حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زبانی توحید کا تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) جن کا لقب “جوادالائمہ” ہے، اگرچہ بچپنے میں مقام امامت پر فائز ہوئے، مگر بچپنے کی ابتدا ہی سے آپؑ کی عظمت اور علم کے مختلف پہلو جلوہ افروز تھے اور علم الٰہی کے چراغ آپؑ کے وجود میں جگمگاتے تھے۔
آپؑ بچپن ہی سے تمام شیعوں کے علمی مرجع تھے، مختلف ادیان و مذاہب کے علماء آپؑ سے علمی مناظرے اور بحثیں کرتے تھے اور آپؑ اس زمانے کے لوگوں کے اعتقادی اور علمی سوالات کے جواب دیتے تھے۔

حضرت امام جواد (علیہ السلام) کا زمانہ ایسا زمانہ تھا جب دینی معارف کے نظریات کے لحاظ سے، معتزلہ کا نظریہ غالب تھا اور مامون عموماً علمی مسائل میں اس نظریہ کی پیروی کیا کرتا تھا۔

امام جواد (علیہ السلام) کچھ عرصہ مامون کی حکومت کی زیرنگرانی تھے اور کچھ عرصہ معتصم کی نگرانی میں تھے، لہذا آنحضرتؑ کے زمانے میں دو اہم مناظرے ہوئے جس سے آنحضرتؑ کا علمی مقام لوگوں اور حکومت کے لئے رونما ہوا۔
ایک مناظرہ مامون کے زمانہ میں اور دوسرا معتصم کے دور میں۔

حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے توحیدی روایات میں سے چند روایتیں کتاب توحید صدوق کے مختلف ابواب میں ذکر ہوئی ہیں اور کتاب اصول کافی کی کتاب توحید میں بھی تفصیلی روایت بیان ہوئی ہے۔ یہ روایت اسماء الٰہی اور اس کے مشتقات کے معانی کے باب میں ساتویں روایت کے طور پر بیان ہوئی ہے۔

آپؑ کی علمی بحثوں میں سے ایک خوبصورت سوال و جواب خداشناسی اور اسماء و صفات الٰہی کے بارے میں ہے جس میں سائل آپؑ سے مکمل اور بہترین جواب کو دریافت کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ کو ہم اس مضمون میں بیان کررہے ہیں۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح مسلسل جد و جہد کرتے رہے کہ اپنے علم و معرفت کے بہتے ہوئے خالص سمندر کے ذریعے لوگوں کی افکار کو اعتقادی مسائل کے بارے میں اصلاح کریں۔
حدیثی کتب میں آپؑ کے مختصر اور معنی خیز زریں کلمات ملتے ہیں، جن میں سے بعض میں، توحید اور اللہ تعالٰی کی پہچان کے سلسلے میں آپؑ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی۔

احد کے معنی

ابوہاشم جعفری کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام جواد (علیہ السلام) سے دریافت کیا:
آیت ” قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ” میں “احد” کے کیا معنی ہیں؟
حضرت نے فرمایا” :المجمع علیه بالوحدانیّة اما سمعته یقول: «وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ»[1] ثمّ یقولون بعد ذلک له شریکٌ و صاحبةٌ”جس کی وحدانیت پر سب کا اتفاق ہے، کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ فرماتا ہے: “اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و مہتاب کو کس نے مسخّر کیا ہے تو فورا کہیں گے کہ اللہ”، پھر اس اعتراف کے بعد کہتے ہیں کہ اس کا کوئی شریک اور دوست ہے”۔

صمد کے معنی

مرحوم علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں نقل کرتے ہیں کہ مرحوم کلینی نے اصول کافی میں سند کے ساتھ داود ابن قاسم جعفری سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام ابی جعفر دوم جواد الائمہ (علیہ السلام) سے عرض کیا:
لفظ ’صمد’ کے کیا معنی ہیں؟
 آپ نے فرمایا: اس کے معنی سید مصمود الیہ ہیں، یعنی وہ بزرگ کہ کائنات کی تمام مخلوقات اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اس کی طرف رجوع کرتی ہیں اور اس کی محتاج ہیں۔[2]

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ اللہ کے صمد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز ذات، آثار اور صفات میں اس کی محتاج ہے اور وہ مقاصد کی انتہا ہے۔ لفظ صمد کے اصل معنی، قصد کرنا یا اعتماد کے ساتھ قصد کرنا ہے۔ جب کہا جاتا ہے: “صمده، یصمده، صمدا”، باب “نصر، ینصر” سے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں شخص نے فلاں شخص یا فلاں چیز کا قصد کیا اس پر اعتماد کرتے ہوئے۔

علامہ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے اور جو چیز موجود ہے، اسے اللہ نے وجود دیا ہے، لہذا ہر چیز جس کو “چیز” کا نام دیا جاسکے، وہ اپنی ذات، صفات اور آثار میں اللہ کی محتاج ہے اور اپنی حاجت کو پورا کرنے میں اس کا قصد کرتی ہے۔[3]

لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ” میں “ابصار” کے معنی

تو میں نے عرض کیا:
“لاتدرکه الابصار”[4] اللہ تعالی کے اس کلام “نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں” کے کیا معنی ہیں؟
آنحضرتؑ نے فرمایا:
” یا ابا هاشم اوهام القلوب ادقّ من ابصار العیون، انت قد تدرک بوهمک السّند و الهند و البلدان الّتی لم تدخلها، ولم تدرک ببصرک ذلک، فاوهام القلوب لاتدرکه فکیف تدرکه الابصار”۔
“اے ابوہاشم! دلوں کے وہم (تصورات اور خیالات) آنکھوں کے دیکھنے سے زیادہ گہرے ہیں، تم بعض اوقات اپنے خیال کے ذریعہ سِند و ہند اور جن شہروں کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا اور ان میں داخل نہیں ہوئے، ان کو پاسکتے ہو، (اور ذہن میں اس کی شبیہ بناسکتے ہو، لیکن) دلوں کے اوہام سے اللہ کو نہیں پایا جاسکتا، تو کیسے نگاہیں اسے پاسکتی ہیں؟

اللہ تعالی کا نہ دیکھا جانا اور خیال و تصور کے ذریعہ ادراک نہ ہوپانا، مذہب تشیع کے یقینی عقائد میں سے ہے جو اہل بیت (علیہم السلام) منجملہ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کے واضح بیانات اور گہرے معارف کی بنیاد پر قائم ہے، لیکن اہل سنت نے کیونکہ برحق ائمہ (علیہم السلام) سے دوری اختیار کرلی اور ان حضراتؑ کے عظیم معارف سے اپنے آپ کو محروم کردیا تو گمراہ عقائد کے جال میں پھنس گئے اور بعض اللہ کی جسمانیت اور دیکھے جانے کے قائل ہوگئے اور ان کی اکثریت قرآن کریم کی آیات کی غلط تفسیر کرتے ہوئے اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر آئے گا۔

علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) نقل کرتے ہیں کہ ابوہاشم جعفری نے کہا کہ اشعث ابن حاتم نے مجھے خبر دی کہ اس نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے توحید کے کسی مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:
کیا قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپؑ نے فرمایا: پڑھو: “لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ”[5]، “نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے”، تو میں نے پڑھا تو آپؑ نے فرمایا:
“وما الابصار؟ قلت: أبصارالعين قال: لا إنما عنى الاوهام، لا تدرك الاوهام كيفيته وهو يدرك كل فهم”. آنکھوں سے کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا: آنکھ کی بصیرت مراد ہے۔
فرمایا: نہیں! صرف سوچ کی آنکھ (مراد ہے)، سوچ اس کی کیفیت کو نہیں پاسکتیں جبکہ وہ ہر سوچ کا ادراک رکھتا ہے”۔
پھر مرحوم علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) تحریر فرماتے ہیں کہ محمد ابن عیسی نے ابوہاشم سے اور انہوں نے ابوجعفر (امام محمد تقی علیہ السلام) سے اسی طرح نقل کیا ہے، “إلا أنه قال: الابصار ههنا أوهام العباد، والاوهام أكثر من الابصار، وهو يدرك الاوهام ولا تدركه الاوهام”، “سوائے اس کے کہ حضرتؑ نے فرمایا: یہاں ابصار، بندوں کی سوچیں ہیں، اور سوچیں، نگاہوں سے زیادہ ہیں، اور اللہ سوچوں کا ادراک کرتا ہے اور سوچیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔[6]

نتیجہ:
اہل بیت (علیہم السلام) نے جن میں سے ایک بزرگ ہستی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ہیں لوگوں کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کیا۔ ان تعلیمات میں سے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی تعلیم، درس توحید اور معرفت پروردگار تھی۔
آپؑ سوالات کا جو جواب دیتے، جوابوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسے جوابات کوئی آدمی نہیں دے سکتا، سوائے معصوم ہستی کے۔
آپؑ نے توحید کے سلسلے میں لوگوں کو اللہ تعالٰی کی معرفت کرواتے ہوئے دین اسلام کے اصول کو محفوظ رکھا اور زمانے کے خودساختہ اور من گھڑت باطل عقیدوں سے مقابلہ کیا۔
لہذا آج ہماری توحید شناسی کے مضبوط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت نے جن میں سے ایک حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ہیں، مختلف ادوار میں باطل عقائد کی یلغار کے پیچ و خم میں بھی کلمہ حق اور توحید پروردگار کو ممکن حد تک بیان فرماتے ہوئے، رہتی دنیا تک، حقیقت پسند افراد کو رب العالمین کی طرف ہدایت کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
[1] سورہ عنکبوت، آیت 61۔
[2]ترجمه الميزان، ج‏20، ص: 676۔
[3] المیزان فی تفسیر القرآن، ج‏20، ص 388۔
[4] سورہ انعام، آیت 103۔
[5] سورہ انعام، آیت 103۔
[6] بحار الانوار: 3/308، ح 46۔

تبصرے
Loading...