تاریخ آل سعود

تاریخ آل سعود

اس بات میں كوئی شك ھی نھیں كہ نجد وحجاز میں وھابیت كے پھیلنے كی اصل وجہ خاندان ”آل سعود“ ھے، یھاں تك كہ آل سعود نے وھابیت كو اپنے ملك كا رسمی (سركاری) مذھب قرار دیدیا، اور اسی كی مدد سے محمد بن عبد الوھاب نے اپنے مذھب كی تبلیغ و ترویج شروع كی اور نجد كے دوسرے قبیلوں كو اپنا مطیع بنایا، یہ آل سعود ھی تھے جس نے محمد بن عبد الوھاب كے مرنے كے بعد اس كے عقائد اور نظریات كو پھیلانے میں اپنی پوری طاقت صرف كردی، اور كسی بھی مشكل كے مقابلہ میں ان كے حوصلے پست نہ هوئے۔

اسی وجہ سے وھابیوں كی تاریخ میں آل سعود كی تاریخ اھم كردار ركھتی ھے، خاندان آل سعود، حافظ وھبہ كی تحریر كے مطابق قبیلہٴ”عَنَزَہْ“ سے تعلق ركھتا تھاجن كی نجد علاقہ میں چھوٹی سی حكومت تھی، جن كی جزیرہ نما عربستان میں كوئی حیثیت نھیں تھی، لیكن جب محمد بن عبد الوھاب، محمد بن سعود كے پاس گیا اور دونوں نے آپس میں ایك دوسرے كی مدد اور نصرت كرنے كا وعدہ كیا تو محمد بن سعود كے ساتھ سعودی عرب كے دوسرے امیروں اور قبیلوں كے سرداروںمیں جنگ اور لڑائیاں هونے لگیں، عوام كی اكثریت سعودی امیر كی اطاعت كرتی تھی، لیكن آہستہ آہستہ آل سعود كی حكومت بڑھتی چلی گئی اور نجد او ردوسرے علاقوں میں اس كا مكمل طور پر قبضہ هوگیا اور وھابیت كے پھیلنے میں بڑی موثر ثابت هوئی۔

اسی زمانہ سے آج تك یعنی تقریباً 240 سال سے نجد كی حكومت اور تقریباً 245سال سے نجد اور حجاز كی حكومت اس خاندان كے ھاتھوں میں ھے، صرف تھوڑی مدت كے لئے آل رشید نے نجد پر حكومت كی تھی اور عبد الرحمن بن سعود كو نجد سے باھر نكال دیا تھا (جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں بیان هوگی) ورنہ ان كی حكومت كو كوئی طاقت ختم نہ كرسكی یھاں تك كہ عثمانیوں اور محمد علی پاشا كی حكومت نے بھی ان كی حكومت او ران كے نفوذ كو كلی طور پر ختم نھیں كیا۔

آل سعود كی حكومت كا آغاز

خاندان آل سعود كا تعلق عشیرہٴ مقرن كے قبیلہ (”عَنَزَہ “یا”عُنَیْزَہ“) سے تھا جو نجد اور اس كے اطراف مثلاً قطیف اور احساء میں رھتے تھے۔

سب سے پھلے ان میں سے جو شخص ایك چھوٹی سے حكومت كا مالك بنا اس كا نام ”مانع“ تھا كیونكہ وہ ”یمامہ“ كے امیر كا رشتہ دار تھا جس نے اس كو ”درعیہ“ كے دو علاقوں پر حاكم بنا دیا،مانع كی موت كے بعد اس كی ریاست اس كے بیٹوں كو مل گئی، چنانچہ مانع كے بعد اس كے بیٹے”ربیعہ“ نے حكومت كی باگ ڈورسنبھالی، اس نے آہستہ آہستہ اپنی حكومت كو وسیع كیا اس كے بھی موسیٰ نام كا ایك بیٹا تھا جو بھت هوشیار اور بھادر تھا، چنانچہ موسیٰ نے اپنے باپ كے ھاتھوں سے حكومت چھین لی اور قریب تھا كہ اس كو قتل كردیتا، یھاں تك كہ اس كی طاقت روز بروزبڑھتی گئی وہ اسی علاقہ كے اطراف میں موجود آل یزید كی حكومت كو گراكر اس پر بھی قابض هوگیا۔

اس طرح آل مقرن یا قبیلہ عنیزہ نے اپنے لئے ایك مختصر سی حكومت بنالی اور نجد او راس كے قرب وجوار میں شھرت حاصل كرلی، لیكن جیسا كہ عرض كیا جاچكا ھے كہ اس حكومت كی كوئی خاص حیثیت نھیں تھی یھاں تك كہ محمد بن سعود كی حكومت بنی اور محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود میں معاہدہ هوا۔

”دائرة المعارف اسلامی“ نے درعیہ میں وھابیوں (یا آل سعود) كی حكومت كو تین حصوں میں تقسیم كیا ھے:

1۔ وھابیت كے آغاز سے مصریوں كے حملہ تك (1820ء) اس وقت درعیہ شھر دار السلطنت تھا۔

2۔ تركی اور فیصل آل سعود نے دوبارہ حكومت حاصل كی اس زمانہ ابن رشید حائل كا حاكم تھا(یعنی1820ء سے1902ء تك) اس وقت حكومت كا مركز ریاض تھا۔

3۔ 1902ء جب ابن سعود نے آل رشید سے حكومت كو چھین كر اپنے قبضہ میں لے لےا، چنانچہ اس وقت سے سعودی حكومت نے بھت تیزی كے ساتھ پیشرفت اور ترقی كی ھے ،سعوی حكومت كو مذكورہ تین حصوں پر تقسیم كرنامناسب ھے كیونكہ ان تینوں حصوں میںھر حصے كی كیفیت ایك دوسرے سے جدا ھے۔

محمد ابن سعود كون تھا؟

محمد بن عبد الوھاب كے حالات زندگی میں مختصر طور پر بیان كیا گیا كہ محمد بن سعود نے وھابیت كو پھیلانے میں بھت كوشش كی، اور اس بات كی طرف بھی اشارہ كیاگیاكہ محمد بن عبد الوھاب نے اس كو دوسرے علاقوں پر غلبہ پانے كے سنھرے خواب دكھائے ۔

محمد بن سعود نے اپنے مقصد تك پهونچنے كے لئے حسن انتخاب اور اس راستہ میں مستحكم پائیداری كا ثبوت دیا جس كی وجہ سے وہ كبھی مشكلات كے سامنے مایوس نھیں هوا، اور نہ ھی اس كو مشكلات كا احساس هوا، اور یہ بات سب كو معلوم ھے كہ جو لوگ ایك طولانی عرصے سے اپنے عقائد پر عمل كرتے آئے ھیں او ردوسروں كے عقائد كو باطل سمجھتے رھے ھیں ان كے سامنے نئے عقائد كو پیش كرنا اوران كو قبول كرانا كوئی آسان كام نھیں تھا، اسی وجہ سے شیخ محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعودكو شروع شروع میں بھت سی مشكلات كا سامنا كرنا پڑا۔

حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ1187ھ محمد بن سعود كے لئے بھت سختی كا سال تھا كیونكہ ”عر عر بن خالدی“ احساء كے حاكم، اور” سید حسن بن ھبة اللہ“ نجران كے حاكم نے آپس میں معاہدہ كیا كہ درعیہ شھر پر حملہ كریں اور ان كے نئے مذھب كو نیست ونابود كردیں، اور اس مذھب كے مروّج افراد كو بھی درھم وبرھم كردیں، ادھر سے عرعر اور دوسرے مخالفوں كی فوج ابھی تك نھیں پهونچی تھی كہ محمد بن سعود نے دیكھا كہ اس كا بیٹا ”حائر“ (خرج اور ریاض كا درمیانی علاقہ) علاقہ میں شكست كھاچكا ھے، یہ سب كچھ دیكھ كر محمد بن سعود كوبڑی فكر لاحق هوئی، لیكن شیخ محمد بن عبد الوھاب نے اس كی حوصلہ افزائی كی۔

اور اسی دوران شیخ محمد بن عبد الوھاب اور محمد بن سعود اور امیر نجران میں صلح هوگئی لہٰذا محمد بن سعود كے لئے در پیش خطرہ ٹل گیا۔

”دائرة المعارف اسلامی “ نامی كتاب اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھے كہ1159ھ میں محمد بن سعود نے محمد بن عبد الوھاب سے مل كر قرب جوار كے علاقوں پر حملہ كردیا اور ان كے تمام مال ودولت كو غارت كرایا، ان سب چیزوں كو دیكھ ان كے دوسرے قرب جوار كے امراء مثلاً بنی خالد (حاكم احساء) یا آل مكرّمی (حاكم نجران) نے ان سے چھیڑ خوانی شروع كی لیكن وہ پھر بھی وھابیت كی پیشرفت كو نہ روك سكے، اور اشراف مكہ بھی وھابیوں كو دین سے خارج سمجھتے تھے، لہٰذا ان كو اماكن متبركہ كی زیارت كرنے كی اجازت نھیں دیتے تھے۔

زینی دحلان صاحب كھتے ھیں كہ وھابیوںنے كچھ لوگوں كو شریف مسعود كے پاس بھیجا تاكہ ان كو حج كی اجازت مل جائے اور ان كامقصد یہ تھا كہ یہ لوگ اپنے عقائد كو حرمین شریفین كے افراد كے سامنے پیش كریں، البتہ انھوں نے اس سے پھلے بھی تیس علماء پر مشتمل ایك وفد ان كے پاس بھیجا تھا تاكہ مكہ ومدینہ كے لوگوں كے عقائد كو فاسد اور باطل ثابت كیا جاسكے۔

ھاں تك كہ وھابیوں كو حج كی اجازت كے بدلے معین مقدار میں سالانہ ٹیكس دینا بھی منظور تھا، مكہ اور مدینہ كے لوگوں نے وھابیت كے بارے میں سنا تھا، لیكن ان كی حقیقت كے بارے میں معلومات نھیں ركھتے تھے اور جب نجدی علماء (وھابی گروپ) مكہ پهونچے تو شریف مسعود نے حرمین كے علماء كو ان لوگوں سے مناظرہ كرنے كا حكم دیدیا، مناظرے كے بعد شریف مكہ نے اپنے قاضی شریح كو حكم دیا كہ ان لوگوں كے كفر پر ایك تحریر لكھ دے، چنانچہ ان سبھوںكے گلے میں طوق اور پیروں میں زنجیریں ڈال كر زندان بھیج دیا گیا۔

1162ھ میں اشراف مكہ نے وھابیوں كے بارے میں تفصیلی رپورٹ عثمانی بادشاہ كے سامنے پیش كی، اور یہ سب سے پھلا موقع تھا كہ عثمانی بادشاہ وھابیت سے آگاہ هوا، آخر كار محمد بن سعود1179ھ میں تیس سال حكومت كرنے كے بعد اس دنیا سے چل بسا۔

عبد العزیز بن محمد بن سعود

عبد العزیز (تاریخ پیدائش1179ھ متوفی1218ھ) محمد بن سعود كا بڑا بیٹا تھا اس نے باپ كے مرنے كے بعد حكومت كی باگ ڈور سنبھالی، اور اپنی حكومت كی توسیع اور وھابیت كی تبلیغ میں بھت كوشش كی، اس نے اپنی حكومت كے تیس سالوں میں ھمیشہ اپنے قرب وجوار كے قبائل سے جنگ وجدال كی،1208ھ میں احساء كے علاقہ كو فتح كیا، یا حافظ وھبہ كے قول كے مطابق :سپاہ اسلام نے احساء كے حاكم بنی خالد كو نیست و نابود كیا،اور احساء اور قطیف كے فتح كرنے كے بعد وھابیوں نے خلیج فارس كے سواحل كا رخ كیا۔

عبد العزیز اور شریف مكہ

ھم نے پھلے یہ بیان كیا كہ محمد بن عبد الوھاب نے كچھ افراد كو اپنے عقائد كو پیش كرنے اور حج كی اجازت كے لئے شریف مسعود كے پاس بھیجا، لیكن شریف مسعود نے ان كی گرفتاری كا حكم صادر كردیا اور ان كے كفر كا حكم دیدیا، اور انھیں حج كی اجازت بھی نہ دی۔

وھابی لوگ شریف مسعود كی موت تك (1165ھ) اعمال حج سے محروم رھے، اور جب شریف مسعود كی موت كے بعد اس كے بھائی مساعد بن سعید نے مكہ كی حكومت حاصل كی تو ایك بار پھر وھابیوں نے حج كی اجازت كے لئے كچھ افراد كو ان كے پاس بھیجالیكن اس نے بھی حج كی اجازت نھیں دی۔

1184ھ میں مساعد شریف مكہ كا بھی انتقال هوگیا اور اس كا بھائی احمد اس كی جگہ پر بیٹھا تو ایك بار پھر نجدی علماء نے كچھ افراد پر مشتمل وفد كو احمد كے پاس بھیجا تاكہ حج كی اجازت حاصل كریں، اس نے بھی مكی علماء كو وھابی علماء كے عقائد كا پتہ لگانے كا حكم دیا، چنانچہ انھوں نے وھابی علماء كو ”زندیق“(بے دین) قرار دیدیا،اور شریف نے ان كو اعمال حج كی اجازت نھیں د ی۔

1186ھ میں شریف سُرور بن شریف مساعد نے مكہ كی حكومت اپنے چچا كے ھاتھوں سے چھین لی اور و ھابیوں كوجزیہ دینے كی شرط پرحج كی اجازت دیدی، لیكن ان لوگوں نے جزیہ دینے سے انكار كردیا، اور یہ حق ان كو1202ھ تك حاصل رھالیكن اسی سال شریف غالب، شریف سرور كا جانشین بنا، اور اس نے مذكورہ حق كو ان سے سلب كرلیا، اور عبد العزیز سے آمادہ جنگ هوگیا۔

عبد العزیز كی بھی ھمیشہ یھی كوشش تھی كہ كسی طرح سے مكہ كو فتح كرلے، اور كسی بھانہ كی تلاش میں تھا، چنانچہ جب اس نے شریف غالب كو آمادہٴ جنگ دیكھا تو اس نے بھی اپنے لشكر كو مكہ كی طرف روانہ كردیا، اور جب شریف غالب اور عبد العزیز كے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریباً نو سال تكجاری رھی، اور اس مدت میں تقریباً پندرہ بڑے حملے هوئے جس میں كسی ایك كو بھی فتح حاصل نہ هوئی۔

اس سلسلہ میں ”تاریخ المملكة العربیة السعودیہ“ كے موٴلف كھتے ھیں :1205ھ میں شریف غالب نے نجدیوں سے لڑنے كے لئے اپنے بھائی عبد العزیز كی سرداری میں دس ہزار كا لشكربھیجا جس كے پاس بیس توپیں بھی تھی، لیكن پھر بھی مذكورہ لشكر فتح یاب نہ هوسكا۔

مذكورہ كتاب كے موٴلف نے نجدی وھابیوں كی طرفداری میں بھت مبالغہ كیا ھے، چنانچہكھا جاتا ھے كہ شریف غالب كے عظیم لشكر جس كے ساتھ حجاز، شَمّر اور مُطیّروغیرہ كے بھت لوگ ”قصر بسّام“ كو فتح كر نے كی غرض سے ان كے لشكر میں شامل هوگئے تھے، جبكہ ان كے فقط تیس لوگ دفاع كرتے تھے اور اسی طرح وہ شعراء نامی علاقہ كو ایك مھینہ محاصرہ كے بعد بھی اس پر قبضہ نہ كرسكے جبكہ اس علاقہ میں چالیس افراد سے زیادہ نھیں تھے۔

آخر كار1212ھ میں ”غزوة الخرمہ“ نامی حملہ میں عبد العزیز، شریف غالب كے لشكر پر غالب هوگیا، لیكن جیسا كہ حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ اس وقت كی سیاست اس بات كا تقاضا كرتی تھی كہ دونوں فریقوں میں صلح برقرار هوجائے، اور نجدیوں كے لئے صرف حج كا راستہ كھول دیا جائے،1214ھ میں امیر نجد حج كے لئے روانہ هوا یہ سب سے پھلا موقع تھا كہ كسی نجدی امیر نے اعمال حج انجام دئے، اس سے پھلے یعنی1213ھ میں صرف نجدی عوام حج كے لئے جا چكے تھے۔

بھر حال صلح نامہ پر كچھ ھی مدت تك عمل هوا، اور پھر یہ صلح ختم هوگئی، كیونكہ ان میں سے ایك دوسرے پر تھمت لگاتا تھا كہ اس نے صلح كی شرطوں اورصلح نامہ پر صحیح سے عمل نھیں كیا ھے، نجدیوں كی یہ عام سیاست تھی كہ پورے جزیرة العرب میں ھماری بتائی هوئی توحیدنافذ هو، اور ان كے تمام مخالفین ختم هوجائیں۔

چنانچہ چند سال كچھ آرام سے گذرے، اور1215ھ میں عبد العزیز اور اس كا بیٹا نجد كے بھت سے لوگوں (زن ومرد اور بچوں) كے ساتھ حج كے ارادے سے نكلا اور ابھی سات منزل ھی طے كی تھیں كہ تھكن كا احساس هونے لگا، اور اسی وجہ سے نجد میں واپس آگئے، لیكن سعود نے جاكر اعمال حج انجام دئے مكہ پهونچ كر شریف مكہ سے ملاقات كی۔

اس سفر كا نتیجہ یہ هوا كہ ”عسیر“، ”تھامہ“ اور ”بنی حرب“ كے قبیلے سعود سے مل گئے اور جب شریف غالب نے یہ خبر سنی تو بھت ناراض هوا، اسی اثنا میں سعود اور شریف غالب كے كارندوں میں كسی بات پر كچھ اختلاف هوگیا تو ایك بار پھر دونوں میں جنگ كی تیاریاں شروع هوگئیں، اوریہ جنگ بھی كئی سال تك هوتی رھی، اور دونوں فریقوں كے درمیان تیرہ جنگی واقعات پیش آئے ،وھابیوں كی طاقت ھر لحاظ سے شریف غالب كی طاقت سے زیادہ تھی، اسی وجہ سے وھابیوں نے شریف غالب پر دائرہ تنگ كردیا، چنانچہ نجدیوں طائف شھر (مكہ كے نزدیك) پر قبضہ كرلیا۔

جمیل صدقی زھاوی، فتح مكہ كے بارے میں كھتے ھیں كہ وھابیوں كے سب سے برے كاموں میں سے (مسلمانوں) كا قتل عام ھے جس میں چھوٹے بڑوں كے علاوہ وہ شیر خوار بچے بھی ھیں جن كو ان كی ماوٴں كے سینہ سے چھین كر ان كے سروتن میں جدائی كردی، اور ایسے بچوں كو بھی تہہ تیغ كردیا جو قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، اور جب گھروں میں كوئی باقی نھیں بچتا تھا تووھاں سے مسجدوںاور دكانوںكا رخ كیا كرتے تھے اور وھاں پر موجود تمام لوگوں كو قتل كردیتے تھے یھاں تك كہ جو لوگ ركوع اور سجدے كی حالت میں هوتے تھے ان كو بھی قتل كردیا كرتے تھے 503 یھی نھیں بلكہ ان كے گھروں میں جو كتابیں قرآن مجید، صحیح بخاری وصحیح مسلم اور حدیث وفقہ كی دوسری كتابیں هوتی تھیں ان سب كو باھر پھینك كر پامال كردیتے تھے، یہ واقعہ1217ھ میں رونما هوا، اس كے بعد ان لوگوں نے مكہ كا رخ كیا لیكن چونكہ حج كا زمانہ تھا اور اس موقع پر وھاں حملہ كرتے تو تمام حجاج مل كران سے جنگ كے لئے تیار هوجاتے اسی وجہ سے انھوں نے حج كا زمانہ گذر جانے تك صبر كیا، اور جب حجاج اپنے اپنے وطن لوٹ گئے تو انھوں نے مكہ پر حملہ شروع كردیا۔

تبصرے
Loading...