حفاظت (عصم)، قرآن کریم کی روشنی میں

خلاصہ: انسان کی حفاظت صرف اللہ تعالیٰ کرسکتا ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کے ذریعے انسان کی حفاظت کرے تو وہ بھی درحقیقت، اللہ تعالِیٰ تحفظ دے رہا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کو تحفظ کا وسیلہ نہ بنائے اور اس چیز کو اذن نہ دے تو انسان ہرگز اس چیز کے ذریعے حفاظت حاصل نہیں کرسکتا۔

حفاظت (عصم)، قرآن کریم کی روشنی میں

      تحفظ، حفاظت اور بچانے سے متعلق ایک لفظ جو قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے، “یعصم” ہے جو “عصم” سے ماخوذ ہے۔ “عصم” یعنی محفوظ کرنا، بچانا اور روکنا، جیسے سورہ احزاب، آیت 17 میں ارشاد الٰہی ہے: قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءاً”، ” آپ کہئے! کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے”۔
سورہ مائدہ کی آیت 67 جو واقعہ غدیر خم کے موقع پر نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے ارشاد فرمایا: “وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ”، “اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا”۔
لہذا واضح ہوا کہ انسان کی حفاظت کرنے والا، صرف اللہ ہے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا، اللہ اور اللہ کے رسولؑ کی نافرمانی کرتے ہوئے پانی سے بچنے کے لئے پہاڑ کی پناہ لینے کے ذریعے اپنا تحفظ فراہم کرنا چاہتا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس کے اس باطل تصور کی تردید کردی جسے قرآن کریم نے سورہ ہود، آیت 43 میں بیان فرمایا ہے: “قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ”، “اس نے کہا میں ابھی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچائے گا نوح(ع) نے کہا (بیٹا) آج اللہ کے امر (عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ سوائے اس کے جس پر وہ (اللہ) رحم فرمائے۔ اور پھر (اچانک) ان کے درمیان موج حائل ہوگئی پس وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا”۔
۔۔۔۔۔۔
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی]

تبصرے
Loading...