خدا اور انسان کا تضاد

 

خالقِ کائنات نے اپنی تخلیقات میں تضاد کا کیا خوب استعمال کیا اور ہر مخلوق کا ایک متضاد بنا کر اپنے عادل ہونے کا ثبوت بھی پیش کر دیا۔ جب مذکر تخلیق کیا تو ساتھ ہی مؤنث کو اسکا متضاد بنا دیا۔ دن بنایا تو وہیں اسکے مقابلے میں رات کو لا کھڑا کیا۔ زندگی خلق کی تو موت کو اسکے پیچھے لگا دیا۔ آگ بنائی تو ساتھ ہی پانی بھی۔ اسی اصول کے تحت حق و باطل، زمین و آسمان، خشکی و تری، تریاق و زہر، پھول و خار، مرض و شفا، غنا و غربت، قوت و ضعف، خوف و امید، راحت و عسرت اور امتحان و کامیابی جیسی کھربوں ایک دوسرے کی متضاد مخلوقات خلق کیں۔ خدا کی ہر تخلیق کسی بھی قسم کی کجی یا کمی سے بالا ہوتی ہے اور اس میں حکمت اور اہلِ فکر کے لئے آیات پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن یہ بات بہت فکر انگیز ہے کہ خدا کی تمام تر مخلوقات میں افضل ترین اور اسکے ناز کا باعث مخلوق یہی حضرتِ انسان ہے جسکے فائدے اور استعمال کے لئے اس نے تمام متضادات کو خلق کیا۔ خدا نے تخلیق کی اپنی ذمہ داری پوری کی۔ ساتھ ہی تمام مخلوقات کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سونپ دیں اور اسکی ہر مخلوق اپنے لمحہء تخلیق سے تادمِ موت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں مصروفِ عمل ہے۔ محض انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خدا نے ذمہ داری تو سونپی لیکن ساتھ ہی راہنمائی بھی فرمائی اور اسکی بجاآوری میں اسے مختار بھی بنا دیا۔ چنانچہ انسانوں میں سے کچھ باطل پرست رہے اور کچھ حق پرست ہو گئے۔ باطل کو اپنا نشانِ راہ چننے والوں کا عمل جانے اور انکا خدا جانے۔ مگر حق پرست کو ہرحال میں حق پرست رہنا ہے کہ یہ راہ ہے ہی مستقل استوار رہنے کی۔ اپنے آپ کو حق پرست کہنے والا اگر عملِ باطل کرے تو یہ مظہر قول و فعل کا تضاد کہلاتا ہے اور متضاد قول و فعل انجام دینے والا منافق۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ خدا کے تضادات عینِ عدل ہوتے ہیں اور انسان کے تضادات عینِ شر۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے بظاہر حق پرست جو اصلاً رہِ باطل کے مسافر ہیں، نفاق کے پرچار میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ یہ دنیا ایک عذابِ مسلسل کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ اس وسیع نظرئے کے کینوس کو اگر وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان تک محدود کر کے دیکھا جائے تو یہاں کے مسلم جمہور کے تضادات سے پورا ملک اٹا ہوا دکھائی دے۔ آیئے مثال کے طور پر چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔

اسلام کی رو سے کسی کو کسی پر ماسوائے تقویٰ کے کوئی برتری حاصل نہیں، لیکن ہمارے یہاں برتری کا معیار ثروتمندی ہے۔

صفائی ایمان کے نصف رقبے کا احاطہ کرتی ہے جبکہ ہم سے زیادہ غلیظ (جسمانی، ماحولیاتی اور روحانی طور پر) کوئی دوسری قوم نہیں۔

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جبکہ ہم جہل کا طوق لٹکائے مست ہیں۔

رسولِ اسلام (ص) کے ارشادِ گرامی کے تحت ملاوٹ کرنے والے سے آپکا کوئی تعلق نہیں جبکہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کوئی شے خالص بھی ہوتی ہے۔

اسی اسلام کی تعلیمات کے مطابق بہترین انسان وہ ہوتا ہے، جسکا اخلاق بلند ہو جبکہ ہمارے ماتھے پر شکنیں اور زبان پر گالیاں رہتی ہیں۔

شریعت کے مطابق قانون کی خلاف ورزی مثلاً ٹریفک اشارہ یا قطار توڑنا گناہ اور فعلِ حرام ہے جبکہ اس شریعت کے دلدادہ ایسے تمام افعال بخوشی و ناز انجام دیتے ہیں۔

یہاں داڑھی رکھنے پر ثواب تو ملتا ہے لیکن غلط گاڑی پارک کرکے کسی کے لئے مشکلات پیدا کرنے پر کوئی عقاب نہیں۔

لاکھوں روپوں کی خریدی گئی گاڑی میں کروڑوں روپوں سے بنی سڑک پر سفر کرنا تو ہمارا حق ہے لیکن اسی سڑک کی تعمیر و مرمت کی مد میں سرکار کی جانب سے لگائے گئے ٹول کے پانچ روپے ادا کرنا ہمارا فرض نہیں۔

ہوٹل سے ہزاروں روپے کا کھانا کر نکلتے ہیں اور اشارے پر بھیک مانگتے ہوئے کسی فقیر کو ایک روپیہ نہیں دے سکتے۔

دفتری اوقات میں نماز کو طول دیکر عوام کو انتظار کروانے اور انکے جائز کاموں کو انجام دینے میں رشوت طلبی گناہ کا درجہ نہیں رکھتی۔

صبح سے شام تک پیٹ خالی رکھ کر دوسروں کے لئے آزار کا باعث بنتے ہیں اور اپنے آپ کو روزہ دار کہتے ہیں۔

زکوٰۃ کٹ جانے کے خوف سے 29 شعبان کو اپنے بینک اکاؤنٹ خالی کروا لیتے ہیں۔

ہم آگ کے بنے ہوئے شیطان کو تو اپنی رگوں میں دوڑاتے ہیں لیکن پتھر کے بنے شیطان کو کنکریاں مار کر اپنے آپکو حاجی کہلواتے ہیں۔

اف میرے خدا! اگر یہاں قلم کو لگام نہ دی تو ایسی مثالوں کی پوری کتاب رقم ہو جائے لیکن موضوع پھر بھی تشنہ رہے۔

دوستو! اگر غیر جانبدارانہ نگاہ کی جائے تو اس ملک کے جمہورِ اسلامی قول و فعل کے تضاد یعنی بدترین نفاق کی عملی مثال ہیں۔ اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنے نفاقِ مبین کے بارے میں جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی دانست میں دنیا بھر کے دیگر مذاہب و اقوام سے بالاتر اور خدا کی بارگاہ میں مقرب ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنکے لئے پلِ صراط ایک کشادہ شاہراہ کی مانند ہے اور انہی کے لئے جنت کی بشارت ہے جبکہ ظاہر اور حقیقت ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ خدا اور انسان کے ان نظریات میں تضاد ہے۔

 

تبصرے
Loading...