خداوند سبحان اور مسلّمہ مبادی و اصول

پروردگار عالم کے سلسلے میں کچھ مسلمہ نظریات ہیں کہ وہ کچھ چیزوں کو حتمی طور پر انجام دیتا ہے اور کچھ چیزوں سے اسکی ذات والا صفات مبرّہ و منزّہ ہے۔

خداوند سبحان اور مسلّمہ مبادی و اصول

خداوند سبحان کے سلسلے میں چند مبادی و اصول مندرجہ ذیل ہیں:
۱: بیشک دنیا عدم سے وجود میں آئی ہے اور اسے لباس وجود عطا کرنے والا خداوند بزرگ ہے۔۲: بیشک اسکا واجب الوجود ہونا ذاتی تھا اور ہے اور ابد تک رہیگا۔۳: بیشک وہ تمام موجودات پر برتری و قدرت رکھتا ہے۔۴:بیشک وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔۵:وہ ہر شئ سے بے نیاز ہے۔۶:مخلوقات سے اطاعت کا خواہاں ہے۔۷: معاصی و گناہ سے متنفر ہے۔۸:بیشک وہ واجبات کو ترک نہیں کرتا اور برائی انجام نہیں دیتا اور اسکا ارادہ ایسے کاموں سے تعلق نہیں رکھتا۔۹:بیشک خدا، بندوں کو انکی طاقت بھر تکلیف دیتا ہے۔۱۰:بیشک خداوند کے لئے واجب ہے کہ وہ بندوں  پر لطف و کرم فرمائے۔۱۱:بیشک خداوند نے اپنے لطفِ واجب کو مکلفین کی تکالیف کے حساب سے ان کے شامل حال رکھا ہے۔۱۲:بیشک خداوند بزرگ نےمعاذیر کو بندوں سے برطرف فرما دیا ہے’’یعنی ضعیف و قوی و شریف کو انکی توانائی کے مطابق تکلیف دیا ہے‘‘اور اسکے پیچھے مقصد صرف اور صرف بندوں پر احسان و افاضۂ نعمت ہے۔۱۳:بیشک خدا نے بوجہ احسن بندوں پر تکلیف عائد کی ہے تاکہ اسکے انجام دینے پر زیادہ سے زیادہ ثواب عنایت کرے۔۱۴:بیشک خدای بزرگ نے حضرت محمد صلوات اللہ علیہ و آلہ جیسے معصوم پیغمبر کا انتخاب کیا تاکہ صدق و صداقت کے ساتھ قیام فرمائیں اور حقیقت کو آشکار کریں۔۱۵:قرآن مجید کہ  جسمیں باطل کا گذر نہیں خداوند حکیم نے ان پر نازل فرمایا اور تمام شریعتوں کو انکی شریعت کے ذریعہ منسوخ اور تمام سنتوں کو انکی سنت کے ذریعہ نسخ کردیا اور انکی ہی سنت و دستور تا قیام قیامت باقی رہےگی۔۱۶:بیشک پیغمبر ہر خطا و لغزش و فراموشی سے معصوم ہیں۔۱۷:بیشک واجب الوجود کا لطف انکے عمل سے مخصوص و متعلق ہے ’’یعنی اعمال پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ مورد لطف و قبول خداوند بزرگ ہے‘‘۔۱۸:بیشک خداوند بزرگ نے ہرایک کے لئے قوّۂ قدسیہ کہ جس سے فطری طور پر غضب و شہوت وغیرہ کا ادراک ہوجاتا ہے، قرار نہیں دیا ہے۔ ’’یعنی تمام لوگوں کے پاس یہ قوت نہیں کہ وہ  ہر چیز کو درک کرلیں اور مساوی طور پر ہر چیز کو ہر شخص  سمجھ بھی لے تاکہ اس قوۂ قدسیہ کے وسیلہ سے برائیوں سے بچ نکلے۔[الفین ص ۲۰)
حوالہ: علامہ حلی، الفین، ص۲۰

تبصرے
Loading...