خداوندعالم کے لئے جھت کا ثابت کرنا

وھابی، ابن تیمیہ کی پیروی کرتے هوئے کیونکہ وہ قرآن اور احادیث کے ظاھر پر عمل کرتے ھیں اور تاویل و تفسیر کے قائل نھیں ھیں بعض آیات اور احادیث کے ظاھر سے تمسک کرتے هوئے خداوندعالم کے لئے جھت کو ثابت کرتے ھیں اور اس کو اعضاء وجوارح والا مانتے ھیں۔

اس سلسلہ میں آلوسی کاکہنا ھے : وھابی ان احادیث کی تصدیق کرتے ھیںجن میں خداوند عالم کے آسمانِ دنیا (آسمان اول) پر نازل هونے کا تذکرہ ھے، وہ کھتے ھیں کہ خداوندعالم عرش سے آسمان دنیا پر نازل هوتا ھے اور یہ کھتا ھے: ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟کیا کوئی استغفار کرنے والا ھے کہ میں اس کے استغفار کو قبول کروں۔

اسی طرح وہ یہ بھی اقرار کرتے ھیں کہ خداوندعالم روز قیامت عالم محشر میں آئے گا کیونکہ خود اس نے فرمایا ھے:

وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً”اور تمھارا پرور دگار اور فرشتے صف در صف آجائیں گے“۔

خدا اپنی مخلوق سے جس طرح بھی چاھے قریب هوسکتا ھے جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ

”اور ھم اس کی رگ گردن سے زیادہ قریب ھیں۔ “

آلوسی ایک دوسری جگہ کھتے ھیں کہ اگرچہ وھابی خداوندعالم کے لئے جھت کوثابت کرتے ھیں لیکن مُجسِمّہ نھیں ھیں( یعنی خدا کو جسم والانھیں مانتے) اور کھتے ھیں کہ روز قیامت مومنین بغیر کسی کیفیت اور احاطہ کے خداوندعالم کا دیدار کریں گے ۔ 

اسی طرح وھابی لوگ بعض آیات کے ظاھر کو دیکھتے هوئے خداوند عالم کے لئے اعضاء وجوارح ثابت کرتے ھیں مثلاً اس آیہ شریفہ

بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَاْنِ

(خدا کے دونوں ھاتھ تو کھلے ھیں )سے خداوندعالم کے لئے دو ھاتھ ثابت کرتے ھیں اور اسی طرح اس آیہ شریفہ ]کے ظاھر سے خدا کے لئے دو آنکھیں اور اس آیہ کریمہ

کے ذریعہ خدا کے لئے چھرہ اور صورت ثابت کرتے ھیں۔

اور خدا کے لئے انگلیوں کو ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس ایک روایت ھے جس کو محمد بن عبد الوھاب نے کتاب توحید کے آخر میں بیان کیا ھے:

”اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ السَّمَوٰاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ مِنْ اَصَابِعِہ وَالاَرْضَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلٰی اِصْبِعٍ… اِلٰی آخِرِہ“

خداوندعالم نے آسمانوں کو اپنی ایک انگلی پر اور زمین کو ایک انگلی پر اسی طرح درختوں کو ایک انگلی پر اٹھا رکھا ھے۔

خداوندعالم کی صفات کے بارے میں

صاحب فتح المجید کھتے ھیں: تمام اھل سنت والجماعت چاھے متقدمین هوں یا متاخرین، ان کا عقیدہ یہ ھے کہ خدا کے وہ صفات جن کو خود خدانے قرآن مجید میں بیان کیا ھے یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کو ان صفات سے متصف کیا ھے،وہ خداوندعالم کے لئے ثابت اور مسلّم ھیں لیکن خداوندعالم کو ان صفات میں کسی مخلوق کے مانند قرار نھیں دیا جاسکتا۔

کیونکہ خداوندعالم اپنے صفات میں مانند اورشبیہ رکھنے سے پاک ومنزہ ھے، جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:

لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَئْيٌ وَهو السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ

”اس کا جیسا کوئی نھیں وہ سب کی سننے والا اور ھر چیز کا دیکھنے والا ھے“۔

جس طرح خداوندعالم ایک حقیقی ذات ھے جس کی کوئی شبیہ نھیں ، اسی طرح خداوندعالم کے حقیقی صفات بھی ھیں جن سے مخلوق کی کوئی صفت شباھت نھیں رکھتی، اگر کوئی شخص ان چیزوں کا منکر هوجائے جن کو خداوندعالم نے خود سے متصف کیا ھے یا اس کے ظاھری معنی کی تاویل اور تفسیر کرے (مثلاً یہ کھے کہ اس آیت میںمیں ھاتھ سے مراد خدا کی قدرت ھے) ایسے شخص کا مذھب جھمی ھے، اور اس کا راستہ مومنین کے راستہ سے الگ ھے۔ 

۴۔ گذشتہ انبیاء کے بارے میں

شیخ محمد بن عبد الوھاب اپنی کتابوں اور رسالوں میں نبوت کی گفتگو کرتے هوئے جناب نوح کو پھلا نبی کھتا ھے:

”اَوَّلُهم (اَوَّلُ الاَنْبِیَاءْ) نُوْحٌ وَآخِرُهم مُحَمَّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم “

”انبیاء میں سب سے پھلے جناب نوح  ںاور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھیں“

اور اس سلسلہ میں قرآن مجید کی آیت کو دلیل کے طورپر بیان کیا ھے مثلاً یہ آیہ کریمہ:

اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلٰی نُوْحٍ وَالنَّبِیِّیّْنَ مِنْ َبعْدِہ

”ھم نے آپ پر وحی نازل کی جس طرح نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی“۔

۵۔شفاعت او راستغاثہ

شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے:  خداوندعالم نے جن عبادتوں کا حکم کیا ھے وہ یہ ھیں: اسلام، ایمان، احسان، دعا، خوف ورجا، توکل، رغبت، زہد،استقامت، استغاثہ، قربانی اور نذر ، یہ تمام چیزیں صرف خدا وندعالم کے لئے ھیں۔ شفاعت کے بارے میں حافظ وھبہ کھتے ھیں کہ وھابی روز قیامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت کے منکر نھیں ھیں اور جیسا کہ بھت سی روایات میں وارد هوا ھے ،وہ شفاعت کو دوسرے انبیاء،

فرشتوں، اولیاء اللہ اور(معصوم) بچوںکے لئے بھی مانتے ھیں، لیکن شفاعت کو اس طرح طلب کیا جائے کہ بندہ خدا سے درخواست کرے کہ پیغمبر کو اس کا شفیع قرار دے مثلا ًیوںکھے:

”اَللّٰهم شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰهم شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادَکَ الصَّاْلِحِیْنَ“

”خداوندا ! ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روز قیامت ھمارا شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں کو ھمارا شفیع قرار دے“۔

لیکن ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، یَا وَلِیّ اللّٰہِ اَسْاٴَلُکَ الشَّفَاعَةَ“ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَدْرِکْنِی، یَا اَغِثْنِی“زبان پر جاری کرنا خدا کے ساتھ شرک  ھے۔

ابن قیم کھتا ھے کہ شرک کے اقسام میں سے ایک قسم مُردوں سے استغاثہ کرنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ھے، مُردے کسی کام پر قادر نھیں ھیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ھیں نھیں، پھرکس طرح استغاثہ کرنے والوں کی فریاد کو پهونچ سکتے ھیں، یا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ھیں؟۔

شیخ صُنعُ اللہ حنفی کھتا ھے کہ آج کل مسلمانوں کے درمیان ایسے گروہ پیدا هوگئے ھیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ھیں کہ اولیاء اللہ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ بھی ھے کہ وہ اپنی زندگی یا موت کے بعد بھی بعض تصرفات کرسکتے ھیں مثلاً جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں کے وقت ان سے استغاثہ کرتے ھیں وہ ان کی مشکلات کو دور کردیتے ھیں، یہ لوگ قبور کی زیارتوں کے لئے جاتے ھیں، اور وھاں  طلب حاجت کرتے ھیں، اور ثواب کی غرض سے وھاں پر قربانی و نذر وغیرہ کرتے ھیں۔

شیخ صنع اللہ یھاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان کرتا ھے کہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلکہ ھمیشگی عذاب ھے اور ان سے شرک کی بو آتی ھے۔ 

ابن سعود ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں مکہ معظمہ میں کی جانے والی اپنی تقریر میںکھتا ھے کہ ”عظمت اور کبریائی خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں کی ردّ میں ھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارتے ھیں اور ان سے حاجت طلب کرتے ھیں۔

جبکہ آنحضرت   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کچھ بھی اختیار اور قدرت نھیں ھے اور توحید خداوندعالم سے مخصوص ھے، اور اسی کی عبادت هونا چاہئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم سے هونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت اسی طرح دیگر انبیاء  علیهم السلام  کی نبوت، صرف لوگوں کو توحید کا سبق پڑھانے کے لئے تھی۔

شیخ صنع اللہ کھتے ھیں کہ ظاھری اور معمولی کاموں میں استغاثہ جائز ھے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ کے سامنے کسی سے مدد طلب کی جاسکتی ھے، لیکن معنوی امور میں کسی سے استغاثہ کرنا مثلاً انسان پر یشانیوں کے عالم میں ، بیماری کے، یا غرق هونے کے خوف سے یا روزی طلب کرنے میں کسی دوسرے سے استغاثہ نھیں کرسکتا بلکہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ کرنا چاہئے اور کسی غیرخدا سے استغاثہ جائز نھیں ھے۔ 

زینی دحلان محمد بن عبد الوھاب کا قول نقل کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دوسرے انبیاء  علیهم السلام  سے استغاثہ کرے یا ان میں سے کسی ایک کو پکارے، یا ان سے شفاعت طلب کرے تو ایسا شخص مشرکوں کی طرح ھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی قبروںکی زیارت بھی خدا کے ساتھ شرک ھے، اور زیارت کرنے والے مشرکوں کی طرح ھیں جو بتوں کے بارے میں کھتے تھے:

مَانَعْبُدُهم اِلاّٰ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی 

”ھم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ھیں کہ یہ ھمیں اللہ سے قریب کردیں گے“۔

محمد بن عبد الوھاب اس بارے میں مزید کھتے ھیں کہ جو لوگ اھل قبور سے شفاعت طلب کرتے ھیں ان کا شرک زمان جاھلیت کے بت پرستوں کے شرک سے بھی زیادہ ھے.

تبصرے
Loading...