کم ھے، کیونکہ دفع ِشر اور بے انتھا خیر کثیر کو جلب کرنا،جو محتمل هو، عقلاًضروری ھے)۔

اس شخص نے کھا : جس خدا کے تم لوگ قائل هو وہ کیسا ھے اور کھاں ھے؟

امام  (ع) نے فرمایا :اس نے اَین کو اَینیت اور کیف کو کیفیت عطا کی ھے۔ (وھی اَین و مکان اور کیف و کیفیت کا خلق کرنے والا ھے، جب کہ مخلوق کبھی بھی خالق کے اوصاف و احوال کا حصہ نھیں بن سکتی، کیوں کہ خالق میں مخلوق کے اوصاف موجود هونے کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ خالق مخلوق کا محتاج هوجائے، اسی لئے خداوند متعال کو نہ کسی کیفیت یا مکانیت سے محدود کیا جاسکتا ھے، نہ کسی حس کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ھے اور نہ ھی کسی چیز کے ساتھ پرکھا جا سکتاھے)۔

اس شخص نے کھا:بنا برایں اگراسے کسی حس کے ذریعے محسوس نھیں کیا جاسکتا، تو اس کا وجود نھیں ھے۔

امام   (ع) نے فرمایا : جب تیری حس اس کے ادراک سے عاجز هوئی تو تو ا س کا منکر هوا اور جب ھم نے حواس کو اس کے ادراک سے عاجز پایا تو ھمیں یقین هوا کہ وہ ھمارا پروردگا ر ھے۔(موجودات کو محسوسات تک منحصر سمجھنے والا اس بات سے غافل ھے کہ حس موجود ھے لیکن محسوس نھیں، بینائی اور شنوائی موجود ھے لیکن دیکھی اور سنی نھیں جاسکتی ھے، انسان ادراک کرتا ھے کہ غیر متناھی محدود نھیں ھے جب کہ ھر محسوس هونے والی چیز محدود ومتناھی ھے————-؛کتنے ھی ذھنی وخارجی موجودات ایسے ھیں جو حس ومحسوسات سے ماوراء ھیں، جب کہ وہ شخص موجود کو محسوس تک محدود خیال کرنے کی وجہ سے خالق ِحس ومحسوس کا منکر هو ا اور امام   (ع) نے اس شخص کی اسی حقیقت کی جانب ھدایت کی کہ حس ومحسوس،وھم وموہوم اور عقل ومعقول کا خالق حس، وھم اورعقل میں نھیں سما سکتا،کیونکہ حواس خمسہ جس چیزکا ادراک کرتے ھیں اس پر محیط هوتے ھیں جب کہ یہ حواس خد اکی مخلوق ھیں اور خالق اپنی مخلوق پر مکمل احاطہ رکھتاھے، لہٰذا خالقِ حس ووھم وعقل کا خودان کے دائرہ ادراک میں آجانا،جبکہ وہ ان پر محیط ھے اور محیط کا محاط میں تبدیل هونا ممکن ھی نھیں ھے اور اگر خداوندِ متعال محسوس یا موہوم یا معقول هو تو حواس سے درک هونے والی اشیاء کے ساتھ شبیہ وشریک قرار پائے گااور اشتراک کا لازمہ اختصاص ھے، جب کہ ترکیب مخلوق کی خصوصیت ھے، لہٰذا اگر خداوندِمتعال حس ووھم وعقل میں سما جائے تو مخلوق هوا نہ کہ خالق)۔

تبصرے
Loading...