بندوں کی خدا سے محبت

بندوں کی خدا سے محبت

 

الف۔ صرف خدا حقیقی محبوب ہے: در حقیقت صرف خدا ہے جو حقیقی محبت اور واقعی عشق کرنے کا سزاوار ہے دیگر اشیاء اور اشخاص اپنے اس رابطہ کے اعتبار سے جو اس سے رکھتے ہیںمحبوب واقع ہوتے ہیں۔

 محبت کی پیدائش کے اسباب: علماء اخلاق کا نظریہ ہے کہ محبت اور اس کے شدید مراتب یعنی عشق درج ذیل اسباب ووجوہ کی بنا پر وجود میںآتے ہیں:

 ١۔ جو چیزیں انسان کی بقاء اور کمال کا سبب ہوتی ہیں: اسی بنیاد پر، انسان اپنے وجود کو عزیز اور دوست رکھتا ہے اور اس کی بقا ء اور دوام کا خواہاں ہوتا ہے اور جو چیز بھی اسے اس بات میںمعاون و مدد گا رثابت ہوتی ہے وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے، اور وہ موت کے اسباب سے کراہت رکھتا ہے۔( ۱)

٢۔ لذت: لذت مادی ہو یا معنوی محبت کا سبب ہوتی ہے یعنی انسان جو کچھ لذت کا سبب ہوتا ہے اس کے لذت آور ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے نہ کہ خود اس لذت مادی کی وجہ سے ؛ جیسے انسان کی لذت کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق نیز وہ تمام چیزیں جو اس کے تمام غرائز وخواہشات پورا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اس طرح کی محبت آسانی کے ساتھ ہاتھ آجاتی ہے لیکن تیزی سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔

اس طرح کی محبتیں پست مادی اور سریع الزوال ہونے کی وجہ سے محبت کا سب سے ادنی درجہ شمار ہوتی ہیں (۲) اور معنوی لذت ؛ جیسے انسان کا ایک فدا کار مجاہد سے محبت کرنا، اس لذت کی بنا ء پر جو اس کی دلاوری اور اس کے مظاہرہ جنگ سے محسوس کرتا ہے اور ایک فنکار اور ورزش کرنے والے انسان سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو ہنر نمائی کے میدان میں محسوس کرتا ہے اور امانت و پاکدامنی سے محبت اس لذّت کی وجہ سے جو انسان امانت داری اور پاکیزگی سے محسوس کرتا ہے نیز خداوندعالم کی یاد اوراس سے راز و نیاز اس بناپر کہ وہ اس بات سے سرشار لذت محسوس کرتا ہے، اس طرح کی لذتو ں کی ان لوگوں کے لئے محبت آفرینی جو اس کے ایک گھونٹ سے سیراب ہوئے ہیں ایک واضح اور استدلال و برہان سے بے نیاز امر ہے، اس طرح کی لذتیں دراز عمر ہوتی ہیں، اگر چہ اس اعتبار سے خود مختلف درجات اور مراتب کی حامل ہیں، لیکن باقی اور دائم محبت کے خواہاں افراد اس کے پانے کی تمنا میں مادی لذتوں اور فانی محبتوں کا یکسر سودا کرتے ہیں۔

٣۔احسان: انسان احسان اور نیکی کا اسیراور بندہ ہے اور فطری طور سے جو بھی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے وہ اسے دوست رکھتا ہے اور جو انسان اس کے ساتھ برائی کرتا ہے وہ اس سے رنجیدہ خاطراور بیزارہوتا ہے اس بناء پر نیکی، منفعت اور احسان انسان سے محبت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ (۳)

٤۔ ظاہری و باطنی حسن و جمال: خوبصورتی اور حسن و جمال کا ادراک محبت کا باعث ہو تا ہے ؛ یعنی انسان خواہ مادی خوبصورتی ہو یا معنوی اسے دوست رکھتا ہے اور اس کی یہ محبت خوبصورتی اور حسن کی ذات سے تعلق رکھتی ہے، نہ یہ کہ اس کے علائم اور لوازم سے اوروہ فطری اور باطنی سرچشمہ رکھتی ہے۔

٥۔باطنی اور روحی  توافق ومناسب: کبھی انسان دوسروں سے محبت کرتا ہے، لیکن نہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور نہ ہی اس کے مال ومرتبہ سے امید اور لالچ رکھنے کے سبب بلکہ صرف اورصرف اس باطنی اور روحی تناسب اور توافق کے لحاظ سے جو اس کی روح و جان کے ساتھ رکھتا ہے۔

٦۔ الفت واجتماع: افراد کا اجتماع اور آپس میں معاشرت رکھنا اور ایک ساتھ زندگی گذارنا آپسی میل جول، اتحاد و الفت اور انس و محبت کا باعث بنتا ہے۔ انس و محبت کا سرچشمہ انسان کی طبیعت اور سرشت میں ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لفظ”انسان” اُنس سے ماخوذ ہے نہ کلمۂ” نسیان ”سے ۔(۴)

 ٧۔ ظاہری اوصاف میں شباہت: ایک یا چند ظاہری خصوصیات میں اشتراک محبت کے پیدا ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ بچوں کا ایک دوسروں سے لگاؤ اور بوڑھوں کا آپس میں تعلق نیز ہم پیشہ اور ہم صنعت افراد کا ایک دوسرے سے محبت رکھنا اسی وجہ سے ہے۔

٨۔ علیت کا رابطہ: چونکہ معلول کا سرچشمہ علت ہے اور ا س سے تناسب اورسنخیت اور جنسیت رکھتا ہے، لہٰذا علت محبوب واقع ہوتی ہے کیونکہ علت کے بعض اجزاء اور اس کے بعض ٹکڑوں کے مانند ہے، معلول بھی علت کو اس لئے دوست رکھتا ہے کہ درحقیقت علت اس کی اصل و اساس ہے، اس بنا پر ان میں سبھی ایک دوسرے سے محبت کرنے میں درواقع اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں (۵)

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ محبت ایجاد کرنے کے تمام اسباب وعلل مذکورہ موارد میں خلاصہ ہوسکتے ہیں یا نہیں، اور مذکورہ اسباب میں سے ہرایک کے استقلال یا تداخل سے چشم پوشی کرتے ہوئے حقیقی طور پرمحبت آفرین تمام اسباب و علل صرف خدا وند سبحان میں پائے جاتے ہیں اور اس کے علاو ہ میں ان کا تصور کرنا ایک وہم اور خیال سے زیادہ نہیںہے، اس حقیقت کے بیان میںکہاجاسکتاہے: ہرانسان کاوجود خداوند سبحان کے وجود کی فرع وشاخ ہے اور خداوندعالم کے وجود سے جداکوئی ہستی اور وجود نہیں رکھتا، اور اس کے وجود کاکمال اس کے ذریعہ اور اس کی طرف سے ہے نیز لذت و احسان کا سرچشمہ خداوندعالم ہی کی ذات ہے، احسان کاخالق وہ ہے اور ہر احسان اس کے قدرت اور فعل کی خوبیوں میں سے ایک خوبی و حسن کا بیان کرنے و الا ہے۔ بے شک کمال وجمال بالذات کامالک صرف ا ور صرف وہ ہے اوریہ صرف اسی میں پایا جاتاہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بصیرت کے لئے معنوی جمال زیادہ دوست رکھنے کے لائق اور خوبصورت ترین شئی ہے۔ اسی طرح انسان کی روح وجان اپنے پروردگار سے ایک مخفی اور باطنی راز و رمز کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے، اور شاید آیۂ ”قل الروح من امر ربی” (۶)

(”کہو، روح ہمارے ربّ کے امر سے ہے ”) اسی باطنی رابطہ کی طرف اشارہ ہو۔ خدا اور انسان کے درمیان رابطۂ علیت کا وجود آشکار اور توضیح سے بے نیاز ہے۔ لیکن دو دیگر اسباب یعنی ” مادی اجتماع ” اور ”ظاہری اوصاف

میں اشتراک ” پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں اسباب محبت آفرینی میں معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے

یہ کہ ان کا خدا وند سبحان کی طرف نسبت دینا نقص کا باعث ہے، اور درحقیقت محال ہے لہٰذا حقیقی طور پر اور عالی ترین درجات میں محبت کے تمام اسباب خدا وند عالم میںپائے جاتے ہیں اور چونکہ اس کے اوصاف میں کوئی شریک نہیں ہے لہٰذا کسی قسم کا شریک اس کی محبت میںبھی وجود نہیں رکھتا۔ (۷)

ب۔ خدا وند عالم سے محبت کی نشانیاں: بلند و بالا، مقدس و پاکیزہ فضائل ہمیشہ جھوٹے دعویداروں سے روبرو رہے ہیں، یہ غیر واقعی خیالات اور دعوے کبھی کبھی اس طرح پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ حقیقت امر خود اشخاص پر بھی پوشیدہ ہوگئی، بہت سے طفل صفت ایسے ہیں جنہوں نے ابھی محبت خداوندی کا الفباء بھی نہیں سیکھا ہے، لیکن خود کو اللہ کے دوستوںمیں شمار کرتے اور اس سے عشق و محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

خدا وند عالم کے دوستوں کی ظاہری اور ملموس نشانیوں کا بیان خود شناسی اور دیگر شناسی کے لئے ایک مناسب راستہ اور خدا کی محبت ودوستی کے جھوٹے اور سچے دعوؤں کا ایک معیار ہے۔ ان علامتوں میںاہم ترین علامتیں اخلاق اسلامی کی اوّلین کتابوں کی روایت کے اعتبار سے درج ذیل ہیں:

١۔ موت کو دوست رکھنا: سچا چاہنے والا اور حقیقی دوست اپنے محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے۔ اگر چہ موت خداوندعالم سے ملاقات کرنے اور اس کے جمال کے دیدار کی تنہا راہ نہیں ہے، لیکن عام طور پر اس ہدف کا تحقق اس راہ مرگ سے گذرے بغیر ممکن و میسر نہیں ہے۔ اگر کوئی انسان کسی مقصد سے عشق کرے، تو جو کچھ اس راہ میں راہنما واقع ہوگا وہ اس کا محبوب بنتا چلاجائے گا، قرآ ن کریم اس سلسلہ میںفرماتا ہے: ” کہو: اے وہ لوگوں جو یہودی ہوگئے ہو اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگ خدا کے دوست ہو اور دوسرے لوگ دوست نہیں ہیںتو اگر اپنے قول میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو ” ۔(۸) البتہ جیسا کہ خدا وند سبحان کی محبت کے درجات ومراتب ہیں، موت کا چاہنا یا نہ چاہنا بھی افراد کی نظر میں درجات و مراتب رکھتا ہے۔

موت کو ناپسند کرنا خدا وند عالم کی محبت سے اس وقت سازگار نہیں ہے جب اس محبت کا سرچشمہ دنیاوی مظاہر جیسے اموال، اولاد، خاندا ن اور مقام و منصب ہو، لیکن جب دنیا میں باقی رہنے کا تعلق و لگاؤ پروردگار عالم سے ملاقات کے لئے آمادگی کا حصول اور نیک اعمال انجام دینا ہو تو خدا وندعالم کی دوستی سے منافات نہیں رکھتا۔ (۹)

٢۔ خداوندعالم کی خواہش کو مقدم کرنا: خداوندعالم کاحقیقی دوست اس کے ارادہ کواپنے ارادہ پر مقد م رکھتا ہے حتی کہ اگر محبوب فراق اور جدائی کاارادہ کرے تووہ اسے وصال پر ترجیح دے۔ اللہ کی محبت اس کے دستور اور قوانین کی پیروی کی طالب ہے اور محبوب کی رضایت  کاحاصل کرنااس کے لوازمات میںسے ہے ۔

”کہو: اگر خداکو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تاکہ خداتمہیں دوست رکھے اور تمہارے گنا ہوںکو بخش دے خدا وند بخشنے والا مہربان ہے”۔  (١۰)

٣۔ یاد خدا وندی سے غافل نہ ہونا: محبوب کا ذکر، اس کی یاد اور جو کچھ اس سے مربوط و متعلق ہے اس کا تذکرہ ہمیشہ محب کے لئے لذت بخش اور دوست رکھنے کے قابل ہے، خدا کے دوست ہمیشہ اس کی اور اس کے دوستوں کی بات کرتے ہیں اور اس کی یاد کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور اس کے کلام کی تلاوت سے لذت حاصل کرتے ہیں اور خلوت میں اس سے مناجات اور راز و نیاز کر کے انس حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے موسٰی ـ سے فرمایا: ”اے عمران کے فرزند ! جھوٹ بولتا ہے وہ انسان جو خیال کرتا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے لیکن جب رات ہوتی ہے تو میری عبادت سے چشم پوشی کرتا ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر عاشق و دلدادہ اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ وہ اپنے دلدار و عاشق سے خلوت کرے ؟ (۱۱)

٤۔خوشی و غم خدا کے لئے: خدا کے چاہنے والے محزون ومغموم نہیں ہوتے مگر اس چیز کے لئے جو انھیںمحبوب سے دور کردے اور خوشحال و مسرور نہیں ہوتے جز اس چیز سے جو انھیںان کی مراد اور مقصد سے نزدیک کردے۔ وہ لوگ اطاعت سے شاد و مسرور اور معصیت سے محزون وغمزدہ ہوتے ہیں اور دنیا کا ہونا اور نہ ہونا ان کے لئے خوشی اور غم کا باعث نہیں ہوتا۔” جوکچھ تمہارے ہاتھ سے ضائع ہو گیاہے اس پررنجیدہ خاطر نہ ہو اور جو تمہیں دیا گیا ہے اس کی (وجہ) سے شاد و مسرور نہ ہو”(۱۲)

٥۔خداکے دوستوںسے دوستی اور اس کے دشمنوںسے دشمنی: ”محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء  بینھم” ”محمد” خدا کے پیغمبر ہیں اور وہ لوگ کہ جو ا ن کے ساتھ ہیں کافروں کے ساتھ سخت اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں (٤)

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف: خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ”خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ”۔ (١۳)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا: محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم: خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس: جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے” انس” کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔ (۱۴)

حضرت امیر المومنین علی  ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: ” انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں”۔ (۱۵)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق: جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو ” مقام شوق ” کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ (۱۷)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا: ” رضا ” ” سخط” یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور’ ‘رضا” سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی  ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا  ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ”حزب اﷲ” کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ”خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے”۔ (۱۸)

حضرت امام زین العابدین  ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ”زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے”۔ (١۹)

اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ”آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں”۔(٢۰)

د۔محبت پروردگارکاانجام: محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

 اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

 حضرت علی  ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: ” کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟” آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: ” تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں ” اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ”تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں”۔ (۲۱)

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

 قرآن و روایات ا ہل بیت [ع] ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوںسے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(۲۲)

 جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ”اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیںپائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں”۔ (۲۳)

ماخذ

۱۔ فیض کاشانی، محسن ؛المحجة البیضائ، ج٨، ص٩تا ١١۔ نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٤، ١٣٥۔

۲۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

۳۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٣٦۔

۴۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص٩٤ ملاحظہ ہو۔

۵۔ نراقی، محمد مہدی:  جامع السعادات،، ج٣، ص١٣٩۔

۶۔ سورئہ اسرائ، آیت ٨٥۔

۷۔ فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٨ ص ١٦، ؛نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ص ١٤٢، اور ١٤٦ ملاحظہ ہو۔

۸۔ سورئہ جمعہ، آیت ٦۔

۹۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ١٧٤ ،١٧٥۔

١۰۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣١۔

 ۱۱۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٣٣٨، ح ٥٧٧۔ دیلمی، حسن ابی الحسن: اعلام الدین، ص٢٦٣۔ ارشاد القلوب، ص٩٣۔

۱۲۔ سورئہ حدید، آیت ٢٣۔

۱۳۔سورئہ فتح، آیت ٢٩۔

 ١۴۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔

۱۵۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

١۶۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔

۱۷۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

۱۸۔ مجادلہ  ٢٢ ؛ بینہ  ٨، ملاحظہ ہو۔

 ۹١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۰۔یونس  ٦٢۔

۲۱۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین  ـ  کی دعا ئے عرفہ۔١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف،  ٤ ؛ بقرہ  ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ  ٤٢، اور توبہ  ١٠٨۔  منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ‘ ‘ لقاء اللہ”ملاحظہ ہو ۔

۲۲۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔

تبصرے
Loading...